Tuesday, June 5, 2012

گھر میں فارغ نہ بیٹھیئے آپ کے لئے بہترین کام تلاش کر لیا گیا ہے کھانے پکائیے اور سب کو کھلائیے۔http://www.hamariweb.com/recipes/

Tuesday, May 15, 2012

مشہور افسانہ نگار جناب غلام عباس مرحوم کا آٹوگراف جو انہوں نے آٹوگراف انیس سو چھیتر میں مجھے دیا تھا۔ 
قطرہ قطرہ مل کر دریا 
ذرہ ذرہ مل کر صحرا۔ 
رائی رائی مل کر پربت 
پل پل مل کر جُگ بن جائے 
ہم بھی اگر ہو جائیں اکٹھے 
ایک بڑی طاقت بن جائے
نورالصباح باقر



Thursday, May 10, 2012

Tuesday, May 8, 2012

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

کیوں، اردو کی بے بسی، اک کاوش ،اک سوچ Kawish for urdu, Urdu


اردو ہماری قومی زبان اور برصغیر میں عام سمجھی اور بولی جانے والی زبان ہے۔ لیکن یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج اردو سسکیاں لے رہی ہے اور اس کے لبوں پر چند قطرے آبِ حیات رکھنے والا کوئی نہیں۔ بچے انگریزی اور  اردہندی زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ ارد ہندی کیا ہے یہ اردو اور ہندی کا ملاپ ہے ۔بلکہ کہنا چاہئے کہ اردو اور سنسکرت کا ملاپ ہے۔ بڑے اردو میں بات کرنا توہین سمجھتے ہیں۔  بلاگز شیعہ سنی فتوں سے بھرے ، ویب سائیٹس شاعری اور اشتہارات سے بھری ہیں ہیں لیکن اگر کسی بچے کو اردو میں ایک فاختہ  کے بارے میں معلومات حاصل کرناہوں تو وہ نہیں ملتیں  جب کسی زبان کو اس کی نئی نسل استعمال کرنا چھوڑ دیں تو سمجھ  لیں کہ  اس زبان کی زندگی اتنی ہی ہے جتنی کہ اس قوم کے بابوں کی ۔  یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم اردو تو بولتے ہیں۔ لیکن میرا سوال ہے کہ کیا بولنا کافی ہے۔ نہیں بولنا ، سننا ، پڑھنا  اور لکھنا  اگر ہے تو پھر زبان زندہ ہے ورنہ۔۔۔۔
 اب سوال یہ ہے کہ پھر ہم  اردو کو کس طرح صحت مند زندگی کی طرف لا سکتے ہیں ۔ا س کا کھویا ہوا مقام واپس دلا سکتے ہیں۔  میرے خیال میں اگرہم اردو زبان کی خصوصیات کا بغور مطالعہ کریں اور اس کے حوالے سے اپنا کردار دیکھیں تو ہمیں  اس کاحل مل جائے گا۔
سادگی اور سلاست ہمیشہ سے ہی اردو ادب اور زبان کی خصوصیت رہی ہے۔ دوسری بڑی خصوصیت یہ رہی  کہ یہ زبان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں بھی لاتی رہی ۔ گویا کہ وقت کے بہتے دھارے کے سنگ چلتی رہی ۔لیکن جب اس کے مقابلے میں ددسری زبانیں آنے لگیں  تو یہ زبان  دفاعی  مورچوں میں چلی  گئی ۔  جب قومیں دفاعی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں تو وہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتیں ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا تاریخ پڑھ لیجئے۔ صرف لاہور کی تاریخ ہی پڑھ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ  جب جب لاہور دفاع پہ گیا لٹتا رہا۔ اگر ہم دفاعی حیثیت اختیار کرنے والی قوم کے احساسات اور نفسیاتی کیفیات پرغور کر لیں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور حل نکل آتا ہے۔ پہلا حل زبان آسان اور قابلِ فہم ہو۔
دوسرا حل  زبان میں وہ تمام جدتیں اور رنگینیاں ہوں جو دوسری
 زبانو ں میں ہیں ۔ مثلاَ آپ کو  عشق کی کیفیات پر تو بے انتہا شاعری ملے گی لیکن بھورے رنگ پر نہیں ،  سبز رنگ پر نہیں گھڑی کی ٹک ٹک پر نہیں۔ آپ کو  بچوں کی شاعری تو مل جائے گی لیکن بچوں کے لئے  شاعری نہیں۔  بچوں کو  کھیلنےکے لئے دنیا کی ہر زبان میں کمپیوٹر کھیلیں  ملیں گی ،نہیں ملیں گی تو اردو میں نہیں ملیں گی۔ اسی طرح اینی میشنز آپ کو تامل زبان تک میں مل جائے گی، نہیں تو اردو میں نہیں اگر کچھ ہوں گی تو وہ ناقابلِ رسائی نہیں ہوں گی۔ مذہبی تفرقہ بازی  پر اتنے بلاگ ملیں گے کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایک بچہ ہفتہ دس دن ان بلاگز کا مطالعہ کر لے  بعید نہیں کہ وہ کچھ بھی کر لے  بے دین ہو جائے ، کسی جنگل کا باسی بن جائے، یا پھر خود کش حملہ آور۔
ہونا یہ چاہئے کہ روداری اور محبت کی متلاشی قوتیں میدان میں آئیں  اور کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس کی ضرورت ہو۔میدان خالی ہے ، اردو میں تحقیق و اختراع کا میدان خالی ہے۔ اس پر جدت کے پھول اگا لیں ورنہ ہمیں اس حقیقت کی طرف بھی دھیان دینا چاہئے کہ خالی میدانوں میں یا آسیب بسا کرتے ہیں ہا قبرستان بنا کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا کہ اردو کی موت سے اسے کچھ نقصان نہ ہوگا تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔ کیوں کہ جن قوموں کی زبانیں فوت ہوجاتی ہیں ۔ ان کی اساس ووراثت ختم ہو جاتی ہے  اور جن قوموں کی وراثت ختم ہو جاتی ہے ان قوموں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کی پہچان ختم ہوئی وہ قوم  گلی کے اس کتے کی ماند ہو جاتی ہے جس کی گردن میں کسی سے نسبت کا پٹہ نہیں ہوتا۔
یہ بلاگ اس لئے بنایا گی اہے کہ یہاں عورتوں کو فیشن کے نت نئے طریقے ملیں تو جوانوں کو اچھی موسیقی ، بوڑھوں کو صحت مند رہنے کے طریقے اور بچوں کو ان کی پسند کا مواد۔  جہاں تک ممکن ہو سکا ، کوئی دعویٰ نہیں۔ کوشش ہے کا وش ہے۔