Sunday, October 21, 2018

میرے سفر نامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ کی چھٹی قسط




سکھوں کے امین                                                                                                     وارث اقبال

اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
جہاں پڑے ہیں نکیلے سے سرمئی کنکر
جہاں کی خاک پہ شبنم کے ہار بکھرے ہیں
شفق کی نرم کرن جس پہ جھلملاتی ہے
شکستہ اینٹوں پہ مکڑی کے جال ہیں جس جا
یہیں پہ دل کو نئے درد سے دو چار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
یہ نہر جس میں کبھی لہر بھی اٹھی ہوگی
جو آج دیدۂ بے آب و نور ہے گویا
جسے حباب کے رنگین قمقمے نہ ملے
بجائے موج جہاں سانپ رقص کرتے تھے
یہیں نگاہ تمنا کو اشک بار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
فضا میں لٹکی ہوئی کھوکھلی جڑیں جس کی
یہ ٹہنیاں جو ہواؤں میں تھرتھراتی ہیں
بتا رہی ہیں کہ ماضی کی یادگار ہیں ہم
انہیں کی چھاؤں میں شام جنوں سے پیار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
(شمیم کرہانی)

وہاں سے کچھ ہی دور ہمارے سامنے بھیرہ شہر کے آٹھ دروازوں میں سے ایک کے آثار دکھائی دے رہے تھے لیکن اس دروازے کو اشتہاروں اور بینروں نے آکٹوپس کی طرح یوں جکڑ رکھا تھا کہ نہ تو وہ اپنی شناخت بتانے کے قابل تھے نہ حیثیت۔ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے ا سکی کچھ اس طرح عصمت دری کی تھی کہ نہ جمال رہا اور نہ ہی کمال۔ رہی سہی کسر دکانوں، ٹھیلوں اور دورِ جدید کی ایجاد چنکچی نے پوری کر دی تھی۔
  یہ چنکچی رکشہ دروازے کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ لگتا تھاکہ اس دروازے کی حفاظت کی ذمہ داری انہی کو سونپی گئی تھی۔ ان میں دو چارتو اس جارحانہ انداز میں کھڑے تھے کہ جو بھی قدم آگے بڑھائے گا اْس پر حملہ آور ہو جائیں گے۔میں نے گاڑی سے اْتر کر جونہی دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو یہ  منحوس گھاں گھاں کرتے اس طرح میرے اوپر چڑھ دوڑے جس طرح بسنت کے آزاد دنوں میں  ڈھانگے لئے لڑکے کٹی پتنگ پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اور وہ بیچاری،  دکھی،  ہواؤں اور مانجے لگی ڈوروں کی ماری اپناکوئی انگ تڑوانے کے بعد کسی نہ کسی کے ڈھانگے میں اٹکنے میں ہی عافیت جانتی۔
اس دروازے کو دیکھ کر مجھے سکھ یاد آگئے جنہوں نے ہماری مسجدوں کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا تھا کہ فطرت بھی خو ن کے آنسو روتی رہی۔لیکن ہم خوداپنی آثارِ قدیمہ کے ساتھ ان سے بھی بدتر رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گویا ہم سکھوں کے امین ہونے کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ جو کام سکھ ادھورا چھوڑ گئے تھے ہم اُسے اُس کے  منطقی انجام تک پہچانے کی تگ و دو میں  لگے ہوئے ہیں۔  پتہ نہیں ہمارا محکمہ آثارِ قدیمہ کس تہہ خانے میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے یا این جی او ز سے ملنے والی امداد ہضم کرنے کے لئے ہاجمولا چاٹ کر سویا ہو ا ہے۔
 جب سے پاکستان بنا ہے اگر ذمہ دار افسران اور ادارے چند سو روپے بھی صرف کرتے رہتے تو ہمارے یہ آثارِ قدیمہ اپنی اصل شکل میں موجود ہوتے۔ لیکن شہروں سے حاصل ہونے والی کاماں جی اور این جی اوز کی طرف سے ملنے والی امداد چند بدکردار افسروں کے پیٹ میں جاتی رہی اورجارہی ہے۔
 میرے ایک دوست نے ان بدکردار لوگوں کے لئے ایک بڑی خوبصورت  سزا تجویز کی ہے وہ کہتا ہے کہ ان سب کو پکڑ کر ایک بہت ہی خوبصورت دعوت میں لایا جائے اور خوب کھانا کھلایا جائے۔ جب وہ کھا لیں تو انہیں جلو گھوٹا کھلادیا جائے۔ اور یہ عمل اس وقت تک دہرایاجائے جب تک یہ کسی  فلش میں اوندھے گرے اور مرے ہوئے نہ ملیں۔
ابلیس بے چارے ہی کو بے کار نہ کوسو
انسان کے اندر بھی شیاطین بہت ہیں
بخشیش کی صورت انہیں دیتے رہو رشوت
سرکار کے دفتر میں مساکین بہت ہیں
( محشر بدایونی)
خیر اللہ کا احسان تھا کہ مجھےاس دروازے میں جھانکنے کا موقع مل ہی گیا۔ اندر ایک لمبا بازار دکھائی دیا۔ جس کے اندر جا کر واپس آنا جْوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چنانچہ ہم اس درواز ے کے اندر ایک عدد گنجان بازار، ایک ٹرانسفارمر اور دروازے کے  ’ ادھ پچدھے‘  حصہ کا دیدار کر کے آگے بڑھ گئے۔     
تاریخ پنجاب کے مطا بق انگریز بادشاہ نے  مسلمانوں کی اکثر مسجدیں اور حویلیاں سکھوں سے واگزار کروا نے کے بعد مسلمانوں کے حوالے کر دی تھیں۔ ان عمارات کی مرمت اور تزئین و آرائش کی خاطر باقاعدہ انجنئیرز بھی لگائے گئے تھے۔ لیکن افسوس کہ جن امرا اور نوابوں کی انگریز صاحبوں کے درباروں تک رسائی تھی انہوں نے اپنی حویلیاں اور محل تو سنوار لئے اور عوامی ملکیتیں عوام کی ملکیت میں چھوڑ دیں۔ تم جانو اورتمہارا کا م۔ رہی قیامِ پاکستان کے بعد کی صورتِ حال تو وہ تو انگریزی دور سے بھی بدتر رہی ہے۔
اس شہر میں مجھے شیر شاہ سُوری بہت یاد آرہا تھا۔ اْ س نے کسی مینار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آنے والے کل کے خواب تو ضرور دیکھے ہوں گے۔ اس نے مینار کے جھروکے سے جھانک کر  اچھلتے کودتے،  اٹکھیلیاں کرتے کتنے ہی ہرن دیکھے ہوں گے،  اس نے مسجد کی طرف آتی نمازیوں کی قطاریں دیکھی تو ہوں گی،  اس نے وہ بڑھیا بھی دیکھی ہو گی جو سر پر سونا لاد کر دہلی سے یہاں آئی اور اْ سے کسی نے آنکھ اْٹھاکر نہ دیکھا۔ اْس نے سوچا تو ہوگا کہ میں نے یہاں کے رہنے والوں کے لئے اتنا کچھ کردیا ہے  کہ آنے والی نسلیں سکون سے زندگی گزار سکیں گی۔ جو نہیں کر سکا وہ آنے والی نسلیں کریں گی۔  اْس نے مسجد کے باہر جنگل میں لہلہاتے کھیت اور ان میں ہل چلاتے ہوئے امن پسند لوگ بھی دیکھے ہوں گے۔ وہ یہ سوچ کر سینہ تانے مینار سے نیچے مسجد کے صحن میں آیا ہو گا کہ میرے اس وطن کا مسقبل کتناتابناک ہے۔        لیکن لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھنڈو گے  اگر ملکوں ملکوں  ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
انگریزی سرکار نے اس شہر کی حفاظت کی غرض سے اس کی فصیل کے باہر ایک سڑک بنوائی تھی جسے سرکلر روڈ کہا جاتاہے۔ یہ سڑک کیا ایک گول یا بیضوی دائرہ ہے جس کے اندر شہر موجود ہے۔ ایک طرح سے یہ سڑک شہر کی حدبندی کا کام بھی کرتی ہے۔  آج بھی  اس سڑک کے ایک طرف  بھیرہ شہر کی شاندار عمارات اور دوسری طرف لہلاتے کھیت  ایک  خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔


______________________

  
سو ملین کی ڈکیتی                                                                                             وارث اقبال

فکر دلداریٔ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصۂ سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیئ گفتار کروں یا نہ کروں
(فیض احمد فیض)
میں جب  یہ سطریں رقم کر رہا ہوں تو میں فیض احمد فیض سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور سہما ہوا ہوں پتہ نہیں میرے اس احساس اور درد کی دوسرے کیا تعبیر  کریں ۔ میرے لفظوں کے پیراہن میں سے کون سا باطل یاشیطانی بدن تلاش کر لیں۔ لیکن میں پھر بھی لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی بندۂ خدا میرے درد کو محسوس کرے  اور کچھ ایسا کر دے کہ ہمارے بڑوں کا سرمایہ بچ جائےاور اُسی شان میں لوٹ آئے جس  میں اُس کے معمار نے قائم کیاتھا۔
ہم ایک دروازے کا دیدار کرنے کے بعد سرکلر روڈ پر ہی دوسرے دروازے کی طرف بڑھے تو اس دروازے کو کچھ بہتر حالت میں  پایا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ نے یہاں کے کسی بااثر شخص کے کہنے پر  اسے مرمت کر کے اس کی کچھ شکل و صورت تو نکالی تھی لیکن لوگوں نے اس پر اشتہارات کی بھرمار کر کے اس کی مت مار دی تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام اشتہارات عرس،  مذہبی محافل اور اکیڈمیز کے ہیں۔ یعنی اس دروازے کو جاہلوں یا ان پڑھوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پڑھے لکھوں سے ہے۔ کچھ پڑھے لکھے ہیں جو ان مقامات کی مرمت و تزئین کے لئے دئیے گئے پیسے کھا جاتے ہیں اورکچھ ان کا چہرہ بگاڑ دیتے ہیں۔  
    ایک بینک میں ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالنے کے بعد رفو چکر ہو گئے۔ ڈاکوؤں کے جانے کے بعد بینک مینجر نے بینک سپروائزر سے  پوچھا،
’’ حساب کتاب کر کے بتاؤ کتنے کا ڈاکہ پڑا۔‘‘
جب سپروائزر نے  کچھ دیر بعد بتایا کہ بینک میں  دس ملین کا ڈاکہ پڑا ہے۔ بینک مینیجر نے حکم دیا۔
” اس سے پہلے کہ پولیس آجائے پہلے اپنے  10 ملین نکال لیں۔“                              
        سپر وائزر نے پوچھا،                
         ”سر آپ پر جو ستر ملین کے غبن کا سچاالزام ہے اگر کہیں تو وہ بھی ا سی میں ڈال لوں۔“                          
        مینجر نے ہاں میں گردن ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ جو نکالنا  ہےجو ڈالنا ہے جلدی کرو۔‘‘
             شام کو ڈاکو خبر سن رہے تھے کہ بینک میں سو ملین کی ڈکیتی ہو گئی۔ تو بڑے ڈاکو نے سر پیٹتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے آہوں اور ہچکیوں میں کہا۔
”اسی لئیے میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتا ہوں تم میری ایک نہیں سنتے اگر اپنے بڑوں کا پیشہ زندہ رکھنا ہے تو کمبختو اپنے بچوں کو  زیادہ سے زیادہ تعلیم  دلاؤتاکہ وہ دس ملین کی نہیں سو ملین کی ڈکیتی کریں۔“         
گلہ تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا  لا إِلَہَ إِلاَّ اللَہ

______________________
  

کبھی آتش جوان تھا                                                                                                     وارث اقبال

ہم نے  اس شہر کے ایک دروازے کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے اُس کے اندر جانے کا فیصلہ کیا تو ہو کا عالم ملا۔ ہمیں لگا کہ اس شہرِ پر اسرار میں گھر تو ہیں لیکن مکین نہیں۔ لیکن ان بوسیدہ عمارتوں میں انسانی رہائش کے اثرات اور شواہد کافی واضح تھے۔ شاید یہاں کے لوگ ضرورت کے وقت ہی گھروں سے باہر نکلتے ہوں یا اس وقت اپنے روز مرہ امور کی انجام دہی کے لئے گھروں سے باہر تھے۔
یہاں گھروں کا اندازِ تعمیر مغلوں اور سکھوں کے ادوار کی عمارات سے ملتا جلتا تھا۔ ایک سے زیادہ منازل پر مشتمل یہ گھر اگرچہ مخدوش ہوچکے تھے لیکن ان کا اندازِ تعمیر بتارہا تھا کہ کبھی آتش جوان تھا۔
ہر گھر کا مرکزی دروازہ آج کل کے جدید کمروں کے دروازوں کے قد کاٹھ جیسا تھا۔  ہر دروازےسے پہلے ایک چبوترہ بنایاگیا تھا، چبوترہ کے درمیان تین چار سیڑھیاں تھیں  اور پھر آگے لکڑی سے بنادروازہ تھا۔ یہ دروازہ ایک محراب میں بنا یا گیا تھا اور دروازہ کے ٹھیک اوپر ایک روشن دان تھا۔ کچھ اسی طرح کا انداز کھڑکیوں کا بھی تھا۔
        عمارات چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھیں جن پر لکڑی کی چھت بنائی گئی تھی۔ جس طرح آج کل ٹیرس بنائے جاتے ہیں ان گھروں میں بھی لکڑی کے ٹیرس بنائے گئے تھے۔  لکڑی پر انتہائی عمدہ گلکاری کی گئی تھی۔ زیادہ تر عمارتوں کو پیلا رنگ کیا گیا تھا۔ عمارتوں کو پیلا رنگ کرنے کی روایت شاید سکھوں کے دور سے چلی آرہی تھی۔ تین تین تہوں کے اندر بنی ہوئی محرابوں میں کھڑکیا ں بنائی گئی تھیں۔ جن پر لکڑی کا خوبصورت کا م کیا گیا تھا۔ دیواروں پر رنگین اور دیدہ زیب گْل کاری کے آثار ابھی بھی بہت سی عمارات پر موجود ہیں۔
 شہر کی سبھی عمارتوں کاا ندازِ تعمیر کافی حد تک ایک جیسا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہ ساری عمارات ایک ہی وقت میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بنائی گئی تھیں۔         ان عمارات میں سے بہت سی عمارات قیامِ پاکستان کے وقت کی نقل مکانی کی داستانیں بھی بیان کرتی ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کی بنائی گئی بڑی بڑی حویلیاں جو یہاں کے مسلمانوں کے ہاتھ لگیں آج بھی رو رو کر اپنے بنانے والوں کے جذبہ اور شوق کو بیان کر رہی ہیں۔ سننے والے کان موجود ہوں تو ان حویلیوں میں قید کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔میں جب ان عمارتوں کے اصل مکینوں کے بارے میں سوچتاہوں تومیری روح تک کانپ اُٹھتی  ہے۔
 یہاں کہ مکینوں نے کیسے اپنے قدم باہر نکالے ہوں گے، نکالے بھی ہوں گے یا وہیں کہیں دفن کر دئیے گئے ہوں گے۔ کتنے ہوں گے جو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ان سپنوں کے محلات کے درو دیوار کے ساتھ لگ لگ کر روتے رہے ہوں گے، کتنے ہوں گے جنہیں رونے کی بھی مہلت نہ ملی ہو گی اور کتنے ہوں گے جو کسی صحن، کسی دالان یا کسی اندھیرے کنویں میں ابدی نیند سو گئے ہوں گے۔       
 اُف! جب شہروں پر مصیبت کا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے تو دیواریں بھی پناہ نہیں دیتیں، چھتیں سایہ فراہم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہیں اور دالان قبرستان بن جاتے ہیں۔ کنویں عصمتوں کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔ 
مجھے سکھوںکا ابتدائی دور بھی یاد آرہا ہے جب انہوں نے لاہور شہر کو لوٹا تھا۔۔مسجدوں میں بدکاریاں کی تھیں۔ مسلمان شہریوں نے اپنی عزتیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دی تھیں۔ اجتاماں جی قبروں کی کثرت اس قتل عام کی گواہ ہیں۔  کسی نے مقافاتِ عمل کو سمجھنا ہو تو  ان پرانی عمارتوں کو دیکھ لے۔ یہاں آکر چند لمحے گزار لے۔
ان حویلیوں کو بٹنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ آج یہ بٹتے بٹتے کمروں کی حد تک رہ گئی ہیں لیکن ابھی بھی ان کا جی نہیں بھرا مزیدبٹ رہی ہیں۔ لوگوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلیاں کر لی ہے۔ لیکن ان کی مرمت آرائش اور زیبائش کی طرف توجہ نہیں دی۔
 بھیرہ کے اندرون شہر کی جتنی عمارات میں نے دیکھیں ان سب کے رکھ رکھاؤ سے یہ واضح ہو رہاتھا کہ ان میں سے بہت سی ان کے مکینوں نے تعمیر نہیں کیں ورنہ وہ انہیں اپنی وراثت  سمجھتے ہوئے ان کی  قدر کرتے اور اس ورثہ کو سنبھال کر رکھتے۔  بے قدری اس قدر ہے کہ اگر کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تو وہاں گتہ لگا لیا گیا اور اگر گتہ ٹوٹ گیا تو دوسرا گتہ بھی لگانے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ گتوں کے بوسیدہ ٹکڑے مکینوں کی کاہلی اور سستی یا پھر انتہا کی مصروفیت کا رونا رو رہے ہیں۔ دنیا کا اعلیٰ ترین لکڑی کاکام اس بے دردی سے خراب کیاجارہا ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔  
 میں ایک عمارت کے قریب رک کر اس کی بربادی کی وجوہات تلاش کرتا رہا، غربت، جہالت یا کم علمی۔ لیکن مجھے اس کی وجہ سوائے سستی اور کاہلی کے کچھ بھی سمجھ نہ آئی۔  




______________________

  
مندر  جو کبھی بستا تھا۔                                                                                وارث اقبال

میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے
اور اپنا ہی پتہ بھول گیا
اب نہ وہ تو ہے نہ میں
نہ وہ راستہ ہے نہ  پیڑ
نہ وہ مندر ہے
نہ کٹیا
نہ چراغ
اب نہ وہ تو ہے نہ میں
اور وہ لوگ کہاں کیسے ہیں
میں جنہیں بھول کے خوش ہوں
جو مجھے یاد بھی آئیں
کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی
آؤ دیوار گرائیں
(مصحف اقبال توصیفی)
یہاں ایک مندر کا ذکر ضرور کروں گا۔  جسے اپنے زمانے میں بنانے والوں نے بہت دل لگا کر بنایا ہوگا، قیمتی پتھر، قیمتی اور اعلیٰ طرزِ تعمیر، اور اعلیٰ آرائش و زیبائش۔ لیکن یہ مندر ناصرف بند پڑاہے بلکہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
 مانا کہ یہ اب عبادت گاہ نہیں، مانا کہ اس کے مکین یہاں نہیں رہے لیکن کیایہ عمارت عہدِ رفتہ کی ایک بوسیدہ کہانی سے بھی کم حیثیت نہیں رکھتی۔ کیایہ عمارت ہمیں یہاں کے رہنے والوں کے علم،  ذوق اور ہنر کی بابت کچھ بھی علم مہیا نہیں کرتی۔ کیا یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے گزرے کل کے لوگ کتنے ہنر مند اور خوبصورتی سے پیار کرنے والے تھے ۔
 اس مندر کی گھنٹیاں خاموش ہیں۔سننے والوں کو  سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ یہ سسکیاں اس وجہ سے نہیں تھیں  کہ اس مندر کی گھنٹیاں  خاموش تھیں  ۔ اس کی وجہ کچھ اور تھی۔  کوئی بھی عمارت  بس عمارت ہوتی ہے۔ وہاں جو آ گیا وہ اُسی کی ہوگئی۔ آنے والے کا جو نظریہ یا فکر ہوئی اُ س نے وہ اختیار کر لی ۔ کیا اس مندر کو عمارت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔۔ کیا اس مندر کو ایک لائبریری بھی نہیں بنایا جا سکتا۔۔ کیااس  ’ مرکز کفر ‘  کو دھو دھا کر، پاک صاف کر کے اس  میں اسکول نہیں بنا یا جا سکتا۔ کیا یہ کسی بے گھر کے سر چھپانے کی جگہ بننے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔۔
ہاں شاید نہیں رکھتا تھا جبھی تو اس کی بے قفل جگہ اور اس سے ملحقہ باغ نشہ کرنے والوں کی آمجاگاہ بن چکا تھا۔
      میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظریں مندر کے اوپر بنے تاج کی سنہری پتیوں،  مٹیالے رنگ کے پتھر پر بنائی گئی سبز پتیوں اور سرخ پھولوں پر جا کر جم گئیں۔          مجھے اپنے قرطاسِ ذہن پر اس مندر کی عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے بچے کتب بینی میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک شخص سیڑھی لگا کر اس تاج کو صاف کر رہاتھا۔ پانچ چھ
بچے اس لائیبریری سے ملحقہ باغ میں کھیل رہے تھے، کچھ ایک کونے میں بیٹھے اسکول کا کام کر رہے تھے۔ ایک بابا جی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص ہنس ہنس کر فون پر باتیں کر رہا تھا۔
 لیکن اچانک اس مندر کے قفل شدہ دروازہ کے  بالکل سامنے نسل در نسل سنبھال کر رکھے گندگی کے ڈھیر سے اْٹھنے والے تعفن نے مجھے مستقبل کے خوبصورت خواب سے باہر آنے پر مجبور کر دیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار و اختیار کو ایسے خواب کیوں نہیں آتے۔                                 ہائے!   ایسی سوچیں میرے حاکم اور میرے منتظم شہر کے اذہان پرکیوں دستک نہیں دیتیں۔
           جہاں تک اس شہر کا تعلق ہے تو کیا  اس شہر کے باسیوں کو کسی نئے شہر میں منتقل کر کے اس شہر کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ شہر اس کے باسیوں کے لئے آمدن کا ایک معقول ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور عہدِ رفتہ کی ایک خوبصورت یاد گار بھی۔ 
 اس شہر کہ آٹھ دروازوں میں سے کچھ کو وقت کا اژدہا کھا چکا ہے۔ جوموجود تھے ان میں سے چند ہم نے دیکھے،  ایک دو جگہ اس شہر کی فصیل بھی دیکھی اور اس قیمتی وراثت کی حالتِ زار پر خون کے آنسو بہاتے ہوئے  اس شہر ِ پارینہ سے باہر آگئے۔ 
 کھانا کھانے کی غرض سے ایک ہوٹل کو عارضی قیام گاہ بنا کر وہاں بیٹھ گئے۔ میری مسز پسینہ پونچنے لگیں اور بچے ٹیب اور سیل فون سے کھیلنے لگے۔ عابد کو ایک کونے میں رکھا چھوٹا ساٹی وی مل گیا اور وہ خبریں سن کر اپنی تھکان اْتارنے لگا۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کامالک  سانولہ سا جوان لڑکا تھا جو اپنے صاف ستھرے بھورے کڑھائی والے کرتا شلوار،                                                                                                                        اْ  ٹھنے بیٹھنے اور بول چال سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس سے اس شہر کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے یکسر لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میرے پاس آکر اپنی چھوٹی سی سیاہ داڑھی کو کان کے پاس سے کھجاتے ہوئے بولا،
          ”سر جی! یہاں ایک مسجد ہے جس میں ایک ایسی سرنگ ہے جو دریائے جہلم کے پار جاتی ہے۔  ادھر سر جی ایک گھر بھی ہے جس پر پہرا ہے۔ لوگوں نے وہاں رونے کی اور ہنسنے کی آوازیں بھی سنی ہیں۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ وہاں چڑیلیں رہتی ہیں۔“
 میں نے سوچا یا ر ہم تو پریوں سے ملا قات کا ہدف لے کر نکلے تھے اور یہ صاحب ہمیں چڑیلیں دکھا رہے ہیں۔                 میں حیران تھاکہ یہ وہ شہر ہے جس کے فن کار باقاعدہ ایک امتحان پاس کرنے کے بعد  برمنگھم پیلس پرکام کرنے کے لئے گئے اور ایسا کام کیا کہ آج بھی لوگ ان کے ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ لیکن آج اْن کاکوئی وارث موجود نہیں۔
 دکھ تو یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کو شیعہ سنی مسئلوں کا بہت پتہ تھا۔  جب میں نے پرانے اخبارات دیکھے تو پتہ چلا کہ یہاں یہ مسئلہ کافی شدت سے موجود تھا۔
 تاریخ بتاتی ہے کہ یہ شہر ہمیشہ حملہ آوروں کے زیرِ عتاب رہا۔ اپنوں کے ہاتھوں بھی یہ شہرتاراج ہوتا رہا۔ اس  لحاظ سے اس شہر کے لوگوں کو تو آزادی کی زیادہ قدر ہونی چاہئے۔   اس چھوٹے سے شہر کو ایک مثالی شہر ہونا چاہئے۔اور ہمارے نصاب میں اس شہر کی تاریخ کا مطالعہ شامل ہونا چاہئے۔          تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ادوار سے عمومی طور پر اور اسلامی ادوار میں خصوصی طور پر یہ شہر علم و ادب کی آماجگاہ رہاہے۔ لوگ دوردور سے یہاں علم کے حصول کے لئے آتے۔ اس شہر سے جسٹس پیر کرم شاہ،  جے سی آنند،  احسان الحق پراچہ جیسی کئی اہم شخصیات نے جنم لیا۔  آج بھی یہاں کئی اسکول کالجز موجود ہیں۔                             یہاں کے لوگ بزرگوں اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ جن کے گدی نشینوں کے آستانے جا بجادیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس علاقہ کے لوگوں کا رہن سہن، خوراک اور لباس ویسا ہی ہے جو پنجاب کے دیگر شہروں کے لوگوں کا ہے۔  البتہ یہاں جوزبان بولی جاتی ہے وہ پنجابی اور پوٹھواری کا خوبصورت ملاپ ہے۔                                                                                       شیکسپئیر نے کہیں کسی جگہ کے حوالے کہا تھا۔
I like this place and could willingly waste my time in it.
  میں نے اس شہر سے بہت کچھ سیکھا۔ اگر مجھے یہاں دوبارہ آنے کا موقع ملا تو میں یہاں رہ کر اس کے بارے میں مزید بہت کچھ لکھ سکوں گا۔  میں یہ بھی چاہوں گا کہ لوگ بھیرہ انٹر چینج تک ہی محدود نہ رہیں۔ اندر شہر میں بھی جائیں،  خاص طور پر بچوں کو تو یہاں ضرور لے کر جانا چاہئے۔ شاید اس طرح کبھی کسی شاہ کو اس عظیم اور قیمتی شہر کو محفوظ کرنے کا خیال بھی آ جائے۔بقول  شاد عظیم آبادی
میں حیرت و حسرت کا مارا  خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

Wednesday, October 17, 2018

ضمنی انتخابات ۲۰۱۸میں تحریکِ انصاف کی پست حالی کے تانے بانے


ضمنی انتخابات  ۲۰۱۸میں تحریکِ انصاف کی پست حالی کے تانے بانے
انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مسیحا کامنتظر رہا ہے۔ وہ مسیحا کا منتظر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔وہ تبدیلی کا خواہاں اس لئے ہوتا ہے کہ وہ  اپنے موجودہ نظام سے بےزار ہوجاتا ہے۔۔۔اُکتا جاتا ہے۔ تبدیلی کا منتظر یہ انسان ہر اُس نعرے کو سچ مان لیتا ہے جواُس کی اندر کی آوازوں کے قریب ترین ہوتا ہے۔۔۔۔وہ ہر اُس شخص کو اپنا مسیحا مان لیتا ہے جو اُس کے مسائل کی بات کرتا ہے۔۔۔۔یہ بدنصیب انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ بس اب اُس کے برے دن گئے اور اُس کی آزمائشوں کا وقت ختم ہوا۔
ہم بدنصیبوں نے بھی کچھ سال پہلے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اپنی آواز ملانا شروع کر دی۔ اس نعرے کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے۔۔۔۔اُس دن کا انتظار کرنے لگے جب تبدیلی کے دعوےدار مسیحا بن کر تخت ِحکومت پر جلوہ افروز ہوں گے۔ پھر وہ دن آگیاجب تبدیلی کی لہر چلتے چلتے ایوانِ اقتدار تک جا پہنچی۔۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ ہی دنوں میں ہمارے جیسے بے شمار اپنے کئے پر پچھتانے لگے۔۔۔اپنےاُن  خوابوں پر رونے لگے جو چکنا چور ہوگئے ۔۔۔اور  اپنی اُن بچگانہ خواہشوں پر مارتم کرنے لگے جو ہم نے تبدیلی کے ساتھ وابستہ کر لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے جیسے بہت تھے۔۔۔۔
تو پھر کیا نتیجہ نکلا۔۔۔۔۔۔۔تحریکِ انصاف ضمنی انتخاب میں  اپنی ہی  جیتی ہوئی کئی سیٹوں پر ہار گئی۔۔۔۔۔میرے اپنے حلقے این اے اکتیس لاہور سے تحریک انصاف کے کئی ہزار ووٹ کم ہوگئے۔۔۔میں پریشان ہوا ۔۔۔دکھی ہوا۔۔رنجیدہ ہوا۔۔ میرے انگوٹھے پر لگی سیاہی  مجھے تڑپانے لگی۔۔۔ مجھے لگا  میرا ووٹ کہیں جوہڑ میں بہہ گیا ہے۔۔۔میرے ووٹ کے باوجود تحریک انصاف کو ایسی بری شکست کیوں ملی۔ ۔۔۔۔۔۔ میرا یہ دکھ  اورمیری یہ رنجیدگی مجھے گھر سے باہر لے آئی  اور میں نے گلی گلی ،قریہ قریہ جوگیوں ، سنتوں کی طرح پھرنا شروع کر دیا ۔ میں لوگوں سے بس ایک ہی سوال کرتا ۔۔۔۔۔۔
’’ تم نے تحریک انصاف کو ووٹ کیوں نہیں  دیا؟‘‘
شام تک  مجھے جو جوابات ملے  ان کے مطالعہ کے بعد میں نے وہ عوامل تلاش کر لئے جو تحریک انصاف کی ناکامی کی وجہ بنے۔
۱۔           گیس کی بڑھتی قمیتوں نے روٹی کو بھی گھیر لیااور روٹی کی قیمت بڑھ گئی۔   جب اناج کی قیمت بڑھتی ہے تو سب کچھ مہنگا             ہوجاتا ہے۔ یوں مہنگائی کا عفریت نکل آیا۔
۲۔          قبضہ مافیا کو پکڑتے پکڑتے  حکمرانوں کی لاٹھی غریبوں کے سر پر بھی برسنے لگی۔۔۔ قبضہ مافیا کے شاپنگ پلازاؤں  کے ساتھ غریبوں کے گھر  بھی گرائے جانے لگے۔
۳۔          ہیلمنٹ  نہ پہننے کی سزا اتنی زیادہ رکھ دی  گئی کہ لوگوں نے اپنی موٹر سائیکلیں  گھروں میں بند کر دیں۔
۴۔          ٹریفک قوانین کے سخت نفاذ کے ذریعے لاہور شہر کو سیف سٹی  بنانے والوں  نے اتنے بڑے بڑے جرمانے کرنا شروع کر دئیے۔۔۔کہ غریب بیچارے جھولیاں اٹھا اٹھاکر بدعائیں دینے لگے۔
۵۔          ای ٹکٹنگ کا بے ہودہ نظام جو کسی طور بھی پاکستان کے لئے بنا ہی نہیں۔  سڑک پر آنے والا ہرکرایہ دار پریشان ہوگیا کہ میرے شناختی کارڈ پرتو پرانے گھر کا پتہ ہے۔۔۔وہاں اگر ای چلان آتا رہا تو مجھے کیسے پتہ چلے گا۔۔۔اور اگر پتہ چلا تو اس وقت۔۔۔۔گاڑی ہی بند ہوجائے گی۔
۶۔          ایسی  قانون سازی کی خبریں کہ جس میں شہری یہ سمجھنے لگے ۔۔لیں یہ نئی  مصیبت آگئی۔۔۔ مثلاً ٹیکس کی فائل حاصل کئے بغیر آپ نہ اپنی گاڑی بیچ سکتے ہیں نہ خرید سکتے ہیں۔۔۔۔وہ فائل کیسےحاصل ہوگی کچھ پتہ نہیں ۔۔
۷۔         اگر کسی  کونسل میں غیر فعال کونسلر ہو تو وہ برداشت نہیں ہوتا اور اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِ اعلی  غیر فعال ہو تو کون برداشت کرے گا۔ جنگ کے میدان میں  دشمن کے ہتھیار کے مطابق ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور دشمن کے سپاہی کے مقابلے میں مقابلے کا ہی  سپاہی  بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔۔اس حوالے سے وزیراعظم کے تمام دلائل کو پنجاب کی عوام محض ہٹ دھرمی اور ضد سمجھتے ہیں۔۔۔۔ایک کارکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خان صاحب نے اس حوالے سے پنجاب کی توہین کی ہے۔۔اس میدان میں ایک مضبوط ، اہل اور قائدانہ صلاحیتوں کے  حامل شخص کو لاناچاہئے تھا۔
۸۔          تحریک انصاف کے پاس جب حکومت تھی تو اُس وقت بھی یہ جماعت ایک جماعت کم ایک ہجوم زیادہ تھی۔۔اُس وقت تو ایک میدان میں جمع ہونا  ہی مقصد تھا مگر اب تو حکومت ہے ۔۔۔۔۔۔حکومت کو حکومت کے طریقے سے چلایا جانا چاہیے نہ کہ ہجوم کے طریقے سے۔۔۔۔اس کے کارندوں کو انفرادی فیصلے بھی کرنا چاہئیں ۔۔ہر کام میں بنی گالا کی طرف منہ کر کے تو آوازیں نہیں دینی چاہئیں۔۔۔ بلکہ  فیصلے کرنے چاہئیں ۔۔۔وزیر اعظم نےبڑے  فیصلے  خودکر کر کے  اپنے ساتھیوں کا اعتماد اتنا مفلوج کر دیا ہےکہ اب وہ ہر فیصلے کے لئے بنی گالا کی طرف دیکھتے ہیں۔
۹۔          پچھلی حکومت کی باقیات جو پارٹی  کے اندر ہیں  اور باہر حکومت کے ایوانوں میں ہیں۔۔۔۔۔۔ان سے بچنا ہے۔۔۔جو بہت مشکل ہے۔
              یہ تو ایک تجزیہ تھا جو لوگوں نے بتایا اور میں نے اخذ کر لیا۔ اب اس تجزئیے کا نتیجہ بہت    ’’ الارمنگ ‘‘ ہے۔
حکومتی بنچ اپوزیشن کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر آنا چاہتی ہے تو آجائے۔۔۔۔۔تو جناب  اپوزیشن دھاندلی کے خلاف کنٹینر  کبھی نہیں سنبھالے گی۔۔۔لیکن اگر وہ مہنگائی کے خلاف نکل آئی تو حکومت کا بس نہیں چلے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہجوم تحریکوں کا مقابلہ نہیں کیا کرتے۔ یاد رہے پیٹ پر ہاتھ رکھے لوگوں کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے اور مہنگائی کے خلاف  تحریکیں بہت کم ناکام ہوتی ہیں۔
میرے خیالوں میں  ایک سنہری طوطا بستا ہے میری یہ سب کہانی سن کر وہ  کیا کہتا ہے۔
ایک سال میں حکومت کے خلاف  مہنگائی کے حوالے سے تحریک چلے گی۔
’’ سنہری طوطے‘‘                  کا مشورہ  ہے کہ  حکومت ایسے قوانین بنائے  جس کے تحت عوام کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور ایسے  قوانین ہٹائے  جو عوام کو دفتروں میں الجھائے رکھتے ہیں۔( یاد رہے دفتری کاروائیاں رشوت ستانی  کو جنم دیتی ہیں۔)
اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس ملک کی اکثریت غریب ہے ۔ غریب کے اوپر اگر ایک روپے کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا تو وہ اُس پر لاکھ کے برابر ہوگا۔
آخری  اور حتمی بات:
یہ حکومت کسی چیز سے نہ ڈرے مگر ڈرے غریب سے۔


ضمنی انتخابات ۲۰۱۸میں تحریکِ انصاف کی پست حالی کے تانے بانے


ضمنی انتخابات  ۲۰۱۸میں تحریکِ انصاف کی پست حالی کے تانے بانے
انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مسیحا کامنتظر رہا ہے۔ وہ مسیحا کا منتظر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔وہ تبدیلی کا خواہاں اس لئے ہوتا ہے کہ وہ  اپنے موجودہ نظام سے بےزار ہوجاتا ہے۔۔۔اُکتا جاتا ہے۔ تبدیلی کا منتظر یہ انسان ہر اُس نعرے کو سچ مان لیتا ہے جواُس کی اندر کی آوازوں کے قریب ترین ہوتا ہے۔۔۔۔وہ ہر اُس شخص کو اپنا مسیحا مان لیتا ہے جو اُس کے مسائل کی بات کرتا ہے۔۔۔۔یہ بدنصیب انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ بس اب اُس کے برے دن گئے اور اُس کی آزمائشوں کا وقت ختم ہوا۔
ہم بدنصیبوں نے بھی کچھ سال پہلے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اپنی آواز ملانا شروع کر دی۔ اس نعرے کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے۔۔۔۔اُس دن کا انتظار کرنے لگے جب تبدیلی کے دعوےدار مسیحا بن کر تخت ِحکومت پر جلوہ افروز ہوں گے۔ پھر وہ دن آگیاجب تبدیلی کی لہر چلتے چلتے ایوانِ اقتدار تک جا پہنچی۔۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ ہی دنوں میں ہمارے جیسے بے شمار اپنے کئے پر پچھتانے لگے۔۔۔اپنےاُن  خوابوں پر رونے لگے جو چکنا چور ہوگئے ۔۔۔اور  اپنی اُن بچگانہ خواہشوں پر مارتم کرنے لگے جو ہم نے تبدیلی کے ساتھ وابستہ کر لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے جیسے بہت تھے۔۔۔۔
تو پھر کیا نتیجہ نکلا۔۔۔۔۔۔۔تحریکِ انصاف ضمنی انتخاب میں  اپنی ہی  جیتی ہوئی کئی سیٹوں پر ہار گئی۔۔۔۔۔میرے اپنے حلقے این اے اکتیس لاہور سے تحریک انصاف کے کئی ہزار ووٹ کم ہوگئے۔۔۔میں پریشان ہوا ۔۔۔دکھی ہوا۔۔رنجیدہ ہوا۔۔ میرے انگوٹھے پر لگی سیاہی  مجھے تڑپانے لگی۔۔۔ مجھے لگا  میرا ووٹ کہیں جوہڑ میں بہہ گیا ہے۔۔۔میرے ووٹ کے باوجود تحریک انصاف کو ایسی بری شکست کیوں ملی۔ ۔۔۔۔۔۔ میرا یہ دکھ  اورمیری یہ رنجیدگی مجھے گھر سے باہر لے آئی  اور میں نے گلی گلی ،قریہ قریہ جوگیوں ، سنتوں کی طرح پھرنا شروع کر دیا ۔ میں لوگوں سے بس ایک ہی سوال کرتا ۔۔۔۔۔۔
’’ تم نے تحریک انصاف کو ووٹ کیوں نہیں  دیا؟‘‘
شام تک  مجھے جو جوابات ملے  ان کے مطالعہ کے بعد میں نے وہ عوامل تلاش کر لئے جو تحریک انصاف کی ناکامی کی وجہ بنے۔
۱۔           گیس کی بڑھتی قمیتوں نے روٹی کو بھی گھیر لیااور روٹی کی قیمت بڑھ گئی۔   جب اناج کی قیمت بڑھتی ہے تو سب کچھ مہنگا             ہوجاتا ہے۔ یوں مہنگائی کا عفریت نکل آیا۔
۲۔          قبضہ مافیا کو پکڑتے پکڑتے  حکمرانوں کی لاٹھی غریبوں کے سر پر بھی برسنے لگی۔۔۔ قبضہ مافیا کے شاپنگ پلازاؤں  کے ساتھ غریبوں کے گھر  بھی گرائے جانے لگے۔
۳۔          ہیلمنٹ  نہ پہننے کی سزا اتنی زیادہ رکھ دی  گئی کہ لوگوں نے اپنی موٹر سائیکلیں  گھروں میں بند کر دیں۔
۴۔          ٹریفک قوانین کے سخت نفاذ کے ذریعے لاہور شہر کو سیف سٹی  بنانے والوں  نے اتنے بڑے بڑے جرمانے کرنا شروع کر دئیے۔۔۔کہ غریب بیچارے جھولیاں اٹھا اٹھاکر بدعائیں دینے لگے۔
۵۔          ای ٹکٹنگ کا بے ہودہ نظام جو کسی طور بھی پاکستان کے لئے بنا ہی نہیں۔  سڑک پر آنے والا ہرکرایہ دار پریشان ہوگیا کہ میرے شناختی کارڈ پرتو پرانے گھر کا پتہ ہے۔۔۔وہاں اگر ای چلان آتا رہا تو مجھے کیسے پتہ چلے گا۔۔۔اور اگر پتہ چلا تو اس وقت۔۔۔۔گاڑی ہی بند ہوجائے گی۔
۶۔          ایسی  قانون سازی کی خبریں کہ جس میں شہری یہ سمجھنے لگے ۔۔لیں یہ نئی  مصیبت آگئی۔۔۔ مثلاً ٹیکس کی فائل حاصل کئے بغیر آپ نہ اپنی گاڑی بیچ سکتے ہیں نہ خرید سکتے ہیں۔۔۔۔وہ فائل کیسےحاصل ہوگی کچھ پتہ نہیں ۔۔
۷۔         اگر کسی  کونسل میں غیر فعال کونسلر ہو تو وہ برداشت نہیں ہوتا اور اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِ اعلی  غیر فعال ہو تو کون برداشت کرے گا۔ جنگ کے میدان میں  دشمن کے ہتھیار کے مطابق ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور دشمن کے سپاہی کے مقابلے میں مقابلے کا ہی  سپاہی  بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔۔اس حوالے سے وزیراعظم کے تمام دلائل کو پنجاب کی عوام محض ہٹ دھرمی اور ضد سمجھتے ہیں۔۔۔۔ایک کارکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خان صاحب نے اس حوالے سے پنجاب کی توہین کی ہے۔۔اس میدان میں ایک مضبوط ، اہل اور قائدانہ صلاحیتوں کے  حامل شخص کو لاناچاہئے تھا۔
۸۔          تحریک انصاف کے پاس جب حکومت تھی تو اُس وقت بھی یہ جماعت ایک جماعت کم ایک ہجوم زیادہ تھی۔۔اُس وقت تو ایک میدان میں جمع ہونا  ہی مقصد تھا مگر اب تو حکومت ہے ۔۔۔۔۔۔حکومت کو حکومت کے طریقے سے چلایا جانا چاہیے نہ کہ ہجوم کے طریقے سے۔۔۔۔اس کے کارندوں کو انفرادی فیصلے بھی کرنا چاہئیں ۔۔ہر کام میں بنی گالا کی طرف منہ کر کے تو آوازیں نہیں دینی چاہئیں۔۔۔ بلکہ  فیصلے کرنے چاہئیں ۔۔۔وزیر اعظم نےبڑے  فیصلے  خودکر کر کے  اپنے ساتھیوں کا اعتماد اتنا مفلوج کر دیا ہےکہ اب وہ ہر فیصلے کے لئے بنی گالا کی طرف دیکھتے ہیں۔
۹۔          پچھلی حکومت کی باقیات جو پارٹی  کے اندر ہیں  اور باہر حکومت کے ایوانوں میں ہیں۔۔۔۔۔۔ان سے بچنا ہے۔۔۔جو بہت مشکل ہے۔
              یہ تو ایک تجزیہ تھا جو لوگوں نے بتایا اور میں نے اخذ کر لیا۔ اب اس تجزئیے کا نتیجہ بہت    ’’ الارمنگ ‘‘ ہے۔
حکومتی بنچ اپوزیشن کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر آنا چاہتی ہے تو آجائے۔۔۔۔۔تو جناب  اپوزیشن دھاندلی کے خلاف کنٹینر  کبھی نہیں سنبھالے گی۔۔۔لیکن اگر وہ مہنگائی کے خلاف نکل آئی تو حکومت کا بس نہیں چلے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہجوم تحریکوں کا مقابلہ نہیں کیا کرتے۔ یاد رہے پیٹ پر ہاتھ رکھے لوگوں کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے اور مہنگائی کے خلاف  تحریکیں بہت کم ناکام ہوتی ہیں۔
میرے خیالوں میں  ایک سنہری طوطا بستا ہے میری یہ سب کہانی سن کر وہ  کیا کہتا ہے۔
ایک سال میں حکومت کے خلاف  مہنگائی کے حوالے سے تحریک چلے گی۔
’’ سنہری طوطے‘‘                  کا مشورہ  ہے کہ  حکومت ایسے قوانین بنائے  جس کے تحت عوام کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور ایسے  قوانین ہٹائے  جو عوام کو دفتروں میں الجھائے رکھتے ہیں۔( یاد رہے دفتری کاروائیاں رشوت ستانی  کو جنم دیتی ہیں۔)
اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس ملک کی اکثریت غریب ہے ۔ غریب کے اوپر اگر ایک روپے کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا تو وہ اُس پر لاکھ کے برابر ہوگا۔
آخری  اور حتمی بات:
یہ حکومت کسی چیز سے نہ ڈرے مگر ڈرے غریب سے۔