Friday, November 9, 2018

تجھے یاد کیانہیں ہے

waris ki kawish وارث کی کاوش: میرے سفرنامے ’’ پریوں کی تلاش کی ‘‘ ساتویں قسط حاض...

waris ki kawish وارث کی کاوش: میرے سفرنامے ’’ پریوں کی تلاش کی ‘‘ ساتویں قسط حاض...: ______________________ محبت کی غلامی                                                                                      ...

میرے سفرنامے ’’ پریوں کی تلاش کی ‘‘ ساتویں قسط حاضر ہے۔


______________________
محبت کی غلامی                                                                                                                              وارث اقبال

میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی  مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی،  ہے مٹی کی مجبوری
(محسن بھوپالی)
ہم اس ہوٹل سے تھوڑا سا کھانا کھاکر نکلے، یہاں کی سوغات پھینیو نیاں، مہندی اور پتیسہ خریدکر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ چونکہ بچوں نے موسیقی کے تمام لوازمات پر قبضہ جما رکھا تھا اس لئے میں اپنا لیپ ٹاپ کھول کر غزلیں سننے لگا۔  پہلی غزل جس نے میرے کانوں کو چھوا وہ یہ تھی۔
 پیار میں کیسی مجبوری۔
 اس غزل کا ہر شعر مثالی ہے اور قابلِ ذکر ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں منتخب اشعار ہی بیان کروں لیکن اس غزل کے ہر شعر کی اہمیت کے پیش ِ نظر پوری غزل لکھنے پر مجبور ہوں۔
چاہت میں کیا دنیا داری،  عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو،  ان کی اپنی مجبوری
جب تک ہنستاگاتا موسم اپنا ہے،  سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
مدت گذری اک وعدے پر آج بھی قائم  ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
(محسن بھوپالی)
ہم اپنی مجبوریوں کے قیدی ہیں، آزاد ہوتے ہوئے بھی مقید ہیں۔ کبھی مصلحتیں ہمیں غلام بنا لیتی ہیں، کبھی سماج،کبھی رکھ کھاؤ اورکبھی دین برادری۔
انسان تو آزاد پیدا ہواتھا اُسے غلام بنا لیا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جہاں وہ زبردستی غلام بنایا جاتا ہے، ناچاہتے ہوئے غلامی کو قبول کرتا ہے وہاں خوشی سے بھی غلامی کو قبول کر لیتا ہے۔، اپنی مرضی سے غلامی کا طوق پہن لیتا ہے اور کبھی کبھی تو غلامی کے سپنے دیکھتے  اس کی عمر گذر جاتی ہے۔ 
یہ غلامی محبت اور خواہشوں کی غلامی ہے۔                       محبت کا لفظ اپنے اندر کئی معانی سموئے ہوئے ہے۔  محبت کسی عام سی شے سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی۔ یہ معمولی بھی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ انگریزی میں محبت کے لئے  لفظ Love  استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی اسی کے حروف میں قید ہے۔
     Land of Sorrow, Occen of Tears, Valley of Death and End of Life.
لیکن یہ غارت گر اتنی خطر ناک نہیں جتنا کہ اسے پیش کیا گیا ہے۔ آسکر و ائیلڈ تو یہ نصیحت کرتا ہے،
 ” محبت کو اپنے دل میں سنبھال کر رکھو۔ ایک زندگی جو اس کے بغیر گذرے وہ ایک ایسے باغ کی مانند ہے جس نے سورج کی ایک بھی کرن نہ دیکھی ہو اور اس اندھیرے نے پھولوں کے نصیب میں موت لکھ دی ہو۔“
 میکس مولر نے تو یہ کہہ کرمحبت کو اور بھی ضروری قرار دے دیا ہے کہ جس طرح پھولوں کے کھِلنے کے لئے روشنی لازم ہے اُسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے محبت کی ضرورت ہے۔ یعنی انسان محبت کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ گویا محبت کسی ایک جذبہ کا نام نہیں ہے۔ یہ تو بہت سے جذبوں کا مجموعہ ہے جو انسان کے لئے حیات کی رمک کا باعث بنتے ہیں۔
خلیل جبران کی بات کئے بغیر اس موضوع سے ناانصافی ہے۔   وہ مشورہ  دیتے ہیں۔
     ”جب محبت تمہیں اشارہ کرے اس کے پیچھے چلے جاؤ، چاہے اُس کے راستے کتنے ہی مشکل اور دشوارگزار کیوں نہ ہوں اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں لپیٹ لے تو خوشی سے لپٹ جاؤاور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کرلو، خواہ اُس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کو منتشر کردے۔۔۔ جس طرح نسیمِ شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے، یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے-“   
      یہ محبت ہی تھی جس میں ہم جکڑے ہوئے تھے اور پریوں کی تلاش میں ہر اس مقام تک پہنچنے کا قصد کئیے ہوئے تھے جس پر پریوں کے ہونے کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا۔



جی چاہے تو  شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا،  مے بن جا،  مے خانہ بن جا
مے بن کر مے خانہ بن کر مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر ہستی سے بیگانہ بن جا
ہستی سے بیگانہ ہونا مستی کا افسانہ  بننا
اس ہونے سے اس بننے سے اچھا ہے دیوانہ بن جا
دیوانہ بن جانے سے  بھی دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا خاک درجاناناں بن جا
خاک درِ جاناناں کیا ہےاہل دل کی آنکھ کا سُرمہ
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا،  نورِ دلِ پروانہ بن جا
سیکھ ذہین کے دل سے جلنا،  کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے ، تو ایسا پروانہ بن جا
( ذہین شاہ تاجی)
ہم جہلم کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ سڑک پر کئی بورڈ ہماری پیچھے کو بھاگے جا رہے تھے۔ جیسے وہ بھی و ہ سب کچھ سمیٹنا چاہ رہے ہوں جو ہم سمیٹ آئے تھے۔ ان میں ایک بورڈ نے مجھے اپنی نوجوانی کا دور یاد دلا دیا۔ یہ بورڈ اس علاقہ کی ایک مشہور اور تاریخی جگہ ٹلہ جوگیاں کے بارے میں تھا۔
جہلم شہر سے جی ٹی روڈ پر دریائے جہلم کے سنگ پچیس کلومیٹر کی مسافت پر ایک سرسبز پہاڑی کے سرے پر شکستہ حال دو گنبد دعوتِ نظارہ دیتے تھے۔اردو کا ٹیلا اور پنجابی کا یہ ٹلہ انسانی تہذیب کے کئی ادوار دیکھ چکا ہے۔ اس جگہ پہنچنے کے لئے ٹانگوں اور ٹخنوں کا کافی حد تک بہتر ہونا ضروری ہے۔ آتش چونکہ جوان تھااس لئے سفر کی دشواری اور راستے کی تنگی محسوس ہی نہیں ہوئی۔
راستہ ایساتھا کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ لگتا تھا جیسے کسی نے جھاڑیوں اور درختوں کے درمیان مٹی اور پتھر ڈال کر یک لکیر کھینچ دی ہو۔ راستے کی لمبائی تو دل جلاتی ہی تھی اصل خوف سانپوں اور بلاؤں کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والے جوگی جنوں اور بلاؤں کا رد بھی کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ دور دور سے اپنے یا اپنے پیاروں کے جنوں اور بلاؤں کو نکالنے کے لئے یہاں آتے تھے۔ تو اغلب امکان ہے کہ وہ سب بلائیں اور جن انسانی اجسام سے نکل کر یہیں بس گئے ہوں گے۔ یہاں پر پھیلے خوف کے سائے بتاتے تھے کہ یہاں درختوں کی شاخوں پر اور جھاڑیوں میں جن اور چڑیلیں بیٹھیں اپنے سہانے دنوں کا رونا رو رہی ہوں گی۔ ایک جن نے اپنے دوست کو بتایا ہوگا،
’’
کیا دن تھے وہ جب یہ ٹلہ بسا تھا۔۔۔‘‘
دوسرے جن نے اپنے گندے دانتوں میں کسی درخت کا ایک سخت سا تنا پھیرتے ہوئے کہا ہوگا۔
’’
ہاں یاد ہے کوئی دوہزار سال سے بھی اوپر کی بات ہے۔‘‘
دوسر ا جن رہتاس قلعہ سے چھلانگ لگا کر اس کے قریب آگیا تھا۔
’’
میں ایک جوان کے اندر گھس گیا۔۔۔ بڑے بڑے فقیر آئے بڑے بڑے حکیم آئے میں کہاں نکلنے والا تھا۔۔ پھر لوگ اس جوان کو یہاں لے آئے اور مہاتما بدھ کے ایک شاگرد نے کوئی ایسا منتر پھونکا کہ میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔‘‘
جہلم کے پُل پر بیٹھی ایک چڑیل نے بھی اس گفتگو میں شرکت کرتے ہوئے کہا۔
’’
ہاں ہاں یہی کرتے تھے۔۔وہ تمہیں یاد ہوگا ادھرجنگل میں شیر کے سات بیماربچے تھے، بس مرنے والے تھے۔ ان بچوں کو مہاتما بدھ نے بچایا تھا۔‘‘
’’
یاد ہے مجھے سب یاد ہے وہ شیر ادھر آیا بھی کرتے تھے جب راجہ کنشک نے ایک اسٹوپا بنایا تھا۔ مگر بدھ ختم ہی ہوگئے جی۔۔‘‘
ایک بزرگ جن نے اپنی نیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
’’
او یار کھا گیا انہیں ہندو مذہب کھا گیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’
اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’
ہے نہ جی۔۔۔ وہ جوگی نہیں دیکھے تھے جو کان چھدوا کر بالا پہن لیتے تھے۔‘‘
ایک دوشیزہ چڑیل جو کافی دیر سے یہ باتیں سن رہی تھی اُس نے بھی شرکت ضروری سمجھی۔
’’
ہاں وہ کن پھٹے جوگی۔۔۔صبح صبح اٹھ کر سورج کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوجاتے۔۔۔‘‘
’’
پتہ ہے میرا چاچا بتاتا ہے کہ یہ جوگی نیپال تک پھیلے ہوئے تھے۔‘‘
’’
ہائے تم رانجھے کو نہیں بھول گئے۔۔‘‘
وہ دوشیزہ شرما کر بولی تو اس کے سیاہ گال سرمئی ہوگئے۔
مجھے میرے دوست نے ایسا تھپڑ مارا تھا کہ ا س کا درد ابھی تک میری کمر سے نہیں گیا۔ مجھے درد کا تو درد نہیں تھا مگر درد رانجھے کا تھا۔ کیسا عاشق تھا۔
عشق کے سنگلاخ راستوں کو پاٹتاہوا یہاں آیا، ایک جوگی گوروگورکھ ناتھ کی صحبت اختیا ر کی اور اسی کے ایک شاگرد بال ناتھ کے ہاتھوں کان میں بالا ڈلوالیا۔ یعنی اگر بندے کی قسمت میں ازدواجی قید سے آزادی لکھی ہو تو کان پھڑوا لے۔ یہ ٹرینڈ کچھ پریکٹیکل نہیں تھا۔یہی وجہ تھی کہ یہ آگے نہیں بڑھا اور مٹ گیا۔ شکر ہے ورنہ آدھے سے زیادہ شہر کن پھٹا ہوتا۔ باقی کن ٹٹا۔ 
خیر جی یہ مقام سکھوں کے لیے بھی مقدس تھا، روایت کے مطابق بابا گورونانک جی نے یہاں چلہ کاٹا تھا،مہاراجا رنجیت سنگھ نے ان کی یاد میں یہاں ایک سنگھی حوض بنوایا تھا۔ یہاں مسلمان جوگی بھی جوگ کے لئے آیا کرتے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کو بھی یہ مقام خاصا بھایا تھا اس لئے اُس کا بھی یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ غرض کیا تھی معلوم نہیں۔
جب انگریز یہاں آئے تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور یہاں ایک تالاب بنا کر اس جگہ کی اہمیت میں اضافہ کیا۔ تقریباً 3200 فٹ بلند اس مقام پر کئی ادوار کی عمارات موجود ہیں۔ یہ عمارات اور ان کا محلِ وقوع اس مقام کو قابلِ دید بناتے ہیں۔ 
   Gorakhnath and Kanphata Yogi by George WestonBrigges
یہاں تالاب دیکھنے کے لائق ہیں   ہر تالاب پر  راستے، سیڑھیاں  اور برج بنے ہیں۔ ان تالابوں میں اترتے کچھ راستے ایسے ہیں جو یہاں گھوڑوںا ور ہاتھیوں کا ہونا بھی ظاہر کرتے ہیں۔  جن میں بیٹھ کر انسان  وہیں کا ہو رہتا ہے ۔ اُسی  دور میں جا بستا ہے جب یہاں چہل پہل تھی۔
    ہم سے کچھ ہی دور قلعہ رہتاس  بھی واقع ہے۔ شیر شاہ سُوری نے اپنی جرنیلی سڑک کو محفوظ بنانے اورہمایوں کا راستہ روکنے کیلئے  رہتاس کی صورت میں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ شیر شاہ سُوری کی فوج میں  افغانی، ایرانی، ترکستانی اور ہندوستانی سبھی اقوام کے لوگ شامل تھے چنانچہ تین سو فٹ بلند ٹیلہ پر موجود  اس قلعہ کے طرز ِ تعمیر  میں بھی ان اقوام کے طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اپنے دور کا  ایسا جدیدعسکری مقام تھا جہاں سے دشمن کی فوج پر پگھلا ہوا سکہ انڈیلا جا سکتا تھااور گولے بھی برسائے جا سکتے تھے۔
دین و مذہب عاشقوں کے قابلِ پُرسش نہیں
یہ ادھر سجدہ کریں ابرو جدھر  اس کی ہلے
(میر تقی میر)

______________________







امتحانی مرکز                                                                                                                               وارث اقبال

گھڑی کی چھوٹی سوئی چھ کے ہندسہ کی رفیق بننے کے لئے بےقرار تھی اور بڑی دوکے قریب۔ جہلم میں دفن داستانوں کو خیر باد کہہ کرہم کوہِ نمک کے دشوار گذارپہاڑوں میں سفر کر رہے تھے۔ 
 میں کھڑکی سے باہر قلعہ کی فصیل نما پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ تاریخ کے اوراق کھُل رہے تھے۔ اونچے نیچے پہاڑوں پر چڑھتے اترتے لشکر دکھائی دے رہے تھے۔ کبھی دارا واسکندر کے پیادے اور سوار لشکر پہاڑوں کے اوپر نمایاں ہوتے اور پھر انہی پہاڑوں میں چھپ جاتے۔ کبھی تیمورو ابدالی کے لشکر کا جنون ان پہاڑوں کی خوبصورتی کو روندتا چلا جاتا۔ کبھی منگولوں کے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی وحشت ناک آوازیں ان وادیوں میں گونجتیں۔ کبھی یہاں کے قبیلوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے بچوں اور عورتوں کی چیخیں فضا میں وحشت پھیلا دیتیں۔
آہ!  کہاں گئے وہ جاہ و جلال اور کہاں گئے وہ میلوں تک پھیلے ہوئے لشکر، کہاں گئیں وہ رعنائیاں اور کہاں گئیں وہ قوتیں۔ سب کو وقت کا ڈریگن نگل گیا۔ اس زمین کا دہن بہت کشادہ ہے۔ یہ لشکر وں کے لشکر نگل جاتی ہے اور اس کا  بطن اتنا گہرا ہے کہ صدیاں بھی اس میں کھو کر رہ جاتی ہیں۔ یہی اس دنیا، اس جہاں اور اس مکاں کی حقیقت ہے۔                                                                                                                                     مجھے عالم ادراک میں وہ کسان بھی دکھائی دے رہا تھاجس کی کٹیا کسی حملہ آور نے گرائی ہو گی اور مجھے وہ شہنشاہ بھی یاد آرہاتھا جو اپنے جیسے کسی شاہ کے کٹے سر کو دیکھ کر خوش ہو کر کہہ  رہا ہو گا،    
  کہاں گئی تمہاری اکڑ، کہاں گئی تمہاری وہ طاقت جس پر تمہیں ناز تھا، آج میرے سامنے تن کے بغیر پڑے ہو۔“                                                      لیکن افسوس تو یہ کہ نہ شاہ رہا نہ شہنشاہ، نہ  لٹنے والاکسان رہا نہ حملہ آور۔ سب کچھ یوں ختم ہو گیا جیسے چند سال۔قرطاس ارضی نے کئی بار یہ سب کچھ دیکھا مگر حیران ہے کہ یہ سلسلہ ویسے ہی موجود ہے آج بھی کسان کی کٹیا حملہ آور کی زد میں ہے اور آج بھی ایک شاہ دوسرے شاہ کے دربار میں مصلحتوں کی زنجیریں پہنے کھڑا ہے۔ کیا بدلا نہ سورج نہ چاند، نہ سمندر نہ پہاڑ۔ 
ہاں بدل گیا تو زمین کا حُسن جسے عمارتوں کے بوجھ اور غلاظتوں کے ڈھیر نے متغیر کر دیا۔          کل بھی میر نے یہ دیکھا تھا اور آج بھی یہی دیکھ رہا ہے۔
کل پاؤں ایک کاسۂ  سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

 بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار
ایسے میں آکے صنم دل میں سما جا اب تو آجا
یہ گیت کانوں کے لبوں کو چھو رہا تھا اور ہماری گاڑی کلر کہار کی حدود میں  داخل ہو رہی تھی۔ نمک کی کانوں کی قربتوں میں بسنے والا چھوٹا سا خوبصورت اور تاریخی قصبہ کلر کہار۔
سورج نے آسمان کی بلندیاں چھوڑ کر زمین کے دامن میں سونے کی تیاری کر لی تھی۔ اُس کا تابناک چہرہ دن بھر کی تھکن کی وجہ سے پہلے مرجھایااور پھر ماند پڑ گیا۔ اب اُس کی آنکھوں میں جھانکا جا سکتا تھا، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جا سکتا تھا، اس کی تابناکی گم ہو چکی تھی اور تھکن کی وجہ سے اُس کے چہرہ پر کئی رنگ پھیل رہے تھے۔ زمین کی گود میں چھپنے کا شوق اُس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ اُس نے اپنے سارے رنگ آسمان پر بکھیر دئیے تھے، میں نے وہ رنگ سمیٹنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یہ وہ رنگ تھے جنہیں نہ چُنا جا سکتا تھا، نہ سمیٹا جا سکتا ہے اور نہ  ہی گناجا سکتا تھا۔                انسانی علوم کی کتابوں میں نہ تو انہیں کوئی نام دیاگیاہے اور نہ ہی کوئی بیان ان کی خوبصورتی کا حق ادا کرسکتاہے۔ جونہی میں ان رنگوں میں سے کسی رنگ کو کوئی نام دینے کی کوشش کرتا تو یہ کسی ایسے رنگ میں بدل جاتا جو میرے علم کی حدود سے باہر  ہوتا۔ یوں میں ایک مرتبہ پھر ان رنگوں کو نام دینے میں ناکام رہا۔     
            میرے ہم رکاب اونچی نیچی بل کھاتی سڑک کودیکھ دیکھ کر بے زار ہو گئے تھے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کی تمام اشیا بھی ختم ہو چکی تھیں۔ چپڑ چپڑ اور موسیقی کی آوازوں کی جگہ خاموشی نے لے لی تھی۔ میں انہیں کلر کہار انٹر چینج کے آنے کی اُمیدیں دلا دلاکرجاگنے پر مجبور کر رہا تھا۔ موسم ابھی تک گرم تھا۔ میں نے گاڑی کے بند شیشوں سے باہر پہاڑوں کو دیکھا تو مجھے خوف کا شدید احساس ہونے لگا۔ وہی پہاڑ جو کچھ دیر پہلے میرے لئے زندگی، حسن اور خوبصورتی کا مجموعہ تھے اب خوف سے لپٹی دیواروں کی مانند تھے جن کی کھائیوں اور غاروں میں سوئے ہوئے جنوں اور چڑیلوں نے دن بھر آرام کے بعد اپنے نئے دن کی مصروفیات کاآغاز کر دیا تھا۔ میرے پاس اس خوف اور وحشت سے نکلنے کا یک ہی سہارا تھا ہیڈ فون جسے میں کانوں کو لگا کرموسیقی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرنے لگا۔   لیکن مجھے یہ جن، بھوت اور چڑیلیں اس موسیقی پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ وہ میرے ساتھ مکالمہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں ا س موڈ میں نہیں تھا۔           وہ یہی شکوہ کر رہے تھے کہ برسوں سے کسی انسان نے ان کے ساتھ مکالمہ نہیں کیا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیاجس انسان نے خود کو بھلا دیا وہ ہم سے کیا بات چیت کرے گا۔
ہماری گاڑی سسک سسک کر کلر کہار کا وہ موڑ کاٹ رہی تھی جو اس سڑک پر آنے والی ہر گاڑی کا امتحانی مرکز ہے۔ جو گاڑی یہاں سے کامیاب ہو گئی وہ آگے جا کر سب پہاڑوں کو زیر کر سکتی ہے۔ یہ موڑ گاڑی کے ہوش اُڑا تا ہے، اُسے پسینے سے نہلاتاہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کانوں کو ہاتھ لگوا تا ہے او ر آ ئندہ تیار ہوکر آنے کا سبق پڑھا کر جان چھوڑتا ہے۔        کچھ گاڑیاں تو ریں ریں کرتی ہیں، کچھ گھاں گھاں اور کچھ تو ایسی آوازیں نکالتی ہیں جن پر کوئی اسمِ صوت صادر ہی نہیں آتا یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ کھانا پیناتک بھول جاتے ہیں۔ چپس ہاتھ میں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پیپسی ا س امتحان سے سرخروئی کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ ٹرکوں کے ڈرائیور جن کا عطااللہ کے گیتوں اور غزلوں کے بغیر سفر کا ایک لمحہ بھی نہیں گذرتا وہ بھی میوزک بند کئے گاڑی کی چال میں کھو جاتے ہیں۔ بسوں میں بیٹھے ہوئے مسافروں کو پہلی دفعہ یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان کا بھی بوجھ ہے جسے اٹھانے سے یہ بس قاصر ہے۔ بس بیچاری اس طرح کُرلاتی ہے جیسے فائر لگی مرغابی۔ ہر پل یہی لگتا ہے کہ اب بند ہوئی کہ اب بند۔ 
کچھ چالاک اور تجربہ کار گاڑیاں جن میں زیادہ تر ٹرک ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے آرام کا وقت مانگ کر رک جاتی ہیں اور ڈرائیور سے خوب خدمت کرواتی ہیں۔
  ہمارے سامنے ایک ٹرک رکا  سستا رہاتھا۔ کچھ ہی فاصلہ پرا یک کوچ دھواں بکھیرتے ہوئے اس امتحان میں سرخروئی کی اپنی آخری کوششیں کر رہی تھی۔

  

پی ٹی ڈی سی کی مچان                                                                                                                        وارث اقبال

  موٹر وے بننے سے پہلے کلر کہار تاریخ کے صفحات میں چھپاہوا تھا لیکن موٹر وے انٹر چینج  کے قیام کے بعد یہ مقام اس طرح ہمارے سامنے آگیا  جیسے جنگلوں میں چھپا خزانہ ۔    یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ موٹر وے پر موجود تمام انٹر چینجز میں کلر کہار اپنی خوبصورتی اور محلِ وقوع کے لحاظ سے موٹر وے پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا پسندیدہ انٹر چینج ہے۔
  انٹر چینج سے تھوڑا سا نیچے اُتریں تو کلر کہار کی جھیل اس سرزمین پرآنے والوں کا استقبال کرتی ہے۔ یہ پورا پہاڑی سلسلہ پوٹوہار پلییٹو کہلاتا ہے۔اس کے پہاڑوں کی اوسط اونچائی تقریباً 2300 سے 2600 فٹ تک ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی سکیسر ہے جس کی اونچائی  3700 فٹ ہے۔       کہتے ہیں  کہ کسی وقت یہاں سمندر تھا۔ کسی واقعہ میں انڈین پلیٹیں ایشیائی پلیٹوں کے ساتھ ٹکرائیں اور نمک کے پہاڑ وجود میں آ گئے۔ 
 کلر کہار کوہ نمک کا ایک اہم مقام ہے۔ نمک کے ان پہاڑوں کا سلسلہ دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سندھ تک چلتا جاتا ہے۔ دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں کوئلہ بھی پایاجاتا ہے۔ ویسے تو اس سلسلۂ   کوہ کاہر گوشہ اور ہر کونہ خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن اس کی جھیلیں دیکھنے کے لائق ہیں۔
 کچھ یہی وہ کھوج ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں رکنے پر مجبور ہوئے۔  بقول آشفتہ چنگیزی
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ توزد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا  میں  وہ خزانے تھے

ہم کلر کہار رکنے کا پکا ارادہ کر چکے تھے اس لئے انٹر چینج کو چکر دے کر جھیل کے ساتھ ساتھ گولائی میں چلتے ہوئے۔ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے۔ ہماری دائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ جھیل میں اُگی ہوئی جھاڑیاں تھیں اور بائیں جانب پہاڑوں کا سلسلہ۔ اس سڑک کی وجہ سے ہم جھیل کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن جھیل پر بھی اندھیرے کی سیاہ چادر تن چکی تھی۔ جھیل سے دور گھروں اور سڑک پر روشن قمقموں کی روشنی کا عکس  اس جھیل کے کناروں پر پڑ رہا تھا۔ اس کے علا وہ سب کچھ سیاہ تھا۔ لگتا تھا یہاں کوئی سیاہ میدان ہے۔
 پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل پہنچ کر بچوں نے کمرا پسند کیا، گاڑی سے سامان کمرے میں منتقل کیا گیااور پھر ہم سب ہوٹل کے ٹیرس پر آ گئے۔  جہاں دو خاندان پہلے ہی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک گائیک اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا مہدی حسن کے گائے ہوئے گیت گا رہا تھا۔ ان کے پیچھے کلر کہار کے بارے میں ایک بڑی سی فلیکس آویزاں تھی  اور اس سے کچھ ہی دور ایک کونے میں باربی کیو اپنے عروج پر تھا، جس کی خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لگتا تھاجیسے اس ہوٹل کے سبھی مہمانوں نے بار بی کیو کا ہی آڈر دے رکھاتھا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کے سامنے چار گاڑیوں اور نیچے پارکنگ میں چھ گاڑیوں کی موجودگی اس امر کی غماز تھی کہ ہوٹل میں کافی لوگ موجود تھے لیکن گرمی کی وجہ سے  اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے تھے۔
                                    بچوں کو اللہ نے یہ قابلیت دی ہوتی ہے کہ وہ فورا ًنئے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے بچوں نے بھی رات کی اس تاریکی میں ہوٹل کی تسخیر کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ بھی ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ جاسوسوں کی طرح ہوٹل کے کونے کھدروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ موسیقار ٹولی کے پیچھے وادی سون سکیسر کی معلوماتی فلیکس کا بھی مکمل مطالعہ کیا جا چکا تھا۔ جس کی جو بات انہیں سمجھ نہیں آتی تھی وہ آ کر مجھ سے پوچھ لیتے۔ یوں وہ کلر کہار کے مشہور مقامات کے ناموں اور موٹی موٹی خصوصیات سے کافی حد تک آگاہ ہو چکے تھے۔ جب بھی کوئی چیز مسخر ہوتی تو میرے یا اپنی ماں کے کان میں پھونک دی جاتی۔ یوں ہم دونوں میاں بیوی ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے سارے ہوٹل اور اس کے مکمل محل وقوع سے واقف ہو گئے تھے۔
  اس دوران ان پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ گانے والوں کو پیسے دیں تو وہ ہماری مرضی کا گانا سناتے ہیں۔  چنانچہ مجھ سے پیسے لے کر چلے گئے لیکن مجھے کامل یقین تھاکہ ان کی فرمائش بوجہ تضادِ تمدن پوری نہیں ہوئی ہوگی۔ جب میں نے ان گائیکوں کی طرف کرسی کی اور انہیں سننا شروع کیا تو انہوں نے اپنے ساز ٹھیک کرنا شروع کر دئیے۔ میری طرف  سے ایک چھوٹا سا نذرانہ پاکر انہوں نے اپنی انتہائی خوبصورت آواز میں مہدی حسن کی گائی ہوئی میر تقی میر کی یہ مشہور غزل سنانا شروع کر دی۔
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
 پی ٹی ڈی سی کے ٹیرس پر بیٹھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ زندگی کی الجھنوں اور مسائل سے آزاد، نہ رشتہ دار یوں کے جھنجھٹ ،  نہ دوستوں کے شکوہ شکایت، نہ معیشت، نہ سیاست، نہ نفرت،   نہ منافقت۔۔۔۔۔۔بس ہر طرف سکون ہی سکون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹیرس پر بیٹھا جب نیچے دیکھتا تومجھے یو ں لگتا جیسے ہم رات گذارنے کے لئے کسی مچان  پر بیٹھے ہوں۔ سامنے جھیل تھی، جس کے کناروں پر ارد گرد کی روشنیاں اس طرح پڑ رہی تھیں کہ    ہر روشنی ایک ستارہ تھی اور ستاروں کا ملاپ ایک کہکشاں۔ دھیمی دھیمی  ہوا جب جھیل کے پانیوں کےگالوں پر اپنے ہونٹ رکھتی تو وہ شرما کرجھرجھری لیتی اور یوں سارا کہکشاں تھرکنے لگتا۔  اس تھرکتے ہوئے کہکشاں کو دیکھ کر مجھے یو ں لگاجیسے کوئی حسینہ چاندی کے ستاروں سے اٹا اپنا سیاہ ریشمی دوپٹہ ہلا ہلا کر اپنے محبوب کوجھیل کنارے اپنی آمد کی اطلاع دے رہی ہو۔
     کچھ ہی دور موٹر وے گذر رہی تھی۔ گزرنے والی گاڑیوں کی رنگ برنگی روشنیوں کاعکس جب اس جھیل کی  چٹکی لیتا تو یہ جھلمل جھلمل کر اُٹھتی اور اس کے رخساروں پر حیا کے کتنے ہی رنگ پھیل جاتے۔ اس عالم میں مجھے اپنی جوانی کا وہ گیت یاد آگیا جو اس وقت میرا مشن یا ویژن اسٹیٹمنٹ تھا۔
جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا
رم جھم برستا ساون ہو گا
ایسا سندر سپنا اپنا جیون ہوگا
 اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جس پہاڑ پر چڑھنے میں بڑی بڑی بسوں کی بس ہو جاتی ہے وہاں اللہ نے پانی کا اتنا بڑا  ذخیرہ سنبھال کر رکھا ہے جو نہ تو اپنے کناروں سے باہر آتا ہے،    نہ سوکھتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے۔ حیاتِ ارضی فطرت کا یہ شاہکار ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے۔
 یہ مقام جسے کلر کہار کہا جاتا ہے آج کے جغرافیہ کے مطابق چکوال کی ایک یونین کونسل ہے۔ چکوال یہاں سے جنوب کی طرف پچیس کلو میٹر کے فاصلہ پر کوہِ نمک  کے ایک لمبے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وادی سون سیکسر ہے جس کی الگ ہی پہچان ہے۔         کلر کہار کی جھیل ایک قدرتی جھیل ہے جس کا منبع تازہ پانی ہے۔ جھیل کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ اور پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل ہے۔ پاکستان کے اکثر لوگ موسمِ سرما اور بہار میں اس جگہ کی سیر کے لئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو بزرگوں سخی آہو باہو کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ جہاں زائرین اور عقیدت مند وں کی بڑی تعدادحاضری دے کر اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔


______________________

مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
(پروین شاکر)
 کلر کہار کو موروں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ میں یہاں ایک مرتبہ پہلے بھی آ چکا ہوں جب موٹر وے نئی نئی بنی تھی۔ اُ س وقت میں نے جا بجا انسانوں سے مانوس مور دیکھے تھے،  جو ہر جگہ اس طرح گھومتے پھررہے تھے جس طرح ہماری سڑکوں پر موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔  البتہ آہو باہو کی خانقاہ پر مور کھلے عام پھرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں کسی اور مقام پر لے جایا جائے تو وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تختِ بابری بھی یہاں کا مشہور مقام ہے۔ یوں کلر کہار میں میرے اور بچوں کے لئے دیکھنے کو کافی سامان موجود تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موروں کا ذکر ہو اور بچے مور دیکھنے کی ضد نہ کریں، ان کے شدید اصرار پر ہم نے گاڑی نکالی اور جا خانقاہ کے عقب میں مقام کیا، دربار میں گئے، ادھر دیکھا ادھردیکھا لیکن مور وں کے دیدار نہ ہوئے۔
 مزار سے باہر ایک چھوٹا سابازار ہے چنانچہ بچے اور ان کی اماں وہاں سے شاپنگ کرنے لگے جبکہ میں ایک دکان میں چند بزرگوں کو فارغ بیٹھے اورحقہ پیتے دیکھ کر ان کی طرف چلا گیا۔ان بزرگوں نے میرا  پُر جوش استقبال کیا۔     بات سے بات نکلتی گئی اور یہ ملاقات ایک گھنٹہ تک طول پکڑ گئی۔ پتہ چلا کہ اب مور بہت کم ہو گئے ہیں اور وہ صبح کے وقت اس مزار پر آتے ہیں۔
ان بزرگوں نے مجھے اس علاقہ کے بزرگوں کی کرامات کے بہت سے واقعات سنائے۔                                               کہا جاتا ہے،  ” اس علاقہ میں میٹھے پانی کی بہت کمی تھی۔ا کا دکا جگہ پر میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ جہاں دور دراز سے عورتیں پانی بھرنے کے لئے آتی تھیں۔ یو ں اس علاقہ کی سب سے قیمتی شے پینے کا پانی تھا۔ 
 ایک دفعہ کاذکر ہے کہ کچھ عورتیں ایک چشمہ سے پانی بھر کر لا رہی تھیں کہ اللہ کے ایک ولی حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ان عورتوں سے پینے کیلئے پانی مانگا تو عورتوں نے جواب دیا کہ بابا جی پانی توکڑوا ہے۔ تو اللہ کے اس بندے نے فرمایا،   ” اچھا کڑوا ہے تو کڑوا ہی سہی “
  ان عورتوں نے گھر جا کر گھڑوں میں پانی دیکھا تو وہ کڑوا نکلا۔ لوگ بھاگے اور اس چشمے پرپہنچے جہاں سے پانی بھر کر لایا جاتا تھا۔ مگر قدرت خدا کی کہ اس چشمہ کا پانی بھی کڑوا نکلا۔                     کلر کہار کے تمام لوگ اس بزرگ کی تلاش میں نکلے اور انہیں پا کر ہاتھ جوڑ کر ان کی خدمت میں بیٹھ گئے۔ معافی طلب کی اور عرض کی کہ پانی کی یہ چھوٹی سی جگہ ہی ہمارا سہارا ہے اس لئے ہمیں معاف کردیجئے۔
 لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اس بزرگ نے جواب دیا، 
” کڑوا تو ہوچکا اب ہم اسے میٹھا نہیں کرسکتے لیکن ایک وقت یہاں سے عارفین کا سلطان رحمتہ اللہ علیہ گزرے گا ان سے عرض کرنا کڑوی چیزوں کو میٹھا اور ناکارہ کو کارآمد بنانا اسی کی صفت ہے۔“
 کچھ سالوں بعد وہاں سے سلطان باہو کاگذر ہوا۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ پیش کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک پتھر اُٹھا کر پہاڑی کے دامن میں زور سے مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ چشمہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا جاری کردہ یہی چشمہ کلر کہار کے لوگوں کیلئے زندگی کا سبب ہے اور یہی اکیلا چشمہ پانی کی تمام ضروریات پورا کرتا ہے۔“
 ان بزرگوں نے یہاں پھیلے ہوئے کتنے ہی چشموں اور جھیلوں کا بھی بتایا جن تک پہنچنے کے لئے مزید ایک زندگی درکار ہے۔                                              ایک بزرگ نے بتایا کہ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں سمندر ہوا کرتا تھا۔ میری جوانی کے زمانے میں یہاں اکثر انگریز آیا کرتے تھے اور سمندری مچھلیاں تلاش کرتے تھے۔
 اُن بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے اپنی چادر درست کرتے ہوئے بتایا،         
                                                                                                           ” میں نے کئی انگریزوں کو گائیڈ کیا تھا وہ یہاں سے فوسلز تلاش کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں  جرمنی کی ایک ٹیم آئی تھی اوراسے سمندری مچھلی ملی تھی۔“
 میں نے  پوچھا،  ” اچھا بابا جی پریاں کہاں آتی ہیں۔“
  ”کبھی آتی تھیں۔۔۔ اب کہاں۔“
  ایک بزرگ نے جواب دیا تو ان کی بات کاٹ کر دوسرے بزرگ نے حیران کن بات کردی۔    
          ”جنوں کی تو حکومتیں ہیں نااور ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔“      
ایک بزرگ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔   
          ”بیابان ہے جن چڑیلیں تو عام ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے بھی ہیں اور باتیں بھی کرتے ہیں۔“          
            میں نے پوچھا،
” کوئی خطرہ تو نہیں۔“        
        ان میں سے ایک نے فوراًجواب دیا، 
”نہ نہ کوئی خطرہ نہیں، کچھ بھی نظر آئے تو درود شریف پڑھ لینا ۔۔۔جو بھی ہو گا بھاگ جائے گا۔“ 
 ان بزرگوں سے علاقہ اورلوگوں کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں۔ جب میں اُٹھنے لگا تو ان میں سے ایک نے کہا۔ 
         ”بیٹا دن کے وقت ہی سفر کرنا کوئی پتہ نہیں ہوتا اب ہزاروں کتے بلے نہ جانے کہاں سے آکر یہاں چھپے ہوئے ہیں۔“ 
 ایک نے نصیحت کی،  ”یادہے درود کا ورد بس سب خیر ہے۔“
 میں یہ سوچ لے کر وہاں سے نکلا کہ آج کے انسان کو کسی جن یا چڑیل سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو اپنے ہم جنس انسان سے۔
جنگل میں سانپ، شہروں میں بستے ہیں آدمی
سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی
تھی خاک سب سے قیمتی شے آسمان پر
اور اس زمین پے خاک سے سستے ہیں آدمی

 ان بزرگوں کی باتوں میں بہت مزا تھا، پیار تھا اورشفقت۔ کوئی مزدور تھاکوئی دکان دار، پتہ نہیں ان میں سے کسی نے کبھی اسکول بھی دیکھاتھا کہ نہیں،  لیکن کردار و عمل، مشاہدہ و تجربہ، دانائی اور حکمت میں بڑی بڑی ڈگریوں والے ان کی خاک کو بھی نہیں چھو سکتے۔ ہر ایک اپنے اندر ایک ایسا خزانہ تھا جو لٹنے کے لئے تو تیار بیٹھاتھا۔  لیکن افسوس لوٹنے والے خال خال۔
  ان میں سے کئی تو اس وقت کی باتیں بھی بتا رہے تھے جب یہاں گاڑی نام کی شے دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔ خاص بات یہ کہ وہ اپنے علاقہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے۔   ان کے اندر یادوں، تجربوں اور دکھوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت کا سب سے بڑا دکھ ان کی اپنی اولادیں تھیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کے اپنے تھے۔   کچھ تو اپنی جوانی اور اچھے دور کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے تھے۔




یاد ماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے
اس سے بہتر ہے کہ ہر بات بھلا دی جائے
جس سے تھوڑی سی بھی امید زیادہ ہو کبھی
ایسی ہر شمع سر شام بجھا دی جائے
میں نے اپنوں کے رویوں سے یہ محسوس کیا
دل کے آنگن میں بھی دیوار اٹھا دی جائے
میں نے یاروں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا محسن
اپنے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے
(محسن نقوی)
آج لکھتے ہوئے بھی وہ بزرگ مجھے یاد آرہے ہیں۔ وہ حقہ، وہ چادریں وہ باتیں۔۔۔ ایسی باتیں کہ جی چاہتا تھا کہ سنتے ہی جائیں۔۔۔۔۔۔ شاید کبھی حاصل سفر ان بزرگوں سے ملاقات بھی ہو۔

______________________