Tuesday, June 2, 2020

راکشس کون اور کہاں رہتے ہیں

دوستو میں اس وڈیو میں آپ کو راکشسوں کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کر رہا ہوں جو آپ کے علم میں پہلے کبھی نہیں آئی ہوں گی۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ میں اس کے حوالہ جات مختلف کتابوں سے دوں گا۔ راکشسوں کے بارے میں جاننے کے لئے میری یہ وڈیو پوری دیکھئے۔
 جہانگیر اپنی کتاب تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں کہ ان کا قافلہ ایک دفعہ حسن ابدال سے پانچ میل کے فاصلے پر موجود سلطان پور میں رکا ہوا تھا کہ انہوں نے قریبی پہاڑ گند گڑھ سے عجیب و غریب اور خوفناک آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں  بادلوں کے گرجنے جیسی تھیں جبکہ مطلع بالکل صاف تھا۔ اس وقت سے اس پہاڑ کا نام گرج پہاڑ پڑ گیا۔
 دوستو! جب میں میں نے تاریخ کی کتابوں  میں تلاش  شروع کی تو مجھے  انگریز مصنف  آرسی ٹمپل کی کتا ب حکایات پنجاب  اور سبطِ حسن کی کتاب تہذیب کا ارتقا میں ایک واقعہ ملا جو  دوسری صدی عیسوی  کے ایک راجہ رسالو کا ہے جس کی حکومت موجودہ سیالکوٹ سے لے کر راولپنڈی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے زمانے میں ٹیکسلا ایک عظیم شہر تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ  ٹیکسلا کے بازار سے گزر رہا تھاکہ اُس نے ایک بڑھیا کو دیکھا جو کبھی ہنستی تھی کبھی روتی تھی۔ راجہ نے بڑھیا سے پوچھا 
’’ اے بڑھیا یہ کیا ماجرا ہے تو کبھی ہنستی ہے کبھی روتی ہے۔‘‘
اس بڑھیا نے بتایا،
’’ پہاڑوں پر راکشسوں کا ایک ٹولہ رہتا ہے ۔ وہ انسانوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ شہر کے حاکم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ اگر وہ  انسانی آبادیوں پر حملے نہ کریں تو وہ انہیں روز ایک بھینس اور ایک انسان دے گا۔ آج میرے بیٹے کا بیاہ ہے اور آج میرے بیٹے کی باری ہے ۔ اسے رات کو راکشسوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ بیٹے کی شادی کا سوچ کر میں ہنستی ہوں اور بیٹے کی موت کا سوچ کر میں روتی ہوں۔‘‘
راجا رسالو نے اس بڑھیا کو تسلی دی اور رات کو ایک بھینس لے کر خود پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔راجہ نے  ان راکشسوں کا مقابلہ کیا اور انہیں مار دیا لیکن ایک عورت راکشس بھاگ کر ایک غار میں چھپ گئی۔ راجہ نے اس غار کو پتھر سے بند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پتھر پر بعد میں راجہ ایک تیر کمان اور اپنی تصویر کندہ کروائی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کی بجائے وہاں اور بھی کئی راکشس ہوں ۔
 انہی راکشسوں کی آوازیں تھیں جو جہانگیر اور اس کے فوجیوں نے سنیں۔ اور یہی آوازیں کئی سو سال بعد  یہاں پر موجود انگریزوں کی ایک رجمنٹ نے بھی سنیں۔
تاریخ سولہن  راجپوت کے مطابق اسی طرح کی ایک شہادت انگریزی فوج کے ایک میس حوالدار  غلام رضا آف گجرات نے دی  کہ انہوں نے  سنکھ پہاڑ جو انڈیا پاکستان کے بارڈر پر موجود ہیں جن کی بلندی  بارہ ہزار فٹ تک ہے اور جہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے۔ غلام رضا کے مطابق انہوں نے دوربین سے یہ راکشس دیکھے۔ جنہیں وہ بڑ بڈھےکا نام دیتے ہیں۔
محمد حمید بن چوہدری فقیر محمد ساکن حویلی کہوٹہ پونچھ کشمیر کے مطابق انہوں نے  جولائی ۲۰۱۱ میں راکشسوں کایک  جوڑا دن کے گیارہ بجے  پانچ سو گز کے فاصلے پر درخت پر موجود دیکھا۔
کوئٹہ میں ہم سراب روڈ پر رہتے تھے۔ وہاں بچوں کو رات کو باہر نہیں جانے دیتے تھے کہ مردہ پہاڑ سے اتر کر راکشس  انسانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انکے تلوے  چاٹ چاٹ کر اس کا سارا خون پی جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں یہ راکشس ایک میجر کو اٹھا کر لے  گئے۔ انگریزوں نے ان سے نمٹنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ حتہ کہ انہوں نے مشتبہ علاقے کے گرد باڑ لگا دی۔
 اپریل 2019 میں ہندوستانی فوج نے دعوی کیا ہے کہ  انہوں نے  ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں میں راکشس کے پاؤں کے نشان دیکھے ہیں۔
 اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں۔ اور کہاں رہتے ہیں ۔ یہ انسان نما مخلوق ہے جو انسانی آبادیوں سے  میلوں دور جنگلات  یا پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ یہ بہت کم ہیں۔ یہ انسانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان کے قد کاٹھ اور جسامت جنوں جیسی ہوتی ہے۔ ان کے جسم پر گھنے بال ہوتے ہیں۔  ان کی پسندیدہ خوراک  گوشت ہے۔ جس میں انسانی گوشت بھی شامل ہے۔ان کی ا نگلیاں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی پیدائش  بہت کم ہوتی ہے اس لئے ان کی آبادی بہت محدود ہے۔
 ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق راون بھی ایک راکھشس تھا۔ ہندی میں انہیں راکشس

(राक्षस)  اور انگریزی میں مونسٹر کہا جاتا ہے۔