Saturday, October 26, 2019

پریوں کی تلاش چودہویں قسط



  ہم گندھارا تہذیب کے مرکزی علاقہ ہزارہ  کے ایک اہم شہر ہری پورسے گزر رہے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہندو اور گندھارا تہذیب و تمدن پھولا پھلا۔ کہا جاتا ہے کہ اشوکا کی موت بھی اسی علاقہ میں ہوئی۔ تاہم شہر ہری پور 1822 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک کمانڈرہری سنگھ نوالہ نے بسایا۔ بتانے والوں نے بتایا تھا کہ اس شہر کے گرد ایک فصیل بھی ہو اکرتی تھی لیکن ہمیں سوائے عمارتوں کے کچھ نہ ملا۔ شاید کھوج لگانے والوں کو اس کاکوئی بچا کھچا حصہ مل جائے۔ البتہ سکھوں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی کئی حویلیوں کا سراغ ضرور ملا۔       آب وہوا کے لحاظ سے اس علاقہ میں اس سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شہر نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ سکھوں اور انگریزوں نے اس شہر کو مرکزی اہمیت دی۔  یہ علاقہ قدرتی طور پر چھوٹی چھوٹی  وادیوں سے بھرا ہوا ہے۔ شاید اس لئے اس علاقہ کو دنیاکے پہلے مٹی کے ڈیم کے لئے چُناگیا۔ یہ ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ڈیم ہے۔ تربیلا کے مقام پر بنائے گئے اس ڈیم کی صرف جھیل ہی دو سو پچاس کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وسعت کا ندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیم ایک طرف ہری پور اور دوسری طر ف اسلام آباد اور صوابی سے ملحق ہے۔ 

 اس شہر کو  اپنی انڈسٹریل اسٹیٹ کے لئے بھی شہرت حاصل ہے جو حتار اسٹیٹ کے نام سے مشہور ہے۔  اسی اسٹیٹ میں ایشیا کی سب سے بڑی ٹیلیفون کی صنعت بھی موجود ہے۔تربیلا کے علاوہ یہاں خان پور اور غازی بروتھا جیسے ڈیم بھی موجود ہیں۔     سر سبز وادیوں اور میدانوں پر مشتمل، سر سبز پہاڑوں سے گہرا ہوا ہری پور جنت ارضی سے کم نہیں۔ بادِ صبا کی طرح کا پُر سکون شہر اور اس کا گرد ونواح اتنا خوبصورت ہے کہ انسان کا یہاں بس جانے کو جی چاہتاہے۔
 یہاں کے لوگ یہاں کے پھل سنگتروں اور لوگاٹ کی طرح میٹھے،ملنسار اور خوبصورت ہیں۔ لوگ اچھے ہوں تو اللہ وہاں اپنی خاص رحمتیں بھی برساتا ہے۔ یہاں مٹی کے برتنوں اور دیگر فنون کی پختگی کو دیکھ کر گندھارا تہذیب یاد آ جاتی ہے۔ یہ شہر شخصیات کے حوالہ سے بھی بڑا زرخیز ہے۔ ان شخصیات میں اہم ترین ایوب خان ہیں۔
 یہاں چیتا چھپکلی اور بچھو کاذکر نہ کیا جائے تو ہری پور کی کہانی ادھوری رہتی ہے۔ یہ چھپکلی اور بچھو کے خریدار امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ ایک چھپکلی کی قیمت لاکھوں نہیں کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس مخلوق کا کاٹا بس کوئی پانچ منٹ تک پانی مانگنے کے قابل ہوتا ہے پھر  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ جاتا ہے۔


______________________


وہ شہر جسے ایبٹ نے آباد کیا۔                                                                                                                              وارث اقبال

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اٹھ کردیکھو
کیا ترو تازہ ہوا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتاہے
اک تہذیب فنا ہوتی ہے
(ناصر کاظمی)
ٹیکسلا کے گرم کھنڈرات کی ویرانی اور ان گنت داستانوں میں ہم ایسے الجھے کہ وقت کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وقت کی تقسیم کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔ ریت اور وقت کی تو مجبوری ہے سرکنا، اُ س نے تو دبے پاؤں سرک ہی جانا ہے، چپکے سے ہاتھوں سے نکل ہی جاناہے۔ مٹھی سے سرکی ہوئی ریت، کمان سے نکلا تیر اور لمحوں میں بکھرا وقت واپس نہیں  آتے۔جب وقت کی ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے تو باقی رہ جاتا ہے یاس اور مایوسی۔ اس لئے ضروری ہے کہ وقت کی ریت کو مٹھی سے اس طرح نہ سرکنے دیا جائے کہ مٹھی خالی بیاباں ہو جائے۔تو پھر کیاکیا جائے؟ میرے خیال میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مٹھی میں وقت کی ریت بھرتے رہیں جونہی ریت کچھ کم ہو مزیدبھر لیں۔                                 جب ہمیں احساس ہوا کہ وقت کی ریت کم ہو رہی ہے تو ہم نے بھی مٹھی میں مزید ریت بھر لی اور ایبٹ آباد رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن جب ایبٹ آباد پہنچے تو دیکھا کہ ابھی مٹھی میں  وقت کی کافی ریت موجود تھی۔ اس لئے ا س کی مقدار کا جائزہ لیا اور سفر جاری رکھا۔
 ایبٹ آباد دیکھ کر انگریز یاد آ گئے۔ جب انگریز  یاد آتے ہیں تو یاد آتی ہیں اُن کی چالاکیاں، مکاریاں، ظلم اورکچھ خوبیاں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی چالاکیوں اور خوبیوں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس ناہنجار او ر بیوفا دوست کی طرح ہیں جنہیں زندگی سے عاق بھی کر دیا جائے تو بھی وہ اپنی کسی خوبی یاخامی کی وجہ سے یاد آتے ہی رہتے ہیں۔          آج اُن کی جو خوبی سامنے آئی وہ تھی تعمیر سے محبت۔        جس بھی خطہ میں چلے جاؤ یہ سننے کو ضرور ملتا ہے۔ ”یہ شہر انگریز نے بنایا  تھا۔۔کیا بات ہے،  واہ! کیا کھلا اور منظم شہر ہے۔۔۔۔۔ یہ عمارت انگریز نےبنائی۔۔۔ کیا بات ہے، کیا خوبصورت عمارت ہے۔۔۔ یہ پُل انگریز نے بنایا۔۔۔ کیا بات ہے، کیامضبوط پُل ہے۔“ 
 اپنی اسی خوبی کی بنا پر انہوں نے بہت سی بستیاں بنائیں جو خود بخود بس بھی گئیں کیونکہ بستیوں کو بنانے کی ضرورت ہوتی ہے بس وہ خود جاتی ہیں۔ بلکہ جنگلی بیلوں کی طرح پھیل بھی جاتی ہیں۔ بس انہیں موافق پانی اور ہوا چاہئے۔ مکینوں کو لانانہیں پڑتا وہ ہواؤں کی طرح آتے ہیں اور اُس بستی میں یوں رچ بس جاتے ہیں کہ کبھی جدا نہ تھے۔
ہم تم ملے تھے ایسے جیسے جدا نہ تھے
 انہوں نے یہ بستیاں ایسی جگہوں پر بسائیں جو جنگی نقطۂ نظر سے بہت اہم تھیں۔ یعنی جہاں بیٹھ کر انہوں نے اپنے وسعت کے منصوبہ کو انتہائی آسانی سے عملی جامہ پہنا لیا۔  جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے اپنی غرض کی خاطر نئی نئی بستیاں بناتے چلے گئے۔  انہیں اپناآرام وسکون اور بچوں کی تعلیم وتربیت بھی عزیز تھی اس لئے ان بستیوں میں عالیشان عمارات، ہسپتال، کلب، ڈاکخانے، اسٹیشن  لائیبریریاں وغیرہ بھی قائم کرتے چلے گئے۔ جوں جوں ان کی غرض پوری ہوتی گئی توں توں وہ پرانی بستیاں  چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے اور نئی بناتے چلے گئے۔ تاوقتیکہ وہ یہاں سے چلے نہیں گئے۔            انگریزوں کے لئے یہ بستیاں بسانے اور تعمیر کاکام بہت آسان تھا، مزدور مفت کے، مال مفت کا اور پھر خاص بات یہ کہ ان عمارات کی وجہ سے انگلستان کی کئی فیکڑیاں آباد ہونے لگیں۔ انگریزوں کے دیکھا دیکھی یہاں کے مہاراجوں اور نوابوں نے بھی اپنی عمارات کے لئے انگلستان سے ہی سامان منگوانا شروع کردیا۔ کون سا ان کے ماں باپ کا یا اپنی محنت سے کمایا ہوا مال تھا۔ جس طرح لُوٹا تھااُسی طرح لُٹادیا۔ 
 شروع میں انگریزوں نے اس علاقہ کی تسخیر کے لئے ہری پور کو مرکز بنایا لیکن کچھ عرصہ بعد اس سے بہتر مقام پا کر ایبٹ آباد کے نام سے ایک نئی بستی بنا لی۔  یہ بستی میجر جیمز ایبٹ کے نام پر قائم کی گئی۔  یہ وہی میجر جیمز ایبٹ ہے جس نے مری میں مری بروری روڈ پر اپنی قیام گاہ بنائی تھی۔ اس محل کے کھنڈر آج تک توموجود ہیں لیکن ان کی حالت بتاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کھنڈر کھنڈر بھی نہیں رہیں گے شاید نشان رہ جائیں یا شاید نشان بھی نہ رہیں اور نام رہ جائے اور پھر کوئی ٹھیکیدار وہ نام مٹاکر کوئی اور نام لکھ دے۔
 ایبٹ صاحب نے ایبٹ آباد بنایا اور کسی حاشیہ بردار نے اس بستی کا نام بھی ایبٹ آباد رکھ دیا۔     انگریزوں نے اپنے باقی شہروں کی طرح یہاں بھی خاص اکرام و انوار کی بارش کی۔ اُن کا تو منصوبہ قیامت تک رہنے کاتھا لیکن مہلت قیامِ پاکستان تک کی ملی۔                                                                                                                                                                                              
آج ایبٹ آباد اپنے اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ ان اداروں میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سرِ فہرست ہے۔             سر سبز و شاداب باغات، بلند سر سبز پہاڑ، سحر انگیز وادیاں،جھرنے، آبشاریں، دریااور جھیلیں سیاحوں کو ایبٹ آباد کی طرف راغب کرتی ہیں۔ یہ وہ واحد ضلع ہے جس میں آنے والوں کو یہاں ہر موسم کا نظارہ ملتا ہے۔ ایبٹ آباد کا توسوچ کر ہی فرحت کا احساس ہوتا ہے۔
 ایبٹ آباد ایک چھاؤنی بھی ہے۔ ہرچھاؤنی کااپنا رکھ کھاؤ ہوتا ہے اوراپناچال چلن۔ جس طرح فوجی ہزاروں میں ہو توبھی پہچانا جاتا ہے اسی طرح کینٹ بھی دور سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ پُر شکوہ ، شاندار اور وسیع و عریض۔
 ایک موڑ مڑنے کے بعد ہم ایک دورویہ لمبی سی سڑک پر پہنچے۔ جدیدطرز کے پلازے، ہوٹل اور  مارکیٹیں بتا رہی تھیں کہ یہ سڑک اس شہر کا دل ہے۔ اسی سڑک پر ایک پٹرول پمپ سے ہم نے پڑول ڈلوایا۔ ایک دوست کے ہوٹل پر کچھ دیر کے لئے رکے، صاحب سلام کی، تازہ دم ہوئے اور مانسہرہ کی طرف گامزن ہوگئے۔    راستے میں کتنے ہی موڑ مڑتے ہوئے، کتنے ہی انجان پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کے دیدار کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔


______________________













جنت کا دریچہ۔ مانسہرہ                                                                                                                                                   وارث اقبال

  گاڑی میں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ میری نظریں سڑک پر اردگرد، آمنے سامنے، آگے پیچھے پریوں کی تلا ش میں تھیں۔ خاموش نگاہیں، کسی کے عشق میں ڈوبی، کسی کی متلاشی، کسی سحر میں مخمور۔
بڑھتیں نہیں پلک سے تاہم تلک بھی پہنچیں
پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے سائے
(میر تقی میر)
اچانک میری نظر کے کینوس پر ایک تصویر بنی اور زبان پر یہ لفظ آگئے، ”عابد رکئے۔“                                                                          گاڑی سڑک کے کنارے لگی تو میں بھاگ کر سڑک کے حتمی کنارے تک چلا گیا۔ نیچے گہری کھائیاں میرے استقبال کے لئے بانہیں پھیلائے کھڑی تھیں۔ جی چاہا کہ میں ان بانہوں میں سما جاؤں اور امر ہو جاؤں۔۔ نہیں میں امر کیسے ہو سکتا ہوں۔۔ سکندر بھی تو نگر نگر کی خاک چھانتا رہا۔۔۔۔ نہ اُسے آبِ حیات ملا نہ وہ امر ہوا۔        میں نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تومیرے سامنے ایک سر سبز وادی کسی سر مئی پیالے میں پودینے کے ترو تازہ مشروب کی طرح موجود تھی  ہمارا رخ مشرق کی طرف تھا۔۔۔۔۔  ہم خوبصورت وادیوں        وادیٔ نیلم، وادیٔ مانسہرہ،  وادیٔ کاغان، وادیٔ ناران کے دریچے پر تھے ۔ جس طرف چاہتے چل پڑتے۔ ان سے آگے بھی  وادیوں کی ایک لمبی قطار ہے۔
        وادیٔ نیلم، وادیٔ مانسہرہ،  وادیٔ کاغان، وادیٔ ناران ایک ہی باپ کی چار حسین شہزادیاں ہیں جن کو پانے کے لئے لوگ کوسوں میل کا سفر طے کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان حسین شہزادیوں کے عاشق ان کے حسن کا نقطہ ٔ  آغاز بھی نہیں پا سکے ہوں گے۔ کئی مر کھپ گئے بہت سوں نے یہیں ان کے قدموں میں پڑاؤ ڈال دئیے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے اور بہت سے ہم جیسے اپنے اپنے دیس سدھار گئے۔                                                  میرے سامنے وادیٔ مانسہرہ تھی اوربائیں ہاتھ کوہِ قراقرم۔۔ بالکل دائیں ہاتھ کی طرح یہاں بھی پہاڑوں کا لمبا سلسلہ اوراس کے ساتھ ساتھ سڑک لیکن نام مختلف اور جغرافیہ بھی  مختلف۔۔۔ کچھ میل دور غضب ناک، خوف اور دہشت کی علامت دریائے سندھ۔  رضا علی عابدی کا شیر دریا،  مقامی لوگوں کا شاہ دریا اور ہمراہی میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ایک سڑک شاہرائے ریشم یا شاہرائے قراقرم۔۔۔۔۔  خاموش، پُروجاہت۔  بطن میں سینکڑوں داستا نیں لئے ہوئے اور ساتھ ہی ہیبت ناک پہاڑی سلسلہ کوہِ قراقرم۔۔۔۔۔ 
 عجب قدرتِ خداوندی۔۔ میرے رب کے عجیب کام ہیں۔ دائیں طرف نرمی و لطافت، سرسبزی و شادابی، محبت اور پیار، حسن و رعنائی۔ جبکہ بائیں طرف، وحشت، سنگلاخی، خوف، سیاہی اور دہشت۔ سامنے دیکھیں تو ایک برف پوش پہاڑ جس کے ساتھ یہ دونوں سلسلے گلے ملتے چلے جاتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے ایک باپ کے دو بیٹے ایک غصیلا، پُر جلال، پُروجاہت اور اعلیٰ شان کا حامل دوسرا کومل، لطافتوں، نزاکتوں سے مزین مگر دونوں باکمال۔ یہاں سے یوں لگتا ہے ایک چھوٹاسا برف پوش پہاڑاپنے دونوں بازو پھیلائے کھڑا ہے۔۔۔۔۔ ایک بازو پکارتا ہے۔۔ آؤمیرے پاس کیونکہ میرے اندر شادابی ہے۔۔۔ زندگی ہے، بستیاں ہیں، جھرنے ہیں، جھیلیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                    پھر دوسرا پکارتا ہے۔۔۔ آؤ میرے پاس کیونکہ میرے اندر خوبصورت پوشاک پہنے موت کی دیوی رہتی ہے، آؤ کہ میرے اندر سحر کا لباس زیب تن کئے وحشت رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
پھر سفید برف سے ڈھکاپہاڑ بولتاہے۔۔ میں ان کا بطن ہوں۔۔ میری وحشتوں میں بھی رعنائی ہے، میری موت میں ابدی حیات ہے ، میرے جھرنوں میں حیات ابدی کا  آب رواں دواں ہے۔
  آؤ کہ میرے اندر ہی سکندر اعظم کا آب حیات ہے۔۔،میرے اندر ہی ہے۔۔ افلاطون کی گم شدہ تہذیب۔۔۔۔۔۔۔یو ٹو پیا ہے۔۔۔۔۔ میں ہی شنگریلا کا پاسبان ہوں۔
آبِ حیات۔۔۔ گم شدہ تہذیب۔۔۔اسکندرِ اعظم۔۔                                                                                                                                         ہم تو چلے تھے پریوں کی تلا ش  میں۔
یہ ہم کس بستی میں پہنچ گئے جہاں آبِ حیات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں جنت ہے۔۔۔۔ اور جہاں ہم موجود ہیں بلا شبہ اسے جنت کا دریچہ کہا جا سکتا ہے۔ جہاں سے آگے۔۔۔۔۔ بہت کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔         
 محشر بدایونی نے تاج محل کے بارے میں کچھ کہا تھا جو مجھے یاد آگیا۔
ہے تخت تو موجود سلیماں کی کمی ہے
جنت کا دریچہ تو ہے رضوان کی کمی ہے
یہ گل کدہ کہئے جسے فردوس کا خاکہ
ہے دفن یہیں خاک میں سرمایہ وفاکا    
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مشرق میں سورج کافی نیچے کی طرف ڈھل چکا تھا۔ موسم کی تابناکی بتا رہی تھی کہ اسے ڈوبنے میں ابھی وقت لگے گا۔۔ اور میں اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔۔ اس لئے میں بھاگن بھاگ گاڑی میں جا سوار ہوا۔
 وقت ایک ایساگھوڑا ہے جس کا شہسوار یا تو اس کی پیٹھ پر ہوتا ہے یا پھر اسے کے نقشِ پا کی دھول میں جہاں نہ تو اُس کے قدموں کے نشان ملتے ہیں اور نہ ہی قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔
اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی باتیں کرتے ہیں
پائیل کے غموں کا علم نہیں چھنکار کی باتیں کرتے ہیں
ہر دل میں چھپاہے تیر کوئی
ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی
پوچھے کوئی ان سے جو پیار کی باتیں کرتے ہیں
ہر دل میں چھپاہے تیر کوئی
ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی
پوچھے کوئی ان سے جو پیار کی باتیں کرتے ہیں

 اس گیت کے ساتھ ہم پوچھتے پچھاتے، بھاؤ تاؤ کر تے مانسہر ہ کے ایک ہوٹل ’قراقرم ہوٹل‘ میں داخل ہوئے۔ 
 پہاڑوں کے دامن میں واقع شہر اور بیرونِ شہر کی اہم شاہراہوں کے سنگم میں بسا یہ ہوٹل واقعی کسی انسان کا ہوٹل تھا۔ جس میں کام کرنے والوں کا اخلاق اعلیٰ،  ماحول گھر جیسا اوردام واجبی۔   میں نے سامان کمرے میں رکھا، ہاتھ منہ دھویا اور بعد از نماز مغرب عابد کو ساتھ لے کر شہر کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ بچوں اور مسز کا کمرے میں ہی آرام فرمانے کا پروگرام تھا۔
                       چھوٹا سا شہر، جس کی گلیاں اور بازار ایسے کہ کسی بچے نے ماچس کی ڈبیوں سے ایک شہر بسایا اور اندر ہاتھ کی انگلی سے لکیریں کھینچ کر سڑکیں بنا دی ہوں۔ ٹریفک کی چال بتا رہی تھی    کہ یہاں ہمیشہ ٹریفک پھنسا رہتاہو گا۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں دیکھنے کے لائق تھیں۔ بتانے والوں نے بتایا کہ یہ گلیاں حفاظتی نقطہ ٔ  نظر سے بنائی گئی تھیں۔ جب میں نے ان کے موڑ دیکھے تو میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ یقینا دشمن کو  مصروف رکھنے کا ایک طریقہ ہوگا۔ دشمن ان بھول بھلیوں میں پھنس کر اپنا آپ بھی بھول جاتا ہوگا۔                       یہاں اپنا  واقف تو کوئی نہیں  تھا لیکن اگر انسان کے پاس علم، خلوص اور اخلاق ہو توو اقف بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ میری خوش قسمتی تھی کہ ایک بک اسٹال پر ایک جہاندیدہ، پڑھے لکھے شخص سے ملاقات ہو گئی۔ جس نے اس شہر کے بارے میں ایسی آگہی دی کہ چودہ طبق روشن ہی نہ ہوئے مجھے اپنے سفر کا از سرِ نو جائزہ بھی لینا پڑا۔
       عابد میرے ساتھ تھا۔ ہم بتائے ہوئے پتے کے مطابق تیز تیز چلتے ہوئے مختلف بازاروں سے ہوتے ہوئے کشمیر بازار میں پہنچے۔ ہمیں تلاش تھی ایک قدیم عمارت کی۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایک قدیم عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ سکھا شاہی دور کی بنی انتہائی خوبصورت عمارت ہمارے سامنے تھی۔  میرون رنگ کے بڑے سے دروازے کے اوپر محراب پر لکھا تھا۔  ”گوردوارہ سری گورو سنگھ سبھا“               نام کے ایک طرف لکھاتھا،  ”موت سے ڈرو۔“  جبکہ  دوسری طرف لکھا تھا، ”گناہ مت کرو۔“                                                                                         آہ!  ایک انسان دوسرے انسان کو سمجھاتا ہی رہا، مگر خود نہ سمجھا۔ دوسروں کو موت سے ڈراتا رہا مگرخود موت سے تحریریں لکھتا رہا۔  دوسروں کو گناہ  سے بچنے کی تلقین کرتا رہا اور  خود گناہوں کی کھیتیاں تیار کرتارہا۔ ایک  ہی طرح کے فتح کے نعرے، ایک ہی طرح کے بین۔ ایک ہی رنگ کا لہو، ایک ہی رنگ کی  چیخیں۔۔ پھر بھی دوسروں کو شک کے ترازو میں تولتا رہا۔۔۔ مگر خود کو کبھی بھی اس ترازو میں نہ ڈالا۔۔سکھا شاہی طرز کے جھروکوں اور کھڑکیوں سے مزین یہ گوردوارہ آج بھی اپنی شان بان قائم رکھے ہوئے ہے۔  اس کے ہال میں جائیں تو ہر طرف رنگ ہی رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ سامنے تاج کی طرح کا ایک بڑا جھروکہ ہے جس کے ستون ا س طرح دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی تاج کی لڑیاں ہوں۔ دیواروں میں الماریاں بنا کر کتابیں رکھ دی گئی ہیں۔ سکھا دور کی بہت سی تصویریں بھی موجود ہیں جو سکھا دور کے رزم و بزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ لکڑی کا کام قابل ستائش ہے۔ اس کی عمارت کے بہت سے گوشے ظاہر کرتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان پر سونے کے پرت لپٹے ہوں گے۔
سکھوں کے جانے کے بعد یہاں پولیس چوکی بن گئی اور بعد میں یہاں ایک لائیبریری بنا دی گئی۔             کاش! ہماری حکومتیں مانسہرہ  کے اس عمل کو مثال بناتے ہوئے پورے ملک میں موجود ایسی مذہبی عبادت گاہوں کو جو اب قابل استعمال نہیں اسی طرح  استعما ل میں لے آئے جیسے مانسہرہ میں ایک خوبصورت تاریخی ورثہ کوخوبصورت انداز میں استعمال کیاجارہا ہے۔ان میں کوئی ہسپتال بن جائے، کوئی لائبریری، کوئی اسکول یا کوئی ہوٹل۔                                             مانسہرہ کا جغرافیہ تو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں اب اس کا انتظام سمجھئے۔     
اس کی تین تحصیلیں ہیں۔  بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور اُگی۔ایبٹ آباد میں نتھیا گلی، اور ٹھنڈیانی جیسی خوبصورت وادیاں ہیں، بالا کوٹ میں کاغان اور ناران اور اُگی خوبصورت سر سبز و شاداب پہاڑوں اور وادیوں سے گہری ایک خوبصورت تحصیل۔
     اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مانسہرہ اور اس کے گرد ونواح کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے۔ سکندرِ اعظم کا یہاں سے گذر ہوا تو یہاں کئی نئی بستیاں بسیں جیسے کافرستان۔۔ کئی کہانیاں رقم ہوئیں جیسے آبِ حیات اور گم شدہ تہذیب۔۔۔ لیکن مانسہرہ شہر اور اس کے قرب وجوار کے نین نقش اشوکا کے زمانے میں واضح ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔  یہاں سیالکوٹ کے ہندو راجاؤں کی حکومت بھی رہی۔  ا س دور میں یہاں ہندو مت اپنے عروج پر تھا۔ اشوکا نے بدھ مت پھیلانے کا قصد کیا تو مانسہرہ سے ابتدا کی کیونکہ ٹیکسلا کی حکمرانی سے پہلے وہ یہیں کا گورنر تھا۔ اس کی کندہ کی ہوئی چٹانیں آج بھی یہاں موجود ہیں۔                        یہاں ہی تاریخ کی بڑی سرکار پاکھیل یا پکھلی سرکار قائم ہوئی جو مانسہرہ کے سرسبز میدانوں اور وادیوں سے بڑھتے بڑھتے گلگت تک جا پہنچی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر نے کئی روپ دھارے، کئی دور دیکھے، کئی مذاہب اختیار کئے اور آخر ِ کاریہاں اسلام کا بول بالا ہوا۔ تقسیم ہند سے پہلے تک ہندو بھی اس شہر کے باسیوں میں شامل تھے۔ یہ علاقہ شیو کا پجاری تھا۔ میرے ذہن میں اس کا تعلق کٹاس سے بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ شیو پوجا کا مرکز تھا۔ مجھے لگتا ہے  جیسے سیالکوٹ،  ٹیکسلا سیاسی مراکز تھے لیکن کٹاس ان کا مذہبی مرکز تھا  جس کا اثر یہاں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں مانسہرہ شہر سے قریب ترین 15 میل دورعنایت آباد کے ایک مشہور گاؤں گاندھیان میں موجود تین ہزار سال پرانا ایک مندر دیکھنے کے لائق ہے۔ شیو لنگ کی پوجا کا یہ مندر کشمیر کے ایک راجہ نے تعمیر کروایا۔ مانسہرہ کی ہر جگہ سے نظر آنے والی وہ چٹان بھی اہم ہے جسے براری ماتا کا نام دیا گیا ہے۔ ہندو مذ ہب کے مطابق یہ دُرگا دیوی کا ا یک روپ ہے۔ ہندوؤں کے ہاں  اس چٹان سے بہنے والے پانی کو امرت سمجھ کر استعمال کیاجاتا تھا۔
  گندھارا تہذیب کا یہ مرکزی شہر اورہزارہ  صوبہ کی جان یہ شہر کسی بستی یا کسی بستی کے کسی حصہ کے طور پر تو ایک عرصہ سے موجود ہے جس کے سوتے اسکندر کے دور سے جاملتے ہیں  لیکن موجودہ شہرمانسہرہ کو بحیثیت ایک شہر رنجیت سنگھ کے جرنیل مان سنگھ نے بسایا۔ اور اسی کے نام پر اسے مانسہرہ کا نام دیا گیا۔
                  کسی بھی شہر کی پہچان اور اہمیت میں وہاں موجود مزارات کو بہت اہمیت حاصل ہے چنانچہ اگلے دن ہم بھی اسی کھوج میں نکلے اور جا پہنچے یہاں کی مشہور زیارت گاہ دیوان راجہ پر۔         
                        ترکوں کے زمانے میں ایک سید نصیر الدین شاہ المشہور حضرت دیوان راجہ یہاں تشریف لائے اور یہاں لوگوں نے ان کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ بزرگ ترک حکمرانوں کو ظلم و ستم سے روکتے تھے لیکن وہ باز نہ آئے تو انہوں نے انہیں  بد دعا دی۔چنانچہ ترک زوال پذیر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ دیوان صاحب کا مقبرہ بھی ایک ترک شاہ نے اپنے لئے بنوایا تھا لیکن اُسے یہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا۔ اور یہ مقبرہ دیوان صاحب کی آخری آرام گاہ ٹہرا۔                اس دربار سے کچھ ہی دور ایک اور زیارت گاہ ہے۔ جو ایک کشمیری بزرگ امیر کبیر علی ہمدانی کی جائے وفات ہے بتایا جاتا ہے۔ یہاں ایک قدیم درخت ہے جس کی جڑیں اتنی بڑی ہیں کہ دُور سے کسی غار کا گمان ہوتا ہے۔ زائرین اُن کے اندر سے گذرتے ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے انسان  جنوں اور بھوت پریتوں کے سائے سے محفوظ رہتا ہے۔ ہم تو چلے ہی پریوں کے سائے کے پیچھے تھے، ہم نے سایوں سے کیا ڈرناتھا۔ اس لئے ہم نے ان جڑوں کے نیچے سے گذرنا مناسب نہ سمجھا۔   

______________________


Saturday, October 19, 2019

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی تیرہویں قسط

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی تیرہویں قسط: جیتی جاگتی تہذیب                                                                                                          ...

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی تیرہویں قسط



جیتی جاگتی تہذیب                                                                                                                                           وارث اقبال

کہتے ہیں کہیں اک بستی تھی، وہاں چاند ستاروں کے گھر تھے
نیلی جھیلوں میں امرت تھا اور امرت میں نیلوفر تھے
سب سروِ رواں سر دھنتے تھے ہر موج ہوا کی شوخی پر
سنبل کہ زلیخا کی زلفیں،شمشاد کہ یوسف پیکر تھے
پھر رت بدلی، اس بستی کے کھیتوں میں کانٹے اُگ آئے
تب سحر زدہ بستی والے سب ان کانٹوں پر نچھاور تھے
پھر داؤ پہ تھے کیاکاسۂ سر، کیا مال و متاعِ قلب وجگر
کچھ ان کانٹوں کے مالی تھے کچھ ان کانٹوں کی زدپر تھے
پھر ہرپگڑی پہ پاؤں تھا، ہر منہ کا مقدرتالا تھا
پھر ہر حلقوم پہ جونکیں تھیں اور ٹوٹے بکھرے شہپر تھے
ہر روپ میں غم فریادی تھا ارباب ِ وفا کی محفل میں
کیا عازم تھے کیا آہیں تھیں کیا نالے تھے کیا نشتر تھے
(مظفر عازم)


دوپہر تو نہ تھی لیکن وقت قریباً دوپہر کے قریب قریب تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی کہ ہر ذی روح کملائی کملائی اور بے بس دکھائی دے رہی تھی۔  وہ تو اللہ بھلا کرے اُن کا جنہوں نے سڑک کنارے درختوں کو بچا رکھا تھا۔ جب گاڑی درختوں کے ایک لمبے قافلہ کی ہم سفر ہوتی تو گاڑی کا اے سی  فعال ہو کر اپنے ہونے کا احساس دلاتا۔  بچوں کو جلدی تھی برفانی پہاڑیوں کو چھونے کی اور مجھے جلدی تھی تاریخ کے اوراق میں جھانکنے کی۔جہاں کوئی ورق دکھتا رک جاتا، یوں رکتے رکاتے ہم ماضی کے ٹکساشیلا بمعنی”سانپوں کے پجاریوں کا شہر“ اور حال کے ٹیکسلا میں پہنچے۔یعنی پہلے سانپوں کا شہر اور اب سانپوں کے پجاریوں کا شہر۔
 ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ایک جوان اور پڑھا لکھا گائیڈ مل گیا۔ عام طور پر گائیڈز کو چند بڑی بڑی باتیں از بر ہوتی ہیں، جہاں اُن سے کوئی الگ مخلوق کا سوال کیا وہ ٹُھس ہو جاتے ہیں۔  اس لئے گائیڈ کا پڑھا لکھا ہونا ضروری  ہوتاہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ شہر اتنا زرخیز ہے کہ اگر ہم اس شہرِ خموشاں کی تاریخ تلاش کرنے نکلیں تو قرنوں اور صدیوں میں گم ہو کر رہ جائیں۔ اتنا کہناکافی ہو گا کہ ہندو مت کی مشہور مذہبی کتاب مہابھارت اور سنسکرت زبان کی ترتیب کا عمل اسی خطے میں ہوا۔ جب بدھ مت کو عروج ملا تو یہ سارا علاقہ بدھا کا پیروکار بن گیا۔          اس شہر پرایک ایسادور بھی آیا جب یہ شہر عروس البلاد کے طورپر پوری دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اسی کی بدولت فنون کی پلکوں پر کاجل تھا، مختلف علوم کے چہرے شادمانی سے تمتما رہے تھے اور تہذیب کی گالوں پر حُسن کی لالیاں تھیں۔ کتابوں میں نئے ابواب کا اضافہ ہو رہاتھا، زبان و ادب کی نئی جہتیں تلاش کی جارہی تھیں، زینت، زیبائش اور آسائش تمام کے معنی موجود تھے۔ پھرایک  وحشی قوم’ہن‘  اُٹھی اور ا س شہر کو راکھ کاڈھیر بنا دیا۔
 جنگلوں میں رہنے والوں کو شہر راس نہیں آتے ا س لئے وہ اسے جنگل میں بدل دیتے ہیں۔ آج ا س شہر کے درو دیوار میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں، بے گناہ شہریوں کی آہ و بکا اورچیخوں کی گونج سنائی دیتی ہیں۔
 کہانیاں تو ایسی ہیں کہ سنیں تو قوتِ سماعت رک جائے اور سنائیں تو قوت گویائی گنگ ہوجائے۔
        ٹیکسلا میں تین اہم شہر دریافت ہوئے ہیں،جس میں چھٹی صدی قبل مسیح کا شہربھیر منڈ، دوسری صدی قبل مسیح کاشہر سرکپ یا سکاپ اورسِر سکھ،جہاں کشن راج قائم ہواتھا۔ جب                      ہم ان شہروں میں سے ایک میں داخل ہوئے تو ہم پرایک عجیب سی قلبی واردات طاری تھی۔ ہر طرف سکوت کے پہرے، ہرطرف خاموشی کا راج۔  ہم جسے شہرِ خموشاں کہتے ہیں وہ ایسے تو نہیں ہوتے۔ یہ تو اُن سے بھی گیاگزرا تھا۔  جو لوگ ویرانوں میں بسنا پسند کرتے ہیں اس شہر میں بسنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔میں جب اس کی گلیوں اور پکڈنڈیوں میں چل رہا تھا  تو مجھے یوں لگ رہا تھاجیسے میں لاشوں کے ڈھیر پر چل رہا ہوں اور ان لاشوں کے ہاتھوں میں ایک ہی طرح کاپروانہ تھا۔  ہماری ادھوری خواہشیں۔ ہائے! اس شہر نے اپنے کل کے بارے میں کیا کیا سوچا ہو گا، اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کیا کیا سپنے بنے ہوں گے۔ کتنے ہوں گے جوکوسوں میل کا سفر طے کر کے یہاں علم حاصل کرنے آئے ہوں گے، کتنے ہوں گے جو کوسوں میل دور سے یہاں رزق تلاش کرنے آئے ہوں گے۔ کتنی کنواریاں اپنے من میں اپنے شہزادوں سے ملاپ کی آشائیں  بسائے راہوں میں بیٹھی ہوں گی۔ کتنی اماں جیں اپنے بچوں کی راہیں تک رہی ہوں گی۔ کتنے مکتبوں میں فلسفہ کی گتھیاں سلجھائی جا رہی ہوں گی۔          آہ! کبھی یہاں ہمارے شہروں کی طرح جھوٹ سچ کاکاروبار ہوتا ہوگا، کبھی یہاں بھی نجات دہندہ اور دانش ور آتے جاتے رہے ہوں گے۔ آہ! سب کو کسی عفریت، کسی راکشس یا  کسی دیوکی زبان چاٹ گئی۔ ایک ایسی تہذیب صفحۂ ہستی سے مٹ گئی جو اپنے اندر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی رکھتی تھی۔مٹی بھی اس طرح کہ اپنے مٹنے کے تمام نقوش بھی مٹا دئیے۔
 زلزے آتے ہیں شہر گرتے ہیں مگر انہی کھنڈرات پر نئے بن جاتے ہیں، سیلاب شہروں کو بہا کر لے جاتے ہیں مگر گدلے پانیوں میں نئے شہر ابھر آتے ہیں۔ گرے ڈھے، تباہ ہوئے گلی کوچوں میں اس شہر کے ورثا زندگی کو  پھر سے جاری و ساری کر لیتے ہیں۔مگر اس شہر کے ساتھ کیاہوا کہ اس شہر کے ورثا بھی اس شہر کے ساتھ ہی دفن ہو گئے، کوئی نہیں بچا کوئی جو دیس سے باہر گیا ہو، کوئی جو ہمسائے میں ہو، کوئی جو کسی پیڑ پر چڑھ گیاہو، کوئی جو جنگلوں میں جا چھپا ہو۔ کوئی جو کسی غار میں جا بسا ہو اور کوئی جس نے کسی شہر میں آ کر اپنی تباہی کی دہائی دی ہواور ماتم کیاہو۔
سنبل کہ زلیخا کی زلفیں شمشاد کہ یوسف پیکر تھے
پھر رُت بدلی، اس بستی کے کھیتوں میں کانٹے اُگ آئے
گائیڈ نے ہمیں ایک پرانا کنواں دکھایا اور ہم نے وہاں سے پانی پیا۔ وہ بولتا جارہاتھا۔ یہ یونیورسٹی تھی، یہ دھرم شالا تھی، یہ بازار تھا یہ سرکپ کا کنال اسٹوپا ہے۔                                                                                                                                                                                سرکپ۔۔۔ کیامطلب ہے؟                                                                                                                                                                 سر کاٹنا۔۔یہاں ایک بادشا تھاجو چوپڑ بہت عمدگی سے کھیلتا تھا جو بھی اُس سے ا س کھیل میں ہار جاتا وہ اُ س کا سر قلم کروا دیتا۔۔۔۔۔۔۔                                         یہ کنال اسٹوپا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کی داستان بھی عجیب ہے۔راجکمار کنال کی سوتیلی ماں نے اُس کے باپ کی جانب سے ایک جعلی حکمنامہ بھیجا کہ راجکمار کی آنکھیں نکال  لی جائیں۔  راجکمار نے باپ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا۔ جب اصلیت سامنے آئی تو علاج کروایا گیا اور بینائی واپس آ گئی۔ اُس کی یاد میں یہ اسٹوپاتعمیرکیا گیا۔
                   مغل بادشاہ جہانگیر تزک ِ جہانگیری میں لکھتا ہے کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ حسن ابدال سے کوئی پانچ کو س کے فاصلے پر پڑاؤ کئے ہوئے تھا کہ رات کو پہاڑوں سے چیخوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔          جب میں نے تاریخ کے اوراق پلٹے تو اس علاقے کے بارے میں کئی داستانیں پڑھیں اور ان پراسرار آوازوں کی وجہ معلوم ہوئی۔ یاد رہے کہ ان آوازوں کی بابت انگریزوں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔
 سیالکوٹ کے راجہ سالباہن کا ایک بیٹا راجہ رسالو سوتیلی ماں کی سازشوں کا شکار ہوکر جنگلوں میں نکل کھڑا ہوا۔چلتا چلتا ٹیکسلا کے قریب ہری پور جا پہنچا جہاں کے راجہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اُس نے اس راجکمار میں راجاؤں والے گُن دیکھ کر حکومت اس کے سپرد کر دی۔ کہا جاتاہے کہ ایک دفعہ راجہ رسالو نے راجہ سرکپ کے کھیل کی خبریں سنیں تو اُس سے مقابلہ کے لئے ٹیکسلا جا پہنچا دونوں میں شرائط طے پائیں کہ ہار کی صورت میں اپنی حکومتیں اور سر جیتنے والے کے حوالے کر دیں گے۔جب کھیل شروع ہوا تو دورانِ کھیل راجہ سرکپ کے زنان خانہ سے ایک عورت بھاگی ہوئی آئی اور راجہ کو بیٹی کی پیدائش کی خبر سنائی۔ مگر راجہ نے بیٹی کا پیدا ہونا بد شگونی سمجھا اور اس عورت کا سر قلم کردیا۔  وہی ہوا جس کا راجہ سرکپ کو ڈر تھا راجہ رسالو کھیل جیت گیا۔ لیکن راجہ رسالو نے کھیل جیتنے کے باوجود راجہ سرکپ کوجان کی امان دے دی اور اس سے عہد لیاکہ وہ ایساکھیل دوبارہ نہیں کھیلے گا۔ یوں راجہ رسالو سرکپ کے ملک کا بھی حکمران بنا۔ ساتھ ہی اس نے سرکپ کی نومولود بیٹی بھی مانگ لی اور اس بیٹی کو راولپنڈی میں چکری کے قریب ایک قلعہ میں پرورش کی غرض سے بھجوا دیا۔         ایک دن وہ ٹیکسلا کے بازار میں نکلا تو اس نے ایک تندور والی عورت دیکھی جو کبھی روتی اور کبھی ہنستی۔  راجہ نے وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ شہر کے قریب جنگل میں راکشسوں کا ایک ٹولا رہتا ہے جن کی خوراک کے لئے شہر سے ایک نوجوان اور ایک بھینس بھیجی جاتی ہے۔  باری بڑھیا کے بیٹے کی تھی۔جس کی چند دن بعد شادی تھی۔ بڑھیا شادی کا سوچتی  تو مسکرا  دیتی اورلخت جگر کی موت کا سوچتی تو کرلا اٹھتی۔
راجہ تھا تو بڑا بہادر اور گنوں والا۔ کہا جاتاتھا کہ اُس کی تلوار خود بخود چلتی تھی اور اس کی کمان سے نکلا ہوا تیر سات پر توں کے پار ہو جاتا۔ بہادر راجہ بڑھیا کے بیٹے کی جگہ خود راکششوں سے لڑنے نکل کھڑا ہوا۔ جب راکشسوں سے مقابلہ ہوا تو راجہ نے کچھ ہی دیر میں انہیں ڈھیر کر دیا۔ ان راکشسوں میں ایک راکشس لڑکی تھی جو زخمی ہو کر بھاگی اوراٹک کے شمال میں گند گڑھ کے پہاڑی سلسلہ کے ایک غار میں جا چھپی۔ راجہ نے اس غار کو ایک پتھر سے بند کر دیا۔ اس پتھر پر راجہ نے اپنی تصویر بھی کندہ کی تاکہ سند رہے۔ وہ چیخیں جو سینکڑوں سالوں  بعد جہانگیر اور انگریزوں نے سنیں اس راکشس لڑکی کی تھی۔           
                                                                                                                   (عبداللہ عباس سولہن’تاریخ سولہن،راجپوت‘ 2012)      
پاکستان میں تہذیب کا ارتقا کے مصنف سبط حسن لکھتے ہیں:
 ”ڈھائی سے تین ہزار برس پیشتر یہ جگہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتصال تھی۔ ایک راستہ یورپ سے آتا تھا جو موریہ عہد سے آج تک بنگال سے پشاور جانے والی شاہراہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ دوسرا راستہ مغربی ایشیا سے باختر اور پشکلاوتی (چارسدہ) سے گذرتا اور دریائے سندھ کو عبور کرتا ٹیکسلا کے مقام پر ختم ہوتا تھا، اور تیسرا راستہ سری نگر، بارہ مولا، اور ہری پور سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچ کر دوسرے راستوں سے مل جاتا تھا۔“
وقت کا طلسماتی پہیہ ایسا گھوما کہ اپنے دور کا عروس البلاد کسی ماورائی دھند میں کھو گیا۔ آج وہاں نہ فنکاروں کے بکھرے رنگ دکھائی دیتے ہیں، نہ سنگ تراشوں کے اوزاروں کی کھٹا کھٹ، نہ پائیل کی جھنکار، نہ معابدوں کے جرس کی آ وازیں، نہ منصفین کے فیصلے،نہ سیاست کی چیرہ دستیاں، نہ طلب علموں کے مستقبل کے سہانے خواب، نہ سیاحوں کی حیران نگاہیں۔ آج کوئی ماں اپنے لختِ جگر کا انتظار نہیں کرتی، نہ کوئی بہن اپنے بھائی کی راہ تکتی ہے، نہ کسی کنواری کے من میں اپنے شہزادے کو پانے کی آشاؤں کے پھول کھلتے ہیں۔۔۔۔۔۔آج تو وہاں مدفون تہذیب، علوم و فنون اور سیاست کے پیادوں کی قبریں بھی نہیں۔۔۔ قبریں تو کیا اُن کے نام و نشان بھی نہیں۔۔۔۔۔ آج اگر وہاں  کچھ ہے تو وہ ہے چند  بوسیدہ اینٹوں کی آہیں، دھول بنے چند راستوں کی چیخیں، کچھ پرانے پیڑوں کا ماتم، ان کہی اور ان سنی داستانوں کے پرت۔۔۔۔پرانے کنووں میں غرق بے گناہ لاشوں کی آہ وبقا۔۔۔
 نسل در نسل موجود جھاڑیوں پر گرے بے گناہ لہو کی پکار۔۔لیکن یہ سب بھی دھول میں اٹا ہوا، بولنے والوں کی قوتِ گویائی سے دور،سننے والوں کی قوت سماعت سے پرے اور دیکھنے والوں کی قوت بصارت سے دور۔۔۔۔ فہم کے سیاہ پردوں میں قید۔۔بس کچھ  بھی نہیں۔۔۔ شاید کسی کے لئے سبق۔۔۔۔ کسی کے لئے لمحہ فکر۔۔۔کسی کے لئے فطرت کا  ردعمل۔۔ کسی کے لئے قدرت کا عذاب۔۔۔۔ کسی کے لئے نظامِ فطرت کی ایک جھلک اور کسی کے کے لئے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ فقط دھول اور بیچارگی اور کچھ بھی نہیں۔۔۔                                                                                                                
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گذر گئی  لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں
جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں
)ناصر کاظمی(

Saturday, October 12, 2019

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی بارہویں قسط

waris ki kawish وارث کی کاوش: سفرنامہ پریوں کی تلاش کی بارہویں قسط: اگلے دن ہم اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارے سامنے مارگلہ کے خوبصورت پہاڑ تھے۔ مارگلہ نام کے بارے میں مختلف روایتیں اور حکایتیں ہیں...

Friday, October 11, 2019

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی بارہویں قسط


اگلے دن ہم اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارے سامنے مارگلہ کے خوبصورت پہاڑ تھے۔ مارگلہ نام کے بارے میں مختلف روایتیں اور حکایتیں ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو  سانپوں کا گڑھ ہے، یعنی سانپوں کا اکٹھ یا بستی۔ جبکہ دوسرا مطلب  مار گلہ سے گلامارنا بھی ہے۔ شاید یہاں کے باسی یا راہزن یہاں سے گزرنے والے قافلوں سے مال اسباب چھین کر مار دیتے ہوں گے۔
 خیر ہمیں نام سے کیا مطلب راہزن تو راہزن ہی ہوتا ہے اُ س کا کسی دور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ تو ہر دور میں ہوتا ہے کبھی کسی لباس میں، کبھی کسی نام سے اور کبھی کسی مقام پر۔ اُسے نہ مقدس محراب روک سکتے ہیں نہ بلند وبالا عمارتیں،  نہ خار دار تاریں، نہ خزائیں نہ بہاریں۔
اسلام آباد کی قدرتی خوبصورتی کے کیا کہنے۔ اونچی نیچی سر سبز و شاداب پہاڑیاں، بل کھاتی کھلی سڑکیں، سڑکوں کے کنارے بنی بلند وبالا عمارتیں، نیلی وردی میں ملبوس سپاہی،  اور سپاہیوں کے پیچھے چھپے حکمران سب کچھ بہت خوبصورت ہے۔ فیصل مسجد کے میناروں نے اس شہر کو ایک عجیب تقدس کا جامہ پہنا رکھا ہے۔                                  اس شہر کو دیکھ کر ایوب خان کی فطرت سے محبت کاا ندازہ ہوتا ہے۔ جس نے یہ شہر بناتے ہوئے سوچا ہو گا کہ پاکستان کا دارالحکومت ایساخوبصورت ہو کہ یہاں آنے والے مرعوب ہو جائیں۔۔۔۔ پاکستان کتناخوبصورت ملک ہے۔اغلب امکان ہے کہ    دارالحکومت کے لئے اس جگہ کے انتخاب میں اُن کی اپنی چاہ کا بھی  ہاتھ ہوگا۔ کیونکہ ان کا اپنا  آبائی گاؤں ریحانہ ہر پور یہاں سے کچھ ہی  میل کے فاصلے پر ہے۔

ہم ایبٹ آباد کی طرف گامزن تھے لیکن پنڈی اور اسلام آباد کی سڑکیں اور پُل تھے کہ ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ خدا خدا کر کے ہم مارگلا ہلز تک پہنچے۔ ان پہا ڑوں کے دور تک پھیلے ہوئے سلسلے کو دیکھ کر دل توچاہتا تھاکہ ان کی گہرائی اور وسعت ماپنے کے لئے نکل جاؤں لیکن فی الحال اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہی بہتر تھا۔ چلتے ہوئے ایک  ایساموڑآیا جہاں سے وہ پہاڑ دکھائی دے رہا تھا جہاں مشہور بزرگ امام بری نے عبادت کی تھی۔  نیچے سے تو یہ جگہ محض پہاڑ میں ایک چھوٹی سی اوٹ سی دکھائی دیتی ہے لیکن اندر ایک پوری بستی آباد ہے۔ اس جگہ پہنچنے کے لئے ایک چھوٹی سی پکڈنڈی پرایک عام رفتار میں دو سے ڈھائی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ 
 کچھ سال پہلے مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔  دور سے ساکت اور پُرسکون دکھائی دینے والا پہاڑ اپنے اندر ہر موڑ پر نئی دنیا سمیٹے ہوئے تھا۔ کہیں پکڈنڈی اتنی باریک ہو جاتی کہ دو پاؤں رکھنا مشکل ہوجاتا اور کہیں پکڈنڈی اتنی کھلی ہو جاتی کہ اونٹوں کاکارواں گذار لو۔ کبھی ایک پاؤں کے نیچے فقط ایک پاؤں کی زمین اور دوسرے پاؤں کے نیچے دل دہلا دینے والی گہری کھائیاں۔ کہیں کھلے میدان تھکن بھلا دیتے اور کہیں گھنے جنگل پرکسی جن کے کالے باغ کا گماں ہوتا۔ کہیں پرندوں کی چہکار سنائی دیتی تو کہیں پھولوں کی مہکار۔ کہیں اچانک کوئی جھرنا سامنے آجاتا  اور کہیں کوئی چشمہ۔ کہیں ایسااندھیرا اور خاموشی کہ خوف کے مارے  بدن کا لہو خشک ہو جاتا اور کہیں اچانک کسی بستی کا نشان مل جاتا۔ اس راستے پر بندر وں کے کئی گروہوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ بندروں نے کافی مروت اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں ہمارا ماضی یاد دلا دیا۔
 مارگلہ کے ان جنگلوں میں تمام جانور موجود ہیں لیکن یہاں کا چیتا کافی مشہور ہے۔ کسی پکڈنڈی پر چلتے ہوئے سب سے زیادہ ڈر اسی کا ہوتا ہے۔ ابھی کسی اوٹ سے نکلے گا اور ہاتھ جوڑ کر کہے گا، 
   ”اے انسان دیس کے باسی بتا تیری کیا خدمت کی جائے یہیں کھا لیا جائے یا کسی سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں لے جاؤں۔“ 
کہا جاتا ہے کہ شیر تو سامنے آکر حملہ کرتا ہے لیکن یہ چیتا تو ایسا ہے جو درختوں کے کسی جھنڈسے اچانک باہر نکلتا ہے یا کسی چٹان سے اچانک کودتا ہے، شکار کو اٹھاتا ہے اور جنگل میں غائب ہو جاتا ہے۔
چیتے سے بھی زیادہ ڈر سانپوں کا ہوتا ہے کسی درخت کے اوپر سے یا کسی پتھر کے نیچے  سےکہیں سے بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ہم موسم ِگرما میں پہاڑی علاقے کی سیر کے لئے نکلتے ہیں اسی طرح جنگلی حیات بھی اسی موسم میں باہر نکلتی ہے۔ جس طرح ہمیں اپنی حدود میں کسی اجنبی کا آنا ناگوار گزرتا ہے انہیں بھی ہماری موجودگی کھٹکتی ہے۔ شاید ان کی بہتات کی وجہ سے اس علاقہ کو مارگلہ کانام دیا گیا۔  یعنی سانپوں کی بستی۔
 پہاڑی جنگل کے بیچوں بیچ، آبادیوں سے کوسوں دور دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد جب ہم اپنی منزل کے قریب پہنچے تو سینکڑوں بندروں نے ہمارا استقبال کیا۔ یوں لگتا تھا کہ ہم بندروں کی سلطنت میں آگئے ہوں۔  ہر شاخ پر، ہر پتھر پر جس طرف بھی نظر دوڑاتے بندر ہی بندر۔ 
  عبادت گاہ سے پہلے لنگر خانہ کے کمرے اور زائرین کے بیٹھنے کی جگہ آتی ہے۔ یہ اتنی بڑی جگہ تھی کہ یہاں دو تین سو افراد آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔ ہمارے علاوہ کوئی چالیس پچاس کے قریب لوگ وہاں موجود تھے جن میں سے اکثر بندروں کے ساتھ مصروف تھے۔ اصل عبادت گاہ تک جانے کے لئے آگے کا سفر بہت مشکل اور دشوار گزار تھا۔اس راستے پر  انسان کے لئے سیدھا چلناناممکن تھا۔ بڑے بڑے ہموار سطح کے حامل پتھروں کے اندر سے اور اوپر سے دائیں بائیں ضرورت کے مطابق جسم کے مختلف زاوئیے بنا تے ہوئے گذرنا پڑتا تھا۔  میں کچھ ہی دورگیا تھا کہ اُٹھک بیٹھک میں میرے گٹے گوڈے جواب دے گئے۔ یہ سوچ کر کہ ابھی واپسی کاسفر  بھی کرنا ہے میں وہیں سے واپس لنگر خانے لوٹ آیا۔ یہاں آ کر زیادہ تر لوگ بندروں سے راہ و رسم بڑھانے میں لگے ہوتے ہیں لیکن وہ بھی ایسے ہوشیار اور زیرک ہیں کہ بس اپنا الو سیدھا کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
میرا ایک بھائی اور کزن اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کے بقول غار کے دھانے پر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ سفر تو اب شروع ہوا ہے۔ غار کے اندر پہنچنے کے لئے مسلسل کئی منٹ تک جھک کر چلنا پڑتا ہے۔ یعنی  انسانی جسم کے برابر چوڑی اور اتنی ہی اونچی سرنگ میں چلنا ہوتا ہے۔ اندر کمرہ نما کھلی غار ہے جس میں ایک جائے نماز موجود ہے اور جا بجا اگر بتیاں اور دئیے جلائے گئے ہیں۔ غار کے اندر پتھروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی نے ان پتھروں پر تیل مل مل کر انہیں ہموار کر دیا ہو۔ ان پتھروں پر جا بجا سانپوں اور مختلف جانوروں کی شبیہیں ابھری ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب امام بری یہاں عبادت کر رہے ہوتے تھے تو مختلف جانور انہیں تنگ کرتے۔ امام بری غصے میں آکر انہیں پتھر کا بنا دیتے۔ بعض بتاتے ہیں کہ جب جن اور چڑیلیں انہیں تنگ کرتیں توامام بری  انہیں پتھر کا بنادیتے۔
                            ان پہاڑوں کے اندر کیا کیا داستانیں موجود ہیں اُن تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان پہاڑوں کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔ مجھے ایک دفعہ مری اور ایوبیہ کے راستے میں ایک گاؤں میں ایک ہفتہ رہنے کا موقع ملا۔ وہاں بھی میں نے ایسی بہت سی روایتیں اور حکایتیں سنیں۔ ایک بزرگ نے  مجھے ایک پہاڑی سلسلے کی طرف اشارہ کرتے  ہوئےحکم دیا۔
’’وہ سامنے دیکھو ایک پوری بارات ہے جو پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ وہ سامنے ڈولی ہے اور وہ سامنے باراتی ہیں۔  انہیں ایک گناہ کی پاداش میں یہ سزا ملی۔  ‘‘
                  ایک لڑکے نے مجھے ایک گول دائرے جیسی ایک جگہ دکھائی۔  لگتا تھا کہ کسی نے سیمنٹ لگا کر کوئی گٹر بند کیا ہو۔ اصل میں یہ گولائی میں کٹا ایک پتھر تھا۔  جسے زمین میں پیوست کیا گیا تھا۔ گو  ل دا ئرے پر گھاس کا نشان تک نہ تھا جبکہ دائرے کے ارد گرد بڑا بڑا گھاس موجود تھا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ اس جگہ خزانہ ہے جس پر ایک ناگ کا راج ہے اسی کے زہر کی وجہ سے یہاں سبزہ نہیں اُگتا۔ انگریز تک نے یہ خزانہ نکالنے کی کوشش کی لیکن نہ نکال سکے۔ اسی جنگل کے اندرایک ایسی خانقاہ کے بارے میں بھی بتایا گیا جہاں ہر جمعرات کو ایک شیر سلام کے لئے آتاہے۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔بے شک اللہ ہی مالکِ کائنات اور سب سے عظیم صاحب ِعلم ہے۔
 بہت سی سوچیں اور کہانیاں ہم سفر تھیں اور ہم گامزن تھے گندھارا تہذیب کی بستیوں کی طرف۔
کہانی سننے والے جو بھی ہیں وہ خود کہانی ہیں
کہانی کہنے والا اک کہانی کی کہانی ہے
پیا پے یہ گذارش یہ گماں اور یہ گلے کیسے
صلہ سوزی تو میرا فن ہے پھر اس کے صلے کیسے
(جون ایلیا)

______________________