Tuesday, December 15, 2020

Urdu Lesson Planning, Waris Iqbal, منصوبہ تدریس

اا


 

جام شورو

 

اس متن کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سبق کا منصوبہ بنانے کے لئے یہ ایک مثا لی اور حتمی متن ہے۔اصل میں اس متن کےذریعے سبق کے منصوبہ کی تخلیق کے لئے چند ضروری اور مؤثر مراحل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ذیل میں وہ مراحل اور ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے جن سے سبق کی منصوبہ  سازی کے دوران گزرنا پڑتاہے۔

سبق کا منصوبہ لکھنے سے پہلے

·     سبق کا منصوبہ بنانے سے پہلے ایک بہت اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے،

 ”آج میں بچوں کوکیا پڑھانا یا سکھانا چاہتا /چاہتی ہوں؟‘‘

 اس سوال کا جواب ہمیں نصابی دستاویز سے ملے گا۔  اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے نصابی دستاویز کا گہرا مطالعہ کرلیں۔

 

·     سبق کے منصوبہ کی تخلیق سے پہلے ہمیں اپنے سبق کے سابقہ منصوبہ کو بھی دیکھ لینا چاہئے تاکہ ہم سابقہ تجزیہ کی بنیاد پریہ دیکھ سکیں کہ ہمیں کہاں کہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟، کون سے اہداف کا حصول صحیح انداز میں ممکن نہ ہو سکا،  کون سی سرگرمیاں بہتر تھیں اور کون سی سرگرمیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ 

·     سبق کا منصوبہ  بنانے سے پہلے بچوں کی گذشتہ معلومات و تجربات سے متعلق بھی آگہی ہونی چاہئے۔  

·     ان اہداف پر غور و فکر کر لینا چاہئے جن کی تدریس کی جارہی ہے اور اس امر کا اندازہ بھی کر لینا چاہئے کہ کیا ان کی پیش کش             کا یہ درست وقت ہے۔  ان کے حصول کے لئے کیا ہمارے پاس ضروری وقت موجود ہے۔اور یہ کہ  کیایہ اس وقت بچوں کے معیار کے مطابق ہیں۔

 

·     یہاں یہ ضروری ہے کہ سرگرمیوں اور اہداف کے فرق کو سمجھ لینا چاہئے۔کسی بھی ہدف کے حصول کے لئے ایک یا ایک     سے زیادہ سرگرمیوں کا سہارا لیاجا سکتا ہے۔

·     اہداف واضح اور قابلِ عمل ہونے چاہئیں۔  ایک تدریسی منصوبہ کے لئے ایک یا ایک سے زیادہ اہداف ہو سکتے ہیں۔ سبق کے منصوبہ میں کچھ اہداف عمومی ہوتے ہیں اور کچھ اہداف خصوصی ۔یعنی کچھ اہداف ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے حصول کے لئے تمام سال کوشش جاری رہتی ہے اور خصوصی اہداف وہ ہیں کہ جن کوخاص کسی ایک دن کے لئے چنا گیا ہو۔

·     ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہم نے کون سے تدریسی معاونات استعمال کرنے ہیں اور ان کا حصول کیسے ممکن ہو گا؟ ا س لئےضروری ہے کہ ان کی ایک فہرست بنا لی جائے۔اسی طرح بچوں کے پاس جن وسائل کا ہونا ضروری ہے ان کی بھی ایک فہرست بنا لی جائے۔

 

 

 

 

 

مستونگ

 

سبق کا منصوبہ لکھتے ہوئے

·     سبق کے منصوبہ میں گفت و شنید کے لئے جو بھی مواد، سوال یا موضوع رکھا گیا ہو اس کی خود اپنے آپ سے رول پلے کے ذریعے مشق کر لینی چاہئے تاکہ بچوں کے ممکنہ ردعمل کا اندازہ ہو۔

·     سبق کے منصوبہ کے ہر درجے اور مرحلے پر معلم یا معلمہ کے سامنے یہ سوال ضرور رہنا چاہئے کہ میں جب یہ کروں گی یا  کہوں گی تو بچے کیا سوچیں گے؟، کیا کریں گے؟اور کیا کہیں گے؟       

·     ہر مرحلے کا منصوبہ جامع اور واضح انداز میں لکھا جائے تاکہ دوسرا شخص بھی پڑھ کراسے باآسانی سمجھ سکے۔

·     ہر مرحلے کے لئے وقت کا تعین حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے۔

·     سبق کامنصوبہ لکھتے ہوئے ”میں“         کا صیغہ استعمال کرنا چاہئے تا کہ ذمہ داری کا احساس ہو۔

·     پوچھے جانے والے سوالات علیحدہ لکھ لینے چاہئیں تاکہ دوران ِ سبق غلطی کا امکان نہ رہے۔  اسی طرح پڑھائی کے لئے چنے گئے متن کا بھی بغور مطالعہ کر لینا چاہئے اور اہم باتیں خط کشید کر لینی چاہئیں۔

·     اہداف کووضاحت کے ساتھ لکھنا چاہئے۔

·     جو ورک شیٹ کروائی جانی مقصود ہو اس کی ایک کاپی سبق کے منصوبہ کے ساتھ منسلک ہونی چاہئے تاکہ حوالے کے لئے       بچوں کے پاس نہ جانا پڑے۔

·     تدریسی معاونات کا ذکر بھی وضاحت کے ساتھ کرنا چاہئے۔

·     سرگرمیوں کا تعین کرتے ہوئے بچوں کے مختلف ذہنی معیار کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔  کچھ بچے کام میں تیز ہوتے ہیں اور کچھ آہستہ کام کرتے ہیں۔  چنانچہ ایسے تیز بچوں کے لئے ایسا اضافی کام بھی تیار کر لینا چاہئے جوممکنہ اہداف اورنصابی دستاویزسے مطابقت رکھتا ہو۔

·     سبق کے منصوبہ میں جانچ ایک اہم جز ہے۔  جانچ لکھنے سے پہلے اپنے لکھے ہوئے منصوبہء تدریس کو ایک دفعہ اچھی طرح پڑھ لینا چاہئے اور پھر اس امر کا اندازہ کرلینا چاہئے کہ کن ا ہداف کی جانچ کی جائے گی اور اس کے لئےکون سے شواہدحاصل کئے جائیں گے۔                   

·     منصوبہ  تدریس کے علاوہ معلمہ کے پاس کچھ نوٹس ہونے چاہئیں جن میں متوقع صورتِ حال،حل،  فہرستیں اور سوالات وغیرہ لکھے جا سکیں۔

·     سبق کا منصوبہ لکھتے ہوئے اس بات کا خا ص خیال رکھنا چاہئے کہ ہر مرحلہ کا باقاعدہ آغاز او ر باقاعدہ اختتام  ہو۔

اوکاڑہ

 

جانچ  :

           تدریسی منصوبہ بندی کے دیگر مراحل کی طرح جانچ بھی ایک اہم مرحلہ ہے اس لئے اس کی صحیح سمجھ ہونا بہت ضروری ہے۔  

            

جانچ کے حوالے سے چند اہم نکات بیان کئے جارہے ہیں۔ 

           ٭       جانچ ایک مسلسل عمل ہو۔

٭       تشخیصی،(Diagnostic) تشکیلی(Formative) اور مجموعی(Summative) تینوں طرح کی جانچ کی جائے۔

٭       جانچ کا طریقۂ                    کار ایسا ہو جو بچوں میں اعتماد پیدا کرے اور اپنی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی             کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔  اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ ممکنہ اہداف کے تحت سکھائی گئی مہارتوں کو جانچا جا رہا ہے۔معمول کی نگرانی ، جانچ کا ریکارڈ رکھنا اور بچوں کی کارکردگی سے والدین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

           جانچ جن بنیادوں پر ہونی چاہئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

           (۱)       جماعت کا کام       (۲)      ماہانہ جانچ           (۳)     زبانی کام

           (۱)       جماعت کا کام:

           اس سے مراد روزانہ جماعت میں کروائے جانے والے کام اور اہداف کی جانچ ہے۔

           جماعتی کام کی جانچ کرواتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:

٭       ایک ہی مہارت بار بار نہ جانچی جائے بلکہ ہر سکھائی گئی نئی مہارت کو مناسب وقفے سے جانچا جائے۔

           ٭       جانچ پر مبنی کا م طالب علم بغیر کسی مدد کے اور دئیے گئے وقت کے اندر مکمل کرے۔

           ٭       ہر ہفتے حاصل شدہ نمبروں کا اندراج منصوبہ بندی کے رجسٹر میں کیا جائے۔

           (۲)      مخصوص دورانئے کی  جانچ:  (ہفتہ وار ، ماہانہ ، سہ ماہی)

           اس جانچ سے مراد وہ جانچ ہے جو ایک مخصوص دورانئیے  کےبعد لی جاتی ہے۔ جیسے ہفتہ وار، ماہانہ    وغیرہ۔

 اس جانچ کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اگر ایک دفعہ شیدول دے دیا جائے تو اسے بدلا نہ جائے۔ بنائے گئے اصول کی پابندی خود بھی کی جائے اور بچوں سے بھی کروائی جائے۔ نیز ا س جانچ کا مکمل  ریکارڈ رکھاجائے۔

(۳)    زبانی کام  (گفت و شنید /پڑھائی)

           ہرماہ زبانی جانچ بھی کی جائے گی جس  کے مجموعی نمبروں کا اندراج کیا جائے گا۔ معلمین کو چاہئے کہ وہ  روزانہ پانچ یا چھ بچوں کی          جانچ کریں۔

مانسہرہ

 

تجزیہ

سبق کے منصوبہ کی تیاری اور اس پر عمل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ تجزیہ لکھنا ہوتا ہے۔تجزیہ کرتے ہوئے درج ذیل دو پہلوؤں کا خاص طور پر احاطہ کرنا ہوتا ہے۔

           (۱)       طلبا کے سیکھنے کا عمل

           (۲)      تدریسی عمل کا تجزیہ

           (۱)       طلبا کے سیکھنے کا عمل:

           ۰          طلبا کے سیکھنے کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس سبق کے دوران بچوں                                 نے کیا سیکھا؟

           ۰          جن اہداف کے حصول کے لئے آج کے سبق کی تشکیل کی گئی تھی کیا وہ اہداف حاصل                            ہوئے؟

           ۰          کن کن بچوں کے علم اور مہارتوں میں اہداف کے مطابق پیش رفت نہ ہوئی۔

           ۰          طلبا کے سیکھنے کے عمل کے تجزیہ کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس وہ تمام شواہد ہوں                               جن کے ذریعے طلبا کی تعلیمی ترقی وپیش رفت کا اندازہ ہو سکے۔ یہ شواہد طلبا کے تحریری                                  کام، گفتگو،سوال جواب اور طلبا کے روئیے سے حاصل کئےجاسکتے ہیں۔

           (۲)      تدریسی عمل کا تجزیہ:

                        تدریسی عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں خود سے درج ذیل سوالات کرنے چاہئیں۔

           ۰           سبق کے دوران سبق کے اہداف کا حصول کہاں تک ہوا؟

           ۰          سبق کا کون ساحصہ اچھی طرح پیش ہوا اور ن سا حصہ اچھی طرح پیش نہ ہوا؟

           ۰          سبق کے دوران بچوں کی شرکت کیسی تھی؟

           ۰          سبق کے دوران بچوں کا رویہ کیسا تھا؟

           ۰          بچوں کو دئیے جانے والے تحریری یا زبانی کام پر بچوں کا ردِ عمل کیسا تھا؟

           ۰          کیا سبق کے منصوبہ میں وقت کا تعین درست تھا؟

           ۰          مجھے آئندہ اس سبق میں کیا تبدیلیاں کرنی چاہئیں؟

          

تدریسی عمل کے تجزیہ کے لئے ضروری ہے کہ اسے جلد از جلد لکھ لیا جائے تاکہ اہم نکات ذہن سے محو نہ ہو جائیں۔

 


Wednesday, August 19, 2020

جب اُسے اغوا کیا گیا۔ | When he was abducted | Waris Iqbal | محاورات کی ...

waris ki kawish وارث کی کاوش: جب اُسے اغوا کیا گیا۔ محاورات پر م...

waris ki kawish وارث کی کاوش: جب اُسے اغوا کیا گیا۔ محاورات پر م...:   جب اُسے اغوا کیا گیا۔ محاورات پر مبنی    کہانی وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا تھا۔   اس کے چاروں طرف اندھیرا تھا۔   اچانک وہ کسی چیز...

جب اُسے اغوا کیا گیا۔ محاورات پر مبنی کہانی

 

جب اُسے اغوا کیا گیا۔

محاورات پر مبنی   کہانی

وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا تھا۔  اس کے چاروں طرف اندھیرا تھا۔

  اچانک وہ کسی چیزسے ٹکرایا اور گرپڑا۔  خوف کی وجہ سے اس کے بدن کے رونگٹے

 کھڑے ہو گئے۔  اس نے ٹٹو ل ٹٹول کر دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ وہ ایک کرسی سے

ٹکرایا تھا۔وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتارہا اور ایک دروازے تک پہنچ گیا۔

 اس نے دروازہ کھولا تو سورج کی روشنی کمرے میں پھیل گئی یہ روشنی ایک روشن دان

 سے آرہی تھی۔  وہ اسی کرسی پر بیٹھ گیا جس سے اٹک کر وہ گرا تھا۔  اب وہ کیا کرے؟اگر وہ باہر نکلتا ہے تو وہ لوگ ضرور اسے پکڑ لیں گے۔  وہ

شش و پنج میں تھا۔ 

اسے اپنے گھر والے بھی بہت یاد آرہے تھے۔  اپنی امی کی پیاری پیاری باتیں یادکر کے اس کا دل بھر آیا۔  نہ جانے ان کا کیا حال ہو گا۔   ”مجھے ہرحال میں یہاں سے نکلنا ہے۔“ اس نے خود سے کہااور اٹھ کرکھڑا ہو گیا۔  ”لیکن اگر میں باہر نکلا تو وہ لوگ مجھے پھر پکڑ لیں گے۔  وہ مونچھوں والا آدمی تو بہت ظالم تھا۔  اس نے کس بے دردی سے مجھے مارا تھا۔  اپنی طرف سے تو وہ مجھے مار کر پھینک گیاتھا۔  یہ سوچ کر ہی اس کے بدن کا خون خشک ہو گیا۔  ”نہیں نہیں مجھے جانا ہے،  چاہے کچھ بھی ہو ۔“  وہ خود سے باتیں کر رہا تھا۔  اسی جوش میں وہ کمرے کادروازہ کھول کر باہر آگیا۔ کوشش کر کے وہ بڑے سے ایک گیٹ کے قریب پہنچ گیا۔  گیٹ کھلا ہوا تھا۔ کھلاگیٹ دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔  لیکن اس نے حوصلہ کر کے باہر قدم رکھ لیا اور ادھر ادھر دیکھا۔  باہر کوئی بھی نہیں تھا۔

 اس کے سامنے حد نگاہ تک صحرا پھیلا ہوا تھا۔  گیٹ کے ساتھ ہی امرود کا  پودہ تھاجس پر امرود لگے ہوئے تھے۔  امرود دیکھ تو اس کے منہ میں پانی بھرآیا۔  وہ تیزی سے اس پودے کی طرف بڑھا اور تین امرود توڑلئے۔  امرود کھا کر اس کی جان میں جان آئی۔ 

اسے آج اپنی بہادری اور حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا۔  وہ اکیلا ہی گھر سے نکلا اور ایک شخص کے جھانسے میں آگیا کئی دنوں بعد جب اسے ہوش آیا تواس نے خود کو ایک کمرے میں پایا۔  جہاں سے نکل کر اب وہ بھاگا تھا۔

Friday, July 31, 2020

عقل مند طوطا,Uqalmund Tota,Hikayat Saadi, Waris Iqbal | حکایاتِ سعدی | ا...

عقل مند طوطا


عقل مند طوطا

کسی باغ میں ایک طوطے نے اپنا آشیانہ بنارکھا تھا۔اُس کے تین بچے تھے۔ وہ صبح صبح اپنے گھونسلے سے اڑتا اور اپنے بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنے  کے لئے  گھونسلے سے دور چلا جاتا۔
ایک دن طوطا دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو اُس کے بچوں نے انہیں  انتہائی پریشانی اور خوف میں بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
’’یہ درخت اب بہت پرانا ہو گیا ہے۔کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے  درخت کٹوا دوں گا۔ "
طوطے نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ  درخت کاٹنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔
"
میں اس دن درخت کاٹنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ وہ کل ضرور آئیں گے۔‘‘
طوطےنے بچوں کی زبانی  یہ بات سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی  درخت کاٹنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"
اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
"
میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل  میں یہ درخت خود کاٹ دوں گا۔"
طوطےنے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔
" بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"
حاصل کلام:
دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اپنا کام خود کرنا چاہیے۔

Tuesday, June 2, 2020

راکشس کون اور کہاں رہتے ہیں

دوستو میں اس وڈیو میں آپ کو راکشسوں کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کر رہا ہوں جو آپ کے علم میں پہلے کبھی نہیں آئی ہوں گی۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ میں اس کے حوالہ جات مختلف کتابوں سے دوں گا۔ راکشسوں کے بارے میں جاننے کے لئے میری یہ وڈیو پوری دیکھئے۔
 جہانگیر اپنی کتاب تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں کہ ان کا قافلہ ایک دفعہ حسن ابدال سے پانچ میل کے فاصلے پر موجود سلطان پور میں رکا ہوا تھا کہ انہوں نے قریبی پہاڑ گند گڑھ سے عجیب و غریب اور خوفناک آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں  بادلوں کے گرجنے جیسی تھیں جبکہ مطلع بالکل صاف تھا۔ اس وقت سے اس پہاڑ کا نام گرج پہاڑ پڑ گیا۔
 دوستو! جب میں میں نے تاریخ کی کتابوں  میں تلاش  شروع کی تو مجھے  انگریز مصنف  آرسی ٹمپل کی کتا ب حکایات پنجاب  اور سبطِ حسن کی کتاب تہذیب کا ارتقا میں ایک واقعہ ملا جو  دوسری صدی عیسوی  کے ایک راجہ رسالو کا ہے جس کی حکومت موجودہ سیالکوٹ سے لے کر راولپنڈی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے زمانے میں ٹیکسلا ایک عظیم شہر تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ  ٹیکسلا کے بازار سے گزر رہا تھاکہ اُس نے ایک بڑھیا کو دیکھا جو کبھی ہنستی تھی کبھی روتی تھی۔ راجہ نے بڑھیا سے پوچھا 
’’ اے بڑھیا یہ کیا ماجرا ہے تو کبھی ہنستی ہے کبھی روتی ہے۔‘‘
اس بڑھیا نے بتایا،
’’ پہاڑوں پر راکشسوں کا ایک ٹولہ رہتا ہے ۔ وہ انسانوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ شہر کے حاکم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ اگر وہ  انسانی آبادیوں پر حملے نہ کریں تو وہ انہیں روز ایک بھینس اور ایک انسان دے گا۔ آج میرے بیٹے کا بیاہ ہے اور آج میرے بیٹے کی باری ہے ۔ اسے رات کو راکشسوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ بیٹے کی شادی کا سوچ کر میں ہنستی ہوں اور بیٹے کی موت کا سوچ کر میں روتی ہوں۔‘‘
راجا رسالو نے اس بڑھیا کو تسلی دی اور رات کو ایک بھینس لے کر خود پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔راجہ نے  ان راکشسوں کا مقابلہ کیا اور انہیں مار دیا لیکن ایک عورت راکشس بھاگ کر ایک غار میں چھپ گئی۔ راجہ نے اس غار کو پتھر سے بند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پتھر پر بعد میں راجہ ایک تیر کمان اور اپنی تصویر کندہ کروائی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کی بجائے وہاں اور بھی کئی راکشس ہوں ۔
 انہی راکشسوں کی آوازیں تھیں جو جہانگیر اور اس کے فوجیوں نے سنیں۔ اور یہی آوازیں کئی سو سال بعد  یہاں پر موجود انگریزوں کی ایک رجمنٹ نے بھی سنیں۔
تاریخ سولہن  راجپوت کے مطابق اسی طرح کی ایک شہادت انگریزی فوج کے ایک میس حوالدار  غلام رضا آف گجرات نے دی  کہ انہوں نے  سنکھ پہاڑ جو انڈیا پاکستان کے بارڈر پر موجود ہیں جن کی بلندی  بارہ ہزار فٹ تک ہے اور جہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے۔ غلام رضا کے مطابق انہوں نے دوربین سے یہ راکشس دیکھے۔ جنہیں وہ بڑ بڈھےکا نام دیتے ہیں۔
محمد حمید بن چوہدری فقیر محمد ساکن حویلی کہوٹہ پونچھ کشمیر کے مطابق انہوں نے  جولائی ۲۰۱۱ میں راکشسوں کایک  جوڑا دن کے گیارہ بجے  پانچ سو گز کے فاصلے پر درخت پر موجود دیکھا۔
کوئٹہ میں ہم سراب روڈ پر رہتے تھے۔ وہاں بچوں کو رات کو باہر نہیں جانے دیتے تھے کہ مردہ پہاڑ سے اتر کر راکشس  انسانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انکے تلوے  چاٹ چاٹ کر اس کا سارا خون پی جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں یہ راکشس ایک میجر کو اٹھا کر لے  گئے۔ انگریزوں نے ان سے نمٹنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ حتہ کہ انہوں نے مشتبہ علاقے کے گرد باڑ لگا دی۔
 اپریل 2019 میں ہندوستانی فوج نے دعوی کیا ہے کہ  انہوں نے  ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں میں راکشس کے پاؤں کے نشان دیکھے ہیں۔
 اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں۔ اور کہاں رہتے ہیں ۔ یہ انسان نما مخلوق ہے جو انسانی آبادیوں سے  میلوں دور جنگلات  یا پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ یہ بہت کم ہیں۔ یہ انسانوں کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان کے قد کاٹھ اور جسامت جنوں جیسی ہوتی ہے۔ ان کے جسم پر گھنے بال ہوتے ہیں۔  ان کی پسندیدہ خوراک  گوشت ہے۔ جس میں انسانی گوشت بھی شامل ہے۔ان کی ا نگلیاں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی پیدائش  بہت کم ہوتی ہے اس لئے ان کی آبادی بہت محدود ہے۔
 ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق راون بھی ایک راکھشس تھا۔ ہندی میں انہیں راکشس

(राक्षस)  اور انگریزی میں مونسٹر کہا جاتا ہے۔