Saturday, October 14, 2017

قسط ۲ سفر نامہ ’ پریوں کی تلاش‘


قسط  ۲ سفر نامہ ’ پریوں کی تلاش‘

پہلی اور آخری درس گاہ۔۔۔نانی یا ایک پری                                                                                         وارث اقبال

خبرِ تحیرِ عشق سُن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جورہی سو بے خبری رہی

بات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ کبھی ہوتی ہی نہیں مگرجب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا جھرنا بن جاتی ہے۔۔۔چیختا، دھاڑتا جھرنا، نہ ختم ہونے والا جھرنا۔ ختم ہو کر بھی کسی دریا یا کسی سمندر کے اندر اتر جانے والا جھرنا۔ سمندر میں اتر کر بھی چین نہیں پاتا تو بارش بن جاتا ہے۔۔۔۔۔ بارش بن کر بھی کہیں پڑاؤ نہیں کرتاتو دھرتی میں اتر جاتا ہے۔۔۔۔۔ دھرتی میں بھی سکون نہیں پاتا۔۔۔۔۔ کوئی نیا روپ دھار کر سامنے آجاتاہے۔۔۔۔۔ کبھی کلی۔۔۔۔ کبھی کانٹا۔۔۔۔ 
یہ بات بڑی ہی عجیب ہوتی ہے۔۔۔کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیکل زدہ بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر طوفان برپا کر دیتی ہے۔ یقین مانئے بات بڑی ہی عجیب ہوتی ہے۔۔۔کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بن جاتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اُجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔ 
بات جب ترنم کی خوشبو بکھیرتی ہے تو گیت میں ڈھل جاتی ہے، بحر میں قید ہوتی ہے تو غزل کا قالب اختیار کر لیتی ہے، زمان و مکان کی لونڈی بنتی ہے تو کہانی کا روپ دھار لیتی ہے اور جب چشم بینا بنتی ہے تو سفرنامہ کا وجود پاتی ہے۔
میں جب بھی کسی بات کی بات کر نا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے ضرور جا ملتی ہے۔سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی دیوتاؤں جیسی بھاری اور سحر انگیز آواز گونج اُٹھتی، 
’’
بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو، بستر میں آجاؤ پھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔‘‘ 
بات کی اس تحریک کا سب سے زیادہ فائدہ ہماری ماں کو ہوتا جو ہمیں کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی زحمت سے بچ جاتیں ہم بات کے چکر میں خود ہی کھانابھی کھا لیتے اور دودھ بھی پی لیتے۔ 
میری نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں، لباس، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوں رچا بساتھا جیسے دودھ میں شکر۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔ 
اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔ ہم ان سے سوال کرتے، 
’’
اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے۔‘‘ 
وہ جواب دیتیں،
’’
جیسے تمہاری اماں بڈھی، جیسے تمہارے ابا بڈھے۔‘‘ 
ہم سب بیک زبان بولتے، 
’’
نہیں اماں۔‘‘ 
ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کراس جھگڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ 
اُس دن سے ہم ہر کمزور اور سوکھی ہوئی شے کو بڈھا سمجھنے لگے۔ 
یہ تو ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
’’
جوانی سولہ سال کی عمر کا نام نہیں، ایک اندازِ فکر کانام ہے، ایک اندازِ زندگی کا نام ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سولہ سال میں بوڑھا ہو اور ایک شخص ساٹھ سال میں جوان ہو۔‘‘ واصف علی واصف
نانی اماں جب پریوں کی کہانیاں سناتیں تو مجھے اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا اور میں سوچتا کہ نانی اماں بھی کسی دیس کی پری ہی ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔
نا جانے اللہ کے ہاں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی چادر پربیوگی کا ایسا داغ لگا کہ زندگی کی ساری رعنائیاں ان کے خلاف محاز بنا کر بیٹھ گئیں۔ آنسو ؤں کے گلیشیئرز اُن کی بینائی پر یوں گرے کہ وہ اپنی ہی ہتھیلی پر بنے تانے بانے کودیکھنے تک کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔ لیکن بیوگی اور اندھیرے اُن کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی جاتے، جہاں بھی رہتے نانی ہمارے پاس ضرور پہنچ جایا کرتیں۔ یہاں تک کہ وہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں، لورالائی، خضدار اور مستونگ تک بغیر کسی خوف و خطر سفر کرلیتیں۔
میرے ابا جی کہا کرتے تھے کہ ریل ان کے حکم پر چلتی ہے۔ اُس کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ اماں جی کو ہمارے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر جائے۔
 سفر کی تھکن  ماند پڑتی  تو وہ ہماری انگلی پکڑ کر کسی  نہ کسی مزار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتیں۔پھر چٹانیں ہوں  یا پہاڑیاں، کھیت ہوں یا رواں سڑکیں سب ان کے حوصلوں کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جاتیں۔
یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے سارے اندھیرے شکست کھا جاتے یاپھر ہماری محبت تھی جو اُن کی انگلی پکڑ کر اندھیری راہوں پر اُ ن کی رہناماں جی کرتی رہتی۔
                    اس نابینا عورت کے ہمراہ دو چیزیں شہر شہر گھومتی رہتیں۔  ایک تھی ایک بوری اور دوسری ایک سوٹ کیس۔ 
بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن۔  اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔  حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔  وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتی تھیں،  جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں۔  جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کُرتی پہنا کرتیں اور جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں۔  
نانی ہمارے لئے پہلی اور آخری درس گاہ تھیں۔  آخری اس لئے کہ اُ ن کے علاوہ نہ ہمیں کہیں تربیت کے وہ اوراق ملے جو ان کے پاس تھے،  نہ شفقت،  نہ اخلاص اور نہ ہی علم ملا جو وہ بانٹتی پھرتی تھیں ۔
اُن کی قربت نے ہمیں  سب سے پہلے تیسویں سپارے کی تمام سورتوں،سورۃ الرحمٰن ، سورۃ یاسین، کے پہلے رکوع اور درود شریف کے حفظ کا تحفہ دیا۔ پھر ہمارے اندر کتابوں سےاُنس  اس طرح کوٹ کوٹ کے بھرا کہ  کتا بیں ہماری زندگی کا اہم  جز بن گئیں۔
 کتابوں  سے بھری بوری ہمارے لئے پہلا کتب خانہ تھی ۔ جس سے ہم نے دین و دنیا دونوں کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اُن کا  سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم کے کسی مدرسہ سے کم نہ  تھا۔  جس میں رکھے چھ گز کپڑے  نے ہمیں  یہ سمجھا دیا کہ  دنیا فانی ہے،  انسان کی بساط کیا ہے،  انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک  پتہ نہیں کہ وقت ِآخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہوگا بھی یا نہیں۔  اُس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملے گی یا دیار ِغیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹہرے گا۔   یا پھر یہ بھی نہیں۔
انبالہ کے ایک گاؤں سے ڈولی میں بیٹھ کر        شورکوٹ پہنچنے والی ہماری نانی پاکستان کے  نگر نگر  پھرتے پھراتے    آخری دفعہ  1983میں ہمارے پاس شیخوپورہ   پہنچیں۔  جہاں ان کے حوصلے ماند پڑ گئے اور  انہوں نے وہاں کے ایک نگرِ خموشاں کوہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ ٹین کے صندوق میں بند کافورلگا کپڑے کا ٹکڑا جسے وہ ہمیشہ ساتھ رکھتی تھیں بالآخر ان کے تن کا آخری لباس بن گیا۔
دنیا کے لئے توایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا  علم و عرفان کااک دبستان،  ہماری پہلی اور آخری درسگاہ دو گز زمین کی گود میں چلی گئی۔   


______________________



Saturday, October 7, 2017

سفرنامہ پریوں کی تلاش قسط نمبر ۱


 میں اپنے سفرنامہ کو قسط وار پیش کر  رہاہوں امید ہے پسند آئے گا۔
 بغیر پڑھے لائیک  نہ کیجئے۔ اچھا لگے تو کومنٹ ضرور کریں۔

قسط نمبر ۱
میری باتیں
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
نگلے ہوئے سوال تھے‘ اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی رُت بھی تھی اِنتظار کی
ربط کی بات اور ہے،  ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
(امجد اسلام امجد)
زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط ہے۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایۂحیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں ہوتا بلکہ حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے سفر کرنے والے کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں، تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔
میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جارہاہوں وہ ایک ایسا سفر ہے جس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایۂ حیات بن گئیں۔ کیونکہ اس سفر کا حاصل سفر کوئی تھا ہی نہیں۔۔۔ یہ تو چلتا جاتا تھا۔۔ جہاں رُکے و ہی حاصلِ سفر، جس پر آنکھ رک گئی وہی منزل۔ بس جستجو تھی کچھ پانے کی۔یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب۔ چاہے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں یا لوگوں کے روئیے؛ اجناس اور کھانے کی اشیا   ہوں یا طرزِ رہائش وزیبائش؛ داستانیں ہوں یا کہانیاں؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات؛ صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا۔ یوں میں اسے آگہی کا سفر کہہ سکتا ہوں۔
میرے اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اورنہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران جہاں ضرورت پڑی فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔ 
اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی صعوبتیں اٹھائی ہیں اور انواع واقسام کی معلومات سے جھولی بھری ہے تو پھراِسے دوسروں تک پہنچانا میرا فرض ہے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ یہ وہ سفر ہے جس نے مجھے پنجابی ادب کے مطالعہ کی جستجو کی نعمت عطا کی اور میں نے داستان ’سیف الملوک‘ کا خصوصی مطالعہ کیا۔
میرا یہ سفر نامہ ’سفر نامہ‘کے اسلوبی معیار پر کتناپورا اترتا ہے اس کا فیصلہ تو قاری اور نقاد ہی کرے گا لیکن میں اتنا ضرورکہوں گا کہ میں نے اَن جانی راہوں سے مواد اٹھایا ہے اور اُسے لفظوں کا روپ دے کر اور بنا سنوار کر اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اُس سے معنی اخذ کرنا قاری کا کام ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنے قاری کو سوچ کی بھی دعوت دوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگرہمارا معاشرہ سوچنا شروع کر دے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔شاید مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔
میں کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں ہوں لیکن اندر کسی گزری صدی کا کوئی لکھاری موجود ضرور ہے جو وادیوں ا ور جھرنوں کے مناظر اپنے قاری کی خدمت میں پیش کرکے ایک خاص قسم کا سرور اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔روایت شکنی میری عادت ہے اور یہ گستاخی میں کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔میرے خیال میں یہی ادب کی خدمت ہے کہ اسے یکسانیت اور ٹہراؤ سے نکالا جائے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے افسانوں کو بھی ادبی قید و بند سے آزاد کروایا ہے۔ اسی طرح سفر نامہ کو بھی ایک آزاد جہت اور زبان دی ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا تڑکا شاید کچھ زیادہ ہوگا۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں فلسفیانہ، دنیاوی اور روحانی نثری باتیں سفر نامہ کا حصہ ہیں وہیں شعر بھی۔ کیوں کہ شعر بھی تو باتیں ہی ہیں فرق فقط یہ ہے کہ یہ باتیں پا بند ہیں۔ 
میری اس سوچ سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ اس لئے اختلافِ رائے کا استقبال کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
میری بد قسمتی ہے کہ میں کتب بینی کے عہدِ قحط میں پیدا ہوا ہوں۔ آج ادبی کاوش محض چند سطروں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا  کہ میں ایک ادھورا اورمعذور سفر نامہ لکھ کر کتب بینی کے زوال میں اپنا حصہ ڈال دوں۔ 
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیا کیسے ہو
میں علی گڑھ پبلشرز کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے ناصرف نے مجھے ان سنگلاخ وادیوں کا راستہ دکھایا بلکہ یہ کہہ کر مجھے اپنے الفاظ کی قدر بھی سکھائی کہ خوشبو کو بکھرنے کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھرتی ہے وہ پھیلنے کے لئے ہوتی ہے اور پھیل جاتی ہے۔
فیس بک پر اپنے پڑھنے والوں کا شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامہ کے حصوں کا حوالہ دے کر حوصلہ افزائی کی اور ان کا بھی کہ جنہوں نے بغیر پڑھے ’لائک‘ کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔’اردو نامہ‘  ویب سائٹ کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامے کو اس کہ باوجوداپنی ویب سائیٹ کی زینت بنایاکہ میں نے اس ویب سائیٹ پر بے وزن شاعری کے علاوہ کبھی کچھ بھی عطیہ نہیں کیا۔ 
اس ویب سائیٹ کے منتظم اشفاق صاحب کا ذکر تو ضرور کروں گاجو ہمیشہ یہ شعر لکھ کراپنی رائے سے نوازتے رہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
ایک اور احسان وہ یہ کیا کرتے کہ جب میں کچھ نہ لکھتا تو ’پیارے وارث‘  کہہ کر میری تو جہ اس کام کی طرف مبذول کروا دیا کرتے۔
میں اپنی زوجہ اور دو عدد صاحبزادوں کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میرے ساتھ اردو اور انگریزی دونوں کا سفر کیا، جہاں میں لے جاتا چلے جاتے ، مجھے مشورے بھی دیتے اور کم خرچ بالا نشیں کے فلسفہ پر عمل بھر پور کرتے ، میرے کام کو سراہتےبھی رہتے اور  کبھی مجھے  تھما دیکھ کر لکھنے کے لئے اُکساتے بھی رہتے۔ یہاں میں اپنی گاڑی کے کھیون ہار عابد کا شکریہ ضرور ادا کروں گا جو مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں۔ انہیں میری ہر کاوش کا رضاکارانہ طور پر اولین تختہ مشق بننےکا اعزاز بھی حاصل ہے۔
لگن، فکر اور جستجو ان کا خاصا ہے۔ بیشتر سفروں میں ہمارے ساتھ رہے۔ ان کی پنجابی شاعری اور ان کے علم کا میں ہمیشہ معتقد رہا ہوں۔ 
اگرچہ کتب بینی کے قحط کاعہد ہے لیکن پھر بھی ہم اردو ادب کے ماتھے سے گرد صاف کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے۔
اس سفر نامہ کے بعد انشا اللہ جلد ہی اگلا سفر نامہ بھی کتابی شکل میں سامنے آنے والا ہے۔ 
مجھے یقینِ کامل ہے کہ آپ اس سفرنامہ کو پڑھتے ہوئے مایوس نہیں ہوں گے۔ انشاللہ آنے والے دور کا نقاد اسے ضرور سراہے گا اور تاریخ کا طالب علم داد دئیے بغیر نہیں رہے گا۔