Thursday, January 16, 2020

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی اکیسویں قسطSafernama Pery...

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی اکیسویں قسطSafernama Pery...: دریاؤں کے پڑاؤ چلتے چلتے ہم جرید پہنچ چکے تھے۔ جرید کا مطلب خبر یا روزنامہ وغیرہ کے ہیں۔ شاید سڑک کے اس کنارے سے لوگ ارد گرد کی خبریں...

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی اکیسویں قسطSafernama Peryon ki talaash episode 21


دریاؤں کے پڑاؤ

چلتے چلتے ہم جرید پہنچ چکے تھے۔ جرید کا مطلب خبر یا روزنامہ وغیرہ کے ہیں۔ شاید سڑک کے اس کنارے سے لوگ ارد گرد کی خبریں حاصل کرتے ہوں۔ اس لئے اس جگہ کو جرید کہا جانے لگا۔ بعضے کے خیال میں شاید یہاں کوئی جیل تھی جس وجہ سے اسے جرید کہا جانے لگا۔
یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو فی الوقت ہاتھ کی بنائی ہوئی مصنوعات کی وجہ سے مشہور ہے۔ 2005 کے زلزلے سے پہلے یہاں ہینڈی کرافٹ کی کافی دکانیں موجود تھیں لیکن وہ سب تباہ ہو گئیں۔
 اس قصبے کے تعمیراتی ڈھانچہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی یہاں بھی انگریزوں نے پڑاؤ کیاہوگا۔
 ہم ہینڈی کرافٹ کے ایک اسٹور کا سرنامہ پڑ ھ کر اند ر چلے گئے لیکن ہماری جیب اور دکان کے بھاؤ میں شدید اختلافات کی وجہ سے ہم وہاں سے کچھ نہیں خرید پائے۔ اُس اسٹور کو اپنے اکلوتے ہونے پر ناز تھا اور ہمیں اپنی سفید پوشی کا بھرم۔ ہمیں گرم چادروں کی ایک کمرے جتنی ایک چھوٹی سی فیکڑی کی بھی پیشگی خبر تھی چنانچہ ہم وہیں کوہو لئے۔اس معصوم سے فیکڑی کامالک بھی انتہائی قناعت پسند اور مناسب اور معصوم شخص تھا۔ یہاں کی چادریں ہمارے مزاج کے مطابق اور قیمتیں ہماری جیب کے عین مطابق تھیں۔ جہاں مزاجوں میں ہم آہنگی ہو وہاں ساتھ چلنے کا بہانہ مل ہی جاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے پیاروں کے لئے کچھ چادریں خرید لیں۔ 
وادیئ کاغان کی دیگر جگہوں کی طرح جرید میں بھی منقش کتبوں والی تاریخی قبروں کی موجودگی کی خبر تھی لیکن بتانے والے نے ہمیں ایسا الجھایا کہ ہمارا حوصلہ ہی نہ ہوا کہ ہم یہاں بھی یہ قبریں دیکھ سکیں۔ جن پر نقوش بنے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے اندر کیا ہے۔ کوئی اس کا زمانہ قبل از تاریخ بتاتا ہے، کوئی یونانی اور کوئی ترکی۔
ہم تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔ زمینی ساخت اور مناظر میں واضح تبدیلی آ چکی تھی۔ چھوٹے چھوٹے جھرنوں کی طرح کے دریا یا دریاؤں جیسے جھرنے ایک دوجے کے گلے مل رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے دریاؤں کے کسی قافلے نے پڑاؤ کر رکھا ہو۔ جس کو جس طرف جگہ ملی وہیں لم لیٹ ہو گیا۔
ہمارا اگلا پڑاؤ مہانڈری میں تھا۔ ایک تاریخی اور ہزاروں اسرار و موز رکھنے والاعلاقہ۔
 مہاندری ہندی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے۔۔ ایسی جگہ جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ ایک کنہار اور دوسرا منور۔ کنہار کا تو ہمیں پتہ تھا اور ہم اسی کے ساتھ ساتھ اس سمت جارہے تھے جہاں سے یہ چلتا ہے لیکن دریائے منور کا پتہ نہیں تھا۔ کوشش کے بعد دیدار ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ دریاملکہ پربت کے برف پانیوں کو لے کر نکلتا ہے اور پھر راستے میں منور کے جنگلات اور کئی بستیوں کو سیراب کرتے ہوئے یہ کنہار کے درِ نیاز پر اپنا وجود قربان کردیتا ہے۔ یہ دریا کیا ہیں بس ملکہ پربت کے آنسو ہیں جواس طرف کو بہہ نکلے۔
 منور کے جنگلات کے بیچوں بیچ ایک راہ گزر آنسو جھیل کو جاتی ہے جو جانے کب سے برف کے لباس میں ملبوس ملکہ پربت کی دہلیز پر خوابیدہ پڑی تھی۔ قدرت نے اس عجوبہ حسن کو انسانی آنکھ سے چھپائے رکھا مگر 1993  کی ایک تاب ناک صبح پا کستانی ائیر فورس کے ایک پائیلٹ کی عقابی آنکھ نے اس کے رُخ سفید پر ازلوں سے پڑا آنچل سرکا دیا۔ پھر کئی منچلے دیوانے اس کے دیدار کو نکل کھڑے ہوئے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ 2005 کے زلزلے سے پہلے یہ جھیل آنکھ کی صورت تھی۔ مگر فطرت نے اس کے نین نقوش کی ترتیب نو کی اور اسے آنسو کی شکل دے دی۔شاید زلزلے کی تباہی  اس جھیل سے دیکھی نہ گئی اور آنسو ہوگئی۔۔۔سراپا آنسو۔

اسے دوراستے جاتے ہیں ایک مہانڈری سے ہے۔ جو مینور جنگل سے ہوتا ہوا اس جھیل تک پہنچتا ہے۔ یہاں سے جھیل تک پہنچنے کے لئے جیپ کے علاوہ چار پانچ گھنٹے پیدل بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔
 اس جھیل تک پہنچنے کا دوسرا راستہ جھیل سیف الملوک سے چلتا ہے یہاں بھی چار پانچ گھنٹوں کا پیدل سفر ہے۔
ہم اس ملکوتی جھیل کی راہگزر پر دستک دے کر آگے بڑھ آئے۔
مہانڈری کے قریب ہماری نظر ایک بورڈ پر پڑی تو ہم اُس کی طرف چل دئیے۔ لکھا تھا۔
 ”ٹورسٹ ویو پوائنٹ“
دریائے کنہار پر بنا لکڑی کا ایک پُل ہمیں دریائے کنہار کی دوسری طرف لے گیا۔ لکڑی کا یہ  پُل انگریزی دور کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ لوہے کے رسوں سے جکڑا یہ پُل کتنے ہی ادوار اور کتنی ہی لمبی تاریخ کا گواہ تھا۔ لیکن ا فسوس گونگا اور شاید بہرا بھی۔ کاش یہ بول سکتا، سن سکتا اور میرے سوالوں کا جواب دے سکتا۔۔ جھولتے پُل کے لکڑی کے تختوں پر چلنے کا اپناہی مزا تھا۔ خاص اس وقت جب نیچے کنہار جیسا دریا کسی اژدہے کی طرح منہ کھولے لیٹا ہو۔ پُل سے آگے کچھ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں۔ ہم کسی نئے منظر کی تلاش میں ان سیڑھیوں کی طرف ہو لئے جب منزل پر پہنچے تو پتہ چلا ہم واپس مرکزی شاہراہ پر آگئے ہیں۔ البتہ چھوٹے چھوٹے عارضی ہوٹل ہمارے دائیں جانب موجود تھے۔جن کے کچے چھپروں کے نیچے لوگ پکوڑوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ سب کی نظریں بہت نیچے بہنے والے کنہار کے پار درختوں پرلگی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی اپنی جنت تلاش کر رہاتھا یاکوئی ہم جیسا ا س اُمید میں تھاکہ کہیں سے ابھی کوئی پری نکلے گی اور ہمیں اپنے ساتھ کوہ قاف لے جائے گی۔ ہمارے سامنے پریاں تو نہ تھیں البتہ دھول اُڑاتی لمبی سڑک نما پکڈنڈی ضرورتھی۔ لینڈ سلائیڈنگ نے سڑک اکھاڑ دی  تھی۔ محکمہ سڑک ساز نے سڑک اور پہاڑ کا ملبہ کنارے سے لگا دیا تھاجو دور سے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ کنہار کنارے انسانی تعمیر شدہ پہاڑیاں۔
میرے بالکل سامنے ا یک جوان لڑکا ہاتھوں میں پیالہ لئے ایک بوڑھی عورت کو چائے پلا رہاتھا۔ ایک پاس کھڑا چائے کے پیالے میں رس بھگو بھگو کر اُس بڑھیا کو کھلا رہا تھا۔ میں مشتاق ہوا، پوچھا تو پتہ چلا وہ دونوں ا س بڑھیا کے بیٹے تھے۔،وہ بڑھیا کئی دنوں کی بیمار تھی۔ وہ بچے حق ِ فرزندگی ادا کرتے ہو ئے د و دن سے پیدل چلتے چلتے اپنی ماں کو یہاں تک لے کر آئے تھے۔ اب ان کی منزل ایبٹ آباد تھی جہاں وہ اپنی ماں کو علاج کے لئے لے کر جارہے تھے۔
میں اُس ماں پر آنسو بہاؤں یا اُن بچوں پر جنہیں یہ ریاست،یہ سماج اور یہ انسانیت علاج کی بنیادی سہولت تک نہ دے سکی۔
انسانیت تو کب کی مرچکی
اب تو لاش پڑی ہے ایوانوں میں
ایک بڑی بس دھول اُڑاتی سڑک سے لڑتی بھڑتی بلکہ اُ س کے سینے پر مونگ دلنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی تھی۔ ا س کے ہوتے ہوئے کوئی اور نہیں گذر سکتاتھا۔ ا س لئے ہم گاڑی کے شیشے بند کر کے ا س کے گذرنے کا نظارہ کرنے لگے۔ ہچکولے کھاتی، ڈولتی اورجھولتی اس بس کو دیکھ کر اس میں بیٹھے لوگوں کی خوشی قسمتی پر رشک آرہا تھا جو محفوظ تھے ورنہ اس کا ڈرائیور شاید گھر سے کچھ اور ہی سوچ کر نکلا تھا۔ اس وادی میں اس کا ہونا بذات خود کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ہم نے تو بس یہی سمجھا تھا کہ ہمارے سامنے ایک بس ہے لیکن جب یہ گذری تو پتہ چلا کہ ایک قافلہ ہے جو اس بس سے پناہ مانگتے تعوذ پڑھتے ہوئے اس سے کافی پیچھے رینگ رہا تھا۔
جب کاریں شروع ہو گئیں تو عابد نے بھی حوصلہ کیا اور ہم چل پڑے۔ ہمارے اور کنہار کے بیچ بجری کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھی۔ قریب پہنچنے پر یہ ڈھیریاں ہو گئیں جو کسی بھی وقت کسی دھکے کے سامنے ڈھیر ہو سکتی تھیں اس لئے میں نے عابد سے کہا۔
”بھئی دھیان سے۔۔۔ یہ تو آ رہے ہیں ہم جارہے ہیں۔ ہم پریوں سے ملاقات کئے بغیر اگر سورگ چلے گئے تو وہاں کے باسی کیا کہیں گے۔“
میری بات عابد کی سمجھ میں آ گئی اور اُس نے صبر اور دھیرج اختیار کرنا شروع کر دی۔
میں تو دریاکی طرٖف دیکھ دیکھ کر خوف زدہ ہورہا تھا۔ یہاں ا س میں ظغیانی کچھ زیادہ ہی تھی۔ اصل میں سڑک تھی ہی نہیں۔ سڑک تو کچھ روز پہلے کہیں بہت اوپر ہو اکرتی تھی۔ جب سڑک دریا برد ہوئی تو شاید لوگوں نے دریا کے کنارے سے نیچے اُتر کر دریا کے خشک حصہ پر راستہ بنالیاتھا۔ گویا ہم دریا کی حدود میں تھے۔ دریا کو کسی بھی وقت غصہ آ سکتا تھا کہ یہ میرے صحن میں کیوں پھر رہے ہیں۔ بس اسی چیز کا ڈر تھا۔ خدا خداکر کے یہ پندرہ بیس منٹ کا سفر ختم ہوا۔ دائیں طرف بکھرے ہوئے پہاڑ کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ایک ابھی بھی ریزہ ریزہ بکھر رہا تھا۔ ٹرک کی جسامت کے حامل ایک پتھر نے تو ہماری جان ہی نکال دی تھی جو اوپر سے چلا اور کنہار کنارے آ کر رک گیا تھا۔ سب اس پتھر کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہاں سے گرا ہو گا، کیا تباہی پھیلائی ہوگی۔ لیکن شاہزیب نے تو ایک جملہ بول کر سب کی بولتی بند کر دی۔
”پاپا اگر وہ ذرا سا سرکاتو سارا دریا اس طرف اچھل آئے گا۔“
 شاہزیب نے یہ جملہ بولا تو عابد کے ہاتھ میں سٹیرنگ کانپنے لگا۔
”یار  شُب  شُب بولو۔۔۔۔“
زین نے بھی غصہ نکالا۔ جو سڑک کے اس اُلجھاؤ میں اُلجھا ہواتھا۔
”اِسے بہت شوق ہے سٹوری میں ٹوسٹ لانے کا۔“
ہم ماضی کی اصل سڑک سے کم از کم دوسو فٹ نیچے تھے۔ اوپر بجری کے لامتناہی ڈھیر تھے جو نیچے کو چلے آرہے تھے۔ پتہ نہیں کس طاقت نے انہیں نیچے آنے سے روکا ہوا تھا۔ شاید ہر پتھر دوسرے میں اُلجھا ہوا تھا یا وہ ایک دوسرے سے اُلجھ رہے تھے کہ تو جا پہلے تو جا۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ اللہ کرے وہ ہمیشہ الجھتے ہی رہیں۔ آوارہ گردی کے لئے کسی سڑک پر نہ آجائیں۔ ویسے یہ قدرت کا اصول ہے جو اپنی حد سے نکلااُ س نے دوسروں کو بھی نقصان پہنچایا اور خود بھی نقصان اٹھایا۔ گریں گے تو بکھر جائیں گے اور شاید ان کی اگلی ساری حیاتی کنہار کے پانیوں میں ڈوبے گذر جائے۔
ہائے کنکری گرے تو لڑھکتی ہوئی کسی کونے میں جا کر قیام کر لیتی ہے مگر پہاڑ لڑکھتا ہے تو بکھر جاتا ہے۔۔ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ جو جتنا طاقتور ہوتاہے اُ س کا ٹوٹنا یالڑکھنااتنا ہی ا لمناک ہوتا ہے۔
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
(منور رانا)
کنہار کو جب غصہ آتا تھا تو وہ اپناپانی گاڑیوں پر پھنکار دیتاتھا جیسے کوئی اژدہا اپنے ہدف کی طرف زہر کا چھینٹا اُڑا دے۔ وہ دھاڑ رہا تھا جیسے کوئی شیر پنجرے میں بند ہو۔۔۔۔۔کبھی سارا دن سویا رہتا ہے اور جب غلامی کا احساس ستاتا ہے تو سلاخوں کے پاس آکر دھاڑتا ہے۔۔۔۔ اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور پھر اپنی بے بسی کا اِدراک ہوتے ہی کسی کونے میں جا کر دبک جاتاہے۔ہماری قوم کی طرح جو کبھی اپنے حقوق کے لئے باہر نکلتی ہے، دھاڑتی ہے،پھر بلکتی ہے اور جب ظالم کی طاقت کے سامنے بے بسی ماند پڑ جاتی ہے تو دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔                                                        
گاڑیاں تھیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے چل رہی تھیں۔ ہم چونکہ دریا کی طرف تھے اس لئے ہماری جان سب سے زیادہ نکلی ہوئی تھی۔ یہ لمحہ بہت اذیت ناک تھا۔ مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ہم لفٹ میں بند ہوگئے ہوں۔ بھوری اور سبز دلربا، قاتل حسینہ۔۔۔ دلفریب بھی اور ظالم بھی۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعدہمیں چینی بلڈوزروں کی شکل دکھائی دی جو سڑک بنا رہے تھے مگر اس کے پیچھے تا حد نگاہ ٹریفک رکا ہوا تھا۔ اب ہم دریا سے کوئی دو تین سو فٹ اوپر تھے بجری ڈال کر ایک سڑک بنائی گئی تھی جس کے بائیں طرف کنہار تھا۔ سڑک کے کنارے نہیں تھے یعنی سڑک اور اس کے ساتھ نیچے کنہار۔ اس خطرناک صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے میری مسز نے بھی اظہار ضروری سمجھا۔
”ظالموں نے مٹی کی ایک ڈھیری بھی کنارے پر نہیں چھوڑی کہ کچھ تو بچت ہو۔“
لینڈ سلائیڈنگ نے پہاڑوں کا سارا حدود اربعہ بدل کر رکھ دیا تھا۔ کسی جھرنے کی صورت میں بہنے والا پانی یہاں آکر ایسی بھیڑ بکریوں کی طرح پھر رہا تھا جو اپنے قافلے سے جدا ہو گئی ہوں۔اُسے جہاں جگہ ملتی اُسی طرف نکل جاتاتھا۔اس طرح ایک جھرنا کئی جھرنوں میں بدل چکا تھا۔سبز جھاڑیوں میں سے بنتی مٹتی سفید برف لکیر۔۔۔۔دور سے ایسے تھی کہ سبز دراڑوں والا شیشہ۔۔۔۔۔کہیں تھرکتا، کہیں ناچتااور کہیں شریر بچے کی طرح اُچھل کود کرتے ہوئے اٹکھیلاں کرتا۔ یہ جھاڑی نما پیڑ بھی شایدکئی سالوں یا مہینوں پر محیط برف کی قید سے آزادی کی خوشیاں منا رہے تھے۔
پہاڑوں سے آنے والا پانی اس سڑک کو کیچڑ بنانے کی پوری کوشش کر رہا تھا جبکہ سڑک بنانے والے یہاں مٹی ملی بجری ڈال کر ٹریفک رواں رکھے ہوئے تھے۔ چھوٹی سی سڑک پر جو کنارہ ذرا سا سوکھا ملتا ہم وہیں کو ہولیتے۔اوپر سے آنے والا پانی کوئی پانچ منٹ ہمارے ساتھ چلتا رہا۔ دیکھنے کو ایک اچھا نظارہ تھالیکن ا س وقت ا س کی خوبصورتی زہر لگ رہی تھی۔گاڑیوں کے پہیوں نے زمین میں جو لکیریں کھینچ دی تھیں ان لکیروں میں یہ بے وطن پانی دو نالیوں کی طرح بہے چلا جارہا تھااور کبھی ان نالیوں سے باہر آ کر محکمہ سڑک ساز کی محنتوں پر پانی پھیر دیتا۔ شاید وہ بھی یہ کہہ رہا ہو۔
ہم بھی کبھی پریوں میں رہا کرتے تھے شاعرؔ
کیا دیکھتے ہو ہم کو غریب الوطنی میں
(آغا شاعر قزلباش)
کاغان سے کچھ ہی دور ٹریفک رکا ہوا تھا وجہ ایک جیپ تھی۔ ایک جیپ اپنے اندر انسانوں کو ٹھونسنے کی لگاتار کوشش میں مگن تھی۔ جیپ کے اندر باہر اوپر نیچے دائیں بائیں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں ایک سے زیادہ انسان موجود نہ ہوں۔ لگتا تھا جیسے یہ سب انسان،مردم زاد اسی جیپ کاحصہ تھے۔ بوڑھاکیا جوان کیا ہر ذی روح اسی جیپ کو اپنی زندگی کی آخری سواری سمجھ رہاتھا۔ ایک بچہ جسے ہم نے کنڈکڑی کے اسکول کا طفلِ مکتب سمجھا آوازیں لگا لگا کر لوگوں کو بلانے میں مگن تھا۔ ہم پریشان تھے کہ یہ اب کسی کو کہاں بٹھائے گا۔لوگ چیخ چیخ کر اس جیپ کے ڈرائیور کو بلا رہے تھے لیکن دور نزدیک اس کا     نام و نشان تک نہ تھا۔ دورایک چھوٹے سے پل کے قریب کنڈکٹری کا وہ طفلِ مکتب مزید دو انسانوں کو گھسیٹتے ہوئے جیپ کی طرف بڑھاآ رہاتھا۔ اس کی بغل، ہاتھوں اور سر پر ان مسافروں کے سامان کی گٹھڑیاں تھیں اور وہ بے چارے اس دہشت گردکے پیچھے بھاگتے بلکہ پھلستے چلے آرہے تھے۔ جیپ کی پشت سے لٹکے اور چمٹے لوگ چھلانگیں لگا کر اُترے اور اُس بچہ نے اپنے نئے مسافروں کو جیپ میں ٹھونس دیا۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ جیپ کے کس خانے میں ٹھنسے ہوں گے۔ پھر وہ لمحہ آیا جس نے ہمیں ورطہئ حیرت میں ڈال دیا۔ جیپ چل پڑی بلکہ تیزی سے نکلی، اچھلی اور اُس کابونٹ اوپر کو اٹھا، لگا کہ جیپ اُلٹ بازی لگا لے گی لیکن کچھ بھی نہ ہوا، نہ کوئی گرا،نہ کوئی پھسلا،نہ کسی کا ہاتھ چھوٹا بلکہ جیپ بھاگتے ہوئے موڑ سے آگے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ شاید  اس جیپ کے شہ سوار اس جیپ کی اس طرح کی چلنیوں کے عادی تھے۔
میں خاموش یہ تماشہ دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔
ائے مولا! تیری خلق ا پنی قاتل کیوں ہے۔۔ اس کے قاتلوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، ہر چہرہ میں مقتول اور قاتل ملتا ہے۔ دین دار کا دیندار قاتل، دکاندار کا دکاندار قاتل، علم والے کا علم والا قاتل، بے علم کا بے علم قاتل۔۔۔غریب کا غریب قاتل۔۔۔یہ قوم کیا اپنے حقوق کے لئے کھڑی ہوگی۔ اسے لوٹنے والے تواسے مزید دو صدیوں تک بہت آسانی سے اسے لوٹ سکتے ہیں۔ اس قوم کو ناجانے کسی بات کی جلدی ہے۔ اسے کوئی بھی آسانی سے اپنی جیپ میں ٹھونس لیتا ہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ جو اس کا استحصال کرتا ہے یہ اُسے ہی اپنامسیحا سمجھ لیتی ہے۔
مرے خلوص کا یاروں نے آسرا لے کر
کیا ہے خوب مری دوستی کا استحصال
(حنیف کیفی)
امید پہ دنیا قائم ہے۔
یوں ہی سر چڑھ کے ہر اک موج بلا بولے گی
ہم جو خاموش رہیں گے تو ہوا بولے گی
وہ تو رہتا ہے یوں ہی اپنے گلستان میں گم
لب خاموش سے کیا برگ حنا بولے گی
موسم نعرہئ بلبل بھی کبھی آئے گا
اس سے مایوس نہ ہو خلق خدا بولے گی
(مہتاب حیدر نقوی)
ہم کاغان پہنچ چکے تھے۔
پاپا وہی جیپ“
بالکل وہی جیپ۔۔۔۔سواریوں کو بٹھانے اور اُتارنے کا عمل جاری تھا۔  وہ جسے ہم کچھ دیر پہلے کنڈکٹری کاطفل مکتب سمجھنے کی غلطی کر رہے تھے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اختیار کے نشے میں مدہوش سگریٹ کے مزے لے رہاتھا۔

لوہے کے دیوہیکل پُل کے نیچے ایک نالہ ہمالیائی پہاڑوں کی برف لئے کنہار کی طرف جا رہاتھا۔ برف سے اٹی چوٹیوں کے اوپر سفید بادل اُڑتے سیر کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ نالے کے کنارے لکڑی کے بنے گھر تقریباً نالہ میں گرے گرے جا رہے تھے۔
ہم وادی ئ کاغان کے اس مرکزی قصبے کے مرکزی بازار میں تھے۔ اس قصبہ کو ہم وادیئ کاغان کادارالحکومت کہہ سکتے ہیں۔ سڑک کے دونوں کناروں پر دکانیں، ہوٹل اور کچھ ٹھیلے پاکستانیت کا ثبوت دے رہے تھے۔ زیادہ دکانیں جدید طرزِ تعمیر کی حامل تھیں جبکہ اِکا دُکا لکڑی کی بنی ہوئیں، عہد پارینہ کی یاد دلا رہی تھیں۔ زیادہ دکانیں کھانے پینے کی تھیں۔کھانوں کی دکانوں سے اُٹھنے والی خوشبو مسافر کی بھوک کے گھوڑے کے لئے تازیانے کاکام کرتی ہے۔ اس لئے ہم بھی ا س خوشبو کے دام میں آ گئے۔ہوٹل کا انتخاب بھی لڑکی یا لڑکے کے انتخاب سے کم مشکل کام نہیں۔ کہیں بندوں کا مسئلہ، کہیں عمارت کا مسئلہ،کہیں زبان کا مسئلہ اور کہیں اقتصادی حالات میں تضادات کا مسئلہ۔  ایک نویں نویلے ہوٹل پر سب کی نظرِ انتخاب جا کر رکی تو ہوٹل کے دروازے ہمارے لئے کھل گئے۔ ٹھنڈی جگہ، ٹھنڈے لوگ، جو باہر سے جاتے تھے وہ بھی ٹھنڈے ہو جاتے۔ ہوٹل کا مالک جو شاید پختون تھا منہ میں رکھی ہوئی نسوار کو اپنی ایک گال کے انتہائی اندر تک چھپاکر ہماری طرف بڑھا۔مگر ابھری ہوئی گال اُ س کی تہہ میں چھپی نسوار کی چغلی کھاتی رہی۔
جب ہمیں معلوم ہوا کہ بکرے کا گوشت مرغی کے گوشت سے کہیں زیادہ سستا ہے تو ہم نے بچوں کی ناگواریت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے شوق اور ولولے کے ساتھ مٹن کڑاھی کاشاہانہ حکم صادر کر دیا۔ جب تک مٹن ہماری دسترس سے باہر تھا ا س ہوٹل کے مالک نے ہمیں سلاد کے ”آرے“ لگا ئے رکھا۔ سلاد چرتے ہوئے میں نے اپنے دونوں برخور داروں کو دل کھول کر مٹن کے فائدے بتائے۔ میں بتاتا جاتاتھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ قائل نہیں ہو رہے۔
خوشبوؤں سے لبریز، بھاپیں اڑاتی مٹن سے بھری کڑاہی گرم اُجلے اُجلے نانوں کی ہم رقابی میں ہمارے سامنے آئی تو میں نے اُ س پر حملہ میں پہل کی۔ باقی شاید ابھی تک اُ س کی خوشبوؤں میں الجھے ہوئے تھے۔ پہلے لقمہ سے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ باورچی موصوف نے علاقائی جڑی بوٹیوں کا اچھا خاصا تڑکا لگایا ہواہے۔ یا شایدبکرا ہی کسی پنساری کی دکان پر جڑی بوٹیاں کھاتے جوان ہوا تھا۔ ہر  لقمہئ گوشت اپنے پہاڑی ہونے کا خوب ثبوت دے رہاتھا۔ ایسا خوش کردار کہ جس طرف سے بھی کھیچنتیکھنچتاچلا جا تا،مگر ایسا اڑیل کہ ٹوٹنے کانام ہی نہیں لیتاتھا۔ میں اور میری مسز بچوں سے نظریں بچا کر ایک دوسرے کو تکتے اور کوشش کرتے کہ بچوں پر یہ راز نہ کھلنے نہ پا ئے کہ ہم اس بکرے کے بچے کو قابو میں کرنے کے لئے کیاکیا جتن کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بچے کچھ کہتے میں نے فوراً ڈرنکس کا بھی آڈر دے دیا۔ کچھ دیر سانس لینے کے بعد میں پھر اپنی کوشش میں لگ گیا مگر جتنا میں اُسے توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اُتنا ہی وہ میری برداشت نچوڑنے کی کوشش میں تھا۔مختصر یہ کہ بس شوربے پر گذارا کیا جسے ہوٹل کے مالک نے کری کا نام دیا تھا۔ حالانکہ وہ ایسا پاک کردار اور شفاف شوربہ تھاکہ پلیٹ کے پیندے پہ لکھا انگریزی گیت بھی بخوبی پڑھا جا سکتاتھا۔ مجھے سعادت حسن منٹو کاایک کردار یاد آگیا جس نے نان کچھ اسی قسم کے شوربہ میں بھگو بھگو کر کھائے تھے۔ میں نے بھی یہی عمل کیا، خود بھی کھائے اور بچوں کو اس کے فائدے بھی بتائے۔
 ”سفر میں تو نان شوربہ میں بھگو کر ہی کھانے چاہئیں جلد ہضم ہو جاتے ہیں۔ بندہ پانی بھی کم پیتا ہے۔ پیٹ میں گرانی کی وجہ بھی نہیں بنتے۔ اورپتہ ہے اس علاقے کو Paradise of Botany کہتے ہیں اگر کوئی اس گوشت کو کھانے میں کامیاب ہو جائے تو سمجھے کہ اُس نے
 Paradise of Botany   ہی کھالی۔“
میری ساری باتیں تو بچوں نے ہضم کر لیں لیکن یہ پوری جنت کھانے کی بات ہضم نہ ہوئی۔
”اب بس بھی کریں پاپا ہم کھا تو رہے ہیں آپ ایسے ہی سٹوری میں ٹوسٹ لا رہے ہیں۔۔۔۔۔Paradise of Botany
شاہزیب کی حد برداشت جب اُ سکے قابو میں نہ رہی تو اُ س نے حدِ ادب توڑتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا۔
”لو تم مزاق سمجھے یار دیکھو یہ بکرا کہاں جوان ہوا۔“ میں نے دلائل کی راہ اپنائی۔
”اپنے گھر میں۔“ جواب ملا۔
”او نہیں یار اس جنگل میں۔۔۔ ادھر ادھر جو ملا کھاتا رہا پتہ نہیں کیا کیا کھایا۔۔ہو سکتا ہے ا س نے کوئی ایسی جڑی بوٹی کھائی ہو۔۔جو میرے سفید بالوں کو سیاہ کر دے۔۔“
 میں نے تو اپنے لحاظ سے کافی موٹی دلیل دی تھی مگر زین نے اُس دلیل کا یہ کہہ کر دلیا کر دیا۔
”اور اگر اُس بکرے نے کسی ایسی جھاڑی کو منہ مار لیا ہو جس کا اثر انسان کے رہے سہے بال بھی اتار دے تو۔“
”ا ونہیں یار ایسے نہیں ہوتا۔“ میں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
”یہ کیسے ہوتا ہے۔ اگر ایسے نہیں ہوتا تو ویسے بھی نہیں ہوتا۔“
 اب کی بار شاہزیب نے جواب دیا۔
”اچھا چلو زیادہ فری نہ ہو اپنا کھانا جلدی کھاؤ۔“
  ہم بڑے جب بچوں کے مقابلے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو باپ والا کلیہ آزماتے ہیں۔
 ویسے بچوں کے ساتھ بحث کرنی ہی نہیں چاہئے۔ ان کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب کون سی دلیل منہ پردے مار یں۔
باپ والا بہترین۔ کلیہ۔
 کسی بچے نے اپنے باپ سے یہ سوال کیا۔
”بابا بتائیے باپ عقل مند ہوتا ہے یا بیٹا۔“
باپ نے جواب دیا۔
”ظاہر ہے باپ۔۔وہ بڑا ہے اُس کا تجربہ بھی زیادہ ہے۔“
 بیٹے نے باپ کو گگلی کرواتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا تو بتائیے کہ ٹیلی فون کس نے ایجاد کیاتھا۔“
”دنیا جہان کو پتہ ہے کہ گراہم بیل نے۔“
”تو بابا دنیا جہان کو یہ کیوں نہیں پتہ کہ ٹیلی فون گراہم بیل کے باپ نے ایجاد نہیں کیا تھا۔“
میں نے ہوٹل کے مالک کے کھانوں کی تعریف کی، کچھ بکرے کے گوشت کی ہٹ دھرمی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور یہاں کی تاریخی قبروں کے بارے میں پوچھا،
”قبریں تو ہیں مگر تاریخی ہیں کہ نہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔۔“
 حالانکہ میں جانتاتھا کہ یہاں تاریخی قبریں ہیں جن کے کتبوں پر جانوروں اور پرندوں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔
دفعتاً انورؔ خیال آیا ہے آج اس مرغ کا
شوربہ پینے کے بعد اور بوٹیاں کھانے کے بعد
اللہ اللہ ایک برقی سرد خانے کے طفیل
اس نے کتنی عمر پائی ذبح ہو جانے کے بعد
(انور مسعود)



Ye Batain،Best Urdu Poetry |Waris Iqbal,Yeh baatein jhooti baatein hain...

Best collection۔Best Urdu Romantic Poetry | Heart Touching Poetry | War...

SUHAGAN., ,a beautiful Love story, Waris Iqbal.پہلی رات کیا ہوا...،سہاگن...

How to make video,Video making, اردو میں وڈیو بنائیے۔, ۔,video editing,W...

Ye Bacha kis ka bacha hay,یہ بچہ Best Urdu Romantic Poetry,| Heart Touch...

Mohabat ,Best Urdu Romantic Poetry ,Heart touching Poetry,New poetry,War...