Saturday, December 7, 2019

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی بیسویں قسط



کیوائی کے پار

ہیں وفا کی راہ ِدراز میں نئی منزلیں نئے مرحلے
وہ بنیں گے کیا مرے ہم سفر جو قدم قدم پہ ٹھہر گئے
جنہیں ناخدا سے اُمید تھی اُنہیں ناخدا نے ڈبو دیا
جو اُلجھ کے رہ گئے موج سے وہ کبھی کے پار اُتر گئے
(شمیم جے پوری)

شوگران کے آفاق ہوٹل میں بھی سامان سمیٹنے کا وقت آ گیا۔ سامان اکٹھا کیا، کمرے پر ایک تجزیاتی نگاہ ڈالی، گاڑی پر سامان لادا اور ہم شوگران کی اس بستی کو خیر باد کہہ آئے جہاں سے ہم نے کئی انمٹ اور انمول یادیں سمیٹی تھیں۔
 چاول کے دانوں سی ریت کے سینے میں
سفید جھاگ اُگلتی موجیں
کھینچ کے لے آتی ہیں کبھی اپنے بستے میں
کتھئی بھوری، نیلی یادیں
اور مرے دل کے ساحل پر
بستہ خالی کر جاتی ہیں
(جینت پرمار)
انہی راستوں سے گزرتے ہوئے ہم کیوائی پہنچے جہاں سے دو دن پہلے گزرے تھے۔
کیوائی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ 2005 کے زلزے سے یہ علاقہ خاصا متاثر ہوا تھا۔ کہا
جاتاہے کہ چند ہزار کی آبادی والے اس شہر میں چھ سو کے قریب لوگوں کو زلزلہ کھا گیا تھا۔ لیکن بڑے حو صلے والا ہے یہ قصبہ کہ چند ہی سالوں میں اُس قہر کے اثرات سے آ ٓزاد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ جس کا انداز ہ یہاں کی تعلیمی ترقی سے ہو سکتا ہے کہ اس علاقہ میں کئی پرائیویٹ اسکولوں کے علاوہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے گورنمنٹ اسکول بھی موجود ہیں۔
 سڑک کے آر پار سیب،ناشپاتی، املوک، چیری اور خوبانی کے پیڑوں پر بہار کی رُت چھائی ہوئی تھی۔ اژدہے کی طرح بڑھتی سٹرک کبھی بل کھاتی کبھی سیدھی تیر ہو جاتی۔ شوگران کی یادوں کی مستی اور خماری تھی یا کہ نئے نویلے مناظر کا سحر کہ ہم پچھلے ایک گھنٹہ سے بے موسیقی ہی چلتے چلے جارہے تھے۔ جہاں مناظرِ فطرت ہمارے لئے فرحت اور سکون کا باعث تھے وہیں دھوپ ہم سے پچھلے جنموں کا بدلہ لینے پر تُلی ہوئی تھی۔ چونکہ ہم شہر کے بابو ملاوٹ شدہ دھوپ کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لئے خالص دھوپ کو برداشت نہیں کر پاتے۔ ہم شہر والوں نے نظامِ قدرت میں رخنہ اندازیاں کر کے اُس کا توازن ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے اوزن لئیر کی بربادی کے خوف ناک نتائج کا پہلا شکار بھی ہم شہر کے لوگ ہی بنتے ہیں۔
ہر شے ہے پُر ملال، بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال،بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشین ہوں
جام و سبو اُچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال، بڑی تیز دھوپ ہے
(ساغر صدیقی)
ایک چھوٹے سے عارضی پُل کے بالکل سامنے سبزے سے لدا ایک مغرور پہاڑ یوں بانہیں پھیلائے کھڑا تھا کہ ہر موڑ ہر راستے پر فقط اُسی کہ حکمرانی تھی۔ کچھ دیر کے لئے مجھے لگا کہ سارے راستے ایک ایک کر کے اُس کی بانہوں میں اُتر کر اُسی کے وجود کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔

پہاڑوں کے اندر موجود ایک گلی سے گذر کر ہم ایک کھلے منظر کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچھی خاصی سڑک مٹی سے اٹی لکیر بن چکی تھی۔پتہ چلا کہ کچھ روز پہلے کی لینڈ سلائیڈنگ نے پورے پہاڑ کو سڑک سمیت اُٹھا کر دریا میں پھینک دیاتھا۔ سڑک ساز محکمہ کے بلڈوزر ڈائینو سارز کی طرح اپنے منہ کھولے اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔ کبھی وہ مٹی اور پتھر ہٹاکر آزاد فضاؤں کے عادی منہ زور پانی کے لئے راستہ   بنا تے اور کبھی مٹی ڈال کر اُس کے سامنے بند باندھنے کی بے سود کوشش کرتے۔ انہوں نے یہ عمل یقینا حضرت انسان سے سیکھاہوگاجو ساری زندگی اپنے جذبات کے اکھڑ پانیوں کے سامنے یا تو بند باندھتا رہتا ہے یا پھر انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ وحشی تاتاریوں کی طرح تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتے ہیں۔اکھڑ پانیوں جیسے بے مہار جذبات انسان سے سمجھ بوجھ چھین لیتے ہیں جبکہ جوش اور ولولے سے عاری بنجربیابانوں جیسے جذبات انسان کو حرکت، محنت اور برکت سب سے محروم کر دیتے ہیں۔  
جس طرح وہ پانی اپنے سمندروں سے ملاپ کی منزل پاتے ہیں جو جوش اور ولولے کے ساتھ نئے پانیوں کو اپنے بطن میں جگہ دیتے ہوئے اپنے کناروں میں پابند رواں دواں رہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی جذبات کے وہی پانی اپنی منزلوں کو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں جو صبرو بر داشت، رواداری وایثار، محبت و ہم آہنگی اور حکمت و دانائی کے کناروں میں پابندرواں رہتے ہیں۔
جن زندگیوں کو ایسے جذبات کی روانی نصیب ہو جاتی ہے نہ وہ خود جلتی ہیں نہ دوسروں کو جلاتی ہیں۔
سڑک کی داہنی طرف بھیڑوں اور بکریوں کے ایک قافلے نے سڑک پر ایک مافیا کی طرح قبضہ جما رکھا تھا۔ وہ ا ور اُس کے نگہبان یکسوئی سے اپنی منزل کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔ دھوپ تھی کہ ہمارے اور فطرت کے حسن کے درمیان ظالم سماج بن کر کھڑی تھی۔ جونہی ہماری نظر پریوں کی تلاش کی غرض سے چمکتے پہاڑوں پر اترنے کی کوشش کرتی سورج کے چمکیلے تھپیڑے اُسے واپس ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتے۔ ایسے میں سورج مجھے کسی خاندان کاوہ چالاک، دانا اور زیرک بزرگ لگتا تھا جو اپنی کسی خوبصورت شے پر توکسی غیر نظر کوبرداشت تک نہیں کرپاتا مگر خود اُس کی نظر کسی نہ کسی فصیلِ حسن کے طواف میں لگی رہتی ہے۔
 دعائیں مانگی جائیں تو رنگ لاتی ہیں۔ہمیں اپنی دعاؤں کا کھاتہ کبھی بھی کورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ تاکہ کل کو قدرت ہم سے یہ نہ کہے کہ تم نے مانگا ہی نہیں ہم تو برکتوں کے خزانے لئے بیٹھے تھے۔
  دعائیں ہماری زندگی کے قلعہ کی فصیل کی طرح ہماری طرف بڑھنے والی بلاؤں کے سامنے پہلی  رکاوٹ بنتی ہیں۔یہ کسی گلستان سے آئے ہوئے بادِصباکے ایک جھونکے کی طرح ہماری زندگی کے قلعے کے اندر چپکے سے اُتر کر ہر کونہ معطر کر دیتی ہیں۔ جب ہماری ہنستی بستی زندگی کی عمارت پر بلائیں اور وبائیں قابض ہو جاتی ہیں تو دعائیں کسی کمانڈو کی طرح اس عمارت پر شب خون مارکر تمام بلاؤں کا
قلع قمع کر کے ہماری حیات کو محفوظ بنا دیتی ہیں۔
اللہ تو ہمارا اور ہم اللہ کے سب سے پیارے دوست ہیں جو ہماری رگ رگ سے واقف ہے۔ اس لئے اس سے ضرور مانگنا چاہئے۔۔۔۔۔ کُھل کر،کِھل کر، رو کر اور چلا چلا کر مانگنا چاہئے۔ پھر جو ہمارے لئے بہتر ہو وہ ہمیں دیتا ہے۔
 کچھ دیر پہلے سورج نے تو ہمیں آسمان کی طرف دیکھنے تک نہیں دیا تھا لیکن مولا نے ہماری تڑپ کو دیکھا، آسمان پر بادلوں کا اجتماع شروع ہو ااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے پانی کے جھرنے برسنے لگے۔۔۔۔۔ جھرنوں کے دیس میں آسمان سے برستا پانی۔۔۔۔مختلف وطنوں کے پانیوں کا یہ کھیل دیکھنے کے لائق تھا۔
جونہی بارش میں شدت آئی عابد نے بھی گاڑی کوتازیانہ لگایا۔ سب حیران تھے کہ وہ بارش میں آہستہ چلنے کی بجائے تیز کیوں چل رہے تھے۔ البتہ میں اُن کی حکمت عملی کو سمجھ رہا تھا۔ وہ جلد از جلد اس
 خستہ حال سڑک سے نکلنا چاہتے تھے۔ لیکن اُن کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔کچھ ہی دور سڑک کے عین درمیان میں ایک دیو ہیکل ٹرک اڑیل سانڈ کی طرح چاروں پاؤں زمین میں جمائے کھڑا تھا۔ اُس کے آس پاس درجن بھر لوگ اُس کی خاطر مدارت میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اپنے تجربے، علم اور فہم کے مطابق کلیے آزما رہا تھا مگر اُ س پر کسی حربے، تکنیک  یا کلیہ کارتی بھر اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ہم بھی دیگر تماش بینوں کے ہمراہ یہ تماشا دیکھنے لگے۔ شاہزیب نے جملہ کسا، ”لو جی آگیا ٹوسٹ۔“
زین نے بھی خاموشی کا طلسم توڑا،
”انکل جائیں انہیں کوئی مشورہ دیں۔“
”دماغ خراب ہے میرا، اتنی بارش میں بھیگتا جاؤں۔ویسے سارے پاگل اکٹھے ہوئے ہیں خوامخواہ ٹرک کو زور لگوا رہے ہیں۔“
بکر والوں کا قافلہ بھی بھاگتا ہوا میں میں چلاتا وہاں آگیا۔ بارش کے اثر سے مبرا بکریاں اور بھیڑیں بھاگتی جا رہی تھیں۔ اُن کیلئے ٹرک کا ہونا نہ ہونا ایک تھا۔
کہیں سے بھٹکتا ہوا ایک بلڈوزر وہاں آنکلا جس نے آتے ہی ٹرک کو دکھے مار مار کر ایک طرف کر دیا
ا ور سڑک پر ٹریفک بحال ہوا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  
جنت کی ایک جھلک

پُر کیف ہیں فضائیں ہر شے دمک رہی ہے
باد خنک چمن میں بل کھا کے چل رہی ہے
چہرے پہ یاسیت کے نور شباب چھایا
مخمل کا سبز قالیں فطرت نے یوں بچھایا
پھولوں سے اور پھلوں سے شاخ شجر لدی ہے
عشاق کے دلوں میں الجھن سی پڑ گئی ہے
انعام بے بہا ہے قدرت کا یہ نظارا
ساحلؔ سکون دل ہے فطرت کا یہ نظارا
(شرف الدین ساحل)
بارش تھم چکی تھی پہاڑوں کو اصلی اور نئی نکور دھوپ نے گھیر لیاتھا۔ ہر شے مسکرا رہی تھی۔ میری بائیں طرف سامنے ایک سڑک سرمئی لکیر کی طرح بل کھاتی سبزے سے لدے پہاڑوں میں گم ہورہی تھی۔ ان پہاڑوں کے پیچھے کیا تھا کوئی نہیں جانتاتھا۔۔۔صرف طلسم۔۔ صرف راز۔۔۔۔ دور برف کی طرح کے پانی کے چند ٹکڑے بہت گہرائی میں زمیں پر رکھے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کنہار تھا۔۔۔۔ ملکوتی اور سحر انگیز کنہار اس بستی کا راجہ کنہار۔
بڑے کہتے ہیں کہ راجاؤں سے تعلقات اچھے نہیں ہوتے۔ اس لئے ہم نے بھی یہی پایا تھا کہ اس راجہ کے درشن دور دور سے ہی کئے جائیں۔پاس جانا ہماری فانی زندگی کے لئے بہتر نہ تھا۔ ہے تو چھوٹا سا مگر ہے بڑا ظالم دریا جو اس کے طلسم کا شکار ہو کر اس کی دنیا میں اترا وہ واپس نہ آیا۔ ایک تو اس کی گہرائیوں کا پتہ ہی نہیں دوسرا اس کے پیندے میں بیٹھی پتھروں کی فوج در فوج بہت خطرناک تھی۔ جس کے صرف سر ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے حجم،ہئیت اور تعداد کا اندازہ بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ چنانچہ اس سفر میں جہاں کنہار آیا ہم نے دور ہی سلام کیااور آگے بڑھ گئے۔
اور بھی دریا ہیں زمانے میں دیکھنے  کے لئے
ہم سرسبز اور شاداب نظاروں میں کھوئے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے کہ مجھے دور دائیں طرف پتھر کی دیواروں سے بنی ایک جھونپڑی دکھائی دینے لگی جس کے ارد گرد گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ پاس پہنچے تو دیکھا کہ دائیں جانب سے ایک آبشار زمیں کو سجدہ کر رہا تھا۔ اُس کی دھاڑ تھی کہ پکار۔ لگتا تھا کہ جو اُس کے پاس گیا وہ نگل لے گا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس کے پار بھی ا یک دنیا تھی۔ پاؤں نہ چاہتے ہوئے اُس کی طرف چل دئیے۔ بچوں کی ماں بچوں کو نصیحتیں کر رہی تھیں اور وہ حیرانی اور جوش کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بھاگے چلے جا رہے تھے۔
”یہ شاہزیب کو دیکھو کیسے پاگلو ں کی طرح بھاگ رہا ہے۔“
”اوئے ہوئے۔ دیکھو زین نے سارے جوتے گیلے کر لئے۔ کیسے شڑپ شڑپ کرتا پانی میں پھر رہا ہے۔“
”عابد ان کو اپنے ساتھ رکھو۔“
”گرے نا۔۔ میں نے کہا تھا ناں دھیان سے چلنا۔۔۔ شکر ہے چوٹ نہیں آئی۔“
”ماما یہ بھائی کے بچے نے دھکا دیا تھا۔“
”وہ بیچارہ تو چار میل دور جارہا تھا۔۔۔ تمہیں کسی جن نے دھکا دیا ہوگا۔“
”کوئی جن نہیں تھا۔ بھائی ہی تھا۔“
 پھر میں نے پستے ہوئے دانتوں سے کھسکنے والا یہ جملہ سنا ان سنا کرتے ہوئے اپنی رفتار بڑھا لی۔
”یہ تمہارے باپ کا ڈرائینگ روم نہیں جہاں دڑنگے مارتے پھرو۔۔دھیان سے رہو۔“
 جگہ تو واقعی خطرناک تھی،ہر پتھر وقت مانگتا تھا۔ اُس پر پاؤں رکھنے میں ذرا سی کوتاہی کامطلب سیدھی سیدھی موت تھا۔ بچوں کی شرارتوں سے بچنے کے لئے ہم نے ہاتھوں کی زنجیر بنائی اور آگے بڑھنے لگے۔ بچوں کے لطف اٹھانے کے بھی اپنے ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ان پر جگہ موسم یا حالات کسی شے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ یہ تو دیوسائی میں بھی اس طرح بھاگے پھر رہے تھے جیسے وہیں کے ریچھوں کے بچے ہوں۔ یہ ریچھوں کو دیکھتے اور ریچھ انہیں۔ یہ ریچھوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ انہیں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ چلانگیں لگا لگا کر انہیں دیکھ رہے تھے اور وہ بھی اپنے دونوں پیروں پر کھڑے ہو کر انہیں دیکھ رہے تھے۔ یہ کہتے تھے۔
”وہ دیکھوریچھ کا بچہ“
ریچھ کہہ رہے تھے۔
”وہ دیکھو۔۔حضرت انسان کے بچے۔۔ وہ چھوٹے کو دیکھو۔۔۔۔“
ایک بوڑھے ریچھ نے کہا تھا،
”ارے ہٹو مجھے بھی دیکھنے دو۔۔۔ کیسے ہوتے ہیں انسان کے بچے۔۔“ ایک اماں جی ریچھنی نے بھی کہاتھا،
”بھئی ہیں تو انسان کے بچے مگر حرکتیں تو دیکھو بالکل۔۔۔۔۔۔“
 یہ کہانی اگلے سفر نامہ میں سامنے آ ہی جائے گی۔
  ہر پتھر کے بعد ایک نیا منظر تھا۔ ہم اس چھوٹے سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کا عزمِ صمیم لئے چڑھے تھے مگر یہاں تو وادی کے بعد وادی اور چوٹی کے بعد چوٹی۔۔۔۔ کھلتی چلی جا رہی تھی۔ویسے بھی ڈھلوان ایسی کہ نیچے دیکھتے تو جان نکل جاتی۔ اچانک ایک آواز سنائی دی،
”رک جاؤ! بس آگے نہیں جانا۔۔۔ آگے جاناخطرناک ہوگا۔ اگرمیں نے تمہار اساتھ نہ دیا تو تمہارا پیچھے جانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔“
یہ میرے گٹھنے کی آوا ز تھی۔ ایک طرف آگے بڑھنے کا شوق اوردوسری طرف درد گٹھنا۔۔۔۔ ایک اور مصیبت نے گھیرا ہواتھا وہ تھا پانی،جس نے ہمارے جوتوں اور کپڑوں پر حکومت قائم کر لی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں بھی اُس کی اتحادی بن گئی تھیں۔ یہ دونوں حکمرانوں کی طرح ہمارے جسم کو پاکستانی عوام سمجھ کر نشانہ بنائے ہوئے تھیں۔ بس اک جوش تھا، ولولہ تھا کہ ہم بڑھتے جا رہے تھے۔ مگر کب تک۔۔۔۔۔۔ہمارا جسم پاکستانی عوام تھوڑے ہی تھا کہ ہم اس کا استحصال کرتے رہتے اور وہ خاموش رہتا۔ ہمیں اُس کے احتجاج کے بعد اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنا پڑی۔
 میں ایک اونچے سے پتھر پر کیا بیٹھا ہم نے وہیں ایک بستی بسا لی۔ میں نے لمبے لمبے سانس لے کر
 ارد گرد دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے سامنے وہ نظارہ تھاجسے دکھانے کے لئے قدرت ہمیں یہاں لے کر آئی تھی۔اس جھرنے کی ایک شاخ نیچے ایک وادی میں جا کر ایک چھوٹی سی جھیل میں گر رہی تھی۔ اس جھیل کنارے سبز گھاس سے لدا ایک چھوٹاسا قطعہئ زمیں اور اُس کے پیچھے نیم سبز پہاڑ جن کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔۔۔ بس اک پینٹنگ تھی جو ہمارے سامنے کھُلی اور کھِلی ہوئی تھی۔ میں نے کھڑے ہو کر ان برف پوش پہاڑوں کے جغرافیہ کے بارے میں اندازہ لگانا شروع کیا تو میرے دماغ نے گواہی دی کہ یہ مکڑا کی چوٹیاں تھیں جن کے پار کہیں کشمیر کی نیلم وادی تھی۔
 درختوں کی قطاروں کا سلسلہ ان پہاڑوں سے شروع ہو کر اس وادی میں جھیل کنارے آ کر سکون حاصل کر رہاتھا۔ ان پہاڑوں اور درختوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پہاڑوں کے قدموں میں سبز قالین بچھا ہو۔ اس قدرتی جھیل کو قدرت نے زمرد کا لباس پہنایا ہوا تھا۔ وہ خاموش تھی جیسے کوئی عبادت میں مگن ارد گرد سے بے خبر۔ عابد نے بہت خوبصورت بات کی،
”بھائی جان لگتا ہے زمرد رنگ کا مصلیٰ بچھا ہے جس پر پہاڑ نماز ادا کر رہے ہیں۔“
دور درختوں کا ایک جھنڈ لہرا لہرا کر ہماری آمد پر شکریہ ادا کر رہا تھا۔ لگتا تھافطرت کے معماروں نے پریوں کے آرام اورقیام کے لئے ایک قطعہئ زمیں خاص طور پر سجارکھا تھا۔
واپسی کے لئے مڑے، سنبھلتے اور بچتے بچاتے اپنی گاڑی تک پہنچ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سنہری پری پارس میں

ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں سے ایک سنہری پری اڑی اور وادیئ کاغان کے پانیوں میں بس گئی۔ اس پری کو لوگوں نے نام دیا گولڈن ٹراؤٹ کا۔
ہم پارس پہنچ گئے تھے۔ یہ جگہ ٹراؤٹ مچھلیوں کے فارمز کی وجہ سے مشہور ہے۔ جس جگہ ہم موجود تھے اُس کے قرب وجوار میں دائیں بائیں پہاڑوں پر یہ فارم موجود تھے۔ قدرت کے کارخانے میں وسائل کی کمی نہ تھی۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد آسانی سے ایک فش فارم بن جاتا ہوگا۔ یہاں سے ایک سڑک شاران کی طرف جارہی تھی۔ دریا ئے کنہار کو پار کرتی ہوئی یہ سڑک شاران کے ریسٹ ہاؤ س کے قریب جا کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ علاقہ جنگلات سے بھرا ہوا ہے لیکن پارس ایک خوبصورت اور جدیدقصبہ ہے جہاں ہر سہولت موجود ہے اور جہاں کے لوگ تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔
پارس کے قریب ہی دارشی کے جنگلات ہیں۔ جنگلات کیا ہیں کوئی طلسماتی بستی ہے۔ یہ قصبہ ناجانے کب سے موجود ہے لیکن اس کا رکھ رکھاؤ بتاتا ہے کہ یہاں انگریزوں نے بھی کافی لمبے عرصہ تک قیام کیاہوگا۔
اس علاقہ سے بھی ایک رومانوی داستان منسوب ہے۔
انگریزی دور میں ایک کمپنی کا کچھ عرصہ کے لئے یہاں قیام ہوا۔ اس کمپنی کا سربراہ منشی آف ڈنگہ نام کا ایک شخص تھا۔ بدقسمتی سے ایک دن اُس کا یہاں کی ایک دوشیزہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ آمنا سامنا کیاہوا دونوں نے اپنے دل ایک دوسرے کے قدموں میں رکھ دئیے۔ پھر شروع ہواچھپ چھپ کر ملنا اور آنے والے سہانے کل کے سپنے دیکھنا۔
جس سڑک پر پارس موجود ہے موجودہ شاہراہ ریشم کی تعمیر سے پہلے چین کو جانے والے قافلے یہاں سے گذرا کرتے تھے کیونکہ یہ راستہ چین کا سفر کئی گھنٹے کم کر دیتا تھا۔ قافلوں کی لوٹ مار، اور مار دھاڑ ان راستوں پر لوگوں کے لئے ایک کھیل کا درجہ رکھتی تھی۔ جب گاؤں کے لوگوں کو پتہ چلا کہ اُن کی ایک لڑکی انگریز کی کمپنی کے ایک شخص کے سامنے دل ہار چکی ہے تو انہوں نے ایک رات اُس عاشق کو قتل کر دیا۔ اغلب امکان ہے کہ انہوں نے اپنی لڑکی کو بھی مار دیا ہو گا۔ کیونکہ بعد میں یہ جنگلات اُسی کے نام پر مشہور ہو گئے۔ یعنی دارشی کے جنگلات۔
http://unesco.org.pk/culture/documents/publications/Mapping%20
and%20Documentation%20of%20the%20Cultural%20Assets%
20of%20Kaghan%20Valley,%20Mansehra.pdf

ہم پارس زیادہ دیر نہیں رکے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ اب ہم جن مناظر میں داخل ہو رہے تھے وہ پہلوں سے بہت مختلف تھے۔ جگہ جگہ چھوٹی بڑی آبشاروں اور جھرنوں کی آمد میں تیزی آ گئی تھی۔ ایک بہت بڑا جھرنا دیکھ کر ہم بھی وہاں رکنے پر مجبور ہوگئے۔
 جہاں پھول ہوتے ہیں وہاں تتلیاں آ جاتی ہیں جہاں پانی ہوتا ہے وہاں پیاسے بستیاں بنا لیتے ہیں۔ جہاں جھرنا ہو گا وہاں مسافر بھی اپنے کاروانوں کو روک کر پڑاؤ کر لیتے ہیں۔یوں جھرنے کے آنگن میں یا اُس کے پہلو میں ایک بستی بس جاتی ہے۔
”تازہ ٹراؤٹ۔“ اس بینر کو پڑھ کر میرے دل کو کچھ ہونے لگا میرے سپنوں کی رانی سنہری پری کو لوگ مل جل کر کھا رہے تھے۔ اُسی بینر کے نیچے ایک ادھیڑ عمرشخص کھڑا مجھے تکے جا رہاتھا۔ جانے کیوں؟ میں سمجھا کہ وہ اس انتظار میں ہے کہ میں اُس کے پاس جاؤں اور اُس سے مچھلی خریدوں۔
اُس کی پیاسی نگاہوں نے مجھ پر کچھ یوں حملہ کیا کہ میں اُس کی طرف چل پڑا۔
”کس طرح کلو ہے ٹراؤٹ۔“
”آٹھ ہزار روپے۔“
”اوہ خدایا۔۔۔۔۔ آٹھ ہزار روپے۔۔۔۔  اتنے پیسے لے کر تم کیا کرو گے۔۔ تمہیں پتہ ہے کفن کی جیب نہیں ہوتی۔“
خدا کا قہر ایک مچھلی کی قیمت آٹھ ہزار، مانا میرے سپنوں کی رانی ہے۔۔غصہ میرے اندر بیٹھے ہوئے ناصح کو جگا چکا تھا۔ میری بات سن کر وہ مسکرا یا اور بولا،
”کفن کی تو جیب نہیں ہوتی مگر قبر میں کافی جگہ ہوتی ہے۔ آپ چاہئیں تو اُس کے اندر سونے کے پرت لگا لیں۔۔۔ چھت سونے کی بنا لیں۔۔۔۔۔ ایویں سر ڈائیلاگ بولنے کی کیا ضرورت ہے نہیں لینی تو نہ لیں، نہ اپنا وقت برباد کریں نہ میرا۔“
اُس نے بات تو مسکرا کر شروع کی تھی مگر جانے کیوں ختم شدید غصہ پرہوئی تھی کہ اُس کے کانوں کی لویں اور گالوں کے اُبھار سرخ ہوگئے تھے۔ دو عدد بٹنوں کے بغیر قمیض کے کھلے گریبان پر اُس کے دل کی تھر تھراہٹ دیکھی جاسکتی تھی۔
”دل جلے ہیں۔۔۔ مچھلی بکی نہیں۔۔۔ اس لئے پریشان ہیں۔۔۔ شام تک کسر پوری کر لیجئے۔“
اب کے میں نے احتیاط سے گفتگو کی تھی مگر میری کسی بات کا جواب دئیے بغیر اُس نے کڑاہی کے ٹھنڈے تیل میں چمچ ہلانا شروع کر دیا۔
اگرچہ وہ مجھے نظر انداز کررہا تھا مگرپتہ نہیں کیوں میرا جی چاہتا تھا کہ میں اُس سے باتیں کروں۔
”کہاں سے لے کر آتے ہیں مچھلی۔“
”مالک کے اپنے فارم ہیں۔“
”اوہ! یہ دکان آپ کی نہیں ہے۔“
”نہیں جی، مالک کی ہے۔“
میں نے دوسری سگریٹ نکالی۔ اُسے بھی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی۔ پھر وہ اون کے گولے کی طرح کھُلتاچلا گیا، بوسیدہ کپڑے کی طرح اُدھڑتا رہا، کبھی پھٹ پڑتا،کبھی ماند پڑ جاتا۔ ایک دفعہ تو اُس کے چھپے آنسو زبردستی نکلے اور اُس کی سفید داڑھی میں جا کر کہیں گم ہوگئے۔ وہ وہاں ایک سو روپے روزانہ پر کام کرتا تھا اور یہ کام کرتے ہوئے اُس نے اپنی حیات کی پتہ نہیں کتنی دہائیاں گزار دی تھیں۔  پتہ نہیں کتنے خبیث اُس کی مجبوری سے کب سے کھیلتے رہے تھے۔اُس نے دوسروں کے آنگن میں تو شہنائی کی آوازیں سنی تھیں لیکن اپنے آنگن میں بس ودائی اور الوداع کے بین ہی سنے تھے۔ ابھی بھی دو بہنیں گھر میں بیٹھیں اپنے شہزادوں کی منتظر تھیں۔
ہائے! یہ برگد۔۔۔۔۔ یہ توانا برگد۔۔۔۔ ان کے کندھوں پر کتنی ناتواں بیلوں کا بوجھ پڑ جاتاہے۔۔  یہ برگد ناتواں بیلوں کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے خود جھک جاتے ہیں۔ پھر کسی دن یہ ہوا کے ایک جھونکے کو بھی برداشت نہیں کر پاتے اور زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان گرے برگدوں کی بیلوں کا کیا بنتا ہو گا۔ وہ سہارے تلاش کرتی ہوں گی، کبھی کسی تنکے کو شیشم سمجھ لیتی ہوں گی،کبھی کیکر پر چڑھ کر بدن لہولہو کروالیتی ہوں گی اورکبھی کسی جوان برگد کی تلاش میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہوں گی۔ ایسا کیوں ہے؟ شہزادے اتنی دور کیوں ہیں۔
اُس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ آبشار مکڑا کی پگھلی برف کا پانی ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے نالوں کی صورت میں بہتا ہے پھر راستے میں کئی چھوٹی چھوٹی ندی نالوں کو ساتھ ملاتے ہوئے یہاں آ کر ایک آبشار کی صورت میں کنہار میں گرتا ہے۔ اس نالہ کے اردگرد فش فارم بھی بنائے گئے ہیں۔
اس طرح کی ایک بڑی آبشار جرید میں بھی ہے۔
سگریٹ ابھی سسک رہی تھی کہ شاہزیب نے میرے پا س آکر کہا،
”پاپا ابھی سٹوری میں اور بھی ٹوئسٹ آئیں گے۔ اگر برا نہ منائیں تو چلیں۔۔“
”جی جی بالکل۔“ یہ کہہ کر میں نے اپنے اُس دوست سے اجازت لی اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, November 30, 2019

سفرنامہ پریوں کی تلاش


سفرنامہ پریوں کی تلاش کی انیسویں قسط


 سردی کافی نہیں بہت بڑھ گئی تھی۔ کمرے میں جاکر میں اور بچے ہم سب ہیڑ کے قریب بیٹھ گئے، پھر بیگ کھلے، گرم کپڑے جو ٹھنڈے ٹھار تھے نکلے اور میں تو ایک جیکٹ پہن کر بستر میں گھس گیا۔ شاہزیب کو حکم دیا کہ چائے کا آڈر دے دو۔
 میری مسز کو چائے کے آڈر کی بات پسند نہ آئی۔
”لیں اب چائے پینی ہے یا کھانا کھاناہے۔۔‘‘
’’ تم لوگوں نے کھانے کا فیصلہ کرنے میں ہی گھنٹہ لگا دینا ہے۔“

 ”لیں پپا انتظار کیاکرنا بس چائینیزآڈر کر دیں۔“
  زین نے مشورہ دیا۔
 میں نے کہا۔
” میں تو لیٹ رہا ہوں جو کرنا  ہے کر لیں۔“
 یہ کہہ کر میں نے خود کو مکمل طور پر ٹھنڈے بستر کی نذر کر دیا۔
مجھے نہیں پتہ کہ کب بستر گرم ہوا اور کب میں سویا۔ شاید ایک گھنٹہ گزرا ہو گا کہ شاہزیب کی اس پکار نے مجھے بیدار ہونے پر مجبور کر دیا۔
 ”پاپا کھاناہال میں کھانا ہے یا کمرے میں۔“
جی تو چاہا کہ کہہ دوں یہیں کمرے میں کھاتے ہیں لیکن پھر بہت سی باتیں سوچ کر جواب دیا۔
”ہال میں کہہ دو اور سنو عابد کو بھی بتا دو۔“

 کھانا کیا تھا، کیچپ اپ میں لت پت مرغی کے جسم کے کچھ نا تواں اور نامکمل حصے اور بے نام و بے آوازسبزیوں سے آلودہ سنڈیوں جیسے چاول۔
 سوپ تھا کہ ڈوب مرنے کو جی چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔کیسے کیسے لوگ ہمیں کیا کیا کھلانے  آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ نا م کے تو مکئی کے دانے تھے لیکن انہیں کسی ایسی اجنبی دھات کا پانی پلایا گیا تھاکہ اتنا ابلنے کے باجود ان کی گردن کا خم نہیں گیا تھا۔۔۔۔ جہاں جہاں سے گذرتے چٹکیاں کاٹتے جاتے۔ 
 پیلے پانی کے پیالے میں ان دانوں کے علاوہ کچھ پتے گھاس کے چند نامعلوم بیج اور مرچ کی چٹکی برابر مقدار میں غالباً بنامِ مصالحہ ڈالی گئی تھی۔ تین عدد نازک سی بوتلیں بھی رکھ دی گئیں، جن میں کوئی مائع سی اشیا تھیں جنہیں،سویا سوس،  چلی سوس اورسرکے کا نام دیا گیا تھا۔
 لیکن لاہور کے نخریلے بچے بشمول ان کا باپ اس کھانے کو دنیا کا اعلی ترین کھانا سمجھ کر تناول فرما رہے تھے۔ کیونکہ پیٹ میں سوائے انتڑیوں کے کچھ نہیں تھا۔ بھوک نے بدمزگی کے سارے انزائم غیر فعال کرکے مزے کے تمام انزائم فعال کر دئیے تھے۔
 ہم سے کچھ فاصلے پر عابد بھی پیٹ کا دوزخ بھرنے میں مگن تھے۔ جب میں نے اشارہ کر کے حال پوچھا تو انہوں نے انگوٹھا دکھا کر  ”سب اعلیٰ“  کا سندیسہ ہوا میں اُچھال دیا۔
 حال میں تین اور فیملیز بھی بیٹھی تھیں۔سب کا انداز ہم سے ملتا جلتا تھا۔ شاید ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔


جگنو زندہ ہوگئے۔                                                                                                                     وارث اقبال

بھری ہیں دھند سے سارے نگر کی دہلیزیں
نظر  میں جگنو ہی جگنو اُترتے جاتے ہیں
(پریم کمار نظر)
آفاق ہوٹل شوگران کے لان کی طرف کا دروازہ کھول کر ہم لان میں کیا اترے لگا جیسے معصوم نازک سی روشنیوں کی بارات میں جا اترے۔ اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی ایک عجیب مخلوق۔۔۔۔۔ اُجالوں سے بھری آنکھیں مٹکاتی، روشنیوں کی پلکیں ملتی، کبھی گرتی کبھی سنبھلتی۔۔۔۔ جاوداں ستاروں کی بارات۔۔۔۔  میں اس بارات کا سینہ چیرتے ہوئے لان میں موجود کرسیوں پر جا بیٹھا۔ میرے ارد گرد، میرے او پر،میرے نیچے ہر طرف جگنو ہی جگنو۔ قریب آ آ کر میرے بوسے لیتے۔اپنے اس مہمان کے قدم چومتے جو اُن سے ملنے کے لئے کئی سو میل کا سفر طے کر کے یہاں آیا تھا۔ جو انہی جیسا تھا، جو انہی میں سے تھا۔۔۔۔ وہ بھی وادیوں، ویرانوں، جھرنوں اور صحراؤں کے عاشق تھے اور میں بھی فطرت کے ان شاہکاروں پر تن من دھن نچھاور کر چکا تھا۔ وہ بھی چمکتے تھے نکھرتے تھے پھر ماند پڑ جاتے تھے،میں بھی چمکتا، تھانکھرتا تھا اور ماند پڑ جاتا تھا۔ انہوں نے بھی زندگی کے کتنے    ہی موسم کرب میں، تنہائی میں،بے چارگی میں اوربے بسی میں گزارے؛اور میں نے بھی بقا کے لئے کتنے ہاتھ پیر مارے، وہ بھی بے ضرر اور میں بھی بے ضرر، وہ بھی اپنی روشنی لئے نگر نگرپھرتےتھے اور میں بھی روشنی کاتارا، روشنی کا ایک استعارا، روشنی  کی بستیوں کا بنجارہ۔ وہ بھی سیاہ باطل اندھیروں میں ایک ساعت برابر روشنی بکھیر کر خوش ہوتےتھے اور میں بھی اپنے لفظوں کی ضیا کی لکیر لئے اندھیرے مٹانے چلاتھا۔۔۔۔۔۔کبھی اپنے اندر کے اندھیرے کبھی باہر کے اندھیرے۔
 شاہزیب اور زین بھی باہر آگئے۔
 ”یہ کیا ہے۔“
 زین نے آتے ہی بے ساختہ کہا۔
 شاہزیب نے اپنے تجربے اور خیال سے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔
” میرا خیال ہے یہ فائر فلائز ہیں۔۔۔ کیو ں پاپا۔“
 ”ہاں انہیں جگنو کہتے ہیں۔“
 بچے کیا جانیں جگنو کیاہوتے ہیں، تتلیاں کیاہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاں دیکھی ہے جگنوؤں کی کہکشاں۔۔۔ انہوں نے تو ناموں کی لمبی فہرست میں بھی کبھی جگنو نام نہیں دیکھا۔ جگنو ہوتے تو وہ جگنوؤں کے بارے میں جانتے۔۔۔ ہم نے تو جگنوؤں کے قافلوں کے قافلے ہی مار دئیے۔۔ ان کے بچےکیا مارے، ان کا بیج تک ختم کر دیا۔ آج بڑے شہروں باسی  کا باسی بچہ جگنو دیکھنے کا شاید تصور بھی نہیں کر سکتا،  ڈینگی مچھر مارتے مارتے ہم نے جگنو ہی نہیں مارے تتلیاں مار دیں، لیڈی برڈ مار دئیے۔۔۔۔ہم نے حیات سے ناجانے کیاکچھ مٹا دیا۔
وہ زمانہ کہیں کھو گیا جب بچے تتلیاں پکڑا کرتے تھے، جگنوؤں کے پیچھے بھاگا کرتے تھے، لیڈی برڈز کو اپنی ہتھیلیوں کی لکیروں پر بٹھاتے تھے۔ آج کے عہد کے بچے یہ سب کچھ نہیں کرتے وہ وڈیو گیمزمیں انسانوں پر فائرنگ کرتے ہیں، گاڑیاں تیز دوڑانے کی مشق کرتے ہیں، مادر پدر آزاد کشتیاں کرتے ہیں۔۔
یہ سب وہ اپنی مرضی سے نہیں کرتے، ہم نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔ پھر ہم معاشرے کی بدحالی پر کیوں نوحہ کنا ں ہیں۔
حقیقت یہ کہ ہم اپناسب کچھ بیچنے  کے لئے نکل آئے ہیں، مذہب، اخلاق، مروت یہاں تک کہ اپنے بچوں کی حیاتیاں بھی۔ ہم فائرنگ کی ایک وڈیو گیم کسی دشمنوں کے ہاتھ نہیں اپنے ہی بچوں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں ان بچوں کے ہاتھ جن کے ہاتھوں کی لکیروں میں ہم اپنے اور ان کے تباناک مستقبل کے سپنے تلاش کرتے ہیں۔
ہم نے بچوں سے گھاس کے میدان چھین لئے، درختوں سے جامنیں اور کھٹے آم توڑنے کا تجربہ چھین لیا۔ ہم نے سڑکیں بڑی کرنے کے لئے سالوں انسانوں کو سایہ فراہم کرنے والے درخت کاٹ لئے۔
 اگر سڑک پر ٹریفک کا مسئلہ حل ہو جاتا تو شاید ہم کہتے کہ یہ قربانی مہنگی نہیں ہے۔ لیکن سڑکیں اُسی طرح مقتل گاہ ہیں اُسی طرح تنگ ہیں، ٹریفک کا اژ دہااُسی طرح زندگیوں کے چراغ گُل کرتا چلا جا رہا ہے۔
 وہ بچہ جو کمپیوٹرپر موٹر سائیکل چلانے یا کار دوڑانے کی وڈیو گیم کھیلتے ہوئے جوان ہوتا ہے وہ اپنی حقیقی زندگی میں اپنی موٹر سائیکل کو ایک پہیئے پر کیسے نہیں چلائے گا اور وہ اپنی کار کوہوائی جہاز کیسے نہیں سمجھے گا۔
ان بلا کی آندھیوں میں اک شجر باقی رہے
فاختاؤں کے لئے کوئی تو گھر باقی رہے
ایک تارہ ایک دیپک ایک جگنو ہی سہی
رات کی دیوار میں کوئی تو در باقی رہے
(شفیق سلیمی)
 شکر ہے ان جگنوؤں کے لئے ابھی جہان ختم نہیں ہوا۔ شہروں سے جان بچا کر بھاگنے والے جگنوؤں کو ان ویرانوں نے جان کی امان دے دی ہے۔ زندگی کی بازی ہارے ہوئے ان معصوم اور بے ضرر کیڑوں کو ان ویرانوں نے زندگی واپس لوٹادی۔
دیکھا جائے تو یہ ویرانے ہی زندگی کی بقا کے ضامن ہیں، یہیں سے آگہی کو زندگی ملتی ہے، یہیں سے آس نراس کے چنگل سے آزاد ہوتی ہے اور یہیں آ کر شاید انسان کو کھوئی ہوئی انسانیت بھی ملتی ہے۔
 آفاق کا یہ لان شوگران کی پہاڑی چوٹی کے کنارے پر تھا۔حدِ نگاہ تک گہرے سبز سائے پھیلے ہوئے تھے۔ دُور آسمان پر ایک گاڑی آنکھیں مٹکاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اندھیرے آسمان میں معلق ہو۔ یا آسمان سے اتر رہی ہو۔ یا شاید آسمان میں جڑی ہو۔ کوئی عاشق، کوئی دیوانہ، کوئی مستانہ رات کے اس ندھیرے میں سری پائے سے واپس آرہا تھا۔  یقینا وہ اس بلند جگہ پر کہکشاں کو ہاتھ لگاکر آیا ہوگا۔
  سکوت تھا کہ چار سُو پھیلا ہوا تھا۔ نہ کسی گاڑی کی پاں پاں، نہ کسی ایمبولینس کی دل دھلا دینے والی چیخیں، نہ پنکھوں کی ریں ریں،نہ اے سی کی سوں سوں،نہ ہندوستانی ڈراموں کی موسیقی کا شور،نہ کل دفتر جانے کی فکر،  ایک آزادی،ایک سکون، ماورائی، ابدی، طلسماتی سکون شوگران کی وادیوں میں پھیلا ہوا سکون، انمول اور مختلف قسم کے خیالات کی روحانی بستی کا سکون۔
 میں سفید میز پر ٹانگیں چڑھائے گویا کسی کی گود میں چھپا اس سکون کا چہرہ پڑھ رہا تھا، جس میں کتنی ہی داستانیں چھپی ہوئی تھیں، جس میں کتنی ہی پریاں تھیں، جس میں کتنے ہی سیف الملکوک تھے اور کتنے ہی بدیع الجمال ۔۔

۔ چلئے سیف الملوک کا حال پوچھ لیں۔ وہ ماہ جبین آنکھیں ملتی، انگڑائیاں لیتی اپنی اندھیری اور گہری نیند سے بیدار ہو گئی۔
 شہزادے نے سلام کیا اور تعریف کے کچھ کلمات بھی اس حسینہ کی خدمت میں پیش کئے۔  وہ حسینہ بھی دل ہی دل میں شہزادے کی خوبصورت شخصیت اور گفتار کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکی۔ مگر وہ حیران تھی کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔  پھر اُس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ تومیرا کوئی بچھڑا بھائی ہے۔ اُسے سیف الملوک میں اپنا بھائی دکھائی دینے لگا۔ پھر وہ بھائی کہہ کر شہزادے کے گلے لگ گئی۔ 
شہزادے نے اس لڑکی سے پوچھا،
”اے لڑکی تو کون ہے، کہاں کی رہنے والی ہو۔آدم سے ہو یا کوئی حور فرشتہ یا کوئی پری پیاری۔ میں نے تجھ جیسا حسن انسانوں میں تو نہیں دیکھا۔“
 اس لڑکی نے جواب دیا،
”قسم خدا کی آدمیوں میں سے میں ہوں آدم زادی۔ لیکن تو بھی مجھے سچ بتاؤ تم بھی مجھے کسی فرشتے سے کم دکھائی نہیں دیتے۔“
سیف الملوک نے جواب دیا،
”میں آدم زاد ہی ہوں۔۔۔ ایک بدنصیب ہوں۔“
لڑکی نے پوچھا،
”یہ جنوں اور پریوں کاٹھکانہ ہے تو یہاں کیسے پہنچا۔ یہاں تو کالے پہاڑوں میں ایک میں ہی بدنصیب ہوں جو یہاں اکیلی آدم زاد ہوں اور جن کی قید میں ہوں۔“
 سیف الملوک نے اسے اپنی ساری کہانی سنائی تو وہ حسینہ آب دیدہ ہوگئی۔ پھر شہزادے نے پوچھا،
”تمہیں کون یہاں اٹھا لایا۔ تمہارے ماں باپ کون ہیں۔۔صورت سے تو تو نیک فرشتہ ہے۔“
لڑکی نے بتایا،
”مجھے میرے گھر والے ملکہ خاتون بلاتے تھے۔۔میں اپنے باپ کی بڑی بیٹی ہوں۔ میرا باپ سراندیپ شہر کاسلطان ہے۔ ہمارا ایک جنت نظیر باغ ہے جس میں میرے باپ نے اشیائے فانی کا سارا حسن اکٹھا کیا۔ اور اس میں ایک بنگلہ بنایا۔اس بنگلے کی چترکاری،گلکاری اور دیکھنے کے لائق ہے۔ اس باغ میں ایک حوض بنایا جس کے دونوں اطراف سنہری شیر بنائے گئے ہیں ان شیروں کے منہ سے پانی آتا ہے اور حوض کو سیراب کرتا ہے۔ حوض کے اندر ایک کشتی تھی۔ جس میں ہم بیٹھ کر حوض کی سیر کرتے۔ ہمیں نہ فکر تھا نہ پریشانی، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ ایک دن ہم اپنے حوض کی سیر کر رہے تھے کہ ہم نے آسمان پر ایک بڑا سا پرندہ اڑتے دیکھا۔ اُس کی خوف ناک شکل صورت اور ہیبت ناک بڑے بڑے پر تھے۔ بس وہ پرندہ ہماری کشتی پر لپکا اور مجھے اٹھا لیا۔پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا کہ کیا ہوا کہاں سے گزری کہاں پہنچی جب ہوش آیا تو خود کو اس تختے پر پایا۔ پھر ایک دن کیا دیکھتی ہوں ایک خوبصورت نوجوان میرے سامنے بیٹھا ہے۔ سورج طرح کی صورت مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ کہنے لگا کہ وہ قلزم کا شہزادہ ہے جہاں دیووں کی حکومت ہے اور میں دیو شہزادہ ہوں۔ تمہیں دیکھا تو تم پر فریفتہ ہو گیا۔بس تو میری بن جا سارا قلزم تیرے نام کردوں۔ یہ جنوں اور پریوں کی سلطنت ہے یہاں کسی آدم کا کوئی تصور نہیں۔ اس لئے اب اسے اپناسب کچھ سمجھو اور اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو بھول جاؤ۔  جب میں نے کہا کہ اقرارکی صورت نہیں تو اس نے مجھے جادو کر کے اس تخت پر قید کر دیا۔ وہ ایک ماہ بعد آتا ہے مجھے جگاتا ہے، من پسند کھانے کھلاتا ہے اور انکار پاکرغضب ناک ہوکر چلاجاتا ہے۔“
جب سیف الملوک نے اپنارونا رویا تو ملکہ خاتون نے اپنی ایک نئی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کی چھوٹی بہن بدراخاتون میری ماں کی گود میں تھی۔ کہ ہمارے باغ میں پریاں آ بسیں۔ پریوں کی ایک بڑی پری کو میری ماں کا رکھ رکھاؤ اتنا پسند آیا کہ وہ اُس کی دوست بن گئی۔ اتفاق سے اس کی گود میں بھی ایک لڑکی تھی۔ دنوں نے اپنی بیٹیوں کو ایک دوسرے کا دودھ پلایا اور دونوں بہنیں بن گئیں۔ اُس وقت سے اب تک وہ پریاں ہر ہفتے میری ماں اور ہم سے ملنے ہمارے گھر آتی ہیں۔ پری بدیع الجمال اور میری بہن بدرہ خاتون چودہ برس کی ہو گئی ہیں مگر اب تک ہر ہفتے ملتی ہیں۔پھر شہزادی نے شہزادے کی بپتا سنی تواُسے بتایاکہ اگر وہ اپنے ملک میں ہوتی تو اس کی ملاقات پری بدیع الجمال سے کروا دیتی۔
مختصر یہ کہ شہزادہ ملکہ خاتون کو لے کر اُ سکے دیس پہنچا اور ملکہ خاتون سے مل کر پری بدیع الجمال تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

 ساری رات بارش ٹین کی چھت کو گدگدی کرتی رہی اور ہم اس کے قہقہے سنتے رہے، صبح اُٹھے، دیکھا تو مطلع اس طرح اُجلا تھا کہ گویارات کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ لان کی سبز گھاس سے سورج کی کرنیں اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ جب سورج کی کرنیں گھاس کی پتیوں پر موجود بارش کے ناتواں اور دم توڑتے قطروں کے لب چومتیں تو وہ کھِل کر سنہری ہو جاتے۔ سرجھکائے پھولوں کے چہرے پر تھکن کے آثار ابھی تک موجود تھے۔ سورج کی کرنیں ان تھکے ہوئے پھولوں کے کان میں ناجانے کیا کہتیں کہ وہ حیا سے لال ہو جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی پاگل سمجھتا ہے
دھرتی کی تڑپ کو تو بس بادل سمجھتا ہے
ہماری آنکھ سے ٹپکا جنہیں کہتے ہیں وہ آنسو
جو تم سمجھو تو موتی ہے جو نہ سمجھو تو پانی ہے

اپنی اپنی پسند کے انڈوں کے آملیٹ کھا کر ہم کافی ترو تازہ ہو گئے تھے۔ چائے نے بھاری بر کم ناشتے کے بعد پیدا ہونے والی غنودگی کو بیدار ہونے سے پہلے ہی گرم گرم تھپکیاں دے کر پھر سے سلا دیاتھا۔ میں اور میرے پیارے اپنی اپنی مستیوں میں مگن تھے۔  ہماری مستیاں کیا ہو سکتی تھیں مست نظاروں کے ساتھ کبھی اس زاویے سے کبھی اُس زاویے سے بہترین تصاویر کا حصول۔
نہ نظارے ختم ہوتے تھے نہ موبائلوں اور کیمروں کے پیٹ بھرتے تھے۔ اگر کسی کے پیٹ میں جگہ کم ہو جاتی تو ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید جگہ بنا لی جاتی۔
کافی کھینچا تانی کے بعد ہم اپنے اپنے بیگ اپنے کندھوں پر لٹکائے باجماعت قطار بنائے ہوٹل کی حدود سے باہر آگئے۔ اب ضرورت تھی، ببلز کی، سونف کی سپاریوں، چپس اور ڈرنکس کی۔ چنانچہ سب نے اپنے اپنے تھیلے بھر لئے۔
کسی نے آواز لگائی،
”اوہو!  میڈیسن تو کمرے میں ہی  بھول گئے۔“
میری عادت ہے کہ میں گھر سے ہی فرسٹ ایڈ کا ایک چھوٹاسا بیگ تیار کر کے ساتھ رکھتا ہوں جس میں فرسٹ ایڈ کے علاوہ ہر کسی کو لاحق اور لالاحق بیماریوں کی ادویات موجود ہوتی ہیں۔ ہر قسم کی اینٹی بائیو ٹک اور خاص طور مچھر بھگانے کی ادویات۔ مچھر بھگانا آج کل کا کرنٹ ایشو ہے۔ اس لئے ہر کوئی اپنی پسند کا لوشن یا سپرے ساتھ رکھتا ہے۔ اتنے سارے لوشنز اور کریموں کا فائدہ یہ  بھی ہوتا ہے کہ ہر نسل اور جنس کا مچھر محفل سے دور رہتا ہے۔
 جب شاہزیب اور عابد جا کر بیگ لے آئے تو ہم سرکاری گیسٹ ہاؤس سے کنی کترا کر جیپوں کے شہر  پہنچے۔ ویسے یہ گیسٹ ہاؤس اتنا خوبصورت تھا کہ اس کی مدحا سرائی ضروری تھی۔ لیکن اس طرح کی چیزوں کو دیکھ کر میرے بچے ہمیشہ مجھے یہ احساس دلاتے ہیں۔
”کاش آپ سرکاری آفیسر ہوتے۔“
 ان کی ماں اس موقع پر فوراً کہہ دیتی ہیں،
”سرکاری تو چوکیدار بھی مان نہیں۔“
میں جواب دیتا ہوں۔
”میں سرکاری ملازم نہیں سرکار بننا چاہتا ہوں۔“
 مجھے کسی نہ کسی کا یہ جواب بھی سننا پڑتا ہے۔
”وہ تو آپ ہیں۔“
 اس سے پہلے کہ کوئی کہے میں خود ہی کہہ دیتا ہوں۔
”ہاں سر اور کار والا۔“
 اس کے بعد سب  ”کیا “ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     
 جیپ میں ہم پانچ ہی تھے۔ ڈرائیور سمیت چھ۔ فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ تھے عابد۔ 
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
 پیچھے ہم چاروں۔۔۔ آزاد۔۔پنچھی
 جب سفر کی دعا پڑھی گئی تو میں نے شکر کیا کیونکہ گھڑی کی سوئی بس بارہ کے ہندسے سے چند جست دور تھی۔  یہ جو سوئیوں کی چھلانگیں ہوتی ہیں کبھی انسان کو گاڑی میں سب سے پہلے بٹھا دیتی ہیں اور کبھی گاڑی چھڑوا دیتی ہیں۔ ان کی وجہ سے کبھی مسکراتا کھلتا میزبان ملتا ہے اور کبھی پھٹکاریں  بھیجتا بند دروازہ۔
میں نے گھڑی کی سوئیوں سے جان چھڑائی اور موبائل کے ہندسوں پر چلنے لگا۔ لیکن پتہ چلا بہت بڑی غلطی کی ہے وہ معصوم تو چھلانگ لگا کر بتا دیتی تھیں۔ یہ غارت گار تو اندھا وار کرتا ہے۔ اس وقت پتہ چلتا ہے جب ہندسہ اگلے ہندسے کی گود میں چھپ جاتا ہے۔
 جیپ ایک وسیع و کشادہ سڑک پر کچھ آسان سے موڑ کاٹنے کے بعد ایک جنگلی سڑک پر ہولی۔ گھنے جنگل سے گزرنے والی یہ سڑک اتنی جنگلی تھی کہ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ اُس کی پشت پر ایک ایسا اُڑن کھٹولا رواں دواں ہے جس کے بطن میں چند شرفا بیٹھے ہوئے ہیں۔ وقفوں وقفوں سے مجھے لگتا تھا جیسے ہمیں کسی مگر مچھ نے زندہ ہڑپ کر لیا تھااور وہ ہمیں ہضم کرنے کی کوشش میں ہمیں اوپر نیچے اور دائیں بائیں گھما رہا تھا۔ ایسا میں نے کئی فلموں میں دیکھا ہے۔ 
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں مگر مچھ نما جیپ کی اس حرکت کو کیا نام دوں۔’ جھٹکا ‘  لفظ بہت چھوٹا ہے، پنجابی کے لفظ’ ہلارے ‘  میں  رومانیت بہت زیادہ ہے۔  ’ قلابازی ‘  ذرا خطرناک ہو جاتا ہے۔ ایک لفظ میرے ذہن میں آرہاہے جو قریب قریب مطلب پورا کر رہا ہے۔ ’ اچھل کود ‘۔۔۔ مجھے یوں لگا جیسے ہم کسی دوشیزہ کی جیب میں رکھی ہوئی سونف سپاریاں ہیں جو اس اچھل کود میں ایک دوسرے سے اس طرح ٹکراتی ہیں کہ اپنی پہچان ہی کھو دیتی ہیں۔۔۔۔۔ نہیں یہ مثال بھی جچی نہیں۔ مجھے سیالکوٹ یاد آگیا۔۔ میرا بچپن وہاں گذرا ہے۔ وہاں امرودوں کے موسم میں امردو، جامنوں کے موسم میں جامن اور کھیروں کے موسم میں کھیرے بیچنے والا نمک مرچ لگا کر دہی کے چند قطروں میں نہلا کر انہیں ایک چھوٹے سے مٹکے میں ڈال کر اس طرح ہلاتا کہ ان کی  مج مر جاتی یعنی ان کی پہچان ہی ختم ہو جاتی۔ امرود بیچارے پورے مردود ہوجاتے، کھیرے کھیر بن جاتے اور جامن بس جا ہی جا ہو جاتے۔ گھٹلیاں کہاں، کھال کہاں  اور من کہاں۔
 اس جنگلی جیپ کے بعض مذاق ایسے بھی تھے کہ کئی دفعہ ہمارے موبائل گرے، کیمرا گرا۔۔۔۔ عابد صاحب کھڑکی میں سے موبائل باہر نکال کر وڈیو بنا رہے تھے۔لیکن اب حالات کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے سیدھے ہوکر ایک ہینڈل کو مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر جگہ پر یا وہ تھے یا ڈرائیور جمعہ خان۔
میں نے جمعہ خان سے پوچھا،
”یار سڑک کیسی ہے۔“
کہنے لگا۔
” ایک دم فسٹ کلاس۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔“
میں ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔
”پتھر تو نہیں۔۔“
”پتھر تو ہوگا جی پہاڑ ہیں نا۔۔“
میں کچھ مطمئن ہو گیا جب  جمعہ خان کو ڈرائیوری کا نشہ چڑھنے لگا تو میں نے پوچھا۔
”جمعہ خان۔۔۔۔ او جمعہ خان۔۔۔۔“
”جی جی سر۔“
یارا کوئی آہستہ چلنے کا کوئی پروگرام نہیں۔“
میں نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بڑی مشکل سے یہ جملہ ادا کیا۔
” ہے جی۔۔۔کیوں نہیں اگر ہم آہستہ نہیں چلے گا تو کون دشمن چلے گا۔۔۔ بات ہے نہ جی۔“
 میرے پیٹ میں انتڑیوں کے علاوہ پتہ نہیں کیا کیا اچھل کود میں مصروف تھا اس لئے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو دبا کر کہا۔
”یار یہ دشمن کون ہے۔“
”یہ تو ہم نے ایسے ہی بولا ہے جی۔۔۔ بات ہے نہ جی۔“
”تو یار آہستہ کر لو۔“
”ہاں جی کیوں نہیں بات ہے نہ جی۔“
 سامنے سے ایک جیپ کیا آئی ہماری جان کوپیروں کے انگوٹھوں تک لے گئی۔یہ کیسے گزرے گی لیکن کیاخوبصورت طریقے سے دونوں ماہر ڈرائیوروں نے  ایک دو دفعہ آگے پیچھے کرتے ہوئے گاڑی گزار لی۔ جونہی وہ جیپ ہماری جیپ کے قریب سے گذری تو جمعہ خان نے اسے پشتو میں کچھ کہا جو ہمارے سر سے گذر گیا سوائے لفظ خنزیر کے۔۔ جو یہاں کے ڈرائیوروں کا پسندیدہ لفظ ہے۔ اور یہ اپنی زبان میں اس کا استعمال اسی طرح کرتے جیسے اپنی خوراک میں نسوار کا۔
 میں نے کہا یار تمہیں ڈر نہیں لگتا۔
”ادھر ہی توجوان ہوا ہے ڈر کسی بات کا۔۔۔ہیں۔۔۔بات ہے نہ جی۔“
”میں نے کہا بات ہے جی کیوں نہیں بری بات ہے۔
ہماری سڑک جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی جنگل بھی گھنا ہوتا جاتا تھا۔ ہماری ایک طرف گہری کھائیوں میں دور تک گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ ہماری دائیں طرف مٹی اور پتھر کے پہاڑ تھے۔  بر لبِ سڑک گھنے درختوں کی جڑوں سے مٹی کا لباس اتر کر سڑک پر آگیا تھا۔ اس مٹی نے سڑک پر اونٹوں کے کوہانوں جیسے ٹیلے بنا دئیے تھے۔  رات کی بارش نے سڑک کی چکنی مٹی کو کیچڑ میں بدل دیا تھا لیکن جیپ کسی رکاوٹ کے باوجود آگے جا رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اتنی پھسلن کے باوجود یہ جیپ پھسلتی کیوں نہیں۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے میں نے پچھلے شیشے میں سے سڑک کو دیکھا تو اس کے عین درمیان میں لمبے دو نالے چلے آرہے تھے جو ٹائروں نے بنائے تھے۔ یہی راز تھا کہ جیپ کے ٹائر ان نالوں میں پھنس کر چلتے تھے۔ ڈرائیور انتہائی مہارت سے انہیں ان نالوں کے ٹریک کے اندر رکھ رہا تھا۔  میں نے ا پنے  بائیں جانب دیکھا تو سوائے گہری کھائیوں کے کچھ نہیں تھا یعنی ہماری جیپ کا ایک ٹائر سڑک کے حتمی کنارے پر تھا۔ خوف تھا کہ بجلی کی طرح میرے اندر تک سرایت کر گیا۔ لیکن کنارے پر لگے سفید پھولوں نے مجھے اپنی طرف مائل کر لیا۔ گلاب کے پھولوں کا بھیس لئے یہ جنگلی پھول تھے۔ جن کابیج پتہ نہیں کہاں سے آیا تھایا کتنی صدیوں سے یہیں تھا۔لیکن جو بھی تھا اچھا تھا۔عام طور پر پھولوں کے پودوں کی پتیاں لمبی نہیں ہوتیں  لیکن ان کی پتیاں اتنی لمبی تھیں کہ کہیں تو گنے کے پودوں کا گماں ہوتا تھا۔
 ایک در ایسا کھلا کہ جیپ کے نیچے بس ٹائروں کی جگہ تھی۔ اس حالت میں جیپ نے یکے بعد دیگرے دو موڑ کاٹے اور نسبتاً کھلی جگہ پر آگئی۔ میں نے سوچا کیوں نہ ہم یہاں رک کر اپنی پسلیوں اور انتڑیوں کو کھینچ کھانچ کران کی اپنی جگہ واپس لے آئیں جو اس جنگلی جیپ نے اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دی تھیں۔ چنانچہ میں نے آواز بلند کی۔
 ’یار یہاں روکو۔۔۔۔۔“
”کیوں جی کسی کا پینٹ گیلا ہو گیا۔۔۔۔بات ہے نہ جی۔“
جمعہ خان نے سٹئیرنگ کو کچھ زیادہ ہی زور سے گھماتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مطلب ہے جمعہ خان۔۔۔۔“
میں نے ڈانٹ کر کہا۔
”بات ہے نہ جی۔۔۔ یہاں آکر اکثر ٹورسٹ کا پینٹ گیلا ہو جاتا ہے۔“
 ”یار میں نے۔۔۔“
 ابھی میں نے جملہ کا ابتدائی حصہ بھی مکمل نہیں کیا تھا کہ جمعہ خان بولا،
” سوری سر۔۔ادھر ہی روکیں گے۔۔ ظاہر ہے شرعی عذر ہے۔۔۔ مسئلہ ہے۔۔۔۔۔“
اس کاجملہ مکمل ہوتے ہی شاہزیب نے کہا۔
”بات ہے نہ جی۔“
اسی ہنسی میں جمعہ خان کی بے معنی یا شاید کھسیانی ہنسی بھی شامل تھی۔ سب نیچے اترے تو جمعہ خان کی بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی کہ کچھ ہی دیر میں ہم میں سے اکثر جن میں جمعہ خان بھی شامل تھا درختوں اور پتھروں کی اوٹ میں بیٹھے پائے گئے۔
میں کمر کے مہرے سہلاتے ہوئے سڑک پر ٹہلنے لگا۔ سبز ترین جھاڑیوں نے سڑک کے کنارے اور درختوں نے اپنے پیچھے کے تمام تر مناظر اہم دستاویز ات کی طرح چھپا رکھے تھے۔ میں نے درختوں کی کچھ شاخیں ہٹا کر ان کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کی لیکن مجھے انواع و اقسام کی جڑی بوٹیوں، بیلوں، درختوں اور جھاڑیوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ انہی انواع و اقسام کی سبز حیات کی وجہ سے اس علاقہ کو نباتات کی جنت کہا جاتا ہے۔
جیپ دوبارہ چلی۔ کوئی پانچ منٹ کا سفر   بھی طے نہیں کیاتھاکہ جمعہ خان نے جیپ کو اس انداز میں روکا کہ میں آدھے سے زیادہ شاہزیب کی گود میں جا پڑا،جو میرے سامنے بیٹھا تھا۔
”او۔۔۔۔ کا بچہ ماں کے جنازہ پہ جانا ہے جو اتنا جلدی ہے۔“ 
پہلی دفعہ پتہ چلا کہ جمعہ خان کی آواز کیا ہے۔
اصل میں ایک جیپ انتہائی غیر ذمہ داری سے موڑ کاٹتے ہوئے ہمارے سامنے آ گئی تھی۔
 چند لمحوں میں ہم نے جمعہ خان کو جیپ سے نیچے دیکھا وہ چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسری جیپ کے قریب پہنچا اور پھر ہر طرف خنزیز و  خنزیر  ہو گیا۔ جب اس کی تسلی ہوگئی تو واپس آگیا۔  وہ پسینے سے گویا نہا رہا تھا۔بھنویں تنی ہوئی تھیں اور لال رنگ مزید لال ہو گیا۔ گال تھے جیسے خون کا لوتھڑا۔
”۔۔۔ سمجھتا ہے باپ کا سرک ہے۔۔۔ اوپر سے اس طرح آتا ہے جیسے اُڑ کر نکل جائے گا۔۔ مرنا ہے تو پہاڑ سے کود و نا۔۔۔ ہمیں کیوں تنگ کرتے ہو۔۔۔ ابھی سر پھوڑ دیتا۔۔۔ خبیث۔۔۔“
 میں نے اس کی تقریر سنسر کرتےہوئے کہا۔
”چلو چھوڑو یار۔۔ غصہ تھوک دو۔“
”کیسے تھوک دے۔۔۔ بات ہے نہ جی۔“
’’ کیسے تھوک دے جی منہ میں تو نسوار ہے۔‘‘
 یہ شاہزیب تھا جو اس  لڑائی سے لطف اٹھا رہا تھا۔
 ہمارے ہاں لوگ جملوں میں سر پھاڑتے ہیں لیکن یہاں سر پھوڑتے ہیں۔ جمعہ خان تو سر پھوڑ ہی رہا تھا۔
 آگے سڑک کے گڑھے کچھ زیادہ ہی گہرے ہو گئے تھے کیچڑ تھا کہ جیپ اس میں دھنسی جا رہی تھی۔ ہم جیپ میں بیٹھے اس  طرح  اُچھل رہے تھے جیسے جوسر میں انگور۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھاکہ کس کا کون سا حصہ کہاں ٹکرا رہا تھا۔ کیچڑ تھا کہ گاڑی کے چاروں اطراف شیشوں تک آن پہنچا تھا۔ ایک جگہ جیپ کا کیچڑ سے یہ دنگل کچھ دیر کے لیئے رکا۔ ہر طرف خا موشی چھا گئی۔ ہم سمجھے کہ جمعہ خان نے جیپ کو سستانے کا موقع دیا ہے لیکن پتہ چلاکہ سامنے ایک جیپ دلدل نما کیچڑ سے نکلنے کی کوشش میں مصروف تھی۔۔۔ کیچڑ تھا کہ اس نے جیپ کو  اپنے کیچڑیائی  شکنجے میں جکڑ رکھا تھا۔
 جمعہ خان نیچےاُ ترا   ،  پہلے تو اس نے اپنی جیپ کا شیشہ صاف کیا پھر جاکر اس جیپ کو دیکھنے لگا، عابد صاحب بھی اترے، جیپ ڈرائیور کو کچھ نادر مشوروں سے نوازنے کے بعد دھکے کے نیک کام میں شامل ہو گئے۔  جیپ تھی کہ نکلنے کانام ہی نہیں لے رہی تھی، پھر اس جیپ میں سے بھاری بھر کم دوجوان اترے اور دھکے میں شامل ہوگئے۔۔۔ دے دھکے پہ دھکا۔۔۔۔ اور پھر جیپ کیچڑسے باہر آ گئی۔۔ سکون ہی سکون۔۔۔۔۔ اگلی جیپ خراماں خراماں چلی اور ہم بھی اس کے بنائے نشانوں پر چلتے رہے۔ اُس جیپ کی ڈولنیاں دیکھ کر تو مجھے اس بیچاری پر ترس بھی آرہا تھا اور رشک بھی۔
پھر اچانک ہی جمعہ خان نے اعلان کیا ۔
”لیں جی آگیاسری پائے۔“
سڑک ہمارا ساتھ چھوڑ چکی تھی البتہ سامنے ایک لکیر موجود تھی ہمیں اسی لکیر پر چلتے ہوئے اپنی بائیں طرف ایک سرسبز پہاڑی پر چڑھنا تھا۔ لیکن  ہم جہاں سے بھی اس  پہاڑی کو سر کرنے کی کوشش کرتے وہ ہمیں دھکا دے کر پیچھے کر دیتی۔ کہیں تو اتنی زیادہ پھسلن تھی کہ ہم کئی فٹ چڑھ کر کئی فٹ نیچے آجاتے۔ میں نے عابد سے کہا۔
’’ یار یہ پہاڑی نہ ہوئی نانگا پربت کا پہاڑ ہو گیا۔۔۔ ایک گزکی پہاڑی کی یہ مجال کہ ہمیں دور رکھے کہیں سے چھڑی تلاش کرو۔۔۔“
شاہزیب نے کہا۔
”ناممکن“
 وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے ہی  ناممکن کہہ دیتا ہے۔
”یار کوشش تو کرو۔“ میں نے پھر بھی کوشش کی۔
 میری مسز نے میری توجہ دلائی۔
”سامنے دیکھو۔“
 دیکھا تو ایک چھڑی فروش کسی سپاہی کی طرح چھڑی لہراتے بھاگا چلا آرہا تھا۔ قریب آیا تو  ہم نےپُرشوق  نظروں سے  ایک دو چھڑیاں  دیکھیں  اور شاہانہ انداز میں چھڑی کے دام پوچھے۔
’’ دوسو جی ۔۔صرف آپ کے لئے ۔‘‘
 عابد بولا ،
’’ بھائی جان مامے  دا پُتر۔‘‘
’’ او بھیاجنگل کی قیمت نہیں پوچھی ۔۔اس چھڑی کی قیمت پوچھی ہے۔‘‘
’’ میں کون ہوتا ہوں  جی جنگل بیچنے والا۔۔ میں نے بھی اسی کی قیمت بتائی ہے۔‘‘
عابد چھڑی لے کر سونگھنے لگا۔
میں نےاُ س سے چھڑی واپس لیتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں ہے نہیں  صندل کی ۔۔‘‘
مختصر یہ کہ  دو سو روپے سے بات چلی اور ایک سو پچاس پر رک گئی، اب سوچا کہ ایک لے لیتے ہیں ضرورت کے وقت باری باری استعمال کر لیں گے۔ حکمتِ عملی کامیاب رہی  ہم باری باری اس چھڑی کا استعمال کرتے ہوئے اس پہاڑی پرچڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ اوپر جا کر احساس ہوا جیسے فضا کہہ رہی ہو۔
بہت دیر کی مہماں آتے آتے
 اوپر پہنچ کر مجھے وہی احساس ہوا جو اپنے گھر کی چھت پر جا کر ہوتاہے۔ لگا جیسے ہم سب سے اونچی جگہ پر کھڑے ہیں۔ 
میرے قدموں میں اردگرد ادھر ادھر، حد نگاہ تک جامنی، نیلے اور سفید پھولوں کے بستر بچھے ہوئے تھے۔ زرد اور سلیٹی رنگ کی جھاڑیوں نے ان پھولوں کے جاودانی حسن کو دوبالا کر دیا تھا۔ لوگوں نے ان پھولوں کو کئی نام دئیے ہوں گے لیکن میرے نزدیک ان کا کوئی نام نہیں تھا۔بس حسن تھا، رعنائی تھی، لطافت تھی اور نزاکت تھی۔۔۔۔۔ کسی باکمال مصور نے ایسے رنگ ڈالے تھے کہ پھر قلم ہی توڑ دیا ہوگا۔ سوال یہی تھا کہ کوئی پھول ان سے زیادہ بھی خوبصورت ہو سکتا ہے۔  جواب تھا ۔
”تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔“
سبز گھاس نے ان پھولوں کی شہزادیوں کو پہرے دار وں کی طرح گھیر رکھا تھا۔ جب ہوا ان سے ٹکراتی تو وہ ایک ہی لے میں ایک طرف کو جھوم جاتے، پھرجب ہوا کا جھونکا ان کے بدن کو چھوتا تو وہ دوسری طرف کروٹ لے لیتے۔۔۔ یہ ان کا رقص تھایا اپنے مہمان کے لئے فرشی سلام۔۔۔ یہ ان کا اچھوتا، انوکھا اور نرالا انداز تھا یا اندازِ میزبانی۔
 ایک تتلی ایک پھول پر بیٹھی اُس سے راز و نیاز کی باتیں کر رہی تھی۔  پھول کے چہرے کا بدلتا رنگ گواہی دے رہا تھا کہ تتلی اُس کے حُسن کے قصیدے پڑھ رہی تھی۔۔ لیکن پھول شرما کر کہہ رہا تھا،
” تُو بھی تو کسی سے کم نہیں۔۔۔میں نے جنت تو نہیں دیکھی۔۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ تو جنت کی ہی مخلوق ہے جو کہیں بھولے سے ادھر آ نکلی۔ تیرے نارنجی پروں میں آتشی سرخی اور ان پر سیاہ ٹیکے میرے کلیجہ میں اُترتے ہیں۔ تیری سیاہ دھاریاں حرمت اور پاکی کے نشان ہیں۔“
 تتلی کے گالوں پر حیا کے سبھی رنگ پھیل گئے تھے۔
”چل پگلا‘
 کہہ کر وہ اُڑ گئی۔۔۔۔۔۔ اور شاخ گل پر منڈلانے لگی۔
میں نے زندگی میں کبھی بھنورہ نہیں دیکھا تھا۔ یہاں بغیر مشقت کے مل گیا۔ ایک نیلے پھول پر اس مدہوشی اور انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھا کہ اُسے ارد گرد کی کوئی خبر نہیں تھی۔  نہ میرے آنے کی نہ میرے جانے کی۔
تتلیاں ناچتی  ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہے جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات
دور بہت دور سفید دھند کے ایک شہر میں کچھ مویشی اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے میں مگن تھے۔ لگتا تھاکہ سبز کینوس پر بنائی گئی کچھ تصویریں حرکت کر رہی تھیں۔ کبھی ان کی یہ حرکت بھی بند ہو جاتی۔ پھر جب دھند ان پر چھا گئی تو لگا جیسے شفاف پانی میں پڑے رنگ برنگ پتھروں ہوں۔ بس یہ پتھر جان رکھتے تھے۔۔۔۔۔ مجھے لگا میری طرح ہیں یہ۔۔۔۔ جاندار مگر پتھر۔۔۔ شہر جل جائیں۔۔ جل جائیں۔۔۔ میں خاموش کہ میں ہوں پتھر فقط جاندار پتھر۔۔۔ باپ جگر کے ٹکڑوں کو سرِ بازار لے آئے۔۔  مجھے خبر نہیں کہ میں پتھر مگر جاندار پتھر، غربت کا عفریت شہروں کے شہر ہڑپ کر جائے۔۔۔۔۔ میں لاتعلق کہ میں پتھر مگر جاندار پتھر۔۔۔۔۔ نفرت گلی کوچوں میں رقصاں مگر میں چرنے میں مگن کہ میں پتھر مگر جاندار پتھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دور بہت دور نیچے بہت نیچے ٹینوں کی چھوٹی چھوٹی چھتیں ایسے بچوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں جوآسمان پر اُڑنے والے جہاز کو حیرانی سے دیکھ رہے ہوں۔ میں ان چھتوں میں آفاق کی چھت تلاش کر رہا تھا۔۔۔ سبھی ایسا ہی کرتے ہیں۔۔۔۔۔
 سفید بادل سبز چادر میں لپٹے ہوئے ان ہوٹلوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔ یہ اوپر دیکھ کر اپنے مکینوں کو بلا رہے تھے کہ موسم بدلنے والاہے۔لیکن کوئی ان پر توجہ ہی نہیں دے رہا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ تاریخ ِحیاتِ انسانی گواہ ہے کہ کتنی دفعہ مکاں اپنے مکینوں کو موسموں کے بدلنے کی و عید سناتے رہے لیکن مکین اپنے ہی معمول میں مصروف رہے۔
ہائے بغداد و غرناطہ تیرے مکانوں نے بھی آنے والے قہر کی وعید سنائی ہوگی مگر کوئی متوجہ ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔ اور آج ہمارا بھی وہی چلن۔۔۔۔۔۔
 نیچے بہت نیچے کھلونا نما ایک جیپ بھوری لکیر پر چلتی ہوئی آرہی تھی۔ اس کا سرخ رنگ کبھی کبھی لہر بن کر ڈگمگانے لگتا۔ حیات کی کتنی جیپیں کتنوں کو لے گئیں اور کتنوں کو لے آئیں۔ سب آتے ہوئے شاداب و توانا۔۔۔ جاتے ہوئے تھکن سے چور۔۔ ناتواں اور نڈھال۔
 میرے سامنے میرے داہنی طرف برف پوش چوٹیاں سحر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اُن سے ٹکراتے،انہیں پھلانگتے اور اُن پر تیرتے بادل ان سے کھیل رہے تھے۔۔ جب بادلوں کا ایک نٹ کھٹ ٹولہ ہٹا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک خوبصورت چوٹی کو چھپا رکھا تھا، جو کسی مکڑے کی طرح اپنے کئی دست و پا پھیلائے ہوئے اپنی شہنشاہیت کا اعلان کر رہی تھی۔ اسی لئے تو اسے ’مکڑا چوٹی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ہم نے پیدل چلنا شروع کیا، دور چرتے ہوئے بے جان مویشیوں کی طرف۔۔۔۔  ہمارا رخ اُن کی طرف تھا مگر ہماری منزل وہ نہیں تھے۔۔۔ ہماری منزل تھی  ’پائے جھیل‘۔۔۔ کچھ زیادہ تگ و دو کئے بغیر ہی ہم وہاں پہنچ گئے۔ سطح سمندر سے نو ہزار پانچ سو فٹ کے قریب بلندی پر واقع بچوں کے سوئمنگ پول جیسی یہ جھیل جون کے مہینے میں بھی اپنے بازوؤں پر برف کے کنگن سجائے محوِ استراحت تھی۔ اس کے پانیوں میں ملکہ پربت، مکڑا اور موسی کا مصلیٰ جیسی چوٹیوں کا سفید عکس تیر رہاتھا۔ ہوا کے جھونکے اس سفید پھریرے کو لہرا  لہرا کر اپنے  بنانے والے کی شاہی کا اعلان کر رہے تھے۔ جیسے کسی قلعہ کے چوٹی پر لہرانے والے علم اس کے حکمران کی حکومت کا نشان ہونے کاثبوت ہوتے ہیں۔ دور سبز درخت اس کے محافظوں کی طرح سینہ تانے کھڑے تھے۔ ایک سبز پہاڑی اس سے بھی اوپر سر بلند کئے کھڑی تھی۔۔ شاید یہ بتانے کے لئے کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔
دور برف کے ٹکڑے کسی دیو کے پیروں کے نشان بناتے ہوئے سفید برفانی دنیا کا حصہ بنتے جارہے تھے۔برف سے ڈھکے پہاڑوں کا رنگ سفید نہیں تھا۔لگتا تھا کسی نے پینٹ برش سے ان پر سفید رنگ کر دیا ہو۔ اگرچہ وقت کی دھول نے اس سفید رنگ کو دھندلا دیا تھا۔ مکڑا چوٹی پر جھانکتے ہوئے بھورے رستے مجھے آگے بڑھنے کی دعوت  دے رہے تھے۔ مگر میں جانتا تھا کہ یہ بھورے رستے نہیں بلکہ کسی جال کی وہ رسیاں ہیں جن میں ناجانے کتنے پھنس کر جان گنوا بیٹھے۔ اقبال کی نظم کے مکڑے کی طرح یہ مکڑا بھی یہی کہہ رہاتھا۔
آؤ میرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہوآنا
اس گھرمیں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کوآئینوں سے میں نے سجایا
 لیکن میں نادان مکھی تو تھا نہیں جو اس کے قالینوں اور صوفوں کا مزا چکھنے کے لئے چل پڑتا۔ میرے پاس نہ تو چار پانچ گھنٹے تھے کہ میں دھند سے لپٹے ہوئے  راستوں پر چلتا ہوا اس تک پہنچتا۔ اگر وقت ہوتا بھی تو میں کہاں اتنا فِٹ تھا کہ اس چوٹی تک پہنچنے کا کشٹ کاٹ سکتا۔ میں نے درختوں سے لپٹی، بگولوں کی طرح اُڑتی اور مستیاں کرتی دھند کو ایک نظر دیکھا اور واپسی کا قصد کیا۔
  سر سبز کنوارے گھاس، اور کھلتے مسکراتے پھولوں سے بچتے بچاتے، بھیگی اور بُھربھری سنہری پکڈنڈیوں پر چلتے ہوئے میں اور میرے ہم سفر واپس چلے پائے کے اس میدان کی طرف جہاں سے چڑھ کر ہم اس طرف کو ہو لئے تھے۔
پہاڑوں پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے لیکن اترنا اس سے بھی مشکل لیکن یہ پہاڑ تو تھا نہیں جو اترنا اتنا مشکل ہوتا لیکن نا جانے کیوں اس سبز میدان پر چلنا خاصا مشکل تھا۔   لیکن چلنا تو تھا۔۔


شرارتی بگولے                                                                                                                           وارث اقبال

میں سر جھکائے، دل میں اپنی ہی بستی بسائے چلتا جارہا تھا کہ لگا کہ جیسے کسی نے مجھے چھواتھا۔ آنکھیں پوری طرح کھولیں تو دیکھا دھند کی بے شمار ٹولیوں نے ہمیں گھیر رکھا تھا۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شاہزیب، زین اور عابد خوب مستیاں کرتے چھلانگیں لگاتے دھند کے نازک بدن کو چھوتے چلے آ رہے تھے۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اندر ایک خوف تھا جو اچانک پیدا ہوا تھا اس دھند نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید اس میدان میں ہم اکیلے ہی ہیں۔۔۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں ہم اس دھند کی وجہ سے راستہ  نہ بھٹک جائیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس خیال کو اپناکر کوئی عملی قدم اٹھاتا۔ دھند کے وہ شرارتی بگولے ہٹ گئے۔ اور میں نے سکون کا سانس لیا۔ بچوں کو آوازیں دیں اور قریب رہنے کی ہدایت کی۔ ابھی میں اپنی ہدایات کا فرمان ان تک صحیح طریقے سے پہنچا ہی نہ پایا تھاکہ ایک طرف سے دھند کا پہاڑ اُٹھاا ور ہمیں گھیرے میں لے کر چھوڑتے ہوئے گذر گیا۔ یہ کیا تھا سمجھ نہ آیا۔ پھر دھوپ کے سنہری بدن سے ایک اور سفید جن نکلا اور ہمیں چھوتے ہوئے گذر گیا۔کوئی شیطان سفید جن کچھ لمحوں کے لئے رک جاتا تو یہ سفید اندھیرا ہماری جان لینے کو آجاتا۔ اسی طرح ایک نہیں کئی جن ہمیں ستاتے رہے، ڈراتے رہے۔ پھر سب کچھ غائب ہوگیا۔ میں نے دور بڑے بڑے گھاس میں سے منہ نکالے کھڑے ایک پتھر کو دیکھا اور اس کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میرا بیٹھنا تھا کہ سب بیٹھے اور شروع ہوا کھاناپیناجو جس کے پاس تھا۔ سب نکلا اور نوالوں کا روپ دھارتے ہوئے ہمارے بھوک کے مارے بھوکے پیٹ میں جانے لگا۔ کھانا کھانے کے بعد عجب حال تھاکوئی پتھروں سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا تو کوئی لیٹاہوا تھاا ور کوئی  لیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سب موجودتھے لیکن عابد نہیں۔
میں نے پوچھا،”عابد کہاں ہے؟“
 شاہزیب نے  ایک طرف کواشارہ کیا۔ میں نے دیکھا تو عابد ایک بزرگ قسم کے اجنبی شخص کے سامنے آلتی مارے بیٹھا اسے غور سے سن رہا تھا۔ جیسے کنفیوشس کا شاگرد کنفیوشس کے سامنے بیٹھا گیان لے رہاہو۔
 ہر طرف، بلکہ چہار جانب سکون دیکھ کر میں بھی پر سکون ہو گیا اور لیٹاکیا لمب لیٹ ہو گیا۔ میں ہاتھ پیچھے کی طرف کئے لیٹا ہی تھا کہ مجھے ہاتھ پر گدگی سی محسوس ہوئی۔ ایسی گدگدی مجھے پہلے بھی ایک دفعہ ہوئی تھی جب ہرن مینار کے قریب ایک لان میں لیٹے ہوئے میرے بازو پر ایک مینڈک چڑھ آیا تھا۔ وہ پیچارہ تو شاید کوئی طلسماتی چوٹی سمجھ کر چڑھ آیا تھا۔ لیکن میں نے اس پر ایسا تگڑا ہاتھ ڈالا کہ اس پیچارے کے اندر باہر کے سارے فاصلے سمٹ گئے تھے۔ یہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی کیوں ہے۔ میں نے کچھ سوچا اور بے حرکت ہوگیا۔ اگر یہ میرے ہاتھ سے کچومر نہ بنا تو میرا کچھ نہ کچھ ضرور بگاڑدے گا۔ ایسے موقعوں پر اپنے ہی کام آتے ہیں۔ میں نے اپنی مسز سے کہا۔
”دیکھو میرے ہاتھ پر کیا ہے؟“
انہوں نے میرا وہ  ہاتھ دیکھنا شروع کردیا جو ان کے سامنے تھا۔ اتنی دیر میں وہ شے میری کلائی سے چلتے ہوئے میری ہتھیلی پر پہنچ کر براجمان ہوگئی تھی۔ مجھے یہی اندیشہ تھاکہ اگر وہ میری جیکٹ کی طرف منہ کر گئی تو کیا بنے گا۔
”ارے یہ ہاتھ نہیں۔۔ میرے پیچھے میرا والا بازو۔“
”کبھی کہتے ہو ہاتھ کبھی بازو۔“
 ”وہ اس ہاتھ پرہے مگر بازو کی طرف نہ چل پڑے۔“ میں نےراز داری برتتے ہوئے کہا۔
”ارے کیا ہے کیا کوئی  پری آگئی ہے۔۔“
”پری ہوتی تو میں تمہیں کیوں زحمت دیتا۔۔۔۔۔ اور  پھرپری میرے ہاتھ پر ہی بیٹھے گی کیا۔“
پھر وہ ہنسنا شروع ہوگئیں۔
”تمہیں ہنسی سوجھ رہی ہے، میرا ہاتھ سوج رہاہے۔ اس نے ہلکا سا کاٹ بھی لیاہے۔“
” ارے یہ تو چپس لیس کا ریپر ہےبیچارے کے دانت ہوتے تو کب کا کاٹ چکا ہوتا۔“
”کیامطلب۔۔“
 میں نےتیزی سے پیچھے مُڑ کر دیکھاتو میرا ہاتھ انواع واقسام کے لفافوں کو تکیہ بنائے بیٹھا تھا۔ اُس کے ارد گرد ہر قسم  اور جنس کی بوتلیں انسانیت کا  مذاق اڑا رہی تھیں۔ ان کے بن ڈھکن منہ قہقہے لگا رہے تھے۔ ان کے میلے ہونٹ سرگوشیاں کر رہے تھے۔  ایک میلی بوتل نے اپنا منہ پھاڑ کر اپنی ساتھی سے کہا۔
”اٹھو اس کے چرنوں میں بیٹھ جاؤ۔۔۔ آیا ہے اک اشرفِ مخلوق۔۔ ا سکی آرتی اتارو۔۔۔۔۔۔ چلتا کہاں سے ہے اور اپنا بوجھ کہاں اُ تارتا ہے۔۔۔ ایسا بدتمیز ہے جس خوبصورتی کے لئے ترستا ہے اُسی کا حسن برباد کرتا ہے۔ اس دیس میں چلنے والی ہوائیں، تم سے اچھی ہیں جو ہمیں یہاں سے اُٹھاتی تو ہیں۔ اس دیس کی برفیں تم سے بھلی جو ہمیں دفنا تو دیتی ہیں، ا س دیس کے پانی اچھے جو ہمیں بہا تو دیتے ہیں۔ تم ہو کہ کہاں سے لاتے ہو ایک چپس کا پیکٹ، اپنے پیٹ کا دوزخ بھر کر ہمارے منہ پر دے مارتے ہو۔ کیا یہی کرنے اور کیا یہی دیکھنے یہاں آتے ہو۔ گھر میں رہا کر و۔۔۔ تم کہاں اس قابل کہ اللہ کے بنائے ہوئے شاہکار تمہیں دعوتِ دید دیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘




دل تھا کہ غمِ جاں تھا
میں خود سے پشیماں تھا
میں نے اُسے چاہا تو
وہ مجھ سے گریزاں تھا
فطرت کے اشارے پر
جو نقش تھا رقصاں تھا
حالات کے ہاتھوں میں
 کیوں میرا گریباں تھا
کل میرے تصرف میں
اک عالم امکاں تھا
میں خود سے چھپا  لیکن
اس شخص پہ عریاں تھا
کیوں شہر نگاراں میں
آغاز پریشاں تھا
(آغاز برنی)
عابد صاحب واپس آگئے تھے۔  انہوں  نے بتایا کہ ایک بزرگ سے ملاقات ہوگئی تھی۔ میں نے پوچھا، ”                   کیا لاہور کے تھے۔“
”نئیں  یہی کے رہنے والے ہیں۔۔۔“
عابد نے  چپس کا ایک پیکٹ کھولتے ہوئے کہا۔
میرے اندر تجسس کی لہر اٹھی،
”یہاں کے۔۔۔سری پائے کے“
 ”نئی نئی۔۔یہاں ’شران‘  کوئی جگہ ہے۔ کہتے ہیں بہت گھنا جنگل ہے۔ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ مگر راستہ بہت خطرناک ہے۔ اور رہنے کو گھر بھی نہیں۔۔۔۔“
”کیامطلب ہے گھر نہیں تووہ کہاں رہتے  ہیں۔“
”میرا یہ مطلب نہیں تھا بھائی جان۔ میرا مطلب تھا کہ وہاں کوئی ہوٹل نہیں ایک ڈاک بنگلہ ہے۔۔جہاں انسان کبھی کبھی مگر جن بھوت ہمیشہ رہتے ہیں۔“
میں عابد کی بات سن کر ہنس پڑا۔ مجھے لگا جیسے  عابد سمجھ رہےتھے کہ اگر وہاں ہوٹل کا بتایا تو بھائی جان نے کہنا ہے چلو صبح  شاران ہی جاتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی نئی بات پتہ چلتی شاہزیب نے جملہ کاٹ کر کہا۔
”لو جی ایک اور ٹوسٹ آگیا۔“
 ”نہ آپ نے کچھ کھایانہ پیا اور یہ اتنا وقت لگاکر بس یہی گیان حاصل کیا۔“
”او نہیں بھا ئی جان۔۔۔میں پوری کہانی سن کر آیا ہوں۔“
”اس بابے کی کہانی۔“
میری بات مکمل ہونے سے پہلے شاہزیب نے پھر جملہ دہرایا۔
”لو جی ایک اور ٹوسٹ۔“
”یار کیوں پہلیاں بھجوا رہے ہو آپ۔ پوری بات بتائیں۔۔۔ اور سنو اب کوئی ڈسٹرب نہ کرے“
 میں  سمجھ چکا تھا کہ یقیناً عابد کے پاس کوئی اہم معلومات ہیں۔ مجھے لگا واقعی کہانی میں ٹوسٹ آنے والا  ہے۔
”اس علاقہ میں ایک جی بادشاہ تھا۔ اُس کی ایک  بیٹی تھی۔ اُس بیٹی کا نام ’سری‘  تھا۔  یہاں ایک لڑکا بھی رہتاتھا جس کا نام ’پائے‘ تھا۔ پائے کو سری سے عشق ہو گیا۔“
 شاہزیب کافی دیر سے ہنس رہا تھا۔۔ میں نے وجہ پوچھی۔
”پھر اس بادشاہ نے سری اور پائے کو پکڑ کر   ان کے ایسے سری پائے بنائے کہ لوگ پھجے کو بھول گئے۔“
”چپ کر یار۔۔۔۔ اچھا پھر ان کے عشق کا کیا بنا۔
”ناکام ہوگئے جی بس  بادشاہ نے اٹھا کر مکڑے کے حوالے کر دیا۔۔ اور بس کہانیوں میں رہ گئے۔ لیکن بابا جی بتاتے ہیں کہ اس علاقے کے نام کی یہ  وجہ نہیں ہے کیونکہ زیادہ لوگ  یہ کہانی نہیں مانتے۔“
”پھر کیا وجہ ہے؟“
 شاہزیب نے پوچھا تو عابد نے بتایا۔
  ”زیادہ تر لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہاں ایک راجہ رہتا تھا۔ جس کے پاس ایک ہرن تھا۔ ادھرپہاڑوں میں ایک جن رہتا تھا جو یہاں کے لوگوں اور جانوروں کو اٹھاکر لے جاتا تھا۔ ایک دن وہ بادشاہ کے ہرن کو اٹھا کر لے گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد  ہرن کی سری  وہاں سے ملی جہاں سری جھیل ہے اور  پیر وہاں سے ملے جہاں پائے جھیل ہے۔“
”لیکن یہ دونوں وجوہات درست نہیں۔“
 عابد کی بات سننے کے بعد میں نے کہا۔
”لو جی نیا گیان …..اب آئے گاصحیح ٹوسٹ۔۔“
 حسبِ عادت شاہزیب نے مذاق اڑانے کی ٹھانی لیکن میں نے اُسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔
”یار اصل  میں مقامی زبان میں سرکا مطلب ہے جھیل۔ سرائیکی میں سری کا مطلب ہے تالاب، اسی طرح  ہندکو میں چراگاہ کو پائے کہا جاتا ہے۔
لیکن میرے خیال میں یہ نام  یہاں کے مقامی لوگوں نے نہیں دیا بلکہ پنجابی اور ہندکو بولنے والے سیاحوں نے دیا ہوگا۔  اصل میں یہ چھوٹے چھوٹے  ایک سے زیادہ میدان  ہیں۔  پہلا یا آغاز کا میدان سری یاسر اور آخری پائے یعنی پاؤں۔ ویسے میں تمہیں بتاؤں وہ بابا تمہیں چکر دے گیا  ہے ۔ یہ کہانی ا س نے سنائی یہ تو  بچے بچے کو معلوم ہے۔“
’’ بڑا افسوس ہے  جی بابے کو میں نے چپس کا پیکٹ بھی کھلا دیا۔۔ کسی بچے کو ہی کھلا دیتا۔‘‘ عابد نے سر جھکائے ہوئے روشنی ڈالی۔
 دھند بھی بڑھ رہی تھی اور بادل بھی زیادہ ہو رہے تھے۔ کچھ حالات کا رُخ بھانپ کر  جمعہ خان ہماری طرف آیا اور بولا کہ یہاں سے نکلیں  بارش آنے والی ہے ورنہ ہم پھنس جائیں گے۔ ہم اپنی تحقیق کو ادھورا  بلکہ بے نتیجہ چھوڑ کر جیپ کی طرف بھاگے۔ جیپ تک پہنچنا بھی اتنا آسان تو نہیں تھا۔  جب ٹانگوں نے کچھ احتجاج کیا تو ہم میں سے کسی نے یہ جملہ چھوڑا۔
”اصل میں اسے ہی جلدی ہے ورنہ بارش والے حالات تو نہیں۔“
 چونکہ ہم ہیں ہی بے اعتبارے اس لئے یہ جملہ اپنی جگہ درست تھا۔ ہم جیپ میں بیٹھ گئے مجھےکھڑکی کے بالکل ساتھ جگہ ملی۔ کھڑکی کے پٹ میں ایک اور روشن دان تھا جس میں  بے رنگ پولیتھن کا ٹکڑا لگا  کر اس روشن دان کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔  کوشش کی گئی تھی کہ بیٹھنے والے کو ہوا بھی نہ لگے اور کچھ نہ کچھ دکھائی بھی دیتا رہے۔ مگر اس سفید روشن دان پر میل  کی جمی موٹی تہوں نے باہر کے مناظر کو  سیاہی مائل کردیاتھا۔بس اس کے پیچھے سیاہ سا کچھ تیرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
 جیپ تھی کہ پہاڑی پری  کی طرح اُڑتی جا رہی تھی۔ ابھی میں اس نشست پر  بیٹھنا سیکھ ہی رہا تھا کہ ہم سری پہنچ گئے۔ چونکہ جاتے ہوئے ہم اسے نظرانداز کر گئے تھے اس لئے یہاں رکنا ضروری تھاورنہ اس کی توہین کا اندیشہ تھا۔  یہاں رکنے کی وجوہات کے تعین کا اختیار تو جمعہ خان کے پاس تھا۔ جس کے نزدیک   یہاں رکنے کی وجہ  کچے عارضی ہوٹل  کی بنی وہ چائے تھی  جو سارے ڈرائیور یہاں رک کر  پیتے تھے اور اپنے گاہکوں کو پلاتے تھے۔
 جیپ سے اترے توہماری بائیں طرف  ڈاک بنگلے کی ایک ادھیڑ عمر عمارت تھی، جس کی بغل میں دور تک پھیلا ہوا ایک سر سبز میدان  جو دور جاکر انواع واقسام کے درختوں سے لدے جنگل میں گم ہو رہا تھا۔ اسی کے ایک کونے میں ایک کچا مکان  اور اس کے سامنے کھیلتے ہوئے  دو بچے ہمیں حیران کر رہے تھے۔ ہماری دائیں طرف چھوٹی سی سبز جھیل تھی جسے’سری جھیل‘                     کا نام دیا گیاتھا۔ ایک خاص قسم کی جھاڑی نما گھاس  اس جھیل پر یوں جھکی ہوئی تھی  جیسے کوئی  اس جھیل سے پانی پی رہا ہو۔ اس کے پیچھے اس سبزمیدان کا کچھ حصہ تھا اور اس کے پار جنگل جس کے پار  بھیانک رستے جو مکڑا سے ہوکر بہت آگے تک جاتے ہوں گے۔ شاید وادی نیلم میں اُترتے ہوں یا کہیں سے چلتے ہوئے  ملکہ پربت کی طرف نکل جاتے ہوں اور اگر ملکہ پربت پر پہنچ گئے تو پھر نانگا پربت دورنہیں۔۔۔جو ناناگا پربت تک جا سکتا ہے اُس سے کچھ بھی دور نہیں۔ ہماری بالکل دائیں طرف جھیل سے با لکل اوپر بل کھاتی ہوئی کچی سڑک کی  شاید تین لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔  جنہیں دیکھ کر میں نے زین سے کہا۔
”وہ دیکھو ہم وہاں سے آئے ہیں۔“
 اُس نے فوراً جواب دیا،
”ہائے اتنی اوپر سے۔“
حالانکہ یہ کوئی زیادہ اوپر نہیں تھا۔
 ہم نے جھیل کنارے بیٹھ کر  اس میں مچھلیوں کی تلاش شرع کی لیکن ہمارے ہاتھ سوائے جھاڑیوں  کے کچھ نہ لگا۔   یہ وہ جھاڑیاں تھیں جنہوں نے ا س کے اندر مستقل پڑاؤ کر رکھا تھا۔ کچھ ان  کا رنگ تھا اور کچھ سبز  درختوں کا عکس جس نے اس جھیل کو   حنائی رنگ  میں  رنگ دیا تھا۔کسی ایسی حسینہ کی ہتھیلی کی طرح جو کسی  دوسرے کی شادی پر حنا سے لتھڑی ہوئی ہو۔ بس یہ جھیل جسے سری کا نام دیا گیاہے یہ کسی حسینہ کی حنائی ہتھیلی تھی۔ مجھے اپنے بچپن میں گاؤں کی کئی بڑی بوڑھیاں یاد آ گئیں جو گرمیوں میں اپنی گرمی کاکرب کم کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی تھوپ لیتی تھیں بالکل سر ی جھیل کی طرح یہ جھیل بس کوئی حنائی ہتھیلی تھی۔ سری نام کے مقابلے میں یہ نام زیادہ موزوں تھا۔۔۔ حنائی ہتھیلی۔ ۔۔
خصوصی کوشش کے بعد ہمیں یہاں بیٹھ کر چائے کاایک کپ پینے کا موقع بھی مل گیا۔ یہ کوشش  جمعہ  خان  کی تھی۔ چائے تھی تو مزے  کی لیکن  اس کے اندر سے اٹھنے والی دھیمی سی بساند                              کی وجہ سے اس کے اور دہن کے درمیان ناک آگئی۔ ہم نے ناک کو بند کر کے ایک گھونٹ اندر اتار ہی لیا۔  لگتا تھا یہ چائے کوئلوں پر نہیں بنی بلکہ بکری کے بالوں پر بنی تھی۔ غارت گر نے شاید  بکری کے دودھ میں گائے یا بھینس کا دودھ رتی بھر بھی  شامل نہیں کیا تھا ۔ شاید  جیپوں والے اسی بکری کے دودھ کی وجہ سے اسے پسند کرتے ہوں۔ اور کبھی چائے والے سے شکوہ بھی کرتے ہوں گے۔
”یار لگتا ہے آج  پھرتم نے بھینس کا دودھ ڈال دیا ہے۔“
 بچے کھیلنے میں لگن تھے۔ میری مسز میرے شدید اصرار کے بعد اس کچے گھر کا راز جاننے کے لئے وہاں چلی گئیں۔ میں چائے کا کپ لئے اس حنائی ہتھیلی سے پرے کے ماحول میں کھویا ہوا تھا۔ چند بدلیاں پیڑوں کے پیچھے سے اُٹھیں اور  ہمارےسر پر آ کر ٹہرگئیں۔ پھرمیں نے دیکھا کہ  حنائی ہتھیلی دودھیا ہوگئی جیسے کسی نے اپنا سفید آنچل اُس پر لہرا دیا ہو۔ ایک بدلی کے پیچھے کتنی ہی بدلیاں آسمان کو گھیر چکی تھیں۔ یہ بدلیاں تیر رہی تھیں، بھاگ رہی تھیں، اُ ڑ رہی تھیں۔ لگتا تھا جیسے وہ بہت بے قرار ہوں۔ کسی ایک جگہ پر تو ان کا پاؤں ٹکتا ہی نہیں تھا۔  پھر وہ ایک دوسرے میں یوں اتریں کہ ان کا  اپنا وجود ہی مٹ گیا، سب ایک کیا ہوئیں آسمان سفید ہو گیا۔
  عابد  کی آواز آئی۔
”بھائی جان  جمعہ  خان  بلا رہا ہے۔۔۔“
میں نے  پیچھے مُڑ کر   سڑک کی طرف  دیکھا،  جمعہ  خان  سڑک پر کھڑا اشارے کر رہا تھا۔ میں نے  بھی اُسے رکو یا اچھا کا اشارہ لوٹا دیا۔
  میں نے اُس دیومالائی کچے مکان کی  طرف  دیکھا جہاں میری  کل کائنات موجود تھی۔ جہاں ایک عورت  جھاڑیوں پر پھیلایا ہوا غالبا لحاف اُٹھا کر اند ر کی طرف بھاگ رہی تھی۔ میں نے شاہزیب اور زین کے ترلے منتیں کر کے انہیں  اس گھر کی طرف بھیجا۔ میں  انہیں اُس گھر کے اندر جاتے دیکھ رہا تھا کہ  اچانک مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھ پر پانی پھینکا ہو۔۔۔ ابھی میں آسمانِ ِلازوال کی اس ادا کو  سمجھنے کی کوشش  کرہی رہاتھاکہ اگلا چھڑکاؤ ہوا اور  پھر آسمان کا منہ کھل گیا۔یوں لگ رہا تھا کہ آسمان سے کوئی آبشار زمین پر آرہی ہو۔ہم بھاگے اس  ڈاک بنگلے کی طرف جس کے برآمدے میں کچھ سفید کرسیاں  پہلے سے ہی موجود تھیں۔  برفانی پانی کے ایک سے زیادہ  قطرے میری ہتھیلی کا حصارتوڑ کر  میری چائے میں پہنچ چکے تھے۔ ان قطروں کی وجہ سے بکری کے دودھ کی بساند ماند پڑ گئی اور یہ چائے میری زندگی کی لذیذ ترین چائے  کا رتبہ حاصل کر گئی۔
جمعہ خان بھی پہنچ چکا تھا۔
”بڑا مسئلہ ہو گیا سر۔۔“
کیوں کیا ہوا۔
”اترائی  ہے جی اور اوپر سے یہ بارش۔۔۔۔“
 میں نے اسے بتایا کہ بچے اس مکان میں گئے ہیں اب اس بارش میں تو وہ باہر  نہیں آسکتے۔ میری بات سن کر وہ خاموش ہو گیا۔  ایک دفعہ میں نے زین کو اس گھر کے دروازے سے باہر جھانکتے دیکھا تو میں  نےآنے کا اشارہ کیا مگر وہ مجھے آسمان  دیکھنے کا ہوائی مشورہ دے کر  اندرچلا گیا۔
”اُترائی سر۔۔۔۔‘‘
’’ یہ رکے گی۔۔۔ کب۔۔۔ ‘‘
’’پتہ نہیں۔“
 جمعہ خان   اپنے گالوں کے آخری حصہ تک نسوار ٹھونستے ہوئے خود سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ بہت کوشش کرکے اٹھتاا ور  سیمنٹ کی فرش سے خالی جگہ کو  اپنی تھوک  سے سبز کر دیتا۔
 عابد نے پوچھا۔
”یہاں رات کو بھی لوگ آتے ہیں  کیا۔“
”آتے ہیں جی بڑے بڑے سر پھرے ہیں۔“
” کوئی خطرہ۔“
”نہیں خطرہ تو نہیں میں نے تو اپنی جیپ پر بڑی فلیش لائیٹیں بھی لگائی ہوئی ہیں۔   لیکن کیچڑ میں۔۔ جی۔۔مشکل ہوتی  ہے۔۔۔۔  جیپ پھلستی ہے نا جی ۔۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ ایک بات ہے ناجی۔“
 ہاں یہ بات تو ہے۔  میرے اندر خوف کی بدلیاں اٹھنے لگیں، مجھے ڈر تھا کہ میرے اندر کا آسمان کہیں  ان سے بھر نہ جائے کیوں کہ اس حالت میں مجھے آدھے سر کا درد شروع ہوجاتاہے۔
 سب خاموش بیٹھے تھے جیسے سب کی باتیں ختم ہو گئی ہوں یا کسی کا بولنے کو جی ہی نہ کرتاہو۔ بس آنکھیں تھیں جو آسمان کی طرف تھیں۔۔۔۔شاہزیب ہوتا تو ضرور کہتا،
              لو جی ایک اور ٹوسٹ۔۔۔“
اچانک میرا موبائل بجنے لگا۔ عابدنے فوراً کہا۔
’’باجی کافون ہے انہیں کہیں کوئی چھتری لے کر آجائیں۔۔۔۔۔‘‘
 میں نے فقط اتنا کہا۔
’’۔۔۔ غلطیاں۔۔ الارم بجاہے چھ بجے کا۔۔‘‘
”چھ بج گئے ہیں لگتا تو نہیں۔ چھ کیسے بج گئے۔“
اُس نے اپنا موبائل نکال کرتصدیق کرنے کی کوشش کی۔
 ”ادھر ایسے ہی ہوتا ہے۔“
بارش نے سانس لی تو جمعہ خان  بھاگ کر گیا اور جیپ کو کسی نہ کسی طریقہ سے ڈاک بنگلے کے برآمدے میں لے آیا۔۔۔ اور پھر سب کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب تینوں ماں بیٹا اپنے میزبانوں کے ہمراہ دو چھتریاں تھامےجھاڑیوں کے ایک ڈھیر کے پیچھے سے برآمد ہوئے۔
سب جیپ میں بیٹھ گئے، خوش و خرم جیپ چلی  اورسب خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ ابھی اجالاتھا۔بارش تھم چکی تھی  مگر پھسلن تھی۔۔ میں بالکل پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔سامنے کا سارا منظر کافی حد تک واضح تھا۔۔۔۔۔ ابھی کوئی دس منٹ کا سفر طے کیا ہوگا کہ میں نےسامنے ایک جیپ کو  رکے دیکھا۔ جب قریب پہنچے تو سامنے تین مزید جیپوں کو کھڑے پایا۔ ان کے سامنے  ایک درخت اس طرح پڑا تھا جیسے کوئی سڑک پر لیٹ کر احتجاج کر رہا ہو۔  وہ جڑوں  سے اس طرح اکھڑا تھا کہ اُس کی جڑوں کے ساتھ آنے والی مٹی نے  وہاں ایک الگ پہاڑی بنا دی تھی۔
میں نے صورت حال دیکھ کر مسز سے پوچھا کہ  اُس گھر والے کیسے لوگ تھے۔ انہوں نے جواب دیا۔
’’ وہاں رات گزاری جا سکتی ہے۔‘‘
 یہ سننا تھا کہ میرے قلب پر بنی خوف کی سب لکیریں یک لخت مٹ گئیں۔۔ مگر اُن کے پیچھے نشانات بہت سے عجیب و غریب سوالات کی شکل میں موجود تھے۔
 ڈرائیوروں کی مجلس شوری کا اجلاس جاری تھا۔ پھرکچھ فیصلہ ہوا اور درخت کو رسے ڈالے جانے لگے۔مجھے لگا کہ بس اب چند ہی منٹوں میں درخت اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا اور ہم اپنے سفر پر گامزن ہو جائیں گے۔
”اس کی جڑوں کی طرف ڈالیں۔  وہاں تھوڑا سا کھسکالیں تو جیپ گزرنے کا راستہ بن سکتا ہے۔“
 عابد نےجیپ میں بیٹھے بیٹھے اپنے تجربے کی ر وشنی میں  رائے کا اظہار کیا۔ زین  اور شاہزیب بھی بحث میں شامل ہو گئے۔
 چیپ کی چھت پر ابھی بھی ٹپ ٹپ جاری تھی۔ جو شاید پیڑوں کے پتوں پر رکے بارش کے قطرے تھے۔ جنہیں  پتے دھتکار دیتے تو وہ گر کر احتجاج کرتے۔
رسوں کا ایک سرادرخت کے ساتھ باندھا گیا دوسرا جیپ کے ساتھ۔  سب کے اطمینان کے بعد جیپ  اسٹارٹ ہوئی، گھاں گھاں کرتی جیپ ہلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن  بندھی ہوئی بلکہ جکڑی ہوئی جیپ کیسے ہل پاتی۔ ڈارئیور نے  پھر کچھ کیا کہ جیپ اپنا سر اٹھااٹھا  کر پٹخنے لگی۔  اُس کا اگلا حصہ فضا میں بلند ہوتا اور زور سے زمین پر گرتا۔ مجھے   اپنے بچپن میں دیکھی ہوئی گدھا گاڑی  یاد آ گئی۔ شدتِ وزن کی وجہ سے  ریڑھی کا پچھلا حصہ زمین کے ساتھ لگ جاتا اور سامنے گدھا فضا میں  معلق ہو جاتا۔ ہم لٹکے ہوئے گدھے کا سکون دیکھ کر لطف اُٹھاتے۔ گاؤں میں  کئی دفعہ ایساہوا کہ  بھوکی بھینس کو چارہ دینے والا  ابھی چارہ  بنا ہی رہا ہوتا تھا کہ بھینس  اپنی گردن میں بندھی ہوئی رسی یا لوہے کی زنجیر تڑوا کر اس سے پہلے ہی چارے والی جگہ پہنچ جاتی۔ اسے کہتے تھے۔ ”رسا تڑوانا“ جیپ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ اوپر اچھلی  منہ پٹکا اور رسا کئی حصوں میں بٹ گیا۔
پتہ نہیں ہماری قوم اپنا رسا تڑوا کر اپنی غصب کی ہوئی دولت پر کب جھپٹے گی۔
 پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے سارے ڈرائیور ایک دوسرے کو کوسنےلگے۔ جمعہ  خان   بھاگتا ہو اجیپ کی طرف آیا۔
 ”اتریں جی رسی نکالنا ہے۔۔۔ بات ہےنا جی۔۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔“
اب رسیوں کو رسے بنایا گیا اور دو جیپیں لگاکر درخت کو کھینچنے کی کوشش کی  گئی مگر جیپیں  آگے سے آسمان کی طرف منہ اُٹھانے کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔  سب ایک دوسرے سے جھگڑ رہےتھے۔ جمعہ  خان   ایک کونے میں نسوار کی خالی تھیلی پکڑے  کھڑا تھا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ اُسے اپنی رسی کے کام نہ آنے کا  دکھ تھا یا نسوار کے ختم ہونے کا۔
 خوف کے نشانات دوبارہ لکیریں بنانے لگے۔۔۔۔  جب میرے موبائل نے آٹھ بجائے تو۔۔۔ میری جان ہی نکل گئی۔۔لیکن امید کی کرن تھی  وہ گھر جو دور کہرے اور اندھیرے میں ڈوباہو اتھا۔۔۔
 ہم میں سےکچھ جیپ سے باہر کچھ اندر سردی سے کانپ رہے تھے کچھ کے ناک بہہ رہے تھے۔ میں اپنی جیکٹ کے نیچے پہنا ہوا سویٹر اتار کر زین کودے چکا تھا۔
آج مجھے اپنے دوست کے ابا بہت یاد آرہے تھے جنہوں نے مجھے ایک دفعہ ایک  گرم کھیس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی باہر جائیں تو موسم کے مطابق کوئی کپڑا ضرور لے کر جائیں۔ دھوپ ہوگئی تو دھوپ سے بچو گے اور اگر سردی ہوگی تو سردی سے۔ میں نے  وہ رات ساہیوال کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں گزاری تھی۔ اس وقت میرا سہارا وہ کھیس تھا۔ مگر آج تو کسی کے پاس کوئی کھیس بھی نہیں تھا۔
سردی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا سگریٹ،  جسے پینے کے لئے مجھے بچوں کے ڈر کی وجہ سے جیپ سے کچھ دور جانا پڑتا۔ اب کے عابد بھی میری طرف تھا۔
 اوپرآسمان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ البتہ جب ہوا  تیز ہوتی تو درختوں کے پتوں پر بیٹھے ستارے جھانکنے  لگتے۔   ایک کونے میں کچھ روشنی دکھائی دی۔ میں نے اور عابد نے دختوں کے پتوں کی ایک جھالر اُٹھا کر جھانکا تو  ہمیں دور بہت دورروشنیاں ہی روشنیاں دکھائی دیں۔۔۔ جھومتی، لہراتی۔۔۔ ہنستی مسکراتی روشنیاں۔۔۔ شوگران کے ہوٹلوں کے  قمقموں کی روشنیاں۔۔۔۔۔
 ایک طرف آسمان  ایک پہاڑی کو چھورہا تھا۔  مجھے لگا جیسے آسمان  ہمارے نیچے ہے۔ مجھے اپنے بچپن کے کوئٹہ کے سفر یاد آ گئے جب ہم رات کے وقت ریل میں   دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد  سکھر کے شہر کے قریب سے گذرتے تو شہر کے جھلملاتے  قمقمے بہت بھاتے تھے۔
میں اور آگے بڑھا۔۔ عابد بولے کیا کر رہے ہیں بھائی جان۔۔ میں نے’آجاؤ کہا‘ اور  چند قدم آگے بڑھ گیا۔ ایک کھلی جگہ  پر آسمان  کا ایک منظرمیرا منتظر تھا۔ جس کے ہونے کو بھانپ کر میں  وہاں گیا تھا۔
 دیکھا کہ ایک نیلگوں اور سرمئی سی چادر   اور اس پر مکیش کا چھڑکاؤ۔۔۔۔ جھلملا رہا تھا۔
 ایک دفعہ میں نے انار کلی سے ایسی ہی ایک نیلے رنگ کی چادر خریدی تھی جس پر مکیش کا چڑکاؤ کیا گیاتھا۔ اور اندر سلور رنگ کے ستارے لگائے  گئےتھے۔ دکان کی تیز روشنیوں میں وہ جھلمل جھلمل کر رہی تھی۔  اس گوشے سے بھی ایسی ہی چادردکھائی دے رہی تھی۔ چاند چودھویں کا تو نہ تھا لیکن دسویں یا بارہویں کا ضرور ہو گا۔  اُس کی روشنی نے اپنے پاس کے ستاروں کو تو ماند کر دیا تھالیکن  سلیٹی بادلوں کو نمایاں کررکھا تھا۔ میں نے بچوں کو بھی بلاکر یہ منظر دکھایا۔۔ زین نے اایک دفعہ تو اچھل کر کہا۔
”پاپا!  اگر ہم وہاں چلے جائیں تو ہم ان ستاروں کو چھو سکتے ہیں۔ میں نے کہا ستاروں کے پیچھے نہیں جاتے بچے۔  جو ان کے پیچھے گیا واپس نہ آیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
 پتہ نہیں اسے میری بات سمجھ آئی کہ نہیں۔  لیکن شاہزیب  نے فورا ً کہا۔
’’تو پھر ایک اور ٹوسٹ آجائے گا۔ ‘‘
 جمعہ  خان  کی آواز نے ہمیں  اس منظر اور خوش گپیوں سے کھینچ کر باہر نکالا۔۔۔۔ جیپوں کی گھاں گھاں شروع ہوئی۔۔۔ ہماری جیپ درخت کی شاخوں کے اوپر سے گذر رہی تھی۔۔۔
’’ارے یہ ہمیں چھوڑ جائے گا کیا۔‘‘
کسی نے  رینگتی جیپ کو کچھ دور تک جاتے دیکھ کر کہا تھا۔
  درخت پار کرنے کے بعد وہ رک گئی، ہم اس میں بیٹھے اور جیپ چل پڑی۔
”خنزیر کا بچہ۔۔۔ اگر پہلے بات مان جاتا تو اتنا خواری نہ ہوتا۔۔۔۔۔“
 ”چلو شکر ہے رستہ تو بنا۔“
”ہاں جی  اگر وہ ٹریکر نہ ہوتے تو ہم پھنس گئے تھے۔“
”کراچی کے کچھ لڑکے آئے ہیں جی رات ادھر رکیں گے ۔صبح مکڑاکی طرف چلیں گے، ان کی رسیاں کام آگئیں ورنہ کب  ٹریکٹر آتا اور کب نکلتے۔۔۔۔“
”یار ایسے موقع پر کیا کرتے ہیں۔۔“
”کیا کرنا جی۔۔ جیپ کو ادھر ڈالتے ہیں، کسی جیپ کا انتظار کرتے ہیں، مل گئی تو اچھا  نہ ملی تو خود  کو ادھر جنگل میں گراتا ہے اور پیدل  شوگران۔۔۔۔“
”اُف پیدل جنگل میں سے وہ بھی رات کو۔۔“
 زین نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
 ”ادھر رہنے والا ہر کوئی بارش میں برف باری میں  یا رات میں  بس چل پڑتا ہے  وہ اگر یہ سب کچھ نہ کرے تو  جئے کیسے۔ بات ہے نا جی۔“
”مگر یہاں تو لوگ رہتے نہیں  سنا ہے برف باری میں نیچے چلے جاتے ہیں۔“
 ”ہاں جی مگر اسی طرح کےعلاقہ کے لوگ ہیں اِدھر کے نہیں تو اُدھر کے۔۔۔ بات ہے ناجی۔“
”دیکھیں ناجی اگر اب جیپ خراب ہوجائے تو ہم کیاکرے گا۔۔۔ یا تو رضائی لے کر اسی میں پڑارہے یا اوڑھ کر نکل پڑے۔ بات ہے ناجی۔“
”مگر سب تو نہیں کر سکتے نا۔۔“
 ”تو کس نے کہا رات تک جنگل میں بھٹکیں جلدی چلے جلدی واپس آئے۔۔۔۔ سر پر پڑی ہو توکچھ نہ کچھ توکرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ ایک بات ہے ناجی۔“
 ”ہاں بات ہی توہے۔۔۔“
 ہم سب خاموش تھے۔ جیپ کیچڑسے الجھ رہی تھی۔ اس میں اس طرح کی آوازیں آرہی تھیں جیسے ٹین کے ڈبے میں  لوہے کی بہت سی چیزیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں،جھگڑ رہی ہوں۔  جیپ کے ٹائروں سے اٹھنے والی بساند نے ہماری سانسوں  تک کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔
”بریک ڈسکس تو رہ جاتی ہوں گی۔“
”ہاں جی ہر سیزن میں انجن کروانا پڑتا ہے۔“
جیپ جب بھی رکنے کے لئے سانس لیتی   تو ہم سمجھتے خراب ہوگئی ۔۔ اور ہمارے دماغ میں جنگل میں چلنا آجاتا۔ جب جیپ رکتی تو لگتا تھا سب کچھ رک گیا، خاموشی اور اس خاموشی میں  جنگل اور جنگل میں  خشک گھاس کی کرچ کرچ کسی کے ہونے کو ظاہر کر رہی تھی۔ اس علاقہ میں ہر طرح کا جانورپایا جاتا ہے۔ ریچھ، بھیڑئے تو اکثر یہاں آ نکلتے ہیں جمعہ  خان  ۔    کی باتوں کا یہ اثر ہوا کہ ہم تیار تھے۔ سب اپنے اپنے طور پر سوچ چکے تھے کہ کیا کرنا ہے۔ ہم میں سے ایک آگے چلے  گا جمعہ  خان  کے پیچھے پیچھے، وہ راستہ بنائے گا۔
 ہم ایک موڑ مڑے اور ہمارے سامنے قمقموں کا جہاں تھا۔ شوگران۔
 کچھ لوگ اجنبی ہوتے ہیں مگر  کچھ ہی دیر میں وہ اپنے بن جاتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ دراصل یہ لوگ عالمِ ارواح میں ہمارے ساتھ رہے ہوتے ہیں۔ جمعہ  خان  کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ناطہ بن گیا تھا۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔۔۔سب سے چھوٹی دوسال کی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ جب بھی شوگران آتا ہے تو اپنی اُس بیٹی کی وجہ سے رات کو واپس بالاکوٹ اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ اُس کا نام تو زرینہ تھا لیکن اُسے وہ  ’روح‘ کہتا تھا۔ ہم نے جب پوچھا کہ روح کس طرح۔ تو اُس نے بتایا جب میں گھر واپس جاتاہوں چاہئے رات کے تین بجے ہوں  میرے گھر کے دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ جاگ جاتی ہے۔ پھر میرے سینے پر سر رکھ کر سو جاتی ہے۔
بیٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں
اپنی سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں
فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسول
محترم بیٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں
اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں
(منظر بھوپالی)