Saturday, December 7, 2019

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی بیسویں قسط



کیوائی کے پار

ہیں وفا کی راہ ِدراز میں نئی منزلیں نئے مرحلے
وہ بنیں گے کیا مرے ہم سفر جو قدم قدم پہ ٹھہر گئے
جنہیں ناخدا سے اُمید تھی اُنہیں ناخدا نے ڈبو دیا
جو اُلجھ کے رہ گئے موج سے وہ کبھی کے پار اُتر گئے
(شمیم جے پوری)

شوگران کے آفاق ہوٹل میں بھی سامان سمیٹنے کا وقت آ گیا۔ سامان اکٹھا کیا، کمرے پر ایک تجزیاتی نگاہ ڈالی، گاڑی پر سامان لادا اور ہم شوگران کی اس بستی کو خیر باد کہہ آئے جہاں سے ہم نے کئی انمٹ اور انمول یادیں سمیٹی تھیں۔
 چاول کے دانوں سی ریت کے سینے میں
سفید جھاگ اُگلتی موجیں
کھینچ کے لے آتی ہیں کبھی اپنے بستے میں
کتھئی بھوری، نیلی یادیں
اور مرے دل کے ساحل پر
بستہ خالی کر جاتی ہیں
(جینت پرمار)
انہی راستوں سے گزرتے ہوئے ہم کیوائی پہنچے جہاں سے دو دن پہلے گزرے تھے۔
کیوائی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ 2005 کے زلزے سے یہ علاقہ خاصا متاثر ہوا تھا۔ کہا
جاتاہے کہ چند ہزار کی آبادی والے اس شہر میں چھ سو کے قریب لوگوں کو زلزلہ کھا گیا تھا۔ لیکن بڑے حو صلے والا ہے یہ قصبہ کہ چند ہی سالوں میں اُس قہر کے اثرات سے آ ٓزاد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ جس کا انداز ہ یہاں کی تعلیمی ترقی سے ہو سکتا ہے کہ اس علاقہ میں کئی پرائیویٹ اسکولوں کے علاوہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے گورنمنٹ اسکول بھی موجود ہیں۔
 سڑک کے آر پار سیب،ناشپاتی، املوک، چیری اور خوبانی کے پیڑوں پر بہار کی رُت چھائی ہوئی تھی۔ اژدہے کی طرح بڑھتی سٹرک کبھی بل کھاتی کبھی سیدھی تیر ہو جاتی۔ شوگران کی یادوں کی مستی اور خماری تھی یا کہ نئے نویلے مناظر کا سحر کہ ہم پچھلے ایک گھنٹہ سے بے موسیقی ہی چلتے چلے جارہے تھے۔ جہاں مناظرِ فطرت ہمارے لئے فرحت اور سکون کا باعث تھے وہیں دھوپ ہم سے پچھلے جنموں کا بدلہ لینے پر تُلی ہوئی تھی۔ چونکہ ہم شہر کے بابو ملاوٹ شدہ دھوپ کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لئے خالص دھوپ کو برداشت نہیں کر پاتے۔ ہم شہر والوں نے نظامِ قدرت میں رخنہ اندازیاں کر کے اُس کا توازن ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے اوزن لئیر کی بربادی کے خوف ناک نتائج کا پہلا شکار بھی ہم شہر کے لوگ ہی بنتے ہیں۔
ہر شے ہے پُر ملال، بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال،بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشین ہوں
جام و سبو اُچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال، بڑی تیز دھوپ ہے
(ساغر صدیقی)
ایک چھوٹے سے عارضی پُل کے بالکل سامنے سبزے سے لدا ایک مغرور پہاڑ یوں بانہیں پھیلائے کھڑا تھا کہ ہر موڑ ہر راستے پر فقط اُسی کہ حکمرانی تھی۔ کچھ دیر کے لئے مجھے لگا کہ سارے راستے ایک ایک کر کے اُس کی بانہوں میں اُتر کر اُسی کے وجود کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔

پہاڑوں کے اندر موجود ایک گلی سے گذر کر ہم ایک کھلے منظر کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچھی خاصی سڑک مٹی سے اٹی لکیر بن چکی تھی۔پتہ چلا کہ کچھ روز پہلے کی لینڈ سلائیڈنگ نے پورے پہاڑ کو سڑک سمیت اُٹھا کر دریا میں پھینک دیاتھا۔ سڑک ساز محکمہ کے بلڈوزر ڈائینو سارز کی طرح اپنے منہ کھولے اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔ کبھی وہ مٹی اور پتھر ہٹاکر آزاد فضاؤں کے عادی منہ زور پانی کے لئے راستہ   بنا تے اور کبھی مٹی ڈال کر اُس کے سامنے بند باندھنے کی بے سود کوشش کرتے۔ انہوں نے یہ عمل یقینا حضرت انسان سے سیکھاہوگاجو ساری زندگی اپنے جذبات کے اکھڑ پانیوں کے سامنے یا تو بند باندھتا رہتا ہے یا پھر انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ وحشی تاتاریوں کی طرح تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتے ہیں۔اکھڑ پانیوں جیسے بے مہار جذبات انسان سے سمجھ بوجھ چھین لیتے ہیں جبکہ جوش اور ولولے سے عاری بنجربیابانوں جیسے جذبات انسان کو حرکت، محنت اور برکت سب سے محروم کر دیتے ہیں۔  
جس طرح وہ پانی اپنے سمندروں سے ملاپ کی منزل پاتے ہیں جو جوش اور ولولے کے ساتھ نئے پانیوں کو اپنے بطن میں جگہ دیتے ہوئے اپنے کناروں میں پابند رواں دواں رہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی جذبات کے وہی پانی اپنی منزلوں کو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو صبرو بر داشت، رواداری وایثار، محبت و ہم آہنگی اور حکمت و دانائی کے کناروں میں پابندرواں رہتے ہیں۔
جن زندگیوں کو ایسے جذبات کی روانی نصیب ہو جاتی ہے نہ وہ خود جلتی ہیں نہ دوسروں کو جلاتی ہیں۔
سڑک کی داہنی طرف بھیڑوں اور بکریوں کے ایک قافلے نے سڑک پر ایک مافیا کی طرح قبضہ جما رکھا تھا۔ وہ ا ور اُس کے نگہبان یکسوئی سے اپنی منزل کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔ دھوپ تھی کہ ہمارے اور فطرت کے حسن کے درمیان ظالم سماج بن کر کھڑی تھی۔ جونہی ہماری نظر پریوں کی تلاش کی غرض سے چمکتے پہاڑوں پر اترنے کی کوشش کرتی سورج کے چمکیلے تھپیڑے اُسے واپس ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتے۔ ایسے میں سورج مجھے کسی خاندان کاوہ چالاک، دانا اور زیرک بزرگ لگتا تھا جو اپنی کسی خوبصورت شے پر توکسی غیر نظر کوبرداشت تک نہیں کرپاتا مگر خود اُس کی نظر کسی نہ کسی فصیلِ حسن کے طواف میں لگی رہتی ہے۔
 دعائیں مانگی جائیں تو رنگ لاتی ہیں۔ہمیں اپنی دعاؤں کا کھاتہ کبھی بھی کورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ تاکہ کل کو قدرت ہم سے یہ نہ کہے کہ تم نے مانگا ہی نہیں ہم تو برکتوں کے خزانے لئے بیٹھے تھے۔
  دعائیں ہماری زندگی کے قلعہ کی فصیل کی طرح ہماری طرف بڑھنے والی بلاؤں کے سامنے پہلی  رکاوٹ بنتی ہیں۔یہ کسی گلستان سے آئے ہوئے بادِصباکے ایک جھونکے کی طرح ہماری زندگی کے قلعے کے اندر چپکے سے اُتر کر ہر کونہ معطر کر دیتی ہیں۔ جب ہماری ہنستی بستی زندگی کی عمارت پر بلائیں اور وبائیں قابض ہو جاتی ہیں تو دعائیں کسی کمانڈو کی طرح اس عمارت پر شب خون مارکر تمام بلاؤں کا
قلع قمع کر کے ہماری حیات کو محفوظ بنا دیتی ہیں۔
اللہ تو ہمارا اور ہم اللہ کے سب سے پیارے دوست ہیں جو ہماری رگ رگ سے واقف ہے۔ اس لئے اس سے ضرور مانگنا چاہئے۔۔۔۔۔ کُھل کر،کِھل کر، رو کر اور چلا چلا کر مانگنا چاہئے۔ پھر جو ہمارے لئے بہتر ہو وہ ہمیں دیتا ہے۔
 کچھ دیر پہلے سورج نے تو ہمیں آسمان کی طرف دیکھنے تک نہیں دیا تھا لیکن مولا نے ہماری تڑپ کو دیکھا، آسمان پر بادلوں کا اجتماع شروع ہو ااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے پانی کے جھرنے برسنے لگے۔۔۔۔۔ جھرنوں کے دیس میں آسمان سے برستا پانی۔۔۔۔مختلف وطنوں کے پانیوں کا یہ کھیل دیکھنے کے لائق تھا۔
جونہی بارش میں شدت آئی عابد نے بھی گاڑی کوتازیانہ لگایا۔ سب حیران تھے کہ وہ بارش میں آہستہ چلنے کی بجائے تیز کیوں چل رہے تھے۔ البتہ میں اُن کی حکمت عملی کو سمجھ رہا تھا۔ وہ جلد از جلد اس
 خستہ حال سڑک سے نکلنا چاہتے تھے۔ لیکن اُن کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔کچھ ہی دور سڑک کے عین درمیان میں ایک دیو ہیکل ٹرک اڑیل سانڈ کی طرح چاروں پاؤں زمین میں جمائے کھڑا تھا۔ اُس کے آس پاس درجن بھر لوگ اُس کی خاطر مدارت میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اپنے تجربے، علم اور فہم کے مطابق کلیے آزما رہا تھا مگر اُ س پر کسی حربے، تکنیک  یا کلیہ کارتی بھر اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ہم بھی دیگر تماش بینوں کے ہمراہ یہ تماشا دیکھنے لگے۔ شاہزیب نے جملہ کسا، ”لو جی آگیا ٹوسٹ۔“
زین نے بھی خاموشی کا طلسم توڑا،
”انکل جائیں انہیں کوئی مشورہ دیں۔“
”دماغ خراب ہے میرا، اتنی بارش میں بھیگتا جاؤں۔ویسے سارے پاگل اکٹھے ہوئے ہیں خوامخواہ ٹرک کو زور لگوا رہے ہیں۔“
بکر والوں کا قافلہ بھی بھاگتا ہوا میں میں چلاتا وہاں آگیا۔ بارش کے اثر سے مبرا بکریاں اور بھیڑیں بھاگتی جا رہی تھیں۔ اُن کیلئے ٹرک کا ہونا نہ ہونا ایک تھا۔
کہیں سے بھٹکتا ہوا ایک بلڈوزر وہاں آنکلا جس نے آتے ہی ٹرک کو دکھے مار مار کر ایک طرف کر دیا
ا ور سڑک پر ٹریفک بحال ہوا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  
جنت کی ایک جھلک

پُر کیف ہیں فضائیں ہر شے دمک رہی ہے
باد خنک چمن میں بل کھا کے چل رہی ہے
چہرے پہ یاسیت کے نور شباب چھایا
مخمل کا سبز قالیں فطرت نے یوں بچھایا
پھولوں سے اور پھلوں سے شاخ شجر لدی ہے
عشاق کے دلوں میں الجھن سی پڑ گئی ہے
انعام بے بہا ہے قدرت کا یہ نظارا
ساحلؔ سکون دل ہے فطرت کا یہ نظارا
(شرف الدین ساحل)
بارش تھم چکی تھی پہاڑوں کو اصلی اور نئی نکور دھوپ نے گھیر لیاتھا۔ ہر شے مسکرا رہی تھی۔ میری بائیں طرف سامنے ایک سڑک سرمئی لکیر کی طرح بل کھاتی سبزے سے لدے پہاڑوں میں گم ہورہی تھی۔ ان پہاڑوں کے پیچھے کیا تھا کوئی نہیں جانتاتھا۔۔۔صرف طلسم۔۔ صرف راز۔۔۔۔ دور برف کی طرح کے پانی کے چند ٹکڑے بہت گہرائی میں زمیں پر رکھے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کنہار تھا۔۔۔۔ ملکوتی اور سحر انگیز کنہار اس بستی کا راجہ کنہار۔
بڑے کہتے ہیں کہ راجاؤں سے تعلقات اچھے نہیں ہوتے۔ اس لئے ہم نے بھی یہی پایا تھا کہ اس راجہ کے درشن دور دور سے ہی کئے جائیں۔پاس جانا ہماری فانی زندگی کے لئے بہتر نہ تھا۔ ہے تو چھوٹا سا مگر ہے بڑا ظالم دریا جو اس کے طلسم کا شکار ہو کر اس کی دنیا میں اترا وہ واپس نہ آیا۔ ایک تو اس کی گہرائیوں کا پتہ ہی نہیں دوسرا اس کے پیندے میں بیٹھی پتھروں کی فوج در فوج بہت خطرناک تھی۔ جس کے صرف سر ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے حجم،ہئیت اور تعداد کا اندازہ بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ چنانچہ اس سفر میں جہاں کنہار آیا ہم نے دور ہی سلام کیااور آگے بڑھ گئے۔
اور بھی دریا ہیں زمانے میں دیکھنے  کے لئے
ہم سرسبز اور شاداب نظاروں میں کھوئے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے کہ مجھے دور دائیں طرف پتھر کی دیواروں سے بنی ایک جھونپڑی دکھائی دینے لگی جس کے ارد گرد گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ پاس پہنچے تو دیکھا کہ دائیں جانب سے ایک آبشار زمیں کو سجدہ کر رہا تھا۔ اُس کی دھاڑ تھی کہ پکار۔ لگتا تھا کہ جو اُس کے پاس گیا وہ نگل لے گا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس کے پار بھی ا یک دنیا تھی۔ پاؤں نہ چاہتے ہوئے اُس کی طرف چل دئیے۔ بچوں کی ماں بچوں کو نصیحتیں کر رہی تھیں اور وہ حیرانی اور جوش کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بھاگے چلے جا رہے تھے۔
”یہ شاہزیب کو دیکھو کیسے پاگلو ں کی طرح بھاگ رہا ہے۔“
”اوئے ہوئے۔ دیکھو زین نے سارے جوتے گیلے کر لئے۔ کیسے شڑپ شڑپ کرتا پانی میں پھر رہا ہے۔“
”عابد ان کو اپنے ساتھ رکھو۔“
”گرے نا۔۔ میں نے کہا تھا ناں دھیان سے چلنا۔۔۔ شکر ہے چوٹ نہیں آئی۔“
”ماما یہ بھائی کے بچے نے دھکا دیا تھا۔“
”وہ بیچارہ تو چار میل دور جارہا تھا۔۔۔ تمہیں کسی جن نے دھکا دیا ہوگا۔“
”کوئی جن نہیں تھا۔ بھائی ہی تھا۔“
 پھر میں نے پستے ہوئے دانتوں سے کھسکنے والا یہ جملہ سنا ان سنا کرتے ہوئے اپنی رفتار بڑھا لی۔
”یہ تمہارے باپ کا ڈرائینگ روم نہیں جہاں دڑنگے مارتے پھرو۔۔دھیان سے رہو۔“
 جگہ تو واقعی خطرناک تھی،ہر پتھر وقت مانگتا تھا۔ اُس پر پاؤں رکھنے میں ذرا سی کوتاہی کامطلب سیدھی سیدھی موت تھا۔ بچوں کی شرارتوں سے بچنے کے لئے ہم نے ہاتھوں کی زنجیر بنائی اور آگے بڑھنے لگے۔ بچوں کے لطف اٹھانے کے بھی اپنے ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ان پر جگہ موسم یا حالات کسی شے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ یہ تو دیوسائی میں بھی اس طرح بھاگے پھر رہے تھے جیسے وہیں کے ریچھوں کے بچے ہوں۔ یہ ریچھوں کو دیکھتے اور ریچھ انہیں۔ یہ ریچھوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ انہیں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ چلانگیں لگا لگا کر انہیں دیکھ رہے تھے اور وہ بھی اپنے دونوں پیروں پر کھڑے ہو کر انہیں دیکھ رہے تھے۔ یہ کہتے تھے۔
”وہ دیکھوریچھ کا بچہ“
ریچھ کہہ رہے تھے۔
”وہ دیکھو۔۔حضرت انسان کے بچے۔۔ وہ چھوٹے کو دیکھو۔۔۔۔“
ایک بوڑھے ریچھ نے کہا تھا،
”ارے ہٹو مجھے بھی دیکھنے دو۔۔۔ کیسے ہوتے ہیں انسان کے بچے۔۔“ ایک اماں جی ریچھنی نے بھی کہاتھا،
”بھئی ہیں تو انسان کے بچے مگر حرکتیں تو دیکھو بالکل۔۔۔۔۔۔“
 یہ کہانی اگلے سفر نامہ میں سامنے آ ہی جائے گی۔
  ہر پتھر کے بعد ایک نیا منظر تھا۔ ہم اس چھوٹے سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کا عزمِ صمیم لئے چڑھے تھے مگر یہاں تو وادی کے بعد وادی اور چوٹی کے بعد چوٹی۔۔۔۔ کھلتی چلی جا رہی تھی۔ویسے بھی ڈھلوان ایسی کہ نیچے دیکھتے تو جان نکل جاتی۔ اچانک ایک آواز سنائی دی،
”رک جاؤ! بس آگے نہیں جانا۔۔۔ آگے جاناخطرناک ہوگا۔ اگرمیں نے تمہار اساتھ نہ دیا تو تمہارا پیچھے جانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔“
یہ میرے گٹھنے کی آوا ز تھی۔ ایک طرف آگے بڑھنے کا شوق اوردوسری طرف درد گٹھنا۔۔۔۔ ایک اور مصیبت نے گھیرا ہواتھا وہ تھا پانی،جس نے ہمارے جوتوں اور کپڑوں پر حکومت قائم کر لی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں بھی اُس کی اتحادی بن گئی تھیں۔ یہ دونوں حکمرانوں کی طرح ہمارے جسم کو پاکستانی عوام سمجھ کر نشانہ بنائے ہوئے تھیں۔ بس اک جوش تھا، ولولہ تھا کہ ہم بڑھتے جا رہے تھے۔ مگر کب تک۔۔۔۔۔۔ہمارا جسم پاکستانی عوام تھوڑے ہی تھا کہ ہم اس کا استحصال کرتے رہتے اور وہ خاموش رہتا۔ ہمیں اُس کے احتجاج کے بعد اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنا پڑی۔
 میں ایک اونچے سے پتھر پر کیا بیٹھا ہم نے وہیں ایک بستی بسا لی۔ میں نے لمبے لمبے سانس لے کر
 ارد گرد دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے سامنے وہ نظارہ تھاجسے دکھانے کے لئے قدرت ہمیں یہاں لے کر آئی تھی۔اس جھرنے کی ایک شاخ نیچے ایک وادی میں جا کر ایک چھوٹی سی جھیل میں گر رہی تھی۔ اس جھیل کنارے سبز گھاس سے لدا ایک چھوٹاسا قطعہئ زمیں اور اُس کے پیچھے نیم سبز پہاڑ جن کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔۔۔ بس اک پینٹنگ تھی جو ہمارے سامنے کھُلی اور کھِلی ہوئی تھی۔ میں نے کھڑے ہو کر ان برف پوش پہاڑوں کے جغرافیہ کے بارے میں اندازہ لگانا شروع کیا تو میرے دماغ نے گواہی دی کہ یہ مکڑا کی چوٹیاں تھیں جن کے پار کہیں کشمیر کی نیلم وادی تھی۔
 درختوں کی قطاروں کا سلسلہ ان پہاڑوں سے شروع ہو کر اس وادی میں جھیل کنارے آ کر سکون حاصل کر رہاتھا۔ ان پہاڑوں اور درختوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پہاڑوں کے قدموں میں سبز قالین بچھا ہو۔ اس قدرتی جھیل کو قدرت نے زمرد کا لباس پہنایا ہوا تھا۔ وہ خاموش تھی جیسے کوئی عبادت میں مگن ارد گرد سے بے خبر۔ عابد نے بہت خوبصورت بات کی،
”بھائی جان لگتا ہے زمرد رنگ کا مصلیٰ بچھا ہے جس پر پہاڑ نماز ادا کر رہے ہیں۔“
دور درختوں کا ایک جھنڈ لہرا لہرا کر ہماری آمد پر شکریہ ادا کر رہا تھا۔ لگتا تھافطرت کے معماروں نے پریوں کے آرام اورقیام کے لئے ایک قطعہئ زمیں خاص طور پر سجارکھا تھا۔
واپسی کے لئے مڑے، سنبھلتے اور بچتے بچاتے اپنی گاڑی تک پہنچ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سنہری پری پارس میں

ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں سے ایک سنہری پری اڑی اور وادیئ کاغان کے پانیوں میں بس گئی۔ اس پری کو لوگوں نے نام دیا گولڈن ٹراؤٹ کا۔
ہم پارس پہنچ گئے تھے۔ یہ جگہ ٹراؤٹ مچھلیوں کے فارمز کی وجہ سے مشہور ہے۔ جس جگہ ہم موجود تھے اُس کے قرب وجوار میں دائیں بائیں پہاڑوں پر یہ فارم موجود تھے۔ قدرت کے کارخانے میں وسائل کی کمی نہ تھی۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد آسانی سے ایک فش فارم بن جاتا ہوگا۔ یہاں سے ایک سڑک شاران کی طرف جارہی تھی۔ دریا ئے کنہار کو پار کرتی ہوئی یہ سڑک شاران کے ریسٹ ہاؤ س کے قریب جا کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ علاقہ جنگلات سے بھرا ہوا ہے لیکن پارس ایک خوبصورت اور جدیدقصبہ ہے جہاں ہر سہولت موجود ہے اور جہاں کے لوگ تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔
پارس کے قریب ہی دارشی کے جنگلات ہیں۔ جنگلات کیا ہیں کوئی طلسماتی بستی ہے۔ یہ قصبہ ناجانے کب سے موجود ہے لیکن اس کا رکھ رکھاؤ بتاتا ہے کہ یہاں انگریزوں نے بھی کافی لمبے عرصہ تک قیام کیاہوگا۔
اس علاقہ سے بھی ایک رومانوی داستان منسوب ہے۔
انگریزی دور میں ایک کمپنی کا کچھ عرصہ کے لئے یہاں قیام ہوا۔ اس کمپنی کا سربراہ منشی آف ڈنگہ نام کا ایک شخص تھا۔ بدقسمتی سے ایک دن اُس کا یہاں کی ایک دوشیزہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ آمنا سامنا کیاہوا دونوں نے اپنے دل ایک دوسرے کے قدموں میں رکھ دئیے۔ پھر شروع ہواچھپ چھپ کر ملنا اور آنے والے سہانے کل کے سپنے دیکھنا۔
جس سڑک پر پارس موجود ہے موجودہ شاہراہ ریشم کی تعمیر سے پہلے چین کو جانے والے قافلے یہاں سے گذرا کرتے تھے کیونکہ یہ راستہ چین کا سفر کئی گھنٹے کم کر دیتا تھا۔ قافلوں کی لوٹ مار، اور مار دھاڑ ان راستوں پر لوگوں کے لئے ایک کھیل کا درجہ رکھتی تھی۔ جب گاؤں کے لوگوں کو پتہ چلا کہ اُن کی ایک لڑکی انگریز کی کمپنی کے ایک شخص کے سامنے دل ہار چکی ہے تو انہوں نے ایک رات اُس عاشق کو قتل کر دیا۔ اغلب امکان ہے کہ انہوں نے اپنی لڑکی کو بھی مار دیا ہو گا۔ کیونکہ بعد میں یہ جنگلات اُسی کے نام پر مشہور ہو گئے۔ یعنی دارشی کے جنگلات۔
http://unesco.org.pk/culture/documents/publications/Mapping%20
and%20Documentation%20of%20the%20Cultural%20Assets%
20of%20Kaghan%20Valley,%20Mansehra.pdf

ہم پارس زیادہ دیر نہیں رکے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ اب ہم جن مناظر میں داخل ہو رہے تھے وہ پہلوں سے بہت مختلف تھے۔ جگہ جگہ چھوٹی بڑی آبشاروں اور جھرنوں کی آمد میں تیزی آ گئی تھی۔ ایک بہت بڑا جھرنا دیکھ کر ہم بھی وہاں رکنے پر مجبور ہوگئے۔
 جہاں پھول ہوتے ہیں وہاں تتلیاں آ جاتی ہیں جہاں پانی ہوتا ہے وہاں پیاسے بستیاں بنا لیتے ہیں۔ جہاں جھرنا ہو گا وہاں مسافر بھی اپنے کاروانوں کو روک کر پڑاؤ کر لیتے ہیں۔یوں جھرنے کے آنگن میں یا اُس کے پہلو میں ایک بستی بس جاتی ہے۔
”تازہ ٹراؤٹ۔“ اس بینر کو پڑھ کر میرے دل کو کچھ ہونے لگا میرے سپنوں کی رانی سنہری پری کو لوگ مل جل کر کھا رہے تھے۔ اُسی بینر کے نیچے ایک ادھیڑ عمرشخص کھڑا مجھے تکے جا رہاتھا۔ جانے کیوں؟ میں سمجھا کہ وہ اس انتظار میں ہے کہ میں اُس کے پاس جاؤں اور اُس سے مچھلی خریدوں۔
اُس کی پیاسی نگاہوں نے مجھ پر کچھ یوں حملہ کیا کہ میں اُس کی طرف چل پڑا۔
”کس طرح کلو ہے ٹراؤٹ۔“
”آٹھ ہزار روپے۔“
”اوہ خدایا۔۔۔۔۔ آٹھ ہزار روپے۔۔۔۔  اتنے پیسے لے کر تم کیا کرو گے۔۔ تمہیں پتہ ہے کفن کی جیب نہیں ہوتی۔“
خدا کا قہر ایک مچھلی کی قیمت آٹھ ہزار، مانا میرے سپنوں کی رانی ہے۔۔غصہ میرے اندر بیٹھے ہوئے ناصح کو جگا چکا تھا۔ میری بات سن کر وہ مسکرا یا اور بولا،
”کفن کی تو جیب نہیں ہوتی مگر قبر میں کافی جگہ ہوتی ہے۔ آپ چاہئیں تو اُس کے اندر سونے کے پرت لگا لیں۔۔۔ چھت سونے کی بنا لیں۔۔۔۔۔ ایویں سر ڈائیلاگ بولنے کی کیا ضرورت ہے نہیں لینی تو نہ لیں، نہ اپنا وقت برباد کریں نہ میرا۔“
اُس نے بات تو مسکرا کر شروع کی تھی مگر جانے کیوں ختم شدید غصہ پرہوئی تھی کہ اُس کے کانوں کی لویں اور گالوں کے اُبھار سرخ ہوگئے تھے۔ دو عدد بٹنوں کے بغیر قمیض کے کھلے گریبان پر اُس کے دل کی تھر تھراہٹ دیکھی جاسکتی تھی۔
”دل جلے ہیں۔۔۔ مچھلی بکی نہیں۔۔۔ اس لئے پریشان ہیں۔۔۔ شام تک کسر پوری کر لیجئے۔“
اب کے میں نے احتیاط سے گفتگو کی تھی مگر میری کسی بات کا جواب دئیے بغیر اُس نے کڑاہی کے ٹھنڈے تیل میں چمچ ہلانا شروع کر دیا۔
اگرچہ وہ مجھے نظر انداز کررہا تھا مگرپتہ نہیں کیوں میرا جی چاہتا تھا کہ میں اُس سے باتیں کروں۔
”کہاں سے لے کر آتے ہیں مچھلی۔“
”مالک کے اپنے فارم ہیں۔“
”اوہ! یہ دکان آپ کی نہیں ہے۔“
”نہیں جی، مالک کی ہے۔“
میں نے دوسری سگریٹ نکالی۔ اُسے بھی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی۔ پھر وہ اون کے گولے کی طرح کھُلتاچلا گیا، بوسیدہ کپڑے کی طرح اُدھڑتا رہا، کبھی پھٹ پڑتا،کبھی ماند پڑ جاتا۔ ایک دفعہ تو اُس کے چھپے آنسو زبردستی نکلے اور اُس کی سفید داڑھی میں جا کر کہیں گم ہوگئے۔ وہ وہاں ایک سو روپے روزانہ پر کام کرتا تھا اور یہ کام کرتے ہوئے اُس نے اپنی حیات کی پتہ نہیں کتنی دہائیاں گزار دی تھیں۔  پتہ نہیں کتنے خبیث اُس کی مجبوری سے کب سے کھیلتے رہے تھے۔اُس نے دوسروں کے آنگن میں تو شہنائی کی آوازیں سنی تھیں لیکن اپنے آنگن میں بس ودائی اور الوداع کے بین ہی سنے تھے۔ ابھی بھی دو بہنیں گھر میں بیٹھیں اپنے شہزادوں کی منتظر تھیں۔
ہائے! یہ برگد۔۔۔۔۔ یہ توانا برگد۔۔۔۔ ان کے کندھوں پر کتنی ناتواں بیلوں کا بوجھ پڑ جاتاہے۔۔  یہ برگد ناتواں بیلوں کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے خود جھک جاتے ہیں۔ پھر کسی دن یہ ہوا کے ایک جھونکے کو بھی برداشت نہیں کر پاتے اور زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان گرے برگدوں کی بیلوں کا کیا بنتا ہو گا۔ وہ سہارے تلاش کرتی ہوں گی، کبھی کسی تنکے کو شیشم سمجھ لیتی ہوں گی،کبھی کیکر پر چڑھ کر بدن لہولہو کروالیتی ہوں گی اورکبھی کسی جوان برگد کی تلاش میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہوں گی۔ ایسا کیوں ہے؟ شہزادے اتنی دور کیوں ہیں۔
اُس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ آبشار مکڑا کی پگھلی برف کا پانی ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے نالوں کی صورت میں بہتا ہے پھر راستے میں کئی چھوٹی چھوٹی ندی نالوں کو ساتھ ملاتے ہوئے یہاں آ کر ایک آبشار کی صورت میں کنہار میں گرتا ہے۔ اس نالہ کے اردگرد فش فارم بھی بنائے گئے ہیں۔
اس طرح کی ایک بڑی آبشار جرید میں بھی ہے۔
سگریٹ ابھی سسک رہی تھی کہ شاہزیب نے میرے پا س آکر کہا،
”پاپا ابھی سٹوری میں اور بھی ٹوئسٹ آئیں گے۔ اگر برا نہ منائیں تو چلیں۔۔“
”جی جی بالکل۔“ یہ کہہ کر میں نے اپنے اُس دوست سے اجازت لی اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔