Saturday, April 22, 2017

سفر نامہ پریوں کی تلاش سے ایک اقتباس

  موٹر وے بننے سے پہلے کلر کہار تاریخ کے صفحات میں چھپاہوا تھا لیکن موٹر وے انٹر چینج  کے قیام کے بعد یہ مقام اس طرح ہمارے سامنے آگیا  جیسے جنگلوں میں چھپا خزانہ ۔    یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ موٹر وے پر موجود تمام انٹر چینجز میں کلر کہار اپنی خوبصورتی اور محلِ وقوع کے لحاظ سے موٹر وے پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا پسندیدہ انٹر چینج ہے۔
  انٹر چینج سے تھوڑا سا نیچے اُتریں تو کلر کہار کی جھیل اس سرزمین پرآنے والوں کا استقبال کرتی ہے۔ یہ پورا پہاڑی سلسلہ پوٹوہار پلییٹو کہلاتا ہے۔اس کے پہاڑوں کی اوسط اونچائی تقریباً 2300 سے 2600 فٹ تک ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی سکیسر ہے جس کی اونچائی  3700 فٹ ہے۔       کہتے ہیں  کہ کسی وقت یہاں سمندر تھا۔ کسی واقعہ میں انڈین پلیٹیں ایشیائی پلیٹوں کے ساتھ ٹکرائیں اور نمک کے پہاڑ وجود میں آ گئے۔ 
 کلر کہار کوہ نمک کا ایک اہم مقام ہے۔ نمک کے ان پہاڑوں کا سلسلہ دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سندھ تک چلتا جاتا ہے۔ دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں کوئلہ بھی پایاجاتا ہے۔ ویسے تو اس سلسلۂ   کوہ کاہر گوشہ اور ہر کونہ خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن اس کی جھیلیں دیکھنے کے لائق ہیں۔
 کچھ یہی وہ کھوج ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں رکنے پر مجبور ہوئے۔

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ توزد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا  میں  وہ خزانے تھے
(آشفتہ چنگیزی)

ہم کلر کہار رکنے کا پکا ارادہ کر چکے تھے اس لئے انٹر چینج کو چکر دے کر جھیل کے ساتھ ساتھ گولائی میں چلتے ہوئے۔ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے۔ ہماری دائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ جھیل میں اُگی ہوئی جھاڑیاں تھیں اور بائیں جانب پہاڑوں کا سلسلہ۔ اس سڑک کی وجہ سے ہم جھیل کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن جھیل پر بھی اندھیرے کی سیاہ چادر تن چکی تھی۔ جھیل سے دور گھروں اور سڑک پر روشن قمقموں کی روشنی کا عکس  اس جھیل کے کناروں پر پڑ رہا تھا۔ اس کے علا وہ سب کچھ سیاہ تھا۔ لگتا تھا یہاں کوئی سیاہ میدان ہے۔
 پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل پہنچ کر بچوں نے کمرا پسند کیا، گاڑی سے سامان کمرے میں منتقل کیا گیااور پھر ہم سب ہوٹل کے ٹیرس پر آ گئے۔  جہاں دو خاندان پہلے ہی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک گائیک اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا مہدی حسن کے گائے ہوئے گیت گا رہا تھا۔ ان کے پیچھے کلر کہار کے بارے میں ایک بڑی سی فلیکس آویزاں تھی  اور اس سے کچھ ہی دور ایک کونے میں باربی کیو اپنے عروج پر تھا، جس کی خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لگتا تھاجیسے اس ہوٹل کے سبھی مہمانوں نے بار بی کیو کا ہی آڈر دے رکھاتھا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کے سامنے چار گاڑیوں اور نیچے پارکنگ میں چھ گاڑیوں کی موجودگی اس امر کی غماز تھی کہ ہوٹل میں کافی لوگ موجود تھے لیکن گرمی کی وجہ سے  اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے تھے۔
                                    بچوں کو اللہ نے یہ قابلیت دی ہوتی ہے کہ وہ فورا ًنئے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے بچوں نے بھی رات کی اس تاریکی میں ہوٹل کی تسخیر کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ بھی ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ جاسوسوں کی طرح ہوٹل کے کونے کھدروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ موسیقار ٹولی کے پیچھے وادی سون سکیسر کی معلوماتی فلیکس کا بھی مکمل مطالعہ کیا جا چکا تھا۔ جس کی جو بات انہیں سمجھ نہیں آتی تھی وہ آ کر مجھ سے پوچھ لیتے۔ یوں وہ کلر کہار کے مشہور مقامات کے ناموں اور موٹی موٹی خصوصیات سے کافی حد تک آگاہ ہو چکے تھے۔ جب بھی کوئی چیز مسخر ہوتی تو میرے یا اپنی ماں کے کان میں پھونک دی جاتی۔ یوں ہم دونوں میاں بیوی ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے سارے ہوٹل اور اس کے مکمل محل وقوع سے واقف ہو گئے تھے۔
  اس دوران ان پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ گانے والوں کو پیسے دیں تو وہ ہماری مرضی کا گانا سناتے ہیں۔  چنانچہ مجھ سے پیسے لے کر چلے گئے لیکن مجھے کامل یقین تھاکہ ان کی فرمائش بوجہ تضادِ تمدن پوری نہیں ہوئی ہوگی۔ جب میں نے ان گائیکوں کی طرف کرسی کی اور انہیں سننا شروع کیا تو انہوں نے اپنے ساز ٹھیک کرنا شروع کر دئیے۔ میرا ایک سو رپیہ کا نوٹ پا کر انہوں نے اپنی انتہائی خوبصورت آواز میں مہدی حسن کی گائی ہوئی میر تقی میر کی یہ مشہور غزل سنانا شروع کر دی۔

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
 پی ٹی ڈی سی کے ٹیرس پر بیٹھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ زندگی کی الجھنوں اور مسائل سے آزاد، نہ کسی رشتہ دار کی بک بک،  نہ کسی دوست کا شکوہ شکایت، نہ معیشت، نہ سیاست، نہ نفرت،   نہ منافقت۔۔۔۔۔۔بس ہر طرف سکون ہی سکون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹیرس پر بیٹھا جب نیچے دیکھتا تومجھے یو ں لگتا جیسے ہم رات گذارنے کے لئے کسی مچان میں بیٹھے ہوں۔ سامنے جھیل تھی، جس کے کناروں پر ارد گرد کی روشنیاں پڑ رہی تھیں۔    ہر روشنی ایک ستارہ کی مانند تھی اور ستاروں کا ملاپ ایک کہکشاں بن رہا تھا۔ دھیمی دھیمی  ہوا جب جھیل کے پانیوں کےگالوں پر اپنے ہونٹ رکھتی تو وہ شرما کرجھرجھری لیتی اور یوں سارا کہکشاں تھرکنے لگتا۔  اس تھرکتے ہوئے کہکشاں کو دیکھ کر مجھے یو ں لگاجیسے کوئی حسینہ چاندی کے ستاروں سے اٹا اپنا سیاہ ریشمی دوپٹہ ہلا ہلا کر اپنے محبوب کوجھیل کنارے اپنی آمد کی اطلاع دے رہی ہو۔
     کچھ ہی دور موٹر وے گذر رہی تھی۔ گزرنے والی گاڑیوں کی رنگ برنگی روشنیوں کاعکس اس جھیل کی جب چٹکی لیتا تو یہ جھلمل جھلمل کر اُٹھتی اور اس کے رخساروں پر حیا کے کتنے ہی رنگ پھیل جاتے۔ اس عالم میں مجھے اپنی جوانی کا وہ گیت یاد آگیا جو اس وقت میرا مشن یا ویژن اسٹیٹمنٹ تھا۔
جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا
رم جھم برستا ساون ہو گا
ایسا سندر سپنا اپنا جیون ہوگا
 اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جس پہاڑ پر چڑھنے میں بڑی بڑی بسوں کی بس ہو جاتی ہے وہاں اللہ نے پانی کا اتنا بڑا  ذخیرہ سنبھال کر رکھا ہے جو نہ تو اپنے کناروں سے باہر آتا ہے،    نہ سوکھتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے۔ حیاتِ ارضی فطرت کا یہ شاہکار ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے۔
 یہ مقام جسے کلر کہار کہا جاتا ہے آج کے جغرافیہ کے مطابق چکوال کی ایک یونین کونسل ہے۔ چکوال یہاں سے جنوب کی طرف پچیس کلو میٹر کے فاصلہ پر کوہِ سلیمان کے ایک لمبے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وادی سون سیکسر ہے جس کی الگ ہی پہچان ہے۔         کلر کہار کی جھیل ایک قدرتی جھیل ہے جس کا منبع تازہ پانی ہے۔ جھیل کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ اور پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل ہے۔ پاکستان کے اکثر لوگ موسمِ سرما اور بہار میں اس جگہ کی سیر کے لئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو بزرگوں سخی آہو باہو کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ جہاں زائرین اور عقیدت مند وں کی بڑی تعدادحاضری دے کر اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔

کھلی آنکھوں میں سپنا جھا نکتا ہے
وہ سویا ہے کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
(پروین شاکر)

 کلر کہار کو موروں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ میں یہاں ایک مرتبہ پہلے بھی آ چکا ہوں جب موٹر وے نئی نئی بنی تھی۔ اُ س وقت میں نے جا بجا انسانوں سے مانوس مور دیکھے تھے،  جو ہر جگہ اس طرح گھومتے پھررہے تھے جس طرح ہماری سڑکوں پر موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔  البتہ آہو باہو کی خانقاہ پر مور کھلے عام پھرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں کسی اور مقام پر لے جایا جائے تو وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تختِ بابری بھی یہاں کا مشہور مقام ہے۔ یوں کلر کہار میں میرے اور بچوں کے لئے دیکھنے کو کافی سامان موجود تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موروں کا ذکر ہو اور بچے مور دیکھنے کی ضد نہ کریں، ان کے شدید اصرار پر ہم نے گاڑی نکالی اور جا خانقاہ کے عقب میں مقام کیا، دربار میں گئے، ادھر دیکھا ادھردیکھا لیکن مور وں کے دیدار نہ ہوئے۔
 مزار سے باہر ایک چھوٹا سابازار ہے چنانچہ بچے اور ان کی اماں وہاں سے شاپنگ کرنے لگے جبکہ میں ایک دکان میں چند بزرگوں کو فارغ بیٹھے اورحقہ پیتے دیکھ کر ان کی طرف چلا گیا۔ان بزرگوں نے میرا  پُر جوش استقبال کیا۔     بات سے بات نکلتی گئی اور یہ ملاقات ایک گھنٹہ تک طول پکڑ گئی۔ پتہ چلا کہ اب مور بہت کم ہو گئے ہیں اور وہ صبح کے وقت اس مزار پر آتے ہیں۔
ان بزرگوں نے مجھے اس علاقہ کے بزرگوں کی کرامات کے بہت سے واقعات سنائے۔                                               کہا جاتا ہے،  ” اس علاقہ میں میٹھے پانی کی بہت کمی تھی۔ا کا دکا جگہ پر میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ جہاں دور دراز سے عورتیں پانی بھرنے کے لئے آتی تھیں۔ یو ں اس علاقہ کی سب سے قیمتی شے پینے کا پانی تھا۔ 
 ایک دفعہ کاذکر ہے کہ کچھ عورتیں ایک چشمہ سے پانی بھر کر لا رہی تھیں کہ اللہ کے ایک ولی حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ان عورتوں سے پینے کیلئے پانی مانگا تو عورتوں نے جواب دیا کہ بابا جی پانی توکڑوا ہے۔ تو اللہ کے اس بندے نے فرمایا،   ” اچھا کڑوا ہے تو کڑوا ہی سہی “
  ان عورتوں نے گھر جا کر گھڑوں میں پانی دیکھا تو وہ کڑوا نکلا۔ لوگ بھاگے اور اس چشمے پرپہنچے جہاں سے پانی بھر کر لایا جاتا تھا۔ مگر قدرت خدا کی کہ اس چشمہ کا پانی بھی کڑوا نکلا۔                     کلر کہار کے تمام لوگ اس بزرگ کی تلاش میں نکلے اور انہیں پا کر ہاتھ جوڑ کر ان کی خدمت میں بیٹھ گئے۔ معافی طلب کی اور عرض کی کہ پانی کی یہ چھوٹی سی جگہ ہی ہمارا سہارا ہے اس لئے ہمیں معاف کردیجئے۔
 لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اس بزرگ نے جواب دیا، 
” کڑوا تو ہوچکا اب ہم اسے میٹھا نہیں کرسکتے لیکن ایک وقت یہاں سے عارفین کا سلطان رحمتہ اللہ علیہ گزرے گا ان سے عرض کرنا کڑوی چیزوں کو میٹھا اور ناکارہ کو کارآمد بنانا اسی کی صفت ہے۔“
 کچھ سالوں بعد وہاں سے سلطان باہو کاگذر ہوا۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ پیش کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک پتھر اُٹھا کر پہاڑی کے دامن میں زور سے مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ چشمہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا جاری کردہ یہی چشمہ کلر کہار کے لوگوں کیلئے زندگی کا سبب ہے اور یہی اکیلا چشمہ پانی کی تمام ضروریات پورا کرتا ہے۔“
 ان بزرگوں نے یہاں پھیلے ہوئے کتنے ہی چشموں اور جھیلوں کا بھی بتایا جن تک پہنچنے کے لئے مزید ایک زندگی درکار ہے۔                                              ایک بزرگ نے بتایا کہ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں سمندر ہوا کرتا تھا۔ میری جوانی کے زمانے میں یہاں اکثر انگریز آیا کرتے تھے اور سمندری مچھلیاں تلاش کرتے تھے۔
 اُن بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے اپنی چادر درست کرتے ہوئے بتایا،         
                                                                                                           ”جب ان صاحبِ مزار بزرگانِ دین کا عرس آتا ہے تو لوگ یہاں رات کو دکانیں کھلی چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ مجال ہے جو کسی دکان کو کوئی نقصان پہنچتا۔ اچھے وقتوں کی باتیں تھیں  جی، نہ کوئی چوری چکاری نہ دہشت گردی۔ میں نے کئی انگریزوں کو گائیڈ کیا تھا وہ یہاں سے فوسلز تلاش کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں  جرمنی کی ایک ٹیم آئی تھی اوراسے سمندری مچھلی ملی تھی۔“
 میں نے  پوچھا،  ” اچھا بابا جی پریاں کہاں آتی ہیں۔“
  ”کبھی آتی تھیں۔۔۔ اب کہاں۔“
  ایک بزرگ نے جواب دیا تو ان کی بات کاٹ کر دوسرے بزرگ نے حیران کن بات کردی۔    
          ”جنوں کی تو حکومتیں ہیں نااور ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔“      
ایک بزرگ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا،   
          ”بیابان ہے جن چڑیلیں تو عام ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے بھی ہیں اور باتیں بھی کرتے ہیں۔“          
            میں نے پوچھا،
” کوئی خطرہ تو نہیں۔“        
        ان میں سے ایک نے فوراًجواب دیا، 
”نہ نہ کوئی خطرہ نہیں، کچھ بھی نظر آئے تو درود شریف پڑھ لینا ۔۔۔جو بھی ہو گا بھاگ جائے گا۔“ 
 ان بزرگوں سے علاقہ اورلوگوں کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں۔ جب میں اُٹھنے لگا تو ان میں سے ایک نے کہا، 
         ”بیٹا دن کے وقت ہی سفر کرنا کوئی پتہ نہیں ہوتا اب ہزاروں کتے بلے نہ جانے کہاں سے آکر یہاں چھپے ہوئے ہیں۔“ 
 ایک نے نصیحت کی،  ”یادہے درود کا ورد بس سب خیر ہے۔“


 میں یہ سوچ لے کر وہاں سے نکلا کہ آج کے انسان کو کسی جن یا چڑیل سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو اپنے ہم جنس انسان سے۔ ان بزرگوں کی باتوں میں بہت مزا تھا، پیار تھا اورشفقت۔ کوئی مزدور تھاکوئی دکان دار، پتہ نہیں ان میں سے کسی نے کبھی اسکول بھی دیکھاتھا کہ نہیں،  لیکن کردار و عمل، مشاہدہ و تجربہ، دانائی اور حکمت میں بڑی بڑی ڈگریوں والے ان کی خاک کو بھی نہیں چھو سکتے۔ ہر ایک اپنے اندر ایک ایسا خزانہ تھا جو لٹنے کے لئے تو تیار بیٹھاتھا۔  لیکن افسوس لوٹنے والے خال خال۔
  ان میں سے کئی تو اس وقت کی باتیں بھی بتا رہے تھے جب یہاں گاڑی نام کی شے بڑی سڑک پر ہی دکھائی دیتی تھی۔ خاص بات یہ کہ وہ اپنے علاقہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے۔   ان کے اندر یادوں، تجربوں اور دکھوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت کا سب سے بڑا دکھ ان کی اپنی اولادیں تھیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کے اپنے تھے۔   کچھ تو اپنی جوانی اور اچھے دور کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے تھے۔
یاد ماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے
اس سے بہتر ہے کہ ہر بات بھلا دی جائے
جس سے تھوڑی سی بھی امید زیادہ ہو کبھی
ایسی ہر شمع سر شام بجھا دی جائے
میں نے اپنوں کے رویوں سے یہ محسوس کیا
دل کے آنگن میں بھی دیوار اٹھا دی جائے
میں نے یاروں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا محسن
اپنے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے
(محسن نقوی)
آج لکھتے ہوئے بھی وہ بزرگ مجھے یاد آرہے ہیں۔ وہ حقہ، وہ چادریں وہ باتیں۔۔۔ ایسی باتیں کہ جی چاہتا تھا کہ سنتے ہی جائیں۔۔۔۔۔۔ شاید کبھی حاصل سفر ان بزرگوں سے ملاقات بھی ہو۔



Monday, April 10, 2017

سفر نامہ پریوں کی تلاش سے ایک اقتباسAn extract of fairy travel


 

موسیقی میری دسترس میں ہو تو غزلیں نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ ناصر کاظمی کی یہ خوبصورت غزل شروع ہوئی تو میں نے والیم اونچا کر دیا۔ بچوں میں اور مجھ میں موسیقی کے حوالے سے قدرے مشترک یہ ہے کہ ہم موسیقی اونچی آواز میں سنتے ہیں۔ ویسے بھی گدھے کے دودھ کے موضوع سے نکلنے کا یہ موزوں ترین بہانہ 
 تھا۔

اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیر ی آرتی اتاریں گے
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے
(ناصر کاظمی)
بڑے کہتے ہیں کہ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں، خواب دیکھیں گے، نیتیں ٹھیک رکھیں گے تو تعبیریں ملیں گی۔ ہم جیسے دیوانے بھی کیسے ہیں دولت شہرت کے نہیں فطرت اور ماضی کے قُرب کے خواب دیکھتے ہیں۔ 
 دس سال پہلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کٹاس راج آیا تھا اور میں نے جاگتے میں یہ خواب دیکھا تھاکہ کاش کوئی وقت آئے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آؤں۔ آج میرا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔
ایک بڑی سی انسانی بستی سے گذرے ہی تھے کہ کٹاس کے دھندلے عکس واضح ہو نے لگے۔  وہی شان، وہی وجاہت جیسی میں نے سوچی تھی۔ سر سبز پہاڑوں میں موجودکھنڈرات۔۔۔۔ کسی طلسماتی دیس کی عمارات لگ رہےتھے۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ باہر کھڑا ہونابھی دشوار تھا۔ سکھوں کی حویلی اور پہاڑوں میں موجود غاروں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہم اس کھنڈر کے اندر داخل ہوئے جسے کٹاس راج کہا جاتاہے۔ میرے سامنے کھنڈرات اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے موسمِ خزاں میں بہت سے نیم کے درخت؛ ویران، چرنڈ مرنڈ۔۔ جیسے انہوں نے کبھی بہار دیکھی ہی نہ ہو۔ جیسے انہیں دیمک چاٹ گئی ہو، جیسے ان پر کبھی بھی کسی پرندے نے گھونسلا نہ بنا یا ہو۔۔۔ جیسے انہیں کبھی کوئی نگہبان ہی نہ ملا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بس کوئی ایسا حسین جس کو اپنے ہی کسی چاہنے والے کی نظر لگ گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا قسمت کا مارا جو کسی کی آہ یا بددعا کا شکار ہو گیا ہو۔
مجھے یوں لگا جیسے یہ کھنڈر ہمیں دیکھ کر کہہ رہے ہوں،
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیاکیا خزانے لگے
(باقی صدیقی)
ہم ابھی مرکزی راہداری کی دوسری سیڑھی پر تھے کہ ایک گائیڈ نے ہمیں اپنی خدمات پیش کیں۔ جنہیں ہم نے قبول کر لیا۔ کچھ ہی دورایک  درخت کے نیچے سندھ سے آیا ہواا یک ہندو خاندان یاترا کے بعد کھاناکھانے میں مصروف تھا۔ میں نے سامنے دائیں ہاتھ بارہ دری کا وہ حصہ دیکھا جو دس سال پہلے اس حالت میں تھا کہ ہم اس کی اوپری منزل پر بھی چکر لگاتے رہے تھے لیکن آج اُ س کا اوپری حصہ غائب تھا۔         گائیڈ کی زبان مسلسل چل رہی تھی ا ور میں ماضی کی اس بارہ دری میں کھویا ہوا تھا۔مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ساری معلومات میرے دماغ کی جھیل پر جیتے جاگتے کرداروں کی طرح تیرنے لگیں۔
مجھے یوں لگا:
 ہم گھوڑوں پر سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد اس ریاست کے مرکزی شہر کٹاس کے انتہائی قریب پہنچے تھے۔ جسے عام لوگ  ’ست گرہ‘کہتے تھےیہ شہرسر سبز و شاداب اور فصیل نما پہاڑوں کے قدرتی حصار میں علاقہ کی اونچی جگہ پر بسایاگیا تھا۔ کئی میل تک پھیلی ہوئی فصیل اس شہر کے باسیوں کی شان و شوکت اور ہیبت و وجاہت کوظاہر کر رہی تھی۔ اس فصیل پر حفاظت کی غرض سے ہر ایک دو میل کے فاصلہ پر چھوٹے چھوٹے مینار بنائے گئے تھے۔ جہاں سے پورے علاقہ پر نظر رکھی جاتی ہوگی لیکن آج ان میں سپاہی موجود نہ تھے۔ ہر دو تین میل کے فاصلہ پر لکڑی کے دیو ہیکل دروازے تھے جو کھلے ہوئے تھے اور ان میں آمدو رفت کا سلسلہ جاری تھا۔             ہم اس شہر سے کوسوں دور تھے کہ ہمیں مسلح گھڑ سواروں کے ایک دستہ نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ ہر کوس پر مسلح دستہ ہمیں اگلے دستہ کے حوالے کر کے آگے چل پڑتا۔ہم جونہی مرکزی دروازہ پر پہنچے تو ہمیں بیرونی دیوار کی حفاظت پر معمور کئی مسلح گھڑ سواروں نے حصار میں لے لیا اور انتہائی عزت و احترام کے ساتھ مرکزی دروازہ تک لے گئے۔ ان کے ایک اشارہ سے مرکزی درواز ہ کھل گیا اور ہم قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ وہ گھڑ سوار مسلسل ہمارے ساتھ تھے۔ قلعہ کی مختلف راہداریوں پر ہاتھیوں اور گھڑ سواروں کی آمد ورفت جاری تھی۔  
 مرکزی دروازے کے قریب ہی رنگین اور سنہری رتھ اپنے جو شیلے گھوڑوں اور سپاہیوں کے ساتھ اس طرح کھڑے تھے کہ  جیسے جنگ میں جانے کے لئے تیار ہوں۔ ان رتھوں کو دیکھ کر مجھے یونان کے رتھ یاد آگئے۔ ان سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہاں کے باسیوں کا یونان سے خاص تعلق تھا۔ ہمارے ارد گرد گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے جن میں راہداریاں اور پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کئی میدان مختلف پھلوں کے درختوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے ایک اور فصیل تھی جس کے پیچھے ایک خوبصورت عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ جس کے جھروکوں کے رنگین پردے باہر کی طرف اس طرح اڑ رہے تھے جیسے اندر کسی نے پوری رفتار سے پنکھے چلا رکھے ہوں۔ 
 قلعہ کے کافی اندر تک چلنے کے بعد گھڑ سوار لکڑی کے بنے ہوئے ایک بڑے دروازے کے سامنے رکے۔ سونے کے پرتوں میں لپٹے ہوئے اس دروازہ پر سینکڑوں چوکٹھے بنے ہوئے تھے جن میں خوبصورت نقش و نگار اور قیمتی پتھر سے بنی مورتیاں آویزاں تھیں۔ ان پتھروں میں زمرد حاوی تھا۔ اگرچہ ان مورتیوں کوچاندی اور سونے کا ماحول نصیب تھا لیکن ان کے اندر ایک وحشت چھپی ہوئی تھی۔ بنانے والوں نے ان کی آنکھوں میں  خوف کوٹ کوٹ کر  بھر دیاتھا۔       دروازہ کھلا تو سامنے نیلے رنگ کی راہداری پر زرق برق لباس میں ملبوس امرا اور اہلکار ایک لمبی قطار بنا ئے کھڑے تھے۔ انہی رؤسا و امر میں لال رنگ کی دھوتی اور سنہری کڑھائی سے بھری ہوئی سبز چادر میں ملبوس ایک شخص ہمیں دیکھ کر آگے بڑھ آیا۔ اس کے سر سے لپٹی نارنجی پگڑی اور گردن میں لٹکتی سونے کی مالا میں پروئے ہوئے قیمتی پتھر اس کی شان اور اہمیت کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ اک شان سے آگے بڑھا اور ہاتھ باندھ کر جھکتے ہوئے سلام کرنے کے بعد ہمیں بتانے لگا کہ وہ امور مہمانداری کا ذمہ دار ہے اور ہماری خدمت کے لئے معمور ہے۔
                                                                                                                                                      اس کے بعد اُس نے ہمارا تعارف اپنے ساتھیوں سے اور ان کا تعارف ہم سے کروایا تو پتہ چلا کہ ہمارے زیادہ ترمیزبانوں کا تعلق راجہ کے خاندان سے ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کا  اشارہ کیا گیااور ہم اس رنگین قطار میں چلتے ہوئے محل کے ایک کمرے میں پہنچ گئے۔ یہ کمرہ کیاا یک بارہ دری تھی۔ جس کے دروازوں پر باریک پردے ہوا کے دوش پر ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔
 ہوا کے لئے جھروکے اس طرح بنائے گئے تھے کہ ایک کے سامنے دوسرا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک جھروکہ سے داخل ہونے والی ہوا کو دوسرا جھروکہ کھینچ کر باہر پھینک رہاتھا۔ ہر دیوار اور ہر ستون آرٹ کا نمونہ تھی۔ نارنجی رنگ پر نیلے رنگ سے بنائے گئے بیل بوٹے کچھ یوں لگ رہے تھے جیسے بہت سی بیلیں سونے کے پانی پر تیر رہی ہوں۔             محرابوں کے ستونوں پر سونے کے پرت یوں چڑھائے گئے تھے کہ یہ سونے کے ہی معلوم ہو رہے تھے۔ چھت پر ایک بہت بڑا فانوس جھلملا رہا تھا جبکہ ہر ستون پر چاندی کے  مشعل دانوں میں رکھی مشعلیں مسکرا رہی تھیں۔ کمرے میں روشنی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جھروکوں سے آنے والی شمسی کرنیں جب فانوس میں جڑے قیمتی پتھروں پر پڑتیں تو وہ جگمگا اٹھتے۔ 
 فرش پر مختلف رنگوں کے ایرانی قالین اس ریاست کے ایران کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چار دوشیزائیں ہاتھوں میں چاندی کی طشتریاں اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں اور ہماری تواضع وہاں کے ایک مشروب سے کی گئی۔ مشروب پیتے ہی ہماری ساری تھکن مٹ گئی اور ہم ترو تازہ ہو گئے۔پتہ نہیں یہ اثر مشروب میں تھا یا مشروب پلانے والے ہاتھوں میں تھا۔ ویسے بھی ساڑھیوں کے اُڑتے پلو کسی کو نیند کی وادیوں میں کب جانے دیتے ہیں۔           
  ”ہمارے مہاراج کشمیر کی یاترا پر گئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ کی خدمت کی ذمہ داری ہماری ہے۔  میرا نام کرشنا ہے۔“
 گویاامور مہمانداری کے اس ذمہ دار نے ہمیں راجہ کی عدم موجودگی کا عذر پیش کیا۔
”آئیے میں آپ کو یہاں کا عجوبہ دکھاؤں۔“
 یہ کہہ کر اُس نے مشرقی دروازہ کا پردہ اٹھا دیا۔ جب ہم نے نیچے جھانکا تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔      ہمارے سامنے ایک جھیل مسکرا رہی تھی۔ لگتا تھاجھیلوں کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔ سنہری عمارات کے درمیان وہ انگوٹھی میں زمرد کے نگینے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔  ارد گرد کی الف لیلوی داستانوں کی عمارات کی طرز کی شاہی عمارات کے سائے نے اُسے مزیدسحر انگیز بنادیا تھا۔ لگتا تھاان عمارات کی بنیا د محبت اور حسن پر رکھی گئی تھی۔        جب ہوا ٹہرے ہوئے پانی میں ڈبکیاں لگاتی تو جھیل مسکرا اٹھتی اور یوں لگتا جیسے وہ ہمیں گلے ملنے کی دعوت دے رہی ہو۔
  ”ہمارے بھگوان شیو دیوتا بھی یہیں رہا کرتے تھے۔ شیو جی اور ستی دیوی میں بے انتہامحبت تھی۔ بس سمجھئے کہ جسم دو تھے لیکن جان ایک۔ مہارانی تھی بھی بہت عقل مند حکومت کے سارے معاملات میں شریک ہوتیں۔ پھر ایسا ہوا کہ دیوی کو برہما نے اپنے پاس بلالیا۔ شیو مہاراج کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ بس مہارانی کی یاد تھی اور شیو جی۔ پھر ایک دن مہاراجہ شیو اپنی پتنی کی یاد میں اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے  بڑے بڑے دوآنسو نمودار ہوئے جن میں سے ایک یہاں گرا دوسرا راجستان میں۔ اور اس آنسو سے یہ جھیل بن گئی۔ اس جھیل کو آنسوؤں کی ندی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ کی وجہ سے اس راج کانام کٹاکشا پڑ گیا۔ سنسکرت میں اس لفظ کامطلب ہے برساتی آنکھیں۔ مہابھارت میں اسے محبت کی جھیل بھی کہا  گیا ہے۔“                                                                                                                                                                                       
ابھی اس کی بات نامکمل ہی تھی کہ دیوتا جیسے ایک خوبصورت جوان نے اپنی چادر سیدھی کرتے ہوئے  بتایا،
 ”یہی وہ جگہ ہے جہاں مہاراجہ شیو کا ستی دیوی سے بندھن ہوا تھا۔ اس لئے پھاگن کے مہینے میں اماوس کی رات یہاں مہاراجہ شیو اور ان کی پتنی کی شادی کی یاد کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اس تہوا رکو شیو راتری کہا جاتا ہے۔ پورے ہند سے ہندو اس تہوار میں شرکت کے لئے یہاں آتے ہیں۔ لوگوں کی کوشش ہوتی  ہے کہ ان کے بچوں کے شادیوں کے بندھن کی رسمیں یہیں ادا ہوں۔  ہماری  مذہبی کتابیں رگ وید اور مہابھارت بھی یہیں پر لکھی گئی تھیں۔ رگ وید کے مطابق اس جھیل کے اندر ایک دریابہتا ہے۔ اس جھیل میں نہانے والوں کو طاقت ملتی ہے۔“     
 اس کے بعد وہ ہمیں بارہ دری سے باہر لے گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا صحن تھا۔ جس کے ایک طرف ایک مندر تھا۔
 ”یہ شیو جی کا مندر ہے اور یہ دائیں طرف ہماری مہارانی کی خواب گاہ ہے۔“کرشنا نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھاکر ایک بارہ دری کی طرف اشارہ کیا۔ میری نظر اُس کے اشارے سے زیادہ اُس کی انگلی پر لپٹی سونے کی ایک انگوٹھی پر پڑی جس میں فیروزہ جڑا ہوا تھا۔میں نے جب اُس کے اشارے کے مطابق عمارت کی طرف دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے میں پرستان کے کسی کونے میں پہنچ گیاہوں۔ رنگ برنگی ساڑھیوں اور چھوٹی چھوٹی کرتیوں میں ملبوس داسیاں ادھر ادھر بھاگتی پھر رہی تھیں۔ بارہ دری کے جالی کے پردے ہوا سے اڑ اُڑکر ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے اور ان میں بندھے ہوئے قیمتی پتھر ٹکرا ٹکرا کرایک سحرناک موسیقی پیدا کر رہے تھے۔  کبھی کوئی شرارتی پردہ جذبات میں بہتا ہو اآتااوران حسینوں کے بوسے لے کر لوٹ جاتا۔                                    اچانک مجھے اپنی بائیں طرف کچھ شور سا محسوس ہوا۔ میں نے تھوڑا سا آگے بڑھ کر دیکھا بارہ دری کے پچھلے حصہ سے بہت سی خواتین اندر داخل ہو رہی تھیں۔ میری نظر ان کے درمیان پیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ایک پری صورت پر جا رکی، پتہ نہیں وہ پری تھی کہ چاندکی شہزادی، کہکشاں سے اترا کوئی تارا تھی یا کسی شاعر کی غزل کا استعارہ۔ دیواروں میں لگی سفید روشنیوں میں سے کوئی روشنی اس کی ساڑھی کو چھوتی تو قوسِ قزاح پیدا ہو جاتی۔ لگتا تھا اُسے فرشتوں نے دودھ سے نہلایاتھا اور پریوں نے چاندی سے سجایا تھا۔ کسی ماورائی طاقت نے اُس میں بانکپن اور نزاکت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔اُس کا طلسماتی چہرہ نازک اور زیورسے بھری گردن پر اس طرح کھلا ہوا تھا جیسے  کسی نازک شاخ پرگلابی گلاب۔  کاجل سے بھری پلکیں جب اٹھتیں تو دیکھنے والوں کی پلکیں تاب نہ لاتے ہوئے عقیدت میں جھک جاتیں۔                                                                فانوس کی روشنیاں جب اُ س نازنین کے چہرہ پر پڑیں تو کرشنا کا من بھی ڈول گیا کہنے لگا،
 ”یہ ہماری چھوٹی رانی ہیں اور کشمیر کے راجہ کی  پُتری ہیں۔“
 اسی اثنا میں وہ حسینہ ناز دکھاتی ہوئی بارہ دری کی طرف مڑی تو بارہ دری  سےباہر آنے والے ہوا کے ایک شوخ جھونکے نے اُس کی ساڑھی کا اوپری پلوکسی مرمریں دروازے کے پردے کی طرح اُڑادیا۔پلو ہٹا اور کمر سے بندھا ہوا سونے کا کمر کس جھلمل کرتانمایاں  ہوگیا۔ گویا کتاب ِ حُسن کادیباچہ کھل گیا۔ سونے کے کمر کس  اور  اُس کے ریشمی ماحول نے حُسن کی ساری کہانی کہہ دی۔  مجھے تو ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا وہ سونے کاکمر کس ایک ایسا تعویز لگا جو اُس کے مرمریں پیٹ کے گرد نظرِ بد سے بچانے کے لئے باندھا گیا تھا۔        سونا تو یہاں ارد گرد اس طرح دکھائی دے رہا تھا جیسے شادی بیاہ کی کسی تقریب کے ہال میں روشنیاں۔ لیکن اُس مومی پیٹ پر  چمٹے ہوئے سونے کا بانکپن ہی نرالا تھا۔ وہ پیٹ تھا کہ پارس اگر لوہا بھی اُسے چھو جاتا تو سونا ہو جاتا۔
 ”یہ بارہ دری ہے جی یہاں راجاؤں کا خاندان بستا تھا۔“
 گائیڈ کے اس جملے نے مجھے خوابوں کی دنیا سے اس طرح باہر نکالا جیسے کسان مولی کو کھینچ کر زمین سے باہر نکالتاہے۔                                                                                                                                                              ”آئیے اندر چلتے ہیں۔“
 گائیڈ نے کہا اور ہم ا س کے پیچھے چل دئیے لیکن جونہی۔۔۔۔۔
 ”کشمیر کی پُتری، چھوٹی مہارانی جی“ کی خواب گاہ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا بھڑوں کے ایک دستے نے ہم پر اس طرح حملہ کیا جس طرح کوئی فوج دشمن پر حملہ کرتی ہے۔
  ہم بھی بھاگنے میں ماہر تھے اس لئے گائیڈ کے، ”اندر جائیے یہ کچھ نہیں کہیں گی۔“ کہنےکے باوجود ہم نے پیچھے مڑ کی بھی نہ دیکھا۔  اب ہمیں مہارانی کا وہ کمر بند پیتل کا دکھائی دینے لگا اور مومی پیٹ پتھر کا جس کے پیچھے سے یہ بھڑیں نکل رہی تھیں۔ پتہ نہیں ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق وہ سارا قافلہ ٔحسن ہمارے دور میں بھڑیں بن کر دوبارہ پیدا ہو گیا تھا۔                ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان بھڑوں میں ملکہ کون سی تھی اور داسی کون سی۔    ہم بھاگ کر چھوٹے سے صحن کے پار دوسرے صحن میں آگئے۔ ہمارے گائیڈ نے ہماری کیفیت اور جذبات کو بالکل نظرا نداز کر دیا۔ ایسے چھوٹے چھوٹے موٹے واقعات دیکھنے کی یا تواُسے عادت تھی یا پھر اُسے جلدی تھی کہ ساری معلومات جو اُس نے رٹ رکھی تھیں ہمارے اندر انڈھیل دے۔                   
 ”یہ وہ دیوار ہے جس میں فوسلز جڑے ہوئے ہیں۔“
 گائیڈ نے جلدی سے اپنی معلومات کی کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
 ہم نے اشتیاق میں پوچھا ،
’’ کہاں ہیں۔‘‘
 اُس نے عجیب سے سیمنٹ پر  دو چار انگلیاں پھیر کر ہمیں مطمئن کر دیا۔
  ”یہاں سے مچھلیوں اور سمندری جانوروں کے فوسلز ملتے تھے جنہیں یہ لوگ دیوار میں پرو دیتے تھے اس طرح دیوار مضبوط رہتی تھی۔“                                                       جب ہم اس دیوار کے پاس گئے تو اس نے مزید بتایا،
 ” کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے ڈائنو سارز جیسے جانوروں کے بھی فوسلز ملے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ کتنااہم اور قدیم ہے۔“                                                                                                                    اس دیوار کے ساتھ ہی ایک مندر تھا جس کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔         
”یہ سب سے پرانا مندر ہے۔ اسی کے پیچھے مندر کے پروہتوں کی رہائش گاہیں تھیں جو اب مٹ چکی ہیں۔ اسی جگہ سنسکرت نے بھی ایک زبان کا روپ اختیار کیاتھا۔“
گائیڈ نے مندر کے لکڑی کے دروازے کا تالا کھولتے ہوئے بتایا۔ 
 یہ ایک پراناسا کمرہ تھاجس میں جھروکے بنے ہوئے تھے جنہیں بند کر دیاگیا تھا۔ اندر ہندؤوں کا ایک جھنڈا لٹک رہا تھا۔ دیواروں اور چھت کا رنگ اور نقش و نگار تو کب کے ختم ہو گئے تھے البتہ اس عمارت کے زخم چھپانے کے لئے یہاں سفیدی کر دی گئی تھی۔ زمین پر شیو لنگ کا بت پڑا تھا۔
 ”اس بت کی نو بیاہتا جوڑے عبادت کرتے ہیں یا مرد۔  بچوں کو اجازت نہیں۔“
گائیڈ نے مزید معلومات فراہم کیں۔
”کیا  لوگ اب بھی یہاں آتے ہیں۔“
میں نے مندر کی فعال حیثیت کو دیکھتے ہوئے گائیڈ سے پوچھا۔
 ”بمبئی حملوں سے پہلے تو جی شیو راتری کے تہوار پر پوری دنیا سے ہندو آیا کرتے تھے لیکن اب صرف سندھ سے ہی ہندو پوجا پاٹ کیلئے آتے ہیں۔“
ہم اس مندر سے باہر آئے تو گائیڈ نے اس کے دروازے پر پھر قفل چڑھا دیا۔ اور چبوترے پر بنی ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا،
”وہ سامنے ہنومان کا مندر ہے۔ آئیے وہاں چلتے ہیں۔“
 اس عمارت میں چھوٹے چھوٹے کئی ستون بنائے گئے تھے۔ ایک چھوٹی مگر اونچی سیڑھی پر مندر کا دروازہ تھا۔ جس پر قفل پڑا تھا۔                                                                                                                                      ”یہاں مہارانیاں اور رانیاں پوجا پاٹ کے لئے آتی تھیں۔“
 اُس نے مندر کا دروازہ کھولتے ہوئے بتایا۔دروازے کے دونوں اطراف بیٹھنے یا کھڑا ہونے کی جگہ دیکھ کر میں نے پو چھا،
 ”لگتا ہے یہاں داسیاں پھولوں کے ہار لئے کھڑی ہوتی ہوں گی۔“
  ”شاید جی۔“                                                                                                                                                                                   یہ کہہ کر اُ س نے میری توجہ مندر کے اوپر بنی ایک ایسی مورتی کی طرف دلائی جو اب اپنے نقوش کھو چکی تھی۔
  ”یہ شیو جی کا مجسمہ ہے۔“
 جی کا لفظ سن کر میں نے حیران ہو کر پوچھا،
 ”آپ بھی ہندو ہیں کیا۔“ 
 ” نئیں جی، الحمد اللہ مسلمان ہوں، آپ کو کیسے شک ہوا۔“
 اُسے میری یہ بات پسند نہیں آئی۔ میں نے ندامت چھپاتے ہوئے کہا،
”نہیں جی  عادت بن گئی ہے، یہی کام کرتے جوان ہوئے ہیں یہاں ہر طرح کا ٹورسٹ آتا ہے اور ہمیں ہر طرح کی زبان استعمال کرنا پڑتی ہے۔“
اسی دوران دروازہ کھل چکا تھا۔                  دروازے کاکھلنا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے میں آرٹ گیلری میں آگیا ہوں۔ دیوار کیا، چھت کیاہر حصہ گل کاری اور چترکاری سے بھرا ہوا تھا۔ سامنے ایک محراب نما طاقچہ تھا جس میں کبھی کوئی بت رکھاجاتا ہو گا۔ چھت گولائی میں تھی جس پر ایک نمونہ لے کر گل کاری کی گئی تھی جس طرح ہمارے آج کل کے کپڑے میں ہوتا ہے کہ ایک ہی نمونہ پورے کپڑے پر دہرایا جاتا ہے لیکن وہ اس طرح جڑ اہوتا ہے کہ الگ الگ محسوس نہیں ہوتا۔ دیواروں پرآرٹ کے مختلف انداز اور ڈھنگ اختیار کئے گئے تھے۔ اس پر مختلف فریمز میں تصاویر بھی تھیں، منظر نگاری بھی اور گل کاری بھی۔ تصاویر اور منظر نگاری میں ہنومان اور دیویاں چھائی ہوئی تھیں۔                                                                                             ”کیا یہ اصل آرٹ ہے۔“
میں نے گائیڈ سے پوچھا۔“
”نہیں جی یہ والا حصہ پراناہے اور یہ باقی نیا بنا ہے۔“
میں تو دیکھ کر حیران رہ گیا نئے اور پرانے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سلام ہے اپنے وطن کے آرٹسٹوں کو۔ لیکن افسوس بھی کہ انہیں کوئی آرٹسٹ کامرتبہ ہی نہیں دیتا بلکہ انہیں مستری کہہ کر اُن کی تو ہین کی جاتی ہے۔           کیا عالم ہوتا ہو گا اُ س وقت جب یہاں ماضی کے کسی راجہ کے زمانے میں پوجا ہوتی ہو گی۔ ہر طرف خوبصورتیوں کی بہار ہوتی ہو گی۔ داسیوں، یاتریوں، راجوں مہاراجوں اور رانیوں مہارانیوں کے زرق برق لباس نے چار چاند لگا رکھے ہوں گے۔ 
اچانک میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا
 ”یا ریہ مندر عام لوگوں کے لئے تو نہیں ہو گا۔“
میرا سوال سن کر گائیڈ کچھ دیر رکا اور پھر کچھ سوچ کر بولا،
 ”جی سر آپ کا اندیشہ درست ہے یہ صرف شاہی مندر تھے عام لوگوں کے لئے وہ نیچے بھی مندر بنائے گئے ہیں۔ جو ان سے بہت چھوٹے ہیں اور ان کے نام بھی یہی ہیں“                
میں نے کہا،  ”اسی لئے جھیل کے اس طرف رہائشی عمارات ہیں جہاں سے ارد گرد سب کچھ دیکھا جاسکتا تھا۔“ 
 ان مندروں سے اوپر کچھ اور کمروں اور مندروں کے آثار موجود ہیں جو اصل میں پانڈوں کے چار شہزادوں کی یادگار ہے جنہوں نے یہاں چودہ سال سے زیادہ عرصہ جلاوطنی میں کاٹا تھا۔ 
 یہ مندر اپنی شان و شوکت کھو چکے ہیں لیکن ان کے آثار بتاتے ہیں کہ یہ کسی زمانے میں بہت شان و شوکت کے مالک ہوں گے۔
 رہاشی عمارتوں اور پانڈووں کے مندروں کے درمیان بدھوں کا ایک اسٹوپابھی ہے جو گھاس اور جھاڑیوں میں اس طرح  چھپا ہوا ہے کہ لوگ اسے پہاڑی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
 جھیل کے کنارے اوپری طرف کی رہائشی عمارات سے کئی سیڑھیاں نیچے جھیل تک آتی ہیں۔ غالباً انہی سیڑھیوں سے چل کر شاہی خاندان جھیل میں آتا ہو گا۔ انہی عمارات کے پیچھے ایک بڑا سرنگ نما کمرا ہے جس میں دائیں اور بائیں دونوں دیواروں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ایک لمبا چبوترا ہے۔ اس کمرے کاایک حصہ جھیل کی طرف کھلتا ہے اوردوسرا شاہی محلات کی طرف۔ غالب امکان ہے کہ یہاں محلات کی خواتین غسل کے لئے آتی ہوں گی۔   یہ تمام عمارات پہاڑیوں پر بنائی گئی ہیں اور یقینا ان کی حفاظت کا مناسب انتظام ہوتا ہو گا۔ ان عمارات میں کھڑے ہوں اور مشرق کی طرف دیکھیں تو پہاڑیوں میں غاریں دکھائی دیتی ہیں جہاں ہندو پوجا بھی کرتے تھے اور ان میں مُردوں کی راکھ بھی ڈالی جاتی تھی اسی پہاڑی پر شیوراتری میں شادیوں کے لئے ایک مندر بنایا گیا ہے جو صرف باہر سے آنے والے یاتریوں کے لئے ہے۔ یہیں سکھوں کی ایک حویلی بھی ہے جو آج کل حکومت کے استعمال میں ہے۔                                                                                      جھیل کنارے بہت سی عمارات قرہ ارض سے مٹ چکی ہیں۔ اسی جگہ سے کچھ دور نندنہ گاؤں میں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا مرکز تلاش کیا شاید انہی عمارات میں یا موجودہ کسی عمارت میں بیٹھ کراس نے کتاب الہند لکھی ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندووں کے تعلقات کیسے تھے۔ 
 میں چاہتا تھا کہ مجھے کوئی ایسا ہندو مل جائے جس سے میں یہ جان سکوں کہ ہندو کی حیثیت میں وہ یہاں آ کر کیا سوچتا ہے۔  یعنی  ہمیں اُن کے جذبات   اس جگہ کی اہمیت اور جن کے لئے یہ جگہ اہم ہے ان کے احساسات کا ندازہ ہوگا۔  لیکن کو شش کے باجود ایسا نہ ہوا۔ سندھی خاندان کے تمام افراد نے مجھے سرکار کا کارندہ سمجھتے ہوئے اجتناب برتا۔ بس ا ن کے منہ سے ایک ہی بات نکلتی رہی حکومت ہمارے لئے بہت کچھ کر رہی ہے۔
آج جب میں اس سفر کاحال لکھنے بیٹھا تو انٹرنیٹ پر تحقیق کے دوران مجھے ڈان کی ویب سائیٹ پر ایک مضمون ملا ۔ ان واقعات کے   راوی نبیل احمد ڈہکو ہیں۔  یہ مضمون انگریزی میں لکھا گیا ۔  اس مضمون کا مصنف یاتریوں کے کارواں کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ میر ا درجِ ذیل بیان  اسی مضمون سے ماخوذ ہے۔
 ’’                     کٹاس میں آئے ہوئے اُن غیر ملکیوں کی ہچکیوں اور آہوں کی آوازیں مندروں کی گھنٹیوں کی آوازوں میں دب گئی تھیں جو کٹاس کی جھیل کنارے اپنی پوجا میں مصروف تھے۔ وہ ہچکیاں لےلے کر رو رہے تھے جیسے انہیں ان کی زندگی کا حاصل مل گیا ہو۔ اُن میں سے اکثر نے یہاں تک پہنچنے کے لئے کئی جتن کئے تھے۔ سوچا تھا، پیسے جمع کئے تھے،  ویزوں اور پاسپورٹ کے لئے کئی دفتروں کی خاک چھانی تھی اور میلوں کے سفر کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ شیو کے اس آنسو پر آنسو اُن کے قابو میں نہیں تھے۔ وہ جھیل میں پھول گراتے ہوئے یا اپنی مذہبی رسومات اداکرتے ہوئے ہر موقع پرآنسو بہا رہے تھے۔
      ایک خاتون ’راج شری جین‘  اپنی چھوٹی سی نوٹ بک میں ایک نظم لکھ رہی تھیں۔ ‘‘اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور اُ س کی قلم سے نکلنے والی ہچکیاں سن کر مجھے علامہ اقبال یاد آ گئے جنہوں نے قرطبہ کی مسجد میں اپنی مذہبی رسومات ادا کی تھیں اور ایک نظم لکھی تھی۔ وہ بھی بہت روئے ہوں گے ان کا قلم بھی  بہت چیخا ہو گا۔ لیکن وہ کس سے احتجاج کرتے۔ کس سے کہتے کہ میری اس مسجد کو آزاد کردو۔ وہ کیسے اُ س مسجد کی زنجیریں توڑتے۔وہ کیسے اُس مسجد کے جذبات کو قلم بند کرتے۔ اس کے لئے تو ان کے پاس الفاظ ہی نہ تھے۔ 
اپنی عبادت گاہ کوزنجیروں میں قید دیکھنے کے کرب کو صرف اقبال ہی سمجھ سکتے تھے۔  وہ لکھتے ہیں،
”ا لحمراکا تو مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچاد یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔“
 اس نظم کے کچھ اقتباس حاضر ہیں:
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
تیرے درو بام پروادیٔ ایمن کا نور
تیرا مینار بلند جلوہ گہ جبرائیل
جس میں نہ انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب
آج راج شری جین بھی اپنی عبادت گاہ کے باہر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُ س کی عبادت گاہ آزاد تھی یہاں ہر کوئی جب چاہے آجا  سکتا تھا ،اس کے لئے تاجِ برطانیہ سے خصوصی اجازت نامہ نہیں لینا پڑتا۔ یہی وجہ تھی کہ آج اُ س کا پورا معابد اُ س کے قبضہ میں دے دیا گیا تھا۔ 
’’ راج شری جین نے لکھا:
عیدہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
دل کو دل سے جیت لیں نہیں دل کی مات ہو
عید ہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
آئیں جیتیں دلوں کی جنگ اس طرح کہ کسی دل کی ہار نہ ہو
عید ہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
 اُسے بس ایک ہی شکایت تھی۔
”میں سار اپاکستان پھرناچاہتی ہوں لیکن میرا ویزا مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔“                                                    
 ایک اور صاحب نے بتایاکہ بھارت میں کاروان در کاروان لوگ تیار بیٹھے ہیں لیکن انہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ایک بزرگ کہنے لگے،  ”خدا کے لئے مجھے میرا گھر میری گلیاں ایک مرتبہ دیکھنے دو۔ میں وہاں پیدا ہو اتھا۔ اُن گلیوں میں میں نے کل کے سپنے دیکھے تھے۔“
 ایک خاتوں نے یہ کہہ کر اس ساری بحث کو گنگ کر دیا۔
''For now, Lord Shiva continues to shed his tears for peace, but his teardrops are yet to reach the rulers of Pakistan and India.''
Lord Shiva weeps for peace  by Nabeel Anwar Dhakku
http://www.dawn.com/news/1096571
مجھے یہاں قائد اعظم اور سروجنی نائیڈو کی  وہ کوششیں یاد آرہی ہیں جو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کی تھیں۔لیکن انتہا پسند ہندوؤں اور مسلمانوں کو یک بنانے کے لئے کی تھیں لیکن انتہا پسند ہندوؤں نے ان کی ایک نہ سنی اور سازشیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ قائد اعظم کو کہنا پڑا، ’’ اب راستے جدا جدا ہیں۔‘‘ یہی وہ ہندو تھے جنہوں اپنے لیڈر گاندھی کو اس لئے مار دیا کہ بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام رکوانے کے لئے باہر نکلے تھے۔

کاش! انسان میں اتنا حوصلہ آ جائے کہ وہ جس کی جو چیز ہے اُسے لوٹا دے اس طرح ہر کسی کو اپنی اپنی چیزیں مل جائیں گی۔ چاہے حکومتیں کسی کی بھی ہوں۔