Monday, December 10, 2018

’’ خوابوں کی پرورش‘‘ رابطہ

03214208831

دورِ جدید کے  معیاری افسانے ’’ خوابوں کی پرورش‘‘
 مصنف  وارث اقبال     
                                                            اون لائن خریدئے۔

۔


Sunday, December 9, 2018

میرے سفرنامے ’’ پریوں کی تلاش سے نویں قسط حاضر ہے۔



وہ دن جو ہمارا نہ تھا۔                                                                             وارث اقبال

کیا کِسی نے دستک دی پِھر کسی ستارے پر
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے
شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے
قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)

 جس طرح کے سفر پر ہم نکلے تھےایسے سفرمیں کبھی کبھی  ایسے عجیب و غریب  واقعات  بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کی ہر شخص اپنی اپنی تعبیریں نکالتاہے۔  ہم باغ سے نکل کر اُس نالے کے پل پر پہنچے جہاں سے  آتے ہوئے ہم باغ میں داخل ہوئے تھے۔ اس پُل کے نیچے چشمے کا ہی پانی تھا جوبصورت نالہ  بہہ رہا تھا۔  میں نے اُ س نالہ کے کنارے پرکھڑے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔  عابد نے پتہ نہیں اُسے دیکھا تھا یا  نہیں لیکن میں اُسے دیکھ رہا تھاوہ ہمیں گاڑی کے پیچھے کی طرف دیکھنے کا اشارہ کر رہاتھا۔ میرے کہنے پر عابد نے گاڑی روکی اور میں اُتر کر گاڑی کے پیچھے جا کر گاڑی کو دیکھنے لگا۔نیچے سڑک کے عین درمیان میں بہتے ہوئے تیل کی ایک لمبی لکیر کافی دور تک جا رہی تھی۔ لگا جیسے یہ تیل ہماری گاڑی سے گرا تھا لیکن جب ہر طریقہ سے اطمینان کر لیا تو پتہ چلا کہ یہ تیل ہماری گاڑی سے نہیں گرا تھا۔ پھر بھی ہم ہر طرح سے اطمینان کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں وہ عمر رسیدہ شخص موجود نہیں تھا۔ لیکن میں نے اُس کی غیر موجودگی کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
 ہم اپنی منزل کی طرف گامزنِ سفر تھے، موسیقی جاری تھی اور کھانے پینے کی اشیا پر بھی ہاتھ صاف ہورہا تھا۔ ہم سب مصروف تھے لیکن عابد بے چین تھے اور گاڑی سے چھیڑ چھاڑ بھی کر رہے تھے۔ میں نے ان کی بے چینی دیکھ کر پوچھا،  ” عابد کیا بات ہے، خیر تو ہے؟“ 
”گاڑی پِک نہیں پکڑ رہی، بھائی جان۔“               



میں نے کہا۔
”تیل پانی چیک کر لو۔“
ہم نے گاڑی روک کر اُس کا چیک اپ شروع کیا، گاڑی اس مریض کی طرح تھی جو خود تو ایک لفظ نہ بولے لیکن اُس کے گھر والے بیماری کی نوعیت جاننے کے لئے اپنے اپنے طریقہ سے اُسے چیک کر رہے ہوں۔ ہمارے پاس کوئی اوزار تو تھا نہیں بس علامات کے ذریعے مریضہ کی بیماری تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسی صورتِ حال میں جب ڈاکٹرز کو کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں،
”ڈیپریشن ہے جی۔“
لیکن ہم تو اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔        گاڑی نہ گرم تھی اورنہ ہی اس میں سے کوئی ناخوشگوار بو آ رہی تھی، میں نے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کرایکسیلیٹر کو دبا کر چیک کیا، سب کچھ ٹھیک تھا۔  جب ہم گھر سے نکلے تھے تو ہم نے گاڑی کے تمام ٹیسٹ کروائے تھے جن میں  یہ معصوم مکمل  طور پر صحت مند  قرار پائی تھی۔ خیر مشین تھی کیا کیا جا سکتا   ۔
 اپنا اطمینان کرلینے کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں آ گئے۔ لیکن گاڑی کی وہی صورتِ حال تھی۔
 عابد کہنے لگا، ”بھائی جان! لگتا ہے جیسے کوئی گاڑی کوپیچھےسے کھینچ رہا ہو۔“
ہم سب نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ میں نے  ہنستے ہوئےعابد سے کہا۔
 ” یار یہ گاڑی کوئی  دوشیزہ تو نہیں جس پر کسی جن کا سایہ  ہوجائے، کسی سایہ دار جگہ پر گاڑی روکو اور اس کے ویل جیک لگا کر چیک کرلو، کوئی ویل جیم نہ ہو۔“ 
  عابد نے ایک اچھی اور گھنی سایہ دار جگہ گاڑی روکی تو ہم نے ایک ایک ویل کو جیک لگا کر چیک کیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس کام میں ہمیں کوئی آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن گاڑی کی چلن درست نہ ہوئی جونہی اونچی جگہ آتی گاڑی اوپر چڑھنے سے انکار کر دیتی اور ہم سب گاڑی سے اُترنے پر مجبور ہو جاتے۔
جب بچوں کو پتہ چلا کہ گاڑی کسی نامعلوم عارضہ میں مبتلا ہے تو وہ اپنے شگوفے چھوڑنے لگے۔
’’ لیں جی آگیا کہانی میں ٹوسٹ‘‘
’’ آج بکریوں کا دودھ پیناپڑے گا۔‘‘
’’ بچو گے تو پیوگے۔‘‘
’’ اللہ اللہ کرو یار ۔۔۔ ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
’’ رات کہاں رہیں گے ماما۔‘‘
’’ اُ س پہاڑ کی غار میں۔‘‘
 اس حالت میں ہمارا سفر ایک نیا رخ اختیار کر چکا تھا۔ کچھ دیر بعد تو مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں صحرائے گوبی میں ہوں اور میرا اونٹ بیمار ہو گیا ہے۔ دور نزدیک نہ کوئی طبیب ہے نہ کوئی مسیحا۔
آہ!
غریب الوطنی بڑی عجیب ہوتی ہے
یہاں فطرت ہی رفیق ہوتی ہے
پڑجاتے ہیں چھالے جب چل چل کر
تو فطرت ہی طبیب ہوتی ہے
وہ موڑ اور پکڈنڈیاں جن کی خوبصورتی سے ہم آتے ہوئے لطف ا ندوز ہو رہے تھے۔ وہی وحشت بکھیر رہے تھے۔ وہ راستے جو وحشت ناک تھے کرب ناک بن گئے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کامزاج زیادہ خراب ہو تا جارہا تھا۔ اب ہمیں زیادہ پیدل چلنا پڑ رہا تھا۔ پہاڑی سڑک پر پیدل چلنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں کہیں پیدل چلنے والے اتنے نڈھال ہو جاتے کہ کچھ دیر کے لئے گاڑی کو روکنا پڑتا۔ کہیں گاڑی چلنا بند کر دیتی تو پیدل چلنے والوں کو روکنا پڑتا۔
کوئی کسی کو چھوڑ کر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ کھانے پینے کی اشیا کا بڑا حصہ تو باغ میں ہی ختم ہو گیا تھا، جو بچاتھا وہ راستے میں ختم ہو گیا۔ چونکہ ہم زیادہ کوک اور پیپسی پی رہے تھے اس لئے پیاس بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ کوک اور پیپسی سے بات پانی پر پہنچی اور پھر پانی بھی ختم ہو گیا۔ سورج تھا کہ آگ کا گولا بنا ہو اتھا۔ درختوں اور پودوں میں سے ٹھنڈی ہو کر آنے والی ہوا سورج کی گرمی کی شدت کو کچھ کم کر رہی تھی۔ لیکن پیاس کاکیاکرتےحلق سوکھنا شروع ہوگئے پانی کی ایک بوند نہ تھی اور کھانے کو ایک ذرہ نہیں۔              شکر تو یہ تھا کہ ہم صبح ہوٹل سے جلدی نکلے تھے ورنہ ابھی تک شام ہو جاتی۔ یوں ہمارے پاس زادِ راہ میں سے اگر کچھ باقی بچا تھا تو وہ تھا وقت۔۔۔  جواس وحشت،مصیبت اور خوف میں واحد سہاراتھا۔                منزل کو دور پا کر اور اپنی سواری کی بیماری کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا،
 ”اگر ہمیں یہاں اس ویرانہ میں رات بتانی پڑے تو ہم کیاکریں گے۔“ 
جواب ملا،
”نہیں، ہر گز نہیں۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے ہمیں دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہر صورت میں مین روڈ پر پہنچنا ہے۔  یا پھر افغانیوں کی بستی میں۔“
                  اس حالتِ افتاد و ابتلا میں تہذیبی،تمدنی اور سیاسی تمام فاصلے مٹ چکے تھے۔ وہی بستی جو کچھ گھنٹے پہلے ہمارے لئے اجنبی تھی اب امید کی کرن بن رہی تھی۔آگے جا کر گاڑی کی طبیعت میں اتنا سدھار آیاکہ اُ س نے ہمیں سوار ہونے کا موقع دے دیا اور ہمیں بٹھا کر بھی چلتی رہی۔ یو ں جو سفر ایک گھنٹے میں کٹ رہا تھاوہ آدھ گھنٹے تک پہنچ گیا۔                راستے میں افغانیوں کی بستی آئی، شبیہوں والے پہاڑ آئے۔۔۔ اور پھر جب سڑک نے نیچے اترنا شروع کردیا۔ جوں جوں  ہم نیچے جا رہے تھے گاڑی کی رفتار بھی تیزہو تی جارہی تھی۔ یو ں خدا خدا کر کے ہم اس مقام پر پہنچے جہاں سے ہم نے جاتے ہوئے بہت نیچے کھبیکی جھیل کے پانیوں کو پیالے میں بیٹھے دیکھا تھا۔ یہاں نظارہ اتناخوبصورت تھا کہ اگر حالات ہمارے قابو میں ہوتے تو ہم یہاں ضرور رکتے لیکن مجبوری کی وجہ سے گاڑی سے ایک بھی  قدم باہر رکھنا گوارا نہ کیا۔  
 جوں جوں ہم آگے جا رہے تھے ہماری گاڑی کی طبیعت بحال ہو رہی تھی۔ ایسے مریض کی طرح جسے ڈرپ لگائی گئی ہو اور جوں جوں ڈرپ آگے بڑھےمریض کی طبیعت میں بھی بہتری آ تی جائے۔        عابد کو تھوڑا سا سکون ملا تو کہنے لگے،
”بھائی جان! پیچھے کچھ تھا ضرور کوئی ایسی شے جو ہمیں روک رہی تھی ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے ہیں گاڑی کی پک ٹھیک ہو رہی ہے۔“                    
نہیں یار یہ محض اتفاق بھی توہو سکتاہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گاڑی میں کچھ خرابی ہو۔“
 میں نے جواب تو دے دیامگر اندر سے میں بھی سوچ رہا تھاکہ اس انڈیانا جونزکے دیس میں جن بھوت تو ہوتے ہوں گے۔۔۔ دوپہر کا وقت۔۔۔۔ پُرا سرار شبیہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عمررسیدہ شخص۔۔۔۔۔۔۔  پھر ہمیں ہر شخص یہی کہہ رہاتھاکہ یہاں جن بھوت ہیں۔۔۔۔۔ ہوسکتاہے اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ انہی شرارتی اور شیطان صفت جنوں اور بھوتوں کے ڈر سے پریاں یہاں سے بھاگ گئی ہوں گی۔ پریوں کا اس وحشت سے کیا تعلق۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ کھبیکی کا ہم نے ایسا حال کر دیاہے کہ پریاں تو کیا پرندے بھی یہاں اترتے ہوئے سو بار سوچتے ہوں گے۔             
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
(ایوب رومانی)
                                                                     کچھ ایسی ہی سوچیں اور خیالا ت لئے ہم مین رو ڈ پر پہنچے،چھوٹی سی مارکیٹ پر رکے، کچھ کھانے پینے کی چیزیں لیں اور مکینک کا پتہ پوچھا۔لیکن پتہ چلا کہ یہاں کوئی مکینک نہیں۔ مکینک کے لئے ہمیں کوئی بیس میل دور نوشہرہ جانا ہو گا۔ شکر ہے نو شہرہ ہمارے راستہ میں بھی تھا اور اب ہماری منزل بھی۔
 جونہی گاڑی مین روڈ پر آئی تو ایسے چلنے لگی جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ گاڑی کو رواں بھاگتے دیکھ کر عابد نے پھر کہا۔
”دیکھ لیں بھائی جان گاڑی بالکل ٹھیک ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں وہاں کچھ تھا ضرور۔۔“                         
ابھی عابد کی بات مجھ سے ہضم نہیں ہوئی تھی کہ شاہ زیب نے کہا۔
 ”پاپا وہ بابا نہیں تھاکوئی جن تھا۔“                   
میری مسز اور زین نے بھی شاہ زیب کی ہاں میں ہاں ملائی۔                                                                                                                                                                                                                                   
 زین سے ہم توقع نہیں کرتے کہ وہ شاہ زیب کی ہاں میں ہاں ملائے۔ پتہ نہیں اُ س کی کیا مجبوری تھی۔ ورنہ اُس نے یہاں کوئی سائنسی توجیح پیش کر کے بحث کے نئے در کھول دینے تھے۔
         ”بہر حال نوشہرہ پہنچ کر گاڑی چیک کروانا۔ اگر وہ جن ہی تھا تو ہو سکتا ہے کہ اُس نے ہماری گاڑی میں کوئی خرابی پیدا کر دی ہو۔“
میں نے یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی بجائے مزید الجھا دی۔                 
” بھائی جان آپ تو مذاق کر رہے ہیں۔“ عابد کو میری بات کچھ پسند نہیں آئی۔         
               ”ہو سکتا ہے آگے جن کاکو ئی کزن وزن رہتا ہو۔۔۔۔“
میں نے گفتگو کا سلسلہ بڑھانے کی کوشش کی لیکن عابد نہیں چاہ رہے تھے کہ ہم مزید بات کریں۔                    
          شاہ زیب نے شرکت فرماتے ہوئے کہا۔  ” ان کی حکومت بھی تو ہوسکتی ہے۔“                        
زین کو شاہ زیب کی بات ہضم نہ ہوئی،
  ”او بھائی! یہاں شہباز شریف اور زرداری کی حکومت ہے۔۔۔ کسی جن کی نہیں۔“ 
 عابد کو زین کی بات بہت اچھی لگی،  ”تو زین وہ کون ہیں۔“                       
عابد کا جملہ زین کے سر سے گذر گیا۔
                ”آف کورس سیاستدان۔“                    
       عابد نے اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔                                                              
”شکر ہے زین تم نے یہ نہیں کہا ہمارے رہنما۔“                    
        زین کہاں ہار ماننے والا تھا۔                             
       ”آف کورس۔۔۔۔ آپ کے نہیں ہوں گے میرے تو ہیں۔۔۔۔ میرے ہی نہیں پوری قوم کے ہیں۔“  
 ”ٹھیک کہہ رہے ہو زین، اگر تمہارے اوپر ایک نک کٹا حکمران مسلط کر دیا جائے تو تم اُس کی بھی اطاعت کرو۔“ 
 ”لیکن وہ تو ٹھیک ٹھاک ہیں عابد انکل۔“                  
                   ”ٹھیک ہیں تو اس طرح کے ہیں اور اگر۔۔۔۔“     
”یہاں نک کٹے کا لفظ صرف Symbolically
 استعمال ہوا ہے۔۔ کچھ سمجھیں بھی عابد انکل۔“
زین نے جواب دیا۔ شاہ زیب کو زیادہ بحث پسند نہیں اس لئے اس نے اس بحث سے نجات موسیقی میں تلاش کی، جونہی آوازِ سرتال بلند ہوئی سب خاموش ہوگئے۔                                     ہم نوشہرہ کے چھوٹے سے بازار میں داخل ہو ئے تو بغیر مشقت اور بھاگ دوڑ کے مکینک مل گیا۔ اُس نے یہ جملہ بول کر ہم سب کوحیران کر دیا۔ 
”گاڑی تو ٹھیک ٹھاک ہے جی۔“          
       میں نے مکینک سے کہا۔
 ”بھیادوبارہ دیکھ لو ہم نے بہت دور جانا ہے۔“
   اُ س نے تقریبا تیس منٹ گاڑی کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعدجواب دیا،
 ”گاڑی ٹھیک تھی ویسے میں نے احتیاطا  ً ٹیونگ کر دی ہے۔“    
    گاڑی کا خراب ہونا تو سو قسم کے سوالات اور اعتراضات کو جنم دے سکتاہے لیکن گاڑی کا ٹھیک ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سب پریشان تھے۔
 گاڑی میں بیٹھتے ہی شاہ زیب نے دوبارہ بحث کے لئے نکتہ پیش کیا،
 ”دیکھا، وہ جن ہی تھا۔“   
 عابد نے جی کو کھنچتے ہوئے کہا۔  ”جی ہاں۔“                       
           زین مسلسل باہر دیکھ رہا تھا۔
            ”یار کوئی اچھی سی جگہ دیکھ کر رکنا کچھ کھا پی لیں۔“
 سب کو خاموش پا کر میں نے عابد سے کہا تو زین بولا،           
             ”عابد انکل گاڑی میں پٹرول دیکھیں ختم ہونے والا ہے۔“                 
                        ”ہاں ابھی بھرواتے ہیں۔“                          
”جب پٹرول کم ہو تو چڑھائی پر پٹرول ٹینکی کے پچھلے حصے میں چلا جاتاہے۔ اور تھوڑا تھوڑا کر کے آتا ہے جس کی وجہ سے گاڑی پِک نہیں پکڑتی۔“
 زین جو کافی دیرسے سوچ رہا تھا بالآخر  ایک دلیل نکالنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
  سب اپنی اپنی سوچوں میں مگن ہو گئے اور دماغ میں اس توجیح کا پوسٹ مارٹم شروع ہو گیا۔
عابد کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد بولے،
”زین یہ جو بھائی جان ہیں نا یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ پٹرول ڈلوائے بغیر ایسی جگہ چلے جائیں۔ انہوں نے سب کچھ پہلے سے ہی پلین کیا ہوتا ہے اس لئے یہ ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ  ابھی دیکھو آدھی ٹنکی پڑی ہے اور ہم پڑول ڈلوانے لگے ہیں۔“
زین اچھا کہہ کر خاموش ہوگیا۔
  پڑول ڈلوایاگیا، ایک چھوٹے سے ہوٹل سے کھانا کھایاگیااور چائے پینے کے بعد ایک سیدھی سڑک پر چلتے ہوئے ہم اوچھالی جھیل پر جا پہنچے۔


______________________


اوچھالی جھیل                                                                                                        وارث اقبال

 جھیل کی طرف جانے والی سڑک حکومت کی نگاہِ مستانہ کی منتظر توتھی ہی مگر جھیل پر پہنچ کر یہ احساس شدت اختیار کرگیا کہ اس عجوبۂ  قدرت کی نگہبانی کی ذمہ دار ساری زمینی قوتیں پہاڑوں میں موجود ڈاک بنگلوں میں خواب ِخرگوش میں مگن ہیں اور جھیل کو عوام الناس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔
 قدرت نے اس جھیل کو وہی حسن دیا ہے جو کسی بھی جھیل کے پاس ہوناچاہئے چاروں طرف پہاڑوں میں گھری ہوئی یہ جھیل سائیبیریا کے پرندوں کا پسندیدہ مسکن ہے جو سخت موسم سرما میں یہاں آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ سورج  اس جھیل کا پانی تک اُبالنے پرتُلا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی چاروں طرف دھند کا پہرا تھا۔ لگتا تھا جیسے کسی نے اس جھیل کو جکڑ رکھا ہو۔    سمندر جیسی یہ جھیل کناروں سے سوکھی ہوئی تھی۔ جیسے یہ موسمِ برسات کے انتظار میں ہو جب  ناصرف  یہ بھرے گی بلکہ اس کے ارد گرد کے پہاڑ بھی سبز لباس زیبِ تن کر لیں گے۔            جھیل کے اندر ایک سڑک بنائی گئی ہے جو جھیل کے اندر تک جاتی ہے۔ یوں ہم بغیر کشتی کے اپنی گاڑی میں ہی جھیل کے اندر تک چلے گئے۔ جہاں کچھ لوفر لڑکوں نے ڈیرا جما رکھاتھا۔ گاڑی پارک کرتے ہوئے سامنے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔

Bird  Hide& Ecotourism Point
Uchali lake
Inaugurated by
Nasir Pracha
Base  Commander  PAF Base Camp  Sakesar

 اسی بورڈ کے پیچھے ایک اور بورڈ تھا جس پر ہدایات برائے ماحول دوست سیاحت کے عنوان کے تحت لوگوں کو ہدایات دی گئی تھیں۔ اس بورڈ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیاتھا جو ہماری قوم بڑوں کی نصیحتوں کے ساتھ کرتی ہے۔
 جنگلوں، ویرانوں میں جہاں جہاں آپ کو جانے کا اتفاق ہو وہا ں وہاں افواجِ پاکستان کی بنائی ہوئی سڑکیں موجود ہیں۔ اگر افواج اس طرف دھیان نہ دے تو شاید ملک کے کئی حصے ملک سے کٹے رہیں۔ افواج اپنے فنڈز استعمال کرتی ہے عوام کے ٹیکسز جن سے سڑکیں بننی چاہئیں جانے کس کی تجوری میں جاتے ہیں۔                           
    شام ہونے کو تھی، تھکا ہارا سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے کے لئے تیار تھا۔ جھیل کے ایک پہلو پر دکھائی دینے والے دو گاؤں اوچھالی اور چٹا  دھند میں جکڑے ہوئے الف لیلوی گاؤں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دھوپ سے تنگ آئے پرندے شام ہوتے ہی اپنے مسکنوں سے باہر نکل آئے تھے۔ یہ مرغابیاں تھیں جو  جانے کب سے یہیں رہتی ہیں۔ کچھ مہاجر پرندے بھی ہوں گے کیونکہ ہم نے ایک عجیب سی چڑیا دیکھی تھی جو ہماری ہزار کوشش کے باوجود ہمارے کیمرے کی آنکھ میں قید نہ ہوئی۔ اُ س کی پھرتیاں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی غیر دیس سے آئی تھی اور اس کے گھر والوں نے اسے اچھی طرح سمجھا کر بھیجا تھا کہ پاکستانیوں سے کس طرح بچنا ہے۔           اس جھیل سے آگے سکیسر اور سکیسر بیس کیمپ ہے جو اس وادی کی سب سے اونچی پہاڑی پر قائم کیاگیا ہے۔ سنا ہے کہ وہاں سے اوچھالی اور وادی کا منظر بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس سرکاری پروانہ ٔ دید نہیں تھا ا س لئے جو دیکھا اسی پر قناعت کی اور واپسی کاسفر اختیار کیا۔
 اسی جھیل کے پیچھے انگہ کا علاقہ ہے جو تاریخی اہمیت کے ساتھ ادبی اہمیت کا بھی حامل ہے کہ احمد ندیم قاسمی کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔
بچے تصویریں بنانے میں مگن تھے اور میں پرندوں کی تلاش میں لیکن مجھے جہاں بھی کسی پرندے کے ہونے کی بھنک پڑتی وہیں سے کوئی بوتل یا شاپنگ بیگ دستیاب ہوتا۔ کائی سے بھرے ہوئے پانی میں کاغذ، لفافے، بوتلیں اور شاپر اس طرح تیر رہے تھے جیسے انہوں نے اسی جھیل کے ہی بطن سے جنم لیا تھا۔ ہوا کے ساتھ پانی کی لہروں میں آنے والی تبدیلی انہیں مزید نمایاں کر رہی تھی۔
میرے اندر ان بوتلوں اور شاپنگ بیگز نے کھلبلی مچائی ہوئی تھی۔ کیا ہم میلوں سفر طے کر کے ا س جھیل کو گندگی کا تحفہ دینے کے لئے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تحفہ کی خوبصورتی کا تعلق تحفہ لانے والے پر ہو تا ہے۔ تو کیا  ہم اتنے گندلا چکے ہیں کہ ہم قدرت کے ان شاہکاروں کی خدمت میں بھی گندگی کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ایک بوتل یا چپس کا ایک پیکٹ ہم کہیں سے خریدتے ہیں، کئی میل اٹھا ئے پھرتے ہیں اور پھر اُسے استعمال کرکے جھیل میں پھینک دیتے ہیں۔کیا استعمال کرنے کے بعد اس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جو ہم اسے اٹھا کر واپس نہیں لے جا سکتے۔ 
سورج ڈوب رہا تھا۔ آگ کا ایک گولہ آ سمان پر تھا اور ایک جھیل پر۔ لگتا تھا جیسے آگ کا گولہ جھیل کے پانی پر تیر رہا ہو۔ یا کوئی پانی کے اندر سے روشنی باہر پھینک رہا ہو۔ سرمئی رنگ نے چاروں اطراف جھیل کوگھیر رکھا تھا اور اس سارے سرمئی رنگ میں آگ کا یہ گولہ اور اس کے اطراف پھیلے رنگ ناممکنات کو ممکنات میں بدل رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں پیلے، کہیں لال،کہیں نارنجی اور کہیں ایسے کہ شاید ان کے لئے کوئی نام ہی نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے لئے بے نام ہونا ہی بہتر تھا۔ ہوا جب جھیل کے پانی سے مستیاں کرتی تو  رنگوں کا یہ گولا بھی تھرکنے لگتا۔ میں ساری عمر نہ اس کے رنگ بھول سکتا ہوں نہ اس گولے کا تھرکنا۔ اُ س دن مجھے تھرکنے کے معنی سمجھ آئے۔    سیاہ مرغابیاں جب روشنیوں کے ان دائروں میں آتیں تو ان کےبھی رنگ بدل جاتے۔ لگتا تھا جیسے سرمئی رنگ کے تالاب میں سنہری کھلونے تیر رہے ہوں۔ سارا دن یہ مرغابیاں دھوپ سے بچ کر اپنے مسکنوں میں قید رہیں مگر اب اسی دھوپ کے منبع کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔
جب شام کے سائے بڑھنے لگے تو ہم نے واپسی کا قصد کیا۔
 رنگوں کا گولا بھی اوچھالی کے پانیوں کے بستر میں گھس گیا تھا۔ کچھ بہادر اور نڈر مرغابیاں آوازیں نکال نکال کر یہ بتا رہی تھیں کہ ہمارے گھر جانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔         
             سورج کو جھیل اوچھالی کی گود میں اترتے ہوئے ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے کیوں کہ ہمارے گائیڈز نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ رات سے پہلے واپس آجائیے۔ لیکن اب تولگ رہا تھا کہ راستے میں رات سے ملن ضرور ہو گا۔
  عابد نے گاڑی سے کھیلنا شروع کر دیا۔ اہل ِ اقتدار اس سڑک کوبنا کر بھول چکے تھے۔ سڑک کی بیماری کافی بڑھ چکی تھی لیکن اس کے علاج کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی تھی البتہ پانی نے سڑک کا وہ حصہ ہی کاٹ دیا تھا جو اُسے زیادہ بیمار لگاتھا۔
رات کے خوف میں مبتلا عابد گاڑی کو اسی بیمار سڑک پر بھگا رہا تھا۔ جب گاڑی سڑک کے زیادہ بیمار حصے سے گذرتی تو اُسے نیچے سے سڑک ایسا گھونسا مارتی کہ وہ کئی فٹ اوپر اچھل جاتی اوراُس کے جسم کے کسی نہ کسی حصہ سے ایک چیخ نما آواز بھی بلند ہوتی۔ ایک جگہ توایسا خوف ناک جھٹکا لگا کہ سوئے ہوئے تو بیدار ہو ہی گئے تھے اگر گاڑی کی چھت مضبوط نہ ہوتی تو میں نے چھت سے نکل کرگاڑی کے بونٹ پر پہنچ جانا تھا۔ میں نے اپنے سر کو زور زور سے سہلایا۔ عابد نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن اُس کی نگاہیں وہاں نہ رک سکیں اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکل سکا۔ البتہ گاڑی کی رفتار کچھ کم ہو گئی۔   بقول مجروح سلطان پوری:
جلوۂ گل کا سبب دیدۂ تر ہے کہ نہیں
میری آہوں سے بہاراں کی سحرہے کہ نہیں
راہ گم کردہ ہوں کچھ اس کو خبر ہے کہ نہیں
اس کی پلکوں پہ ستاروں کا گزر ہے کہ نہیں
ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروح
زمزمہ سنج مرا خونِ جگر ہے کہ نہیں
                         پہاڑو ں کے سائے بڑھتے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں یہ سائے مزید بڑھ گئے۔ صبح ہم انہی پہاڑوں کی خوبصورتی کے گن گاتے ہوئے جارہے تھے اور ان کے گلے مل مل کر تصویریں اُتار رہے تھے۔ لیکن اب یہی پہاڑ وحشت کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ دنیا کی مشہور جھیلوں میں سے ایک اوچھالی جھیل کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ اسی جھیل کے پیچھے ایک تاریخی مقام امب شریف ہے جو اپنے قدرتی حسن،  چشموں، بزرگانِ دین اور تاریخی اثرات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس سے کوئی دو کلومیٹر دور امب کا قلعہ ہے۔ اس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ ایک راجہ امبریک نے تعمیر کروایا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں راجہ سیفل اور اس کی محبوبہ کے عشق کی داستان وجود میں آئی۔ راجہ نے اپنی محبوبہ کے دیدار کے لئے اُ س کی خواب گاہ کے سامنے اپنی خواب گاہ تعمیر کروائی تھی۔ جہاں سے بیٹھ کر وہ اپنی محبوبہ کا دیدار کیا کرتا تھا۔گویا اس راجہ کا تعلق عشاق کے اُس خاندان سے تھا جو اپنی محبوبہ کی گلی میں کھڑے ہونا ہی اپنی زندگی کا مشن سمجھتے ہیں۔  بقول مومن خان مومن
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
یوں اسی راہ گزرپر گھنٹوں سفر کرتے ہوئے واپس ہم اپنی مچان پر پہنچے اور پھر سب نے خود کو رات کی آغوش کے سپرد کر دیا۔
شیو کے آنسو کی بازگشت                                                                وارث اقبال

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب توہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
(باقی صدیقی)
براستہ موٹروے اسلام آباد کی طرف سفر کرنے والے جب بھیرہ سے آگے پہنچتے ہیں تو انہیں پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ دیوار کی مانند دھندلا سادکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں سفر آگے بڑھتا ہے ان پہاڑوں کے نقوش واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ پہاڑ مختلف روپ دھارے کسی شاطر اور ماہر اداکاروں کی طرح یکے بعد دیگرے سامنے آتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ شروع میں آنے والے بنجر، اُداس اور بھورے لباس میں ملبوس یہ پہاڑ مسافر پر اداسی کی ایک دھند طاری کر دیتے ہیں مگر پھرسر سبز لباس زیبِ تن کئے،شاداب، ہنستے مسکراتے پہاڑوں کے سلسلے مسافر کواداسی کی اس دھند سے باہر نکال کر خوابوں کی بستی میں لے جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جس حسینہ کا لباس اتنا خوبصورت ہے تن کتنا ملکوتی ہوگا۔ جس کا ظاہر اتنا سحرناک ہے اُس کا باطن کتنا پُراسرار ہوگا۔                        جب ان پہاڑوں کے اندر کی خوبصورتی  آٹے میں نمک کے برابر بھی سا منے آ ٓتی ہے تو پھر ستائشی الفاظ کا ذخیرہ دماغ کی مٹھی سے اس طرح سرکنا شروع ہوتا ہےکہ جس طرح ہاتھ کی مٹھی سے ریت۔ لیکن قدرت کے کارخانے میں خوبصورت شاہکار ختم نہیں ہوتے۔ ایک کے بعد دوسرا اورپھر تیسر ا ۔۔۔ لگتا ہے کار خانۂ قدرت میں خام مال اور فنکار دونوں وافر مقدار و تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی مورتیں کم ہی نہیں ہو نے پاتیں۔
 انہی بدلتے رنگوں اور پُر اسرار مورتوں کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جنت کہیں انہی وادیوں میں چھپی ہوئی تو نہیں۔
 جوں جوں مسافر آگے بڑھتا جاتا ہے ان پہاڑوں کے اندر جنت کے ہونے کا امکان بھی بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن نہ پہاڑ اور وادیاں ختم ہوتی ہیں نہ جنت کے ہونے کا امکان ماند پڑتاہے۔ ان پہاڑوں، وادیوں اور بستیوں کے بارے میں بے انتہا قیمتی معلومات جب جستجو کے مالک شخص کے پاس آتی ہیں تو اُس کا حال اُس مزدور جیسا ہو جاتا ہے جس کے سامنے عید پر اچانک اور غیر متوقع طور پربونس کا چیک آجائے۔
  یہی وہ قدیم قرۂ ارض ہے جہاں قدیم سے بھی قدیم زمانے میں سمندر کے اندرسے خشک خطہ ابھرا تھا، یہی وہ وادیاں اور پہاڑ ہیں جن کے اندر سے ڈائینوسارز کی طرح کے جانوروں سمندری مخلوق کے فوسلز اور ہڈیاں ملی تھیں۔ یہی وہ زمین ہے جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے جنم لیا تھا۔
یہی وہ زمین ہے جہاں انواع و اقسام کی معدنیات   کے ساتھ ساتھ  نمک کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یعنی اسی علاقہ میں نمک کی کانوں کی وجہ سے مشہور علاقہ کھیوڑہ موجود ہے۔ یہی وہ زمین ہے جہاں ہندو دھرم چند اشلوکوں سے نکل کرایک دھرم اور تمدن بن گیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہندوؤں کے ایک اہم تہوار شیورارتی کی وجوہات پیدا ہوئیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں شیوکا ایک آنسو موجود ہے۔یوں میرے سامنے دو منازل تھیں۔۔ایک  شیو کا آنسو اور دوسرا کھیوڑا ۔۔۔جہاں تھیں نمک کی کانیں۔
پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کے ساتھ گھر جیسا تعلق بن گیاتھا۔ ہم دل والوں میں یہی خرابی ہوتی ہے جس سے ہاتھ ملایا اُسے اپناجگر سمجھ لیا اور جس چھت کے نیچے رات بتائی اُسے گھر سمجھ لیا۔
 دل پر پتھر رکھا، کمرے کے رُخِ زیبا کے دو تین دیدار کئے اور آشنا لوگوں سے سلام دعا کے بعد نئی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔
 موٹر وے کے پیٹ کے نیچے سے گزرے تو ایک بوسیدہ کچی پکی سڑک نے خوش آمدید کہا۔ کہنے کو تویہ سڑک تھی لیکن دیکھنے کو نہر جیسی پکڈنڈی۔سڑک کے ارد گرد باغات نے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا تھا۔ لیکن کچھ دور جا کر یہ باغات ختم ہو گئے اور سڑک نے بھی نیا روپ دھار لیا۔ یہاں سے سڑک کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع ہوا تھا کیونکہ سڑک پر بجری ڈالی گئی تھی۔ بجری پر گاڑی اسی طرح چل رہی تھی جس طرح کوئی شخص ننگے پاؤں کانٹوں پر چل رہا ہو۔ کچھ دور جا کر سڑک پھر اپنے پرانے روپ میں آ گئی۔۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کھیوڑہ تک سڑک کی یہی کیفیت تھی۔ پیچھے مڑناتو سیکھا ہی نہیں تھا اس لئے چلتے رہے۔          
  بچپن میں ہم اپنے ماموں کے پاس لیہ موسمِ سرماکی چھٹیا ں گزارنے جایاکرتے تھے۔   فیصل آباد سے چلنے والی بس ہمیں ٹرکو اڈا پر اتارتی۔ جہاں ہم اونٹوں پر بیٹھ کر گاؤں جاتے۔ اونٹ پر ایک کرسی بنی ہوتی تھی جسے کچاواکہا جاتا تھا۔ ایک کچاوے میں دو لوگ بیٹھتے تھے۔ اس پر سفر اس طرح ہوتا تھا کہ آگے پیچھے، آگے پیچھے۔ یعنی سوار آگے پیچھے آگے پیچھے مسلسل ہلتا رہتا۔ یوں چلتے چلتے دس بارہ میل کا سفر کٹ جاتاتھا۔ آج بھی مجھے اسی طرح لگ رہاتھا جیسے میں کچاوہ میں بیٹھا ہوں۔        میں نے بچوں کو اپنا تجربہ بتایا تو انہوں نے بھی اونٹ کی سواری کی خواہش کا اظہار کیا لیکن نہ اونٹ میسر تھانہ کچاوا۔ میں نے کہا کہ اپنی گاڑی کو ہی اونٹ سمجھو۔ عابد نے اسٹیرنگ چھوڑ دونوں ہاتھ نہ کے لئے بلند کرتے ہوئے جھٹ کہا۔
  ”نہ بھائی جان نہ، میں اونٹ چلانے والا نہیں بن سکتا۔ اونٹ تو کاٹتا بھی ہے۔“
       میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
”اس کامطلب ہے کہ اب اونٹ کی سواری تم پر واجب ہے۔“              
         زین کو تو موقع خدا دے وہ بولا،
  ”واہ جی واہ! رہتے گاؤں میں ہیں اور اونٹوں سے ڈرتے ہیں۔“                      
 شاہ زیب نے بھی کمان کستے ہوئے تیر پھینکا،
 ”ویسے انکل آپ نے اونٹ کا دودھ تو پیا ہو گا۔“
عابد کے لئے دونوں حملے پسپا کرناکافی مشکل تھے۔
 ”او بھائی ہمارے گاؤں میں اونٹ نہیں ہوتے گائے بھینسیں ہوتی ہیں۔“       
 ”اچھاتو وہ جو آپ پٹھانوں کے گھر جایاکرتے تھے۔“
 زین کے اس با حوالہ حملہ پر عابد کچھ دیر خاموش ہو گئے۔  مجھے لگا جیسے یاد کر رہے ہوں کہ شاید کبھی اونٹ کا دودھ پیا ہی ہو۔
     میری مسز بھی سونف کو نگلتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہو گئیں۔
” اور اگر کبھی کسی نے گدھے کا دودھ پیا ہو تو۔“
 یہ ایک بڑا حملہ تھا جس کا ہدف سیدھا سیدھا میں تھا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا زین نے فوراً کہا۔
”یخ۔“
میں اور حملہ پسپا نہ کروں، میں نے بھی بحث مباحث کے اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہا۔     
”یار کوئی مجھے یہ بتا دے کبھی گدھا بھی دودھ دے سکتا ہے۔“             
عابد نے گئیر بدلتے ہوئے  فوراًً کہا۔
 ”لیں بھائی جان گدھا دودھ نہیں دیتا تو کیا انڈے دیتا ہے۔“   
                شاہ زیب دبے سے انداز میں مسکرا رہاتھا۔
’’پاپاجی گدھا نہیں گدھی تو دودھ دیتی ہے نا۔“ 
  ”یار وہ میں نے نہیں پیا تھا۔“
 میں نے جواب دیا۔                           
   ”بھائی جان کہانی کیا ہے۔“
 عابد نے سوال کیا۔
          اب کہانی بتانا تو واجب تھا اس لئے میں اپنے بالوں کو سیدھا کرتے ہوئے بولا۔                                                                                                                                                           
”او یا ر! کہانی کیاہونی ہے۔ بچپن میں ہم کوئٹہ رہتے تھے۔میں اور میرے بھائی کو شدید کھانسی شروع ہو گئی جو ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں ایک پٹھان عورت کام کرتی تھی۔ اس نے امی سے کہا کہ باجی یہ کالی کھانسی ہے یہ جلدی نہیں جائے گی۔ اس کا علاج ایک دوا ہے جو ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں اگر آپ کہیں تو میں لا دوں۔ امی نے کہا سو بسم اللہ لا دو۔ چنانچہ وہ جودوا لائی وہ دودھ جیسی کوئی شے تھی جو میرے بھائی کو پلائی گئی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔  بعد میں اس نے بتایا کہ یہ دوائی نہیں تھی گدھی کا دودھ تھا۔“
     زین نے کہانی سنی اور ہنستے ہوئے پوچھا۔
 ”تو پاپا آپ کی کھانسی کیسے ٹھیک ہوئی۔“
  عابد بھی نکتہ جانے نہ دینا چاہتے تھے بولے۔
 ”بھائی جان نے کہاں اس گدھی کا دودھ پیاتھا وہ تو اپنے بھائی کو دیکھ دیکھ کر ٹھیک ہو گئے تھے۔“
 ”پتہ چل گیا پاپا جی۔“
 دونوں لختِ جگر ایک ہو گئے تو میں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے نیا موضوع شروع کر دیا۔ 
 ”آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ بی بی سی نے 2009 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی کہ اونٹنی کے دودھ میں انسانی  جسم میں موجود بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت موجودہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق روس اور قازقستان میں اکثر ڈاکٹر اونٹنی کا دودھ کئی مریضوں کو علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔  
بھارت میں اونٹنی کا دودھ یرقان، ٹی بی، دمہ، خون کی کمی اور بواسیر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اور ان علاقوں میں جہاں اونٹنی کا دودھ انسانی خوراک کا باقاعدہ طور پر حصہ ہے وہاں لوگوں میں ذیابیطس کی شرح بہت کم پائی گئی ہے۔“
 بچے مطمئن نہ ہوئے، شاہ زیب نے کہا۔
 ”لیکن گدھے کے دودھ کا کیا چکر ہے۔“ 
 ”لیکن بیٹا بیماری میں تو کچھ چیزیں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں بچوں کوگلے کے انفیکشن کے لئے گدھی کا دودھ دیا جاتا تھا۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصری حسینہ قلو پطرہ کے حسن کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ گدھی کا دودھ چہرہ پر ملتی تھی۔ باقی معلومات اس عورت کے پاس ہیں جس نے دودھ پلایا تھا۔“
 میں نے جان چھڑاتے ہوئے جواب دیا۔              
            میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتھا اس لئے موسیقی پر میری اجارہ داری تھی۔ موسیقی میری دسترس میں ہو تو غزلیں نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ ناصر کاظمی کی یہ خوبصورت غزل شروع ہوئی تو میں نے والیم اونچا کر دیا۔ بچوں میں اور مجھ میں موسیقی کے حوالے سے قدرے مشترک یہ ہے کہ ہم موسیقی اونچی آواز میں سنتے ہیں۔ ویسے بھی گدھے کے دودھ کے موضوع سے نکلنے کا یہ موزوں ترین بہانہ تھا۔
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیر ی آرتی اتاریں گے
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے
(ناصر کاظمی)
بڑے کہتے ہیں کہ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں، خواب دیکھیں گے، نیتیں ٹھیک رکھیں گے تو تعبیریں ملیں گی۔ ہم جیسے دیوانے بھی کیسے ہیں دولت شہرت کے نہیں فطرت اور ماضی کے قُرب کے خواب دیکھتے ہیں۔ 
 دس سال پہلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کٹاس راج آیا تھا اور میں نے جاگتے میں یہ خواب دیکھا تھاکہ کاش کوئی وقت ایسا آئے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آؤں۔ آج میرا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔
ایک بڑی سی انسانی بستی سے گذرے ہی تھے کہ کٹاس کے دُھندلے عکس واضح ہو نے لگے۔  وہی شان، وہی وجاہت جیسی میں نے سوچی تھی۔ سر سبز پہاڑوں میں موجودکھنڈرات۔۔۔۔ کسی طلسماتی دیس کی عمارات لگ رہےتھے۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ باہر کھڑا ہونابھی دشوار تھا۔ سکھوں کی حویلی اور پہاڑوں میں موجود غاروں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہم اس کھنڈر کے اندر داخل ہوئے جسے کٹاس راج کہا جاتاہے۔ میرے سامنے کھنڈرات اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے موسمِ خزاں میں بہت سے نیم کے درخت؛ ویران، چرنڈ مرنڈ۔۔ جیسے انہوں نے کبھی بہار دیکھی ہی نہ ہو۔ جیسے انہیں دیمک چاٹ گئی ہو، جیسے ان پر کبھی بھی کسی پرندے نے گھونسلا نہ بنا یا ہو۔۔۔ جیسے انہیں کبھی کوئی نگہبان ہی نہ ملا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بس کوئی ایسا حسین جس کو اپنے ہی کسی چاہنے والے کی نظر لگ گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا قسمت کا مارا جو کسی کی آہ یا بددعا کا شکار ہو گیا ہو۔
مجھے یوں لگا جیسے یہ کھنڈر ہمیں دیکھ کر کہہ رہے ہوں،
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیاکیا خزانے لگے
(باقی صدیقی)