Sunday, September 30, 2018

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ تیسری قسط


صدائے  سیف الملوک                                                                                    وارث اقبال                                        

 نانی کی کتابوں  میں  میاں محمد بخش  کی  لکھی  ہوئی ایک کہانی   ’ سفر العشق‘   بھی تھی ۔ عرف عام میں   جسے’سیف الملوک ‘  بھی کہا جاتا ہے۔ نانی اماں کو اس کتاب کا کافی  حصہ زبانی یاد تھا۔ مجھے  ان کا سنا ہوا  کافی عرصے تک یاد رہا مگر آہستہ  آہستہ ذہن کی دہلیز سے نکل کر کہیں  گم ہو گیاالبتہ کچھ آثار   چھوڑ گیا ۔ جن میں یہ شعر  بھی شامل تھے۔

دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضی سنگی نالوں بہتر  یار اکیلے
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری
یار ملن دکھ جان ہزارہں شکر کراں لکھ واری
ترجمہ:  دنیا میں جو دکھ سکھ میں کام نہ آئے،  اس بے فیضی دوست سے بہتر ہے کہ ہم اکیلے ہی رہیں۔  دوستوں کے بغیر باغ بہار اور گلزار کا کوئی فائدہ نہیں۔  یار مل جائے تو دکھ درد دور ہوجاتے ہیں اور میں ہزارہا شکر  اداکرتا ہوں۔
میرے لئے اس کہانی میں دو باتیں باعث کشش تھیں کہ سیف الملوک نے ملکہ خاتون کو اپنی جان پر کھیل کر ایک زور آور جن کی قید سے نجات دلائی تھی۔
   دوسری وجہ کشش تھی جھیل سیف الملوک۔ جس پر پریاں اترتی ہیں۔   
زندگی خود سکھاتی ہے اور خود ہی رہناماں جی کرتی ہے۔ جوں جوں زندگی کا پودا پھلتا پھولتا گیا۔ جھیل سیف الملوک کے بارے میں معلومات اور کہانیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں  ہمارے اندرجھیل سیف الملوک ہی نہیں اُس پر اُترنے والی پریوں کو دیکھنے کا مقصد بھی تقویت پکڑتا چلاگیا۔ جب بھی کوئی دوست یا آشنا جھیل سیف الملوک کی سیر کر کے آتا تو میں اُس سے اس جھیل سے متعلق کہانیاں  اور باتیں  ضرور سنتا تھا۔ یوں میرے دماغ کی تجوری میں  جھیل سیف الملوک  کی شبیہوں کا ایک خزانہ جمع ہو گیا۔             خزانہ موجود ہو تو صاحبِ خزانہ کیسے پرسکون رہ سکتا ہے، اُسے  کیسےقرارنصیب ہو سکتا ہے۔   یہ خزانہ خود تازیانہ بن گیا اور میرے شوق کا گھوڑا آگے بڑھتا چلا گیا لیکن افسوس منزل نصیب نہ ہوئی۔ جھیل       سیف الملوک کی پریوں سے ملاقات  تو  دور کی بات  تھی وہاں جانےکا خواب  تک حقیقت نہ بن سکا۔ کبھی تعلیمی مصروفیات، کبھی روزگارِ حیات، کبھی صحت اور کبھی کوئی اور مسئلہ میرے اس خواب کی تعبیر کے راستے میں رکاوٹ بنتا رہا۔                                بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ شوق، جذبہ اورولولہ موجودہو تو اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ جب چاہت حیات کے پیمانہ پر ایک خاص نقطہ عبور کرتی ہے تو خواہش، چاہت یا خیال وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی شائید یہی کچھ ہوا۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ ا س سال ہم موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جھیل سیف الملوک ضرور جائیں گے۔ بس پھر کیا تھا حالات بنتے چلےگئے اور وہ دن آ ہی گیاجس دن ہم اپنی گاڑی پر اسبابِ ضروری لاد کر گھر سے نکل پڑے۔ منزل تھی جھیل سیف الملوک اور اس کے اردگرد پریوں کی تلاش۔ پھر قدم جھیل سیف الملوک تک نہ رکے آگے بڑھتے گئے۔ کبھی دریائے سندھ کے دشوار راستوں پر، کبھی کشمیر کی وادیوں میں کبھی ہنزہ اور گلگت کے دریاؤں پر اور کبھی دیوسائی کے میدانوں میں۔ ہر پری نئی منزلوں کا پتہ دیتی رہی اور ہمارا سفر ختم نہ ہوا ، اب تک جاری ہے۔

______________________
  
سڑکوں کی شہزادی                                                                                                                            وارث اقبال

 جماعت ہشتم میں میرا ایک دوست  اشتیاق ہوا کرتا تھا۔ ایسا پیارا کہ  اُسے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ بھی ملنے کا اشتیاق ہوتا۔ سر تا پا  پورے کا پورا   سرخ و سفید اور گلابی   کشمیری۔
اللہ اُسے زندگی دے، اُس کے ابا کا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ جب بھی ان کے شوروم میں  کوئی نئی گاڑی آتی تو وہ ہمیں  گاڑی کے اوصافِ حمیدہ اس طرح بتاتا تھا کہ ہم  اُس گاڑی کو  آسمانی گاڑی سمجھ لیتے۔
 ”کل میں نے اسپورٹس چلائی،کیا شہزادی گاڑی ہے۔ کل میں نے نسان چلائی کیا شہزادی گاڑی ہے۔“
اشتیاق  گاڑی چلاتا تھا یا نہیں و اللہ عالم   لیکن وہ ہمیں اُس سانپ دکھانے والے کی طرح الجھا ضرور دیا  کرتاتھا۔ جو سانپ کا تماشا دکھاتے ہوئے ہر پانچ منٹ بعد لو گوں کویہ نوید سناتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمیں سنہری سانپ کی دید کا موقع ملے گا۔ اس دوران وہ اپنی ادویات کے فائدے گنواتا رہتا۔               اُس وقت ہمیں ان ادویات کی اہمیت و افادیت کا کچھ خاص اندازہ نہ ہوتا تاہم بہت سے سوالات ہمارے دماغ میں کھلبلی مچاتے رہتے جن کے ہمیں جواب نہیں ملتے۔  افسوس تو یہ ہے کہ  اب جا کر جب اُن سوالات کے جوابات  ملے تووہ سانپ والا نہیں ملتا۔ پتہ نہیں بڑی بڑی سڑکیں اُسے کھا گئیں یا پھر وہ ٹیکنالوجی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
   اشتیا ق سچ کہتا تھا یا جھوٹ لیکن  حقیقت  تو یہ ہے کہ اُس نے ہمیں خیالوں ہی خیالوں میں گاڑی چلانا سکھا دیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں پریوں اورشہزادیوں کو دیکھنے کے شوق کاٹیکا بھی لگا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے پہلے سال ہی ہمیں اپنے انگریزی کے سر سے یہ لیکچر سننے کو ملا۔
” ان شہزادیوں کے پیچھے مت بھاگاکرواپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ یہ خود تمہارے پیچھے آئیں۔“
 سر نے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا لیکن نہ ہم کسی قابل ہوئے نہ شہزادیاں ہمارے پیچھے آئیں۔ 
میں جب بھی موٹر وے پر پہنچتا ہوں تو مجھے اشتیاق ضرور یاد آجاتا ہے۔ اس سڑک پر آ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے،                            
                  ”واہ!کیا  شہزادی سڑک ہے۔“
اس شہزادی سڑک پر آ کر اشتیاق  کے علاوہ  مجھے دو اور شخص  یاد آتے ہیں، ایک ہمارے مہربان  نواز شریف صاحب اور دوسرا شیرشاہ سُوری۔            کہاجاتا ہے کہ شیرشاہ سُوری نے جب جی ٹی روڈ بنائی تو سب سے پہلے  اُسے محفوظ بنانے کے انتظامات کئے، پھراُس نے مسافروں کے لئے جائے قیام و طعام وغیرہ کو ممکن بنایا۔  یہی خصوصیات ہمیں موٹر وے میں ملتی ہیں۔   مجھے وہ بڑھیا بھی یاد آتی جو  زیورات کی گٹھڑی لے کر ہند کے ایک کونے سے دوسرے کونے  تک سفر کرتی اور کوئی اُ س کی طرف آنکھ  تک اُٹھا کر نہیں  دیکھتا تھا۔ نہ اب وہ بڑھیا رہی  نہ زیورات کی گٹھڑی۔ہاں ہیں تو تجوریاں ۔۔وہ بھی یہاں نہیں   دیارِ غیر کے بنکوں میں ۔
  جب گاڑی کے ٹائر اپنی اس میزبان سڑک  کے لبوں کو چومتے ہیں تومسافر کو تحفظ، امن، قانون کی حکمرانی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سے اطمینان کابھی احساس ہونے لگتاہے۔     مجھ جیسوں کو یہ احساس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ استعمال کی سڑکوں سے اُکتائے اور بیزار ہوتے ہیں۔ چلیں  پورے ملک تک نہ سہی موٹر وے کی حد تک سہی۔ کہیں تو  سکون   ، امن اور تحفظ ہے۔
          بقول محترم نواز شریف موٹر وے اُ س جی ٹی روڑ پر بنائی گئی ہے جو شیر شاہ سور ی نے بنوائی تھی۔
(’ غدار کون  ‘ از سہیل وڑائچ)
گویا کہ ایک بے حال موٹر وے کو بحال کیا گیا ہے۔ میری تحقیق بھی یہی کہتی ہے کہ اصل  ’ گرینڈ ٹرنک روڈ ‘  یہیں کہیں تھی۔  جہاں اب موجودہ موٹر وے ہے۔                                 اندرون ملک سڑکوں اور گلیوں کاڈسا جب اس سڑک پر آتا ہے تو اُسے کچھ دیر کے لئے یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے وطنِ عزیز کی سرزمین ِ پاک پر موجود ہے۔  دراصل اُسے پاکستان میں رہتے ہوئے کسی بین الاقوامی معیار کے حامل اور کرپشن فری ادارے کا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ جب  تجربہ ہوتا ہے تو  یقین بھی آجاتا ہے اور جب یقین آتا ہے تو پھر واہ واہ کر اُٹھتا ہے،  
” واہ کیا پاکستانی ہیں۔۔۔۔ چاہیں تو کیمیائی مود ملا کر دودھ بڑھا لیں اور چاہیں تو سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کرموٹر وے بنادیں۔“ 
   جہاں تک اس سڑک پر آنے والے مسافروں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر تو شانِ قدرت یاد آجاتی ہے۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی قانون کی پاسدار ی نہ کی ہو وہ بھی یہاں آ کر ایساپاسدارِ قانون بن جاتا ہے جیسے ابھی دودھ سے دُھل کر آیا ہو۔ 
میں تو خواب دیکھنے والا شخص ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے کہ مالک ِ کائنات  اس پاک دھرتی  پر کسی ایسے ماں کے لعل کو اختیار کُل کا مالک بنادے کہ جو یا تو اس دھرتی پر بسنے والے ہر فرد کو گاڑی دے دے یا  پھرگاڑیوں پر پابندی لگا دے۔ اور   موٹر وے پر تو بس سائیکل کو ہی آنے کی اجازت  ہو۔ کیسے کیسے سائیکل وجود   میں آئیں ۔  بتیاں اشارے، ہارن سب صحت مند اور اعلیٰ تہذیب یافتہ۔ سائیکل سوار ہیلمنٹ پہنے پیٹی کسے سائیکل پر بیٹھا ہو۔  شہروں میں وہ لوگ جو سائیکل کی استطاعت نہ رکھتے ہوں لیکن سائیکل کی سواری  کےخواہش مند ہوں ایک خصوصی ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے سائیکل ٹیکسی منگوائیں اور مزے اُڑائیں۔ نہ دھواں نہ دھول، نہ غلاظت نہ شور۔ ہاں قانون کے رکھوالے پھر بھی چالان کرتے نظر آئیں گے۔ کسی کی سائیکل کا سب کچھ ٹھیک ہے تو چین ڈھیلی کیوں ہے؟ اور نہیں تو پیچھے بیٹھی بیگم کو ہیلمنٹ کیوں نہیں پہنایا۔ اورشاید سائیکل پرورحکمران سائیکل ہوتا ہے یا ہوتی کا  لسانی مسئلہ بھی حل کر دے۔
 میں سڑک پر نظریں جمائے اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ لگتا تھا جیسے ہماری گاڑی سلیٹی رنگ کے ایک دریا میں تیرتی جارہی  تھی۔ اس دریا کے کناروں پر اُگے ہوئے درخت ہر ساعت ایک نیا رنگ اور  نیا روپ اختیار کر رہے تھے ۔ کھیت ہر موڑ پر نیا لباس زیبِ تن کررہے تھے۔
 بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سٹرک کی لمبائی چھ سو انہتر کلو میٹر ہے اور یہ ایشیا کی پہلی موٹر وے ہے۔ اس سڑک کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں کچھ ایسے خطرناک نقص ہیں جنہیں پوری دنیا کے انجینئرز ٹھیک نہیں کرپائے لیکن داد طلب ہیں پاکستانی  انجینئرز جنہوں نے اس سڑک کو بے خطر بنارکھاہے۔ اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں اسے جنگجو طیاروں کے رن وے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

______________________ 



چپس کی چر چر                                                                                                                                     وارث اقبال

میرے دو عدد برخورداروں، شاہ زیب اور زین نے حسبِ عادت ٹول پلازہ عبور کرتے ہی اپنی پسند کا میوزک  ’ آن ‘  کر دیا۔  کچھ ہی دیر میں مجھے شک ہونے لگا کہ انہوں نے اس دفعہ بھی ہم میاں بیوی  کےساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ میوزک کی تیاری کا کام اپنے ذمہ لے کر   ’ یو ایس پی ڈرائیو ‘  میں اپنی پسند کا سارا میوزک بھر رکھا ہے۔               اس ناانصافی کے باوجود                                  نا جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ انہوں نے ہمارا حصہ ضرور رکھا ہوگا چاہے آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔  جس ملک میں انصاف نا م کی شے  دیکھنے کو نہ ملے وہاں اگر بچوں کے ہاتھوں  آٹے میں نمک کے برابر  ہی انصاف مل جائے تو شکر الحمداللہ۔ اس لئیے میں اُس لمحے کا انتظار کرنے لگا   جب آٹے میں سے نمک برآمد ہو گا۔  لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے اُس لمحے کا بس انتظار ہی رہا۔ بھلا  کبھی آٹے کے نشیمن میں جا کر نمک  واپس لوٹاہے کیا جو اس دفعہ  لوٹ آتا۔  چنانچہ میں بے میوزک ہی سڑک کے کنارے درختوں کے بدلتے رنگوں کی ہیت اور ترتیب پر غور کرتا رہا۔
            موٹر وے کے ارد گرد  بسے دیہات، اُن کے گھر، گھروں میں بندھے جانور، جانوروں کی گردنوں میں لٹکے لوہے کے زیورات، گھروں کے باہر پھیلے سر سبز کھیت اور ان کی شادابی  سب کسی جادوگر کی طرح مسافر کو اپنے سحر میں قید کر لیتے ہیں۔ یوں موٹر وے ایک ایسی  میزبان سڑک کے طور پر  ابھر کر سامنے آتی ہے جو اپنے رنگ بدل بدل کر اپنے مہمان کو  اُکتاہٹ اور بیزاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔  یہ چلتے چلتے کہیں سے اونچی ہو جاتی ہے تو کہیں سے نیچی، کہیں سے چھوٹی سڑکوں پر چڑھائی کرتی ہے تو کہیں   نہروں دریاؤں کو مسخر کرتی ہے، کہیں ٹہرے پانی کی طرح ہو جاتی ہے تو کہیں بپھرے دریا کی طرح چھلانگیں لگا محسوس ہوتی  ہے۔ اگر اس کا مہمان ذرا سی بھی جمالیاتی حسں رکھتا ہو تو وہ اپنے دماغ کو اس سڑک کے ارد گرد بدلتے رنگوں اور مناظر سے ترو تازہ  کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 میری مسز فیس بک پر مصروف تھیں۔ آج انہوں نے فیس بک کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنے اُن اُن دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی پوسٹس بھیج رہی تھیں  جنہیں انہوں نے ہمیشہ اپنی پوسٹس سے محروم رکھا تھا۔
 ہماری گاڑی میں پانچویں سوار تھے عابد جنہیں گاڑی چلانے کا اعزاز حاصل تھا۔  یعنی وہ ہاٹ سیٹ پر براجمان تھے۔  سورج انتہائی ڈھٹائی  کے ساتھ  ہم پر اپنی  نامہربانیاں نچھاور کر رہا تھا۔ ۔ عابد اے سی سے مسلسل  اٹکھیلیاں  کررہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اس اے سی کے بچے سے بھرپور  اور یکساں فائد اُٹھا سکے۔ ٹشو پیپر زسے    اپنے گالوں کو بار بار صاف کرنا اور دھوپ کی عینک کو  ناک کی نوک سے اٹھا کر  ناک کے ستواں  حصے پر ٹکانے کی کوشش کرنا ان  کے محبوب مشاغل  تھے۔   اس دوران ٹشو پیپر کی  مکار رگڑ  کی وجہ سے ان کےگالوں  پر سورج کی چٹکیوں کے گلابی نشان مزید نمایاں ہو  جاتے۔ کبھی کبھی اپنی نشست کی ایڈجسمنٹ بھی کرتے تاکہ بھائی جان سے سنیں،
”عابد میرا خیال ہے کہیں رک جائیں۔“                         
میرا جواب نہ پاکر وہ سر پر ہاتھ پھیرتے اور اپنے  بے بال سر کی ملائمت سے لطف اٹھاتے۔
     شاہ زیب اور زین  اپنی خوراک چٹ کرنے کے بعد اس خوراک پر بھی ہاتھ صاف کر نے میں مصروف تھے جو انہوں نے  ہمارے نام سے خریدی تھی ۔ پیپسی کے کھلنے کی آوازوں اور چپس کے چرنے کی آوازیں بے مزا اور بے کیف موسیقی میں اپنا ہی رنگ گھول رہی تھیں۔  
میں نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کیں تو مجھے یوں لگا  کہ جیسے میں افریقہ کے کسی خاندان کے رئیس کی بیٹی کی تقریبِ حنا میں موجود ہوں جہاں نہ بولیاں سمجھ آتی ہیں نہ موسیقی، اور سچ پوچھیں تو حرکات بھی۔ پر فیومز اورکار فریشنرز کی خوشبو میں چپس اور پیپسی کی خوشبوئیں تقریبِ رسمِ حنا میں افریقنوں کے بدنوں سے اُٹھنے والی بُو یا پھر مقامی پرفیومز کی بُو میں بدل گئی تھیں۔                      میں آنکھیں بند کئے اس رسمِ حنا کے مزے لُوٹ رہا تھا کہ اچانک دھوپ کاایک گولہ میری آنکھوں کے بیرونی پردوں کو چیرتے ہوئے میری آنکھوں کی گہرائیوں میں اُتر گیا۔  میں نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو  میری مسز  اپنی طرف والی کھڑکی کی بلائینڈ درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ یوں وہ نادانستہ طور پر مجھے اس تقریبِ حنا سے باہر لے آئیں۔ ویسے بھی وہ دل میں بستی ہیں ہو سکتا ہے کہ دل کا حال جان لیاہو اور بلائینڈ ہٹا نے کے بہانے مجھے اُس تقریب سے باہر نکالنامقصود ہو۔ 
میں نے اپنی دو کی دو آنکھیں وا کیں اور ایک معصوم سی نگڑائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ اُ ف کیا خوبصورت خواب تھا۔۔۔۔بیڑا غرق کر دیا۔‘‘                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     ’’ تو کس نے روکا ہے  دوبارہ دیکھ لیں ۔وہ نہیں تو اُس جیسا کوئی اور سہی۔‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ میں  تھامے ہوئےبچے کچھے ادھورے سے چپس کے ٹکڑے کو اپنے دانتوں کی نذر کرتے ہوئے  کہا۔ مجھے لگا جیسے اس حملہ کا  اصل ہدف میں تھا لیکن راستے میں وہ نالائق چپس کا ٹکڑا آگیا اور مارا گیا۔ 
ایک نایاب تصویر ہو تم
میرے خوابوں کی تعبیر ہو تم
میری روح میں شامل ہو تم
اس سفر کی منزل ہو تم
میرے دامن میں پیار ہو تم
پاک دل معصوم سا اعتبار ہو تم
میرے نظر میں میری دیوانی ہو تم
______________________

علی میر کی مکمل کہانی



علی میر۔۔۔۔۔ایک بلتی کہانی                                                               وارث اقبال

گلگت  بلتستان کے مضافات سے گزرتے ہوئے مجھے ایک بلتی لوک داستان ملی جو یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
 چودھویں کا چاند  مٹھیاں بھر بھر کر اپنی  تابانیاں زمین پر  بکھیر رہا تھا۔  رگیلمو کھر اوررگیلفو کھر نام کے دو جڑواں محلات کے باہر   چربی کے تیل سے روشن مشعلوں نے  ایسی روشنی پھیلارکھی تھی کہ   چہرے کے مسام  تک  دکھتے تھے۔ دوسری طرف محلات کے جھروکوں سے نکلنے والی روشنی پھلجھڑیوں کی ماننددور تک اُجالے بکھیر تی  تھی۔بلتی لباس میں ملبوس ایک ہجوم آپس کی خوش گپیوں میں مشغول تھا۔ یہ ہجوم گلگت بلتستان کے  دوردراز علاقوں سے یہاں سنونپو ہلتانمو کے تہوار میں شرکت کے لئے جمع ہوا تھا۔
 کچھ ہی دیر پہلے  پولو کے مقابلےختم  ہوئے تھے۔  ایک محل کے مخصوص حصےکے جھرکوں اور چھتوں پر  کمخواب واِطلس کے لباس میں ملبوس شہزادیا ں اور رؤسا کی خواتین حشر برپاکرتی تھیں۔مشعلوں کی روشنی میں ان کے گال انگاروں کی ماننددھکتے تھے۔دل والوں کے سر ناچاہتے ہوئے بھی ان جھرکوں کی طرف اُٹھ جاتے۔
  ریاستوں کے رؤسا اور شرفا  کی ایک بڑی تعداد اپنے راجہ کے ساتھ  علی میر کےرقص  کا انتظار کر رہے تھے۔ علی میر کوئی عام راص نہیں تھی ۔۔۔ اُ سکے بدن میں تو گویا بجلیاں بھری تھیں۔۔۔۔جب وہ رقص کرتا تو مرد و زن اپنا دل تھام لیتے تھے۔  علی میر کے رقص کے بغیر یہ تہوار نامکمل تھا اور جسے دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے  یوں چلے آتے تھے جیسے چیونٹیاں شیرینی پر چلی آتی ہیں۔
علی  میر بلتی لباس زیب تن کئے،  سر پر بلتی ٹوپی سجائے، ایک شان اور آن کے ساتھ اس جوش اور ولولے کے ساتھ پنڈال میں داخل ہوا کہ بس کچھ ہی دیر میں اپنے فن سےبرف میں  آ گ لگا دے گا۔۔ سازندے اپنے ساز سیدھے کر کے بیٹھ گئے۔  اُس نے آتے ہی اپنے راجاؤں کی شان میں  قصیدے پیش کئے اور پھر رقص شروع ہوا۔ جوں جوں وقت بیتتا جاتا تھا اُس کے رقص میں بے قراری اور مستی بڑھتی جا تی تھی ۔ اُس کا انگ انگ ماہی بے آب  کی طرح تڑپ رہا تھا ۔ جھروکوں کی طرف سے آنے والی روشنی جب اُس کے گالوں پر پڑتی تو وہ دھکتے انگارے بن جاتے۔ جب وہ محلوں کے جھروکوں  کی طرف دیکھتا تو اُس کی مستی بڑھ جاتی اور پھر وہ  کوئی دیومالائی کردار بن جاتا۔ انسان میں اس طرح کی دیوانگی  اور جنون اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ کسی خاص منزل کاتعین کر بیٹھتا ہے۔ اور اُسے پانے کے لئے  تڑپتا جھرنا بن جاتا ہے۔ کسی گلشئیر کی طرح وہ خاموش بھی ہوتا ہے مگر اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ چلتی رہتی ہے۔۔۔ کسی گلیشئیر کی طرح۔ علی میر کی منزل  ان خوابیدہ جھرکوں میں سےایک  میں موجود تھی۔ اُس کی منگیتر، اُس کا عشق، اُس کی دیوانگی اور اُس کا جنون۔۔۔۔نمبردار کی بیٹی شاہ بخت۔ اُ س  کی تڑپ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج تقریب کے بعد خاندان کے بزرگوں کا اجتماع  بھی تھاجس میں  علی میر کی شادی کے دن طےہونا تھے۔
پھر ایک مرمریں شام میں جب سورج  دریا کنارے اپنی آخری منزلیں طے کرچکا، جب ستارے کہکشاں کے قافلے میں اکٹھے ہوکر زیست کے فسانے سنانے لگے۔۔۔۔۔ جب چاند اپنی رعنائیاں لے کر نیلے گگن کے کسی کونے سے اس طرح اُبھرا کہ اُس کے وجود کا کوئی گوشہ چھپانہ رہا تو  دو اجنبی بدن ایک ہو گئے۔برسوں کی تڑپ اور جدائی قرار میں بدلی اور  وادئ حراموش کا جھرنا بن کر بہنے لگی۔ دیوسائی کے کومل گھاس جیسی لگن۔۔۔۔۔۔ ہیسپر اور بلتورا کی چوٹیوں جیسی مضبوط اور توانا ہوگئی۔
دو دلوں کے ملن کے بعد  چاہئے  تو یہ تھا کہ دونوں کے دن عید اور رات شبِ برات ہوتے۔۔ہر گزرتے پل کے ساتھ یہ محبت پربتوں جیسی مضبوطی اختیار کرتی جاتی۔ مگر رنجیدگی اور فکر شاہ بخت کو  شب و روز  گھن کی طرح کھا نے لگی۔ لوگوں کی باتوں کی باز گشت جب  اُ سکے کانوں کی لووں کو چھوتی تو اس کا دل زخمی ہرنی کی طرح اپنی رفتار چھوڑ کر علی میر کی بانہوں میں پناہ لے لیتا مگر لوگوں کے جملے اُسے اس پناہ گاہ میں بھی چین نہ لینے دیتے۔
’’ اپنے نکھٹو میاں کو سمجھایا کر کب  تک دوسروں کی بھیک میں ملے ٹکڑوں پر جئے گا۔ کوئی کام کاج کرے۔‘‘
’’ تو کب تک اس نکھٹو کے ساتھ گزارا کرے گی۔ تہواروں کے رقص سے کمائے دھان سے کیسے گزارا ہوتا ہے۔‘‘
 اس طرح کے  سینکڑوں جملےبرفانی آندھیوں کی طرح اُس کے ملول دل میں بسی حرارت اور تپش کو گلیشئیر میں بدلتے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ خاموش بت بنتی جاتی تھی۔۔۔۔محبت کی دیوی افروڈائیٹ کا بت۔
 جب سے وہ پیٹ سے ہوئی  تھی تب سے وہ زیادہ فکر مند رہنے لگی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی دن دل کی بھڑاس کی جھیل  میر علی کے سامنے خالی کر دےمگر ہمیشہ اُس کی کم ہمتی کا حجاب سامنے آ جاتا اور  یہ جھیل دلدل بنتی جاتی۔ دوسری طرف علی بھی یہ سمجھ کر اندر ہی اندر کڑھنے لگا ۔ اپنی بیوی کی خاموشی کو وہ اپنی ناکامی سے تعبیر کرنے لگاکہ وہ بیوی کی محبت پانے میں ناکام رہا ہے۔ جسے وہ محبت سمجھتا تھا وہ بس ایک خواب تھا۔۔۔۔۔اک سراب تھا ۔ اُس کی محبت کا جھرنا ایسا جھرنا تھا جس میں محبت کی اک بوند بھی پانی نہ تھا۔ اُس کی محبت کا چاند چودہویں سے پہلے ہی گہنایا گیا تھا۔ اُس کے عشق کا پیڑ ایسا بدنصیب پیڑ تھا جس پر شاہ بخت کی محبت کا ایک پرندہ بھی نہ بیٹھا تھا۔
موسم سرما شروع ہونے والا تھا۔ علی لکڑیاں جمع کر رہا تھا۔مگر اُس کے اندر ایک کشمکش جاری تھی ۔ بس آج فیصلہ کر ہی لینا ہے میں کب تک یونہی کڑھتا رہوں گا۔ سوکھی لکڑیوں کی طرح سلگھتا رہوں گا۔
 شام کو جب وہ گھر لوٹا تو  شاہ بخت چولہے میں گیلی لکڑیاں جلانے کی کوشش میں آنکھیں سُجائے بیٹھی تھی پانی سے بھری لکڑیوں کو جلانے کے لئے پھونکیں مار مار کر اُس کی سانسیں دلدلی ہو چکی تھیں ۔چولہے کی بجھی راکھ نے اُس کے گلابوں جیسے گالوں پر پڑاؤ کر لیا تھا۔ اُس کی زلفیں کسی دیوانے کے خواب کی طرح پریشان تھیں۔۔۔ہاتھوں پر لگا آٹا بھی سرمئی رنگ اختیار کر گیا تھا۔
 علی میر ہاتھ منہ دھو کر ننگی چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھ گیا۔شاہ بخت نے کھانے کا تھال اُس کے سامنے رکھا اور  اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ علی میر نے  اُس کی بے کاجل آنکھوں کو دیکھا۔۔۔پھر اُس کی نگاہیں شاہ بخت کی آٹا لگیں انگلیوں پر ٹہر گئیں۔جو روٹی کے ایک ٹکڑے کو لقمہ بنانے کا جتن کر رہی تھیں۔پھر اچانک اُس نے اپنی لانبی سیاہ پلکیں وا کیں اور اوپر  منہ کر کے علی کی طرف دیکھا اور جھکا لیں۔۔وہ بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں۔۔۔۔لیکن رشتے کے تقدس یا محبت کے بھرم کا کاجل راہ میں حائل تھا۔ جب زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں  تو آنکھیں دل کا حال کہتی ہیں، جب آنکھیں بولنا بند کر دیں تو محبت کرنے والوں کے درمیان شک کی دیواریں بلند ہوجاتی ہیں۔  لیکن ان اٹھی پلکوں نے میر علی کو حوصلہ دیا اور اُس کے لبوں سے ایک جملہ بہت مشکل سے ادا ہوا۔
’’ بختو! مجھے پتہ ہے تم خوش نہیں ہو۔۔ نہ پہلے خوش تھی۔ نہ اب۔‘‘
شاہ بخت نے  ’’ ہوں ‘‘ کہا اور  ٹھنڈی آگ میں پکی اکڑی روٹی کا لقمہ  چبانے میں مصروف رہی۔
شاہ بخت کی ہوں نے اگلی گفتگو کی راہ ہموار کر دی۔اُس نے  ایک لقمے میں لوبیے کی دال کے چند دانے لپیٹتے  ہوئے کہا۔
’’بختو! مجھے معاف کرنا۔۔میں سمجھتا رہا  کہ تم مجھ سے بہت پیار کرتی ہو۔۔۔۔‘‘
شاہ بخت کی پلکیں اٹھیں اور اُس کی آنکھوں نے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔۔۔یہ آج کس طرح بات کر رہا ہے۔۔ اُ سکی پلکیں جھکیں اور جھکی پلکوں کے پیچھے چھپے ڈھیروں پانی نے اُسے بہت کچھ اور سننے کے لئے تیار کیا۔
’’ تمہیں مجھ سے محبت تھی ہی نہیں بختو ۔ تم نے اپنے بزرگوں کے کہنے پر مجھ سے شادی کی۔ مجبوری میں ۔۔۔ اگر تم چاہو تو اب بھی۔۔۔‘‘
’’ خبردار اگر ایک جملہ بھی منہ سے نکالا۔میرے بزرگ اتنے ظالم نہیں  کہ میری مرضی کے بغیر مجھے تم سے بیاہ دیتے۔۔۔۔ تم سے محبت تھی تو  یہاں پہنچی ہوں۔۔میں جیتا جاگتا وجود ہوں کوئی زندہ لاش نہیں  جسے گھر والے جہاں چاہتے رکھ دیتے۔۔۔۔۔میری محبت پر شک نہ کیا کر میر‘‘
آنکھوں میں چھپا پانی اُس کی گالوں پر آ ٹہرا۔۔۔۔۔میری محبت پر شک نہ کیاکر میر۔ اُس کے اس جملے میں اک گداز، معصوم اور کومل سی التجا تھی۔ایسی التجائیں پتھر دلوں کو بھی موم کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔اس کی کوملتا اور گدا زالتجا نے جب علی کے دل کو چھوا تو وہ خاموش ہوگیا۔
 پھر اُس نے علی میر کے بازو کو کوپیار سے دباتے ہوئے کہا ۔
’’ دیکھ ایسی فضول باتیں مت سوچا کر۔۔۔‘‘
علی لقمے منہ میں ڈالتا تھا  مگر وہ باہر کو آتے تھے۔ شاہ بخت کی باتوں نے اُ س کے اندر  کے کہرے کو اور گہرا کر دیا تھا۔ اس کے اندر کا کرب اس کہرے میں گم ہونے کی بجائے اُبلنے لگا تھا۔
’’ پھر تیری رنجیدگی کی وجہ کیا ہے۔۔۔ تُوخزاں کی ندی  کی طرح اُداس  کیوں رہتی ہے۔۔۔۔ تُو نے چپکے  چپکے اندر ہی اندر کون سا دکھ پال لیا ہے۔ چیری  کے باغ سے چیری کون چرا لے گیا ہے۔‘‘ 
میر علی نے  لقمے کی مدد سے ترکاری کا گھی  پیالی کے عین کونے تک لاتے ہوئے کہا۔
’’ کچھ بھی نہیں ہے میر۔۔۔۔ بس تیرا وہم ہے۔۔۔‘‘
شاہ بخت نے اپنے ماتھے  پر گری ایک لٹ کو دوپٹے میں چھپاتے ہوئے کہا۔
’’  نہیں کچھ ہے ۔۔۔ پھول پر اوس پڑی صاف دکھتی ہے۔۔ چاند کا گہن کس کو دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ کچھ تو ہے  جو تُواتنی اُداس رہتی ہو۔۔ کوئی پچھلا پیار۔۔۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ میر علی جملہ مکمل کرتا شاہ بخت نے  اپنا ہاتھ اُس کے منہ پر رکھ دیا۔۔ ہاتھوں پر لگے تازہ آٹے اور بجھی راکھ کی خوشبو میر کے اندر ُاتر کر بیٹھ گئی۔
’’ دیکھ میر!  تُو مجھے آدھی روٹی بھی دے گا تو میں کھا لوں گی۔۔۔ گہنوں اور کپڑوں کی تو  با ت ہی نہیں۔۔۔۔۔۔تیرا پیار ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔  مگر میں کیا کروں ۔۔۔ میں کان بند کرتی بھی ہوں تو کوئی نہ کوئی بات میرے کان میں پڑ جاتی ہے۔۔۔ میرے جُسے کے اندر آگ لگ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس نے اپنا سر علی میر کے کندھے پر رکھ دیا تھا۔ شاہ بخت کی باتوں نے میر کے اندر تک کو اُلجھا دیا تھا جانے کتنے جھرنے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
’’ مجھے مار دو گی۔۔۔۔مجھ سے کیا گناہ ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے کس کو کیا کہہ دیا ہے۔  تم مجھے صاف صاف  کیوں نہیں بتاتی۔‘‘
’’ دیکھ میرے۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ پیار سے میر کو میرے کہہ کر بلاتی تھی۔
’’۔۔۔ مجھ سے لوگوں کی باتیں سنی نہیں جاتیں۔ جب کوئی تمہیں نکھٹو کہتا ہے تو مجھے لگتا ہے جیسے کسی نے میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا ہو۔۔۔ جیسے  کسی نے میرے دماغ پر لوہے کے تالے لگا  دئیے ہوں۔۔۔۔جیسے کسی نے میری روح کوپوٹلی بنا کر چیلوں کے سامنے ڈال دیا ہو۔۔‘‘
علی میر  نے اُس کےہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔۔۔آنکھوں سے دو موٹے موٹے  قطرے بارش کے پہلے قطروں کی طرح شاہ بخت کے ہاتھ کی چھت پر گرے پھر ساری چھت پانی سے بھر گئی۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ اُٹھا اور پانی سے کُلی کرنےکے بعد بولا ۔۔
’’ کل سے تمہیں کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا۔‘‘
پھر کسی نے علی میر کو وہاں نہ دیکھا ۔ اُس نے لداخ جاکر پیغام بھیجا کہ  وہ بہت سا دھن دولت لے کر لوٹے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نگر نگر پھرتا رہا۔۔۔ کبھی خود کام کرتا ،کبھی کسی کے ساتھ کام کرواتا۔۔۔اُس پر بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ اپنے گاؤں میں اپنا کاروبار کرنے کے لئے پیسے جمع کرنے ہیں۔۔۔۔مال و اسباب اکٹھا کرنا ہے۔۔۔۔۔
 شاہ بخت  اُس کی جدائی  کے سنگلاخ پہاڑوں پر ننگے پاؤں تڑپتی،بلکتی پھرتی تھی۔وہ اُس لمحے کو کوستی تھی جب اُس نے اُسے لوگوں کی باتیں بتائی تھیں۔۔۔۔۔۔ وہ تڑپتی رہی ۔۔۔ ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح کُرلاتی رہی۔۔۔۔ وہ ڈھلتے سورج کی کرنوں کی طرح ماند پڑ گئی تھی۔وہ ایسے پیڑ کی طرح دن بدن سوکھتی جاتی تھی جسےدیمک چاٹ رہی ہو۔
کئی سال بیت گئے ۔ ایک شام میر علی بہت سے کپڑے، پیسے اور دھان اکٹھا کرکے اپنے سہانے کل کے سپنوں کی پوٹلی سینے میں بسائے اپنے گاؤں کے راستے پر گامزن تھا۔ واپس جانے کا فیصلہ کر کے وہ دیوسائی کے پھولوں کی طرح کھل رہا تھا۔وہ خپلو کے جھرنوں کی طرح اپنی ہی ترنگ میں بہے جاتا تھا۔اُس کے من میں آسمان کے سارے ستارے اُتر آئے تھے۔
’’ اب میں نے اتنا کچھ اکٹھا کر لیا ہے کہ  گھر جا کر اپنے گاؤں میں کاروبار کروں گا۔۔ پھر لوگ  مجھے نکھٹو نہیں سیٹھ کہا کریں گے۔ اب شاہ بخت کے انار جیسے گالوں پر ملال کی زردی نام تک کو نہ گی۔  خوش رہا کرے گی۔ وہ ہمیشہ گلاب کی طرح کھلتی رہے گی، کنول کی طرح مسکراتی رہے گی ‘‘
 اُس نے اپنے آنے کا سندیسہ بھی  گھر بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف  شاہ بخت اُس دن کا  انتظار کر رہی تھی جب    اُس کا چاند دریا کے پار سے نمودار ہوگا۔ اُس نے اپنے شہزادے کے استقبال کی خوب تیاریاں کی تھیں۔۔۔۔ گھر بار کو صاف کیا تھا۔۔۔  درو دیوار  پرروغن کیا تھا۔۔۔ خوشبودار بوٹیاں جمع کی تھیں۔اور اپنے محبوب کے راستے میں پلیں پچھانے کے لئے تیار بیٹھ گئی۔ قافلوںکی گھنٹیوں کی آوازیں جونہی اُس کے کانوں میں پہنچتیں تو  وہ ننگے پاؤں بھاگتی اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اپنے میر کو قافلوں میں تلاش کرتی۔
شاہ بخت کا میر نکھٹو ہی بھلا تھا۔پاس تو تھاناں۔ وہ روز گیلی لکڑیوں کے دھوئیں میں اپنے محبوب کے چہرے پر پھیلی  لالیاں تو دیکھ سکتی تھی۔   چولہے میں جب  جلتی آگ کے قریب بیٹھ کر جب وہ اپنے سرد ہاتھ تاپتا تھاتوآگ کی روشنی میں  علی میر کے چہرے پر کئی رنگ پھیل جاتے تھے۔ایسے میں وہ علی میر سے کہتی۔۔’’ میر آئینہ دیکھ۔۔تیرے چہرے پر قوس قزاح اتر آئی ہے۔۔‘‘ وہ شرما جاتا اور اُس کاہاتھ تھام کرسونے کا  کنگن  اُس کی کلائی میں گھماتا تو اُس کے بدن میں ایک پُر مسرت سنسنی پھیل جاتی۔ اُس کے ہاتھوں کے کنگن آج بھی  علی میر کے ہاتھوں کے لمس کے منتظر تھے۔ وہ  چولہے پہ  اکیلی بیٹھی  خیالوں میں علی کے تھال میں روٹی کے لقمے رکھتی تھی۔
قدرت کو شاہ بخت کی پوجا شاید پسند نہ آئی  کہ لداخ سے واپسی پر سپنوں کے بوجھ سے لدے علی میر کا پاؤں ایک گلشئیر سے گذرتے ہوئے  ایسا  پھسلا کہ  وہ منوں برف کے نیچے دب گیا۔ شاہ بخت کا چاند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔ غم کے پہاڑنے چند لمحوں میں اُس کے پیار کی بستی کو روند ڈالاتھا۔
غم کے دریا میں ڈوبی شاہ بخت  اپنے ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکی ۔۔۔اپنے پیا کی جدائی برداشت نہ کر پائی  اوردیوانی ہو کر  گلشئیرز کی طرف نکل گئی۔۔
’’ واپس آجاؤ میر میں تمہیں کبھی بھی نکھٹو نہیں کہوں گی۔میں لوگوں کی باتیں اور لوگوں کے طعنوں کو آگ لگا دوں گی۔مجھے کچھ نہیں چاہئے بس تم واپس آ جاؤ۔‘‘
 کہتے ہیں کہ شاہ بخت کی روح آج بھی  برفوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔
’’ علی میر کی موت اور اس کی بیوی کی فریاد اب داستان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج بھی بلتستان اور لداخ میں علی میر کے نام سے یہ رگیانگ خلو بہت مشہور ہے۔اُن کی محبت بھری داستان آج بھی رگیانگ خلو کی شکل میں زبان زدِ عام ہے،پہاڑوں میں آج بھی اُن دونوں کی ہنسی گونجتی ہے،پہاڑ اور آبشاریں آج بھی اُن دونوں کی محبت کے امین ہیں،گلیشئیرز آج بھی انہیں یاد کر کے سسکیاں بھرتے ہیں اور قطرہ قطرہ پگھلتے ہیں،پرندے آج بھی ان کے پیار کے نغمے گاتے ہیں!شاید پرندے بھی یہی کہتے ہونگے کہ۔۔۔  ہاں!! ہم گواہ ہیں اُن کے محبت کے ،خلوص کے اور ان کی عشق کے۔
یہ داستان میں نے درجِ ذیل ویب سائیٹ سے لی جس کے مصنف زاہد بلتی ستروغی یتو ہیں۔ میں  نےاُسے اپنے انداز میں مرتب کیا ہے۔
ماخوز از https://urdu.pamirtimes.net/2017/08/29/alimir/

Saturday, September 29, 2018

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ دوسری قسط



پہلی اور آخری درس گاہ۔۔۔نانی یا ایک پری                                                                                                          وارث اقبال

خبرِ تحیرِ عشق سُن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جورہی سو بے خبری رہی
بات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ کبھی ہوتی ہی نہیں مگرجب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا جھرنا بن جاتی ہے۔۔۔چیختا، دھاڑتا جھرنا، نہ ختم ہونے والا جھرنا۔ ختم ہو کر بھی کسی دریا یا کسی سمندر کے اندر اتر جانے والا جھرنا۔ سمندر میں اتر کر بھی چین نہیں پاتا تو بارش بن جاتا ہے۔۔۔۔۔ بارش بن کر بھی کہیں پڑاؤ نہیں کرتاتو دھرتی میں اتر جاتا ہے۔۔۔۔۔ دھرتی میں بھی سکون نہیں پاتا۔۔۔۔۔ کوئی نیا روپ دھار کر سامنے آجاتاہے۔۔۔۔۔ کبھی کلی۔۔۔۔ کبھی کانٹا۔۔۔۔ 
یہ بات بڑی ہی عجیب ہوتی ہے۔۔۔کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیکل زدہ بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر طوفان برپا کر دیتی ہے۔ یقین مانئے بات بڑی ہی عجیب ہوتی ہے۔۔۔کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بن جاتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اُجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔ 
بات جب ترنم کی خوشبو بکھیرتی ہے تو گیت میں ڈھل جاتی ہے، بحر میں قید ہوتی ہے تو غزل کا قالب اختیار کر لیتی ہے، زمان و مکان کی لونڈی بنتی ہے تو کہانی کا روپ دھار لیتی ہے اور جب چشم بینا بنتی ہے تو سفرنامہ کا وجود پاتی ہے۔
میں جب بھی کسی بات کی بات کر نا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے ضرور جا ملتی ہے۔سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی دیوتاؤں جیسی بھاری اور سحر انگیز آواز گونج اُٹھتی، 
’’
بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو، بستر میں آجاؤ پھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔‘‘ 
بات کی اس تحریک کا سب سے زیادہ فائدہ ہماری ماں کو ہوتا جو ہمیں کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی زحمت سے بچ جاتیں ہم بات کے چکر میں خود ہی کھانابھی کھا لیتے اور دودھ بھی پی لیتے۔ 
میری نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں، لباس، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوں رچا بساتھا جیسے دودھ میں شکر۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔ 
اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔ ہم ان سے سوال کرتے، 
’’
اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے۔‘‘ 
وہ جواب دیتیں،
’’
جیسے تمہاری اماں بڈھی، جیسے تمہارے ابا بڈھے۔‘‘ 
ہم سب بیک زبان بولتے، 
’’
نہیں اماں۔‘‘ 
ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کراس جھگڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ 
اُس دن سے ہم ہر کمزور اور سوکھی ہوئی شے کو بڈھا سمجھنے لگے۔ 
یہ تو ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
’’
جوانی سولہ سال کی عمر کا نام نہیں، ایک اندازِ فکر کانام ہے، ایک اندازِ زندگی کا نام ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سولہ سال میں بوڑھا ہو اور ایک شخص ساٹھ سال میں جوان ہو۔‘‘ واصف علی واصف
نانی اماں جب پریوں کی کہانیاں سناتیں تو مجھے اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا اور میں سوچتا کہ نانی اماں بھی کسی دیس کی پری ہی ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔
نا جانے اللہ کے ہاں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی چادر پربیوگی کا ایسا داغ لگا کہ زندگی کی ساری رعنائیاں ان کے خلاف محاز بنا کر بیٹھ گئیں۔ آنسو ؤں کے گلیشیئرز اُن کی بینائی پر یوں گرے کہ وہ اپنی ہی ہتھیلی پر بنے تانے بانے کودیکھنے تک کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔ لیکن بیوگی اور اندھیرے اُن کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی جاتے، جہاں بھی رہتے نانی ہمارے پاس ضرور پہنچ جایا کرتیں۔ یہاں تک کہ وہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں، لورالائی، خضدار اور مستونگ تک بغیر کسی خوف و خطر سفر کرلیتیں۔
میرے ابا جی کہا کرتے تھے کہ ریل ان کے حکم پر چلتی ہے۔ اُس کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ اماں جی کو ہمارے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر جائے۔
 سفر کی تھکن  ماند پڑتی  تو وہ ہماری انگلی پکڑ کر کسی  نہ کسی مزار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتیں۔پھر چٹانیں ہوں  یا پہاڑیاں، کھیت ہوں یا رواں سڑکیں سب ان کے حوصلوں کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جاتیں۔
یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے سارے اندھیرے شکست کھا جاتے یاپھر ہماری محبت تھی جو اُن کی انگلی پکڑ کر اندھیری راہوں پر اُ ن کی رہناماں جی کرتی رہتی۔
                    اس نابینا عورت کے ہمراہ دو چیزیں شہر شہر گھومتی رہتیں۔  ایک تھی ایک بوری اور دوسری ایک سوٹ کیس۔ 
بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن۔  اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔  حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔  وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتی تھیں،  جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں۔  جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کُرتی پہنا کرتیں اور جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں۔  
نانی ہمارے لئے پہلی اور آخری درس گاہ تھیں۔  آخری اس لئے کہ اُ ن کے علاوہ نہ ہمیں کہیں تربیت کے وہ اوراق ملے جو ان کے پاس تھے،  نہ شفقت،  نہ اخلاص اور نہ ہی علم ملا جو وہ بانٹتی پھرتی تھیں ۔
اُن کی قربت نے ہمیں  سب سے پہلے تیسویں سپارے کی تمام سورتوں،سورۃ الرحمٰن ، سورۃ یاسین، کے پہلے رکوع اور درود شریف کے حفظ کا تحفہ دیا۔ پھر ہمارے اندر کتابوں سےاُنس  اس طرح کوٹ کوٹ کے بھرا کہ  کتا بیں ہماری زندگی کا اہم  جز بن گئیں۔
 کتابوں  سے بھری بوری ہمارے لئے پہلا کتب خانہ تھی ۔ جس سے ہم نے دین و دنیا دونوں کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اُن کا  سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم کے کسی مدرسہ سے کم نہ  تھا۔  جس میں رکھے چھ گز کپڑے  نے ہمیں  یہ سمجھا دیا کہ  دنیا فانی ہے،  انسان کی بساط کیا ہے،  انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک  پتہ نہیں کہ وقت ِآخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہوگا بھی یا نہیں۔  اُس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملے گی یا دیار ِغیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹہرے گا۔   یا پھر یہ بھی نہیں۔
انبالہ کے ایک گاؤں سے ڈولی میں بیٹھ کر        شورکوٹ پہنچنے والی ہماری نانی پاکستان کے  نگر نگر  پھرتے پھراتے    آخری دفعہ  1983میں ہمارے پاس شیخوپورہ   پہنچیں۔  جہاں ان کے حوصلے ماند پڑ گئے اور  انہوں نے وہاں کے ایک نگرِ خموشاں کوہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ ٹین کے صندوق میں بند کافورلگا کپڑے کا ٹکڑا جسے وہ ہمیشہ ساتھ رکھتی تھیں بالآخر ان کے تن کا آخری لباس بن گیا۔
دنیا کے لئے توایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا  علم و عرفان کااک دبستان،  ہماری پہلی اور آخری درسگاہ دو گز زمین کی گود میں چلی گئی۔