Friday, May 12, 2017

پریوں کی تلاش سے ایک اقتباس۔ لالہ زار ناران میں پھلوں کی بارات Lala zar Naran Pakistan Bed of flowers

۔ اگرچہ یہ پھولوں کا  ایک طسلماتی جہان ہے لیکن اس میدان اور اس کے ارد گرد موجود  آلو کی کاشت کے کھیت اس کی خوبصورتی  کو ایک منفرد رنگ دیتے ہیں۔    اس کے پیچھے موجود لامبے درختوں پر اترتے سفید بادل اسے  ایک خواب بنا دیتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھتے جائیں یہاں تک    کہ خوابوں کے اس نگر کا حصہ بن جائیں۔ سبز پودوں میں سے جھانکتے ان گنت رنگوں کے پھول انسان کو جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان کی تازگی اندر تک اترتی محسوس ہوتی ہے۔ان کے پیچھے موجود سبز مخملی چادر اوڑھے  پربت شرماتے شرماتے  اپنی طرف بلاتے ہیں۔
آئینے سے ہر اک شکل نکھری سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری
یہ پربت ہے خاموش ساکن
کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے دامن میں وادی ہے وادی میں ندی
ہے ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے
( میرا جی)
جہاں پھول ہوں وہاں تتلیاں  آ ہی جاتی ہیں ۔ مگر یہ تتلیاں تو اسی بستی کی تھیں۔ وہی رنگ  جو پھولوں کا تھا وہی نین نقش جو پھولوں کے تھے۔ ہنستی مسکراتی ، بے غم  اپنی لگن اور مستی میں مگن۔
 وہ تتلیاں جو پھولوں پر منڈلا رہی تھیں
ناجانے انہیں کیا سمجھا رہی تھیں
کچھ بتا رہی تھیں ، آنکھیں چرا رہی تھیں
مگر بہت احتیاط کے ساتھ
 انہیں کوئی جلدی نہیں تھی
ہاں
 وارفتگی تھی مگر دیوانگی نہ تھی
 وہ پھولوں کو گیت سنا رہی تھیں
 ان کے کانوں میں کچھ بتا بھی رہی تھیں
 کچھ شرما رہی تھیں کچھ چھپا بھی رہی تھیں
پھولوں کا لہرانا، پھولوں کا مسکرانا
 اقرار تھامحبت کا
مگر بہت احتیاط کے ساتھ
 انہیں کوئی جلدی نہیں تھی
 اک تتلی نے ہولے سے پھول کے کان میں کہا
میں آتی ہوں تم سوچ لو
پھول نے شرما کر اپنے دوست کے گلے میں بانہیں  ڈال دیں
 یہ اقرار تھا محبت کا
مگر بہت احتیاط کے ساتھ
 انہیں کوئی جلدی نہیں تھی
ابھی بہار کی پوری رت  پڑی تھی۔
برف گرنے میں ابھی بہت دیر تھی۔
 اسی لئے وہ محبت کر رہے تھے
مگر بہت احتیاط کے ساتھ
 انہیں کوئی جلدی نہیں تھی
 پھر جب برف گرے گی سب سو جائیں  گے
 اپنی ہی  بانہوں کی چادر اوڑھ کر
پھر راتوں کے اندھیروں میں یادوں کے سویرے ہوں گے
پھر  برفانی ہواؤں میں  تتلیوں  کے بدن سے اٹھتی خوشبوکے پھریرے ہوں گے
 مگر بہت احتیاط کے ساتھ
 انہیں کوئی جلدی نہیں
تتلیوں کے بدن کا حصہ بنی پھولوں کی خوشبو
برفانی تاریک راتوں میں
تتلیوں کے وجود تک کو گدگداتی رہے گی
تتلیاں اس خوشبو سے  کچھ بُنتی رہیں گی
 کوئی نیا تانا بانا
 فطرت  کے نئے مہمانوں  کے وجود کا تانا بانا
پھر برف  ہٹے گی
دھوپ کی کرنیں ان نئے مہمانوں کو گد گدائیں  گی
جگائیں گی اور کچھ بتلائیں گی
پھر
یہ خوشبو
پھولوں کے وجود کی خوشبو
 ہوا ؤں میں ، فضاؤں  میں
پھیل جائیں گی
تتلیاں بن کر
 مگر
مگر بہت احتیاط کے ساتھ

 انہیں کوئی جلدی نہیں 

ہپنزہ کے لئے For Hunza Pakistan

کچھسال پہلے میں  نے یہ نظم لکھ کر ایک خواب دیکھا تھا۔ پھر مجھےہنزہ نام کی ایک ایسی بستی ملی جو  میری اس نظم میں دیکھے خواب کی تعبیر نکلی۔مکمل نہ سہی قریب ترین۔ جنہوں  نےہنزہ اور ہنزہ کے لوگوں کو دیکھا ہے اُن کی کیا رائے ہے۔  ضرور بتائیے۔

چل پڑا ہوں  یہ سوچ کر انجانی راہوں پرکہ
 کسی موڑ پہ مالک نے  اک آگہی نئی چھپا رکھی ہو ۔
دورکسی میدان میں اک ننھی سی کونپل  ملےکہ
جس میں رب نے حیاتِ جاودانی بسا رکھی ہو۔
جہاں  بندےخدا کے انسانوں کی طرح رہتے ہوں،
 انسانوں نےکسی  دریاکے پیچھے شاید کوئی بستی  بسارکھی ہو،
پہاڑوں کے سر سے گرتے ہوئے کسی جھرنے کےپیچھے
ایسے لوگ ہوں جنہیں بھوک نہ لگتی ہو،
جسم کی بھوک، 
دماغ کی بھوک ،
روح کی بھوک۔
آزاد ہوں جو ہر کرب سے،
 روزگار کا کرب،
 شادمانی کو پانے کا کرب،
رشتوں کے نباہ کا کرب،
آبِ حیات کو پانے کا غم،
شاید کہ کسی قوسِ قزاح کے رنگوں میں چھپے ایسے چہرے ملیں،
جن میں سادگی ہو ،
حیا ہو ،
 پاسداری ہو
پاکبازی ہو،
شک ، انا، نفرت جن کے پاس سے نہ گذری ہو
محبت جن کی روحوں میں رچی ہو
جو اقتدا و اختیار کی ہوس سے پاک ہوں
جن کااندر  باہر ایک ہو
جن کا خدا ایک ہو ،
 جن کارسول ایک ہو،
جن کا جھنڈا ایک ہو،
 جن کی منزلیں ایک ہوں
کاش کسی برف سے ڈھکے جہانِ سفید میں کوئی ایسی بستی ہو،
 جن کا حساب کتاب  اُسی بستی میں ہو،
 جن کی نہ کوئی جنت ہو نہ کوئی دوزخ ہو،
کہ جس کو پانے یا کھونے کا کسی کو ملال نہ ہو۔
  جو انسان ہوں ، جو بندے ہوں اپنے رب کے،
 اُس کے کرم سے ، اُس کی خواہش سے بندھے ہوئے بندے۔
وارث


perindon ko Khula Asman dy dw پرندوں کو کھلا آسمان دے دو۔

یہ لیڈر کیوں پاناما پاناماکرتے ہیں
ہر روز کیوں کوئی نیا ہنگامہ کرتے ہیں
 انہیں جمہور کے غموں کاعلم کہاں
اک دفعہ  ہی  گیا ہو خان  کسی سرکاری ہسپتال  میں
 بتائی ہوں چند ساعتیں  زرداری نے کسی ٹوٹی گلی  میں
دیکھے ہوں شریفوں نے دھوپ میں ابلتے گڑوں کے حال
سب  پیسوں کی جھنکار کی باتیں کرتے ہیں
انہیں جمہور کے غموں کاعلم  کہاں
 ان میں سے کس کا بیٹا  ٹائروں میں   اپنی راتیں بسر کرتا ہے
کس کا باپ لاعلاج  سسک سسک کرمرتا ہے
بڑے گھروں میں رہتے ہیں
انہیں بے گھر لوگوں کے دکھوں کا علم  کہاں
دکان سیاست کی چمکانےکے لئے
اپنے لئے پیسہ بنانے کے لئے
یہ ہائے ہائے دن رات کرتے ہیں
انہیں جمہور کے غموں کاعلم  کہاں
محافظ بھی ان کے  محفوظ بھی ان کے
رہزن بھی ان کے ، رہبر بھی ان کے
مگر مچھ ہیں دکھانے کو آنسو بہاتے ہیں یہ
 روٹی کپڑا مکان کیا دیناکسی کو
علاج ، تعلیم زبان کیا دینا کسی کو
مگر یہ نہیں دے سکتے
 یہ نہیں دے سکتے
کچھ بھی نہیں
 یہاں تک  کہ
یہ نہیں دے سکتے
پرندوں کو کھلا آسمان