چائے کا دیس وارث اقبال
|
مانسہرہ میں
ہمارے لئے دوسرے دن کا سورج طلوع
ہوا۔ رات ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں شنکیاری
کا علاقہ بھی دیکھنے کے لائق ہے ، خاص طور پر
چائے کے کھیت۔ چنانچہ ہم نے شنکیاری کا رخ کیا۔
ہم جونہی مانسہرہ سے نکلے
یوں لگا کہ ہم مری جارہے ہیں وہی جغرافیہ وہی سڑکیں اور وہی جنگلات۔ یہ جنگلات
گھنے ہورہے تھے۔ انہی جنگلات میں گھری ہوئی ہزارہ یونیورسٹی دکھائی دی۔ زلزلہ نے اس
یونیوسٹی کو تباہ کر دیا تھا لہذا اب تعمیر میں ٹین کا استعمال کیاگیا تھا۔ یہاں
ایک خوبصورت مسجد بھی بنائی گئی ہے جو شاہ سعود کا عطیہ ہے۔
ہم نے سوچا تھا کہ ہمیں شنکیاری جاناپڑے گا اور وہاں سے ہم چائے کے کھیتوں میں پہنچیں گے لیکن ان سے تو ملاقات چند کلومیٹر بعد ہی ہوگئی۔ شنکیاری تو کافی آگے تھا۔ یہاں چائے کی کاشت کے فروغ کے لئے ایک ’ٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ تک بنادیا گیا ہے۔چائے کے یہ باغات قطعات کی شکل میں وادیٔ سرن میں کئی ایکٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ہم نے سوچا تھا کہ ہمیں شنکیاری جاناپڑے گا اور وہاں سے ہم چائے کے کھیتوں میں پہنچیں گے لیکن ان سے تو ملاقات چند کلومیٹر بعد ہی ہوگئی۔ شنکیاری تو کافی آگے تھا۔ یہاں چائے کی کاشت کے فروغ کے لئے ایک ’ٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ تک بنادیا گیا ہے۔چائے کے یہ باغات قطعات کی شکل میں وادیٔ سرن میں کئی ایکٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
چائے کے کھیتوں کا نظارہ بھی چائے کی چسکی کی طرح نشہ
بخش محسوس ہوا۔ اونچی نیچی ڈھلوانوں میں تا حد نگاہ حیرت انگیز حد تک سبز چائے کے
پودے کسی طلسماتی کھیتوں کا نظارہ پیش کرتے ہوئے اپنے ناظر کو مد ہوش کررہے تھے۔
بتانے والوں نے بتایا کہ چائے کے پودے پہلے نرسریوں میں اُگائے جاتے ہیں پھر انہیں
کھیتوں میں چاول کے پودے کی طرح کاشت کیا جاتا ہے۔ چائے کی ان پتیوں کو یہاں موجود
جدید پلانٹس کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو انہیں اُن کی منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔
یوں چائے کی کاشت اس علاقہ کے لئے وجہ روزگار بن چکی ہے۔ ان کھیتوں کو دیکھ کر مجھ
پر تو وہی اثر ہورہا تھا جو تھکن میں چائے پینے کے بعد ہوتا ہے، ہر کونہ، ہر خطہ،
ہر موڑ جسم میں چُستی اور حرکت پیدا کرنے کا باعث بن رہاتھا۔ اگر حالات نے اجازت
دی تو یہاں زراعت کا یہ نیا شعبہ بہت جلد ترقی کرے گا۔
چائے نشہ ہے یا نہیں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ کے
ہاں فقط لذت، کچھ کے ہاں، عادت اور کچھ کے ہاں
میزبانی کا طریقہ۔ یہ ایسی ظالم ہے کہ
اس کی ضرورت کے لئے ہمیشہ جواز موجود رہتا ہے۔ اگر سردی ہے تو گرماہٹ حاصل
کرنے کے لئے، اگر گرمی ہے تو گرمی کو گرمی سے مارنے کے لئے، اگر موسم اچھا ہے تو
موسم سے لطف اٹھانے کے لئے، اگر موسم برا ہے تو رنج مٹانے کے لئے، اگر خوشی ہے تو
خوشی منانے کے لئے، اگر دکھ ہے تو دکھ بھلانے کے لئے، اگر مہمان ہیں تو میزبان کو
خدمت کا موقع فراہم کرنے کے لئے اور اگر میزبان ہیں تو مہمان کی خدمت کے لئے۔یہاں
تک کہ کسی سے کمیشن لینا ہو یا کسی کو کمیشن دینا ہے ہو یا رشوت لینی ہو یا رشوت
دینی ہو، کاروبار کرنا ہو یا کسی کا کاروبار ٹھپ کرنا ہو ہر کام چائے سے شروع ہوتا
ہے اور چائے پر ختم ہوتا ہے۔ اب تو چائے نے اپنا ایک معشوق بھی پال لیا ہے وہ
ہے ’وائے‘۔۔ جہاں چائے ہوگی وہاں وائے بھی
ہوگا۔ اس وائے کا استعمال ہر انسان اپنے اپنے طریقے سے کرتا ہے۔ غریبی کا مارا
چائے اس لئے استعمال کرتا ہے کہ اس کی جیب مہنگے مشروبات استعمال کرنے کی اجازت
نہیں دیتی اور امیری کا مارا اسے اس لئے استعمال کرتاہے کہ چائے کے بہانے دیگر
مشروبات آسانی سے استعمال کر سکتا ہے۔ میں چائے کے بارے
میں یہ جاپانی کہاوت پڑھ کر تو بیمار ہوتے ہوتے بچا۔
’’ جس کے اندر چائے نہیں وہ خوبصورتی اور سچائی کو نہیں
سمجھ سکتا۔ ‘‘
میرے دماغ میں
اس سوال نے تلاطم پیدا کر دیا،
”کیا
چائے کی دریافت سے پہلے لوگ خوبصورتی اور سچائی کی سمجھ سے عاری تھے۔ اور میں ان
کے بارے میں کیا کہوں جو چائے نہیں پیتے۔
چائے کے
حوالے سے ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اسے پینے والا اپنی زندگی کے کسی نہ کسی
حصہ میں اسے چھوڑنے کا عہد ضرور کرتا ہے۔ جو چھوڑ دیتاہے وہ فخر سے بتاتا ہیں،
”ہفتہ ہو گیا ہے میں نے تو چائے چھوڑ دی ہے۔
بڑا سکون ہے۔“
جو
نہیں چھوڑ پاتے وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک صاحب کسی کے ہاں مہمان بن کر گئے میزبان نے چائے
پیش کرتے ہوئے پوچھا ، ’’ جناب کتنی چینی لیجئے گا۔‘‘
مہمان چینی دانی میں
رکھےچھوٹے سے چمچ کو دیکھ کر بولے۔
’’ اپنے گھر میں تو ایک ہی چمچ کافی ہوتا ہے مگر
یہاں دو تین بھی ہو جائیں تو کام چل جائے
گا۔‘‘
میزبان نے چائے
کی پیالی میں فقط ایک چمچ چینی ڈالتے ہوئے فرمایا۔
’’ اجی !ایک ہی
لیجئے یہ بھی توآپ ہی کا گھر ہے۔‘‘
چائے کا ایک بھائی بھی ہے۔ جس میں اپنی بہن چائے والی
ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ ہے تمباکو۔
مانسہرہ کا یہ علاقہ دنیا کے اعلی ترین تمباکو
ورجینیا کی کا شت کے لئے بھی مشہور ہے۔
یوں اس علاقہ میں نشے کے کافی لوازمات موجود ہیں۔
ان
جگہوں کا ہونا ہمارے لئے عطیائے خداوندی سے کم نہیں۔ اس عطیہ پر مالکِ حقیقی کا
جتنا بھی شکر اداکیا جائے کم ہے۔ مالکِ لم یزل نے ہمیں اتنا کچھ عطا کر دیا ہے کہ
اگر ہم اُس کی عطا کا شکرانہ ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمیں اپنی محرومیوں پر رونے
کا وقت ہی نہ ملے۔
اگر اللہ نے ہمیں کچھ ایسادیدیا ہے جس پر ہم دکھی ہیں
یا ہمیں ایسا کچھ نہیں دیا جس کی وجہ سے ہم خود کو محروم سمجھتے ہیں تو یہ بھی
ہمارے لئے کسی عطا سے کم نہیں۔ کیونکہ اس حالت میں ہم اپنے مالک کے زیادہ قریب ہوسکتے ہیں۔ ہم اللہ سے
وہ سب کچھ مانگ سکتے ہیں جو اُس نے ہمیں نہیں دیا۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ہم اپنی
خامیوں کوتاہیوں پر پچھتاتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہمیں پچھتاوے،پشیمانی،
ندامت جیسی نعمتیں مل جائیں تویہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ اللہ ہی نے تو ہمیں یہ
سمجھ دی کہ ہم اپنے کسی کئے پر پچھتائیں اور نادم ہوں۔ یہیں سے توبہ کا در کھلتا
ہے اور توبہ کی پہاڑیوں سے کچھ ہی دور کامیابی، کامرانی اورشادابی کی وادیوں سے
ملاقات ہوتی ہے۔ گویا زندگی کے سبق، پچھتاوے، ناکامی کامیابی اور فتح و کامرانی کا
دروازہ ہیں۔ ہم اللہ کے بندے ہیں۔۔۔ اللہ
کی بندگی میں بندھے ہوئے۔ ہمارا کام مانگنا ہے۔ اللہ ہمارا خالق ہے اُ س کی رضا ہے
کہ وہ ہمیں دے یا نہ دے۔ نہ ملنے پر مانگنا ترک نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جونہیں
ملتا اس میں بھی ہماری ہی بھلائی ہوتی ہے۔
ہمارامانگنا بھی تو اس کے ساتھ تعلق کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔ ہمیں اپنے خالق سے تعلق
کا ہر ذریعہ اپنانا چاہئے، چاہے شکر ہو
چاہےطلب ۔
دریائے سرن
کھیتوں کے آس پاس ہی منڈلاتا نظر
آرہا تھا۔ مجھے لگا جیسے وہ خزانہ کے سانپ کی طرح چائے کے اس خزانے کی نگرانی کر
رہا تھا۔ فرق صرف رنگ کا تھا۔ خزانے کےسانپ کا رنگ سنہری ہوتا ہے جبکہ اس کا رنگ
سرمئی تھا۔ سرمئی رنگ کے پتھروں سے گھرے دریا میں شیشے جیسا پانی اور ارد گرد
سرسبز و شاداب چائے کے قطعات عجب ہوش ربا نظارہ تھا۔
یہاں میں محکمہ سیاحت کے لئے کیاکہوں سوائے، ”ہائے“ کے۔
سیاحت کے فروغ، رغبت اور آگہی کے لئے ایک جامع منصوبہ کا ہونا ضروری
ہے۔ اجنبی راہوں پر چلتا ہوا مسافر بیچارہ
کئی جگہوں پر رہنمائی کا طالب ہوتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس پہاڑی کے پار کیا
ہے، اس موڑ کے پیچھے کیا ہے لیکن اُسے نہ رہنمائی ملتی ہے نہ ڈھنگ کی معلومات اور
وہ بیچارہ خود ہی پہاڑوں سے، راستوں سے اور وادیوں سے پوچھتے پچھاتے اپنی منزل کو
پا لیتا ہے۔ محکمہ سیاحت سے انقلابی اقدامات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے وہ تو بس
اپنے فرائض کی بجا آوری ہی کر لے تو یہی کافی ہے۔ وہ بے چارہ تو خودایسے بچے کی مانند
ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا گیاہو اور آخر وہ
نصیبوں ماراکئی قسم کے نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو گیاہو۔
پھر اس مسئلےکا
کیا حل ہے؟ اس کا حل صرف یہ ہے کہ معاشرہ
خود سامنے آئے۔ سیاحتی علاقوں کے باشندے اپنے علاقہ میں ایماندار اور مربوط
سیاحت کے فروغ کو ممکن بنائیں۔ سیاحت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس علاقہ کے
پیامبر بن جائیں اور دوسروں کو اس جگہ جانے کی رغبت دلائیں۔ لوگوں میں سیاحت کا
جوش اور جذبہ پیدا کریں۔
یہاں سے ہم واپس شاہراہِ قراقرم پر پہنچے اور وہاں سے
شنکیاری کے قریب ایک ذیلی سڑک پر چل دئیے۔ اس سڑک پر نیلے رنگ کا ایک بورڈ تھا، جس
پر لکھا تھا۔۔۔۔جبو ڑی، ڈاڈر۔
سفر میں یہ اچانک موڑ کیسے آیا؟
کتابوں کی دکان پر ملنے والے صاحب نے رات ایک جملہ بولا تھا، ”وادیٔ سرن اور جبوری کا علاقہ بھی دیکھنے والا ہے۔“
جونہی ہم نے بورڈ پر لکھا جبوڑی پڑھا تو اس طرف چل
دئیے۔ میرے ہم رکاب اس فیصلہ میں رقیب بن گئے۔۔
”جس جگہ کا پتہ نہیں ا س طرف چل پڑتے ہیں۔۔
کسی سے پوچھ ہی لیں۔۔۔ پتہ نہیں راستہ کیسا ہے۔۔۔ حالات پہلے ہی خراب ہیں۔۔۔“
میں نے جواب دیا،
”لیکن شتر بان تو اپنا تھا۔۔۔ موڑ لو
بھیا۔۔ دائیں ہاتھ جبوڑی کی طرف دیکھتے ہیں، جہاں تک جا سکے چلیں گے ورنہ
واپس آجائیں گے۔“
______________________
موسی
کے مصلی کے دیدار وارث اقبال
|
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ
آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں
سے اٹھلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ
آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو، چِلمنوں کے راز
کو سمجھو
اُٹھیں گے پردہ ٔہائے بام و در آہستہ
آہستہ
یونہی اک روز اپنے دل کا قصہ بھی
سنا دینا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ
(مصطفیٰ زیدی)
یوں
ہم شاہراۂ قراقرم چھوڑ دائیں طرف ایک سڑک
پر مڑ گئے۔۔۔۔ اجنبی دیس میں ایک اور اجنبی راستے پر۔ دریائے سرن جس کے سہارے سفر
شرو ع کیا تھا کہیں دور پہاڑوں میں چھپ گیاتھا۔۔
یہ دریا پوری وادی کو سیراب کرتا ہے۔ اس وادی میں کسی بھی طرف نکل جائیں یہ
دریا کسی نہ کسی صورت میں آن ملے گا۔
یہ سارا سال سیرابی کا کام کرتا ہے اور موسم برسات میں
تباہی کا۔ دکھنے کو یہ دریاپر سکون نالوں
کی شکل میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن جب بپھرتا ہے تو ایسا طوفان مچاتا ہے کہ بستیوں کی
بستیاں نگل جاتا ہے۔ ہمالیہ سے برفانی تودوں کو پانی کی شکل میں لاتا ہے اورپھر
سرن وادی میں ڈھیر کرتا کراتا آخر خودکو دریائے سندھ کی گودمیں گم کر دیتا
ہے۔ اگر
یہ دریانہ ہوتا تو شاید یہاں حیات میں اتنی شادابی اور شادمانی نہ ہوتی۔۔۔۔۔ اس
دریا کو میں کس چیز سے تشبیہہ دوں۔۔۔ مجھے کوئی ایسی تشبیہہ نہیں ملتی جو ا س وادی
میں اس دریا کی اہمیت کو واضح کر سکے۔۔ بس یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے دلہن اور دولہا ایک دوسرے کے بغیر
ادھورے۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔ دولہا اگر
روٹھ جائے تو دلہن کے چہرے پر ملال کے تاثرات دور سے ہی دیکھے جاسکتے ہیں اور اگر
دلہن ناراض ہو تو دولہا کی آنکھوں کا نور ماند پڑ جاتا ہے۔
کسی
کومیری ا س بات سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن میں تو اپنے تجربہ کے مطابق ہی بات
کر رہا ہوں۔
کتنی
ہی چھوٹی چھوٹی سڑکوں کو خیر باد کہتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے ہم نے شاہراۂ
قراقرم پر سوچا بھی نہ تھا کہ ان پہاڑوں اور گہری وادیوں کے اندر ان گنت چھوٹی
چھوٹی سڑکیں چھپی ہوئی ہوں گی۔ ہم جس سڑک
پر رواں دواں تھے یہ ایک کھلی اور صاف ستھری سڑک تھی۔ اس سڑک پر رواں ٹریفک سے
اندازہ ہورہا تھا کہ یہ سڑک کئی شہروں اور دیہات کو ملانے کا فرض بھی سر انجام دےرہی تھی۔ کبھی کبھی مزدا ویگنیں
اپنے شرابی انداز میں لہراتے ہوئے ہمارے سامنے آ جاتیں۔ چونکہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھااس لئے
ہم ان سے کترا کر گزر جانے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ سڑک کے دائیں طرف پکی گندم کے
قطعات کٹنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ جبکہ کچھ کٹ کٹا کر کسانوں کے گھروں میں پہنچ
چکے تھے۔ یہاں بڑے بڑے کھیت تو ہوتے نہیں
بس جس کو جہاں جگہ ملی وہاں فصل اُگا لی۔
ایک
چھوٹے سے گاؤں میں زندگی کا ایک عجیب اور انوکھا منظر دیکھنے کو ملا۔ ہوا یہ کہ
جونہی ہم ایک موڑ مڑے آگے سڑک پر کافی ہجوم دکھائی دیا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ
بارات کا ہجوم ہے۔ پہلے میں گاڑی سے اترا،
دیکھا مگر بارات دکھائی نہ دی۔ البتہ ایک گھر کے پیچھے سے مرد نکلتے ہوئے دکھائی
دئیے۔ جب میں نے غور سے دیکھا تو حیران رہ گیا ایک چھوٹی سی پکی پکڈنڈی تھی،جو کہ
نیچے کی طرف جارہی تھی کچھ لوگ ایک ڈولی اٹھائے اوپر کی طرف آ رہے تھے۔ میں نے
اپنے بچوں کو بھی بلا لیا اور ہم سب نے یہ منظر دیکھا۔ ڈولی کو چاروں ا طراف سرخ
چادر سے ڈھانپا گیا تھا۔ اس چادر کو سنہری رنگ کی کناریوں اور گوٹے سے سجایاگیا
تھا۔ اس ڈولی میں بیٹھی کوئی چاند کی شہزادی، کسی کی جان، کسی کے گھر کی رونق اپنے
پیا کے دیس جا رہی تھی۔ لوگوں کے رویوں کے اظہار نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کر
رکھا تھا۔۔۔ ایک وہ جو ودائی کر رہے تھے ایک وہ جو دلہن لے جانے کے لئے آئے تھے۔۔۔
بچوں کے اپنے مشاہدے اور نظریات تھے۔
”ہائے بیچاری اگر گر گئی۔“
انہیں کیا پتہ یہ جو باپ دادا کی رسمیں اور طور
طریقے ہوتے ہیں ان میں کتنا مزا ہوتاہے۔
اور یہ وہ رسمیں ہیں جن کی یادرہتی حیات تک کے لئے سرمایہ بن جاتی ہیں۔ رہی گرنے کی بات توکمزور کندھے کہاں ڈولی کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
پھر یہ بارات ہماری سڑک پر اُلٹی طرف چلتی رہی اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو
گئی۔
دور تک پھیلے ہوئے جنگلات اور سبزے سے بھرے پہاڑ
خوبصورت سے خوبصورت تر ہوتے جا رہے تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ان جنگلات میں
دنیا جہان کی شفائیا جڑی بوٹیاں پائی جاتی
ہیں۔ مجھے اس طرح کی جگہ آکر علم نباتات سے لاعلمی پر بہت اُکتاہٹ اور شرمندگی
ہوتی ہے۔ اگر میں علم نباتات کا طالب علم ہوتا تو میں بھی ان جڑی بوٹیوں پر اپنی
رائے دیتا یا تاثرات کا اظہار کرتا۔ میرے لئے یہ خبر بہت حیران کن تھی کہ دنیا کی
کئی یونیورسٹیز میں ان جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان پر کئی تھیسیس بھی
لکھے گئے ہیں۔ ایک تو میں نے خود بھی پڑھاتھا
جو میری سمجھ سے بالا تھا۔
ایک پُل پار کر کے آگے پہنچے تو شاہزیب جھیل کے بورڈ پر
نظر پڑی۔ یوں ہم اس بورڈ کے مطابق شاہزیب جھیل پر جا پہنچے۔ وہاں جا کر عقدہ کھلا
کہ وہ دریا جوہم دیکھ چکے تھے وہ دریائے سِرن کی ایک شاخ تھی۔ دریائے سرن کی یہ خوبصورتی ہے کہ یہ مختلف
شاخوں میں آگے بڑھتا ہے۔ہر پہاڑی کی چوٹی سے اس کا مختلف نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہیں
یہ کسی سفید ناگ کی طرح بل کھاتا دکھائی دیتا ہے اور کہیں کسی آکٹوپس کی طرح ہر شے کو
نگلنے کے لئے تیار دکھائی دیتا ہے۔
سرسبز پہاڑوں میں گہری ہوئی شاہزیب جھیل جسے دریائے سرن کی ایک شاخ سیراب
کر تی ہے وادی میں اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ لگتا تھا وادی میں دریا کا پانی بھر
آیا ہے۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد جن میں
بچے، مرد و خواتین سبھی شامل تھے دریا کے پانیوں میں کھیلوں اور مستیوں میں مگن
تھے۔ ہم نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور جسم پر چڑھی مانسہرہ کی دھوپ کی پرچھائیاں
مٹانے کے لئے ڈبکیاں لگانے لگے۔ پتہ چلا
کہ گرمی اتنی نہیں تھی جتنی ہم سمجھ رہے تھے۔ یہ جان کر ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ شاہ
زیب جھیل ایک مصنوعی جھیل ہے جو سیاحت کے فروغ کے ایک جذباتی نے یہاں بنائی ہے۔
کاروبار کا کاروبار اورخدمت کی خدمت۔ لیکن دریائے سرن کی وجہ سے یہ جھیل کہیں سے
بھی مصنوعی نہیں لگتی۔ یہاں پانی کے لئے باقاعدہ راستے بنائے گئے ہیں۔ جو کسی
چھوٹے سے دیسی ڈیم کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور حیران کن چیز ہے پانی سے
چلنے والی آٹا پیسنے کی چکیاں۔ یہاں مقامی
طور پر پانی سے بجلی بھی پیدا کی جارہی ہے۔ اگرچہ سہولتیں کم ہیں لیکن آنے والے
سالوں میں یہ بھی ایک اچھا تفریحی مقام ہوگا۔ مانسہرہ سے ایک ٹیکسی کے ذریعے یا
اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ کے ذریعے یہاں سیر کے لئے آسانی سے آیا جا سکتا ہے۔
ہم
آہستہ آہستہ جبوڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اب
ہمیں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم اونچائی کی طرف جارہے تھے۔ سڑک کے کنارے جہاں بھی
کوئی بستی آتی کہیں نہ کہیں کسی مدرسہ کا بورڈ پڑھنے کو ضرور ملتا جس سے اندازہ ہو
رہا تھاکہ یہاں مدرسوں کی کافی فراوانی ہے۔
ایک دو جگہوں پر سیاہ لباس میں موجود گورنمنٹ اسکولوں کے طلبا سے بھی
ملاقات ہوئی۔
ہم
جھیل شاہزیب سے نکلے ہی تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ ہوا کافی خوشگوار تھی جوآگے جا
کر ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ وسیع و عریض سبز چراگاہوں اور گنجان جنگلات کو دیکھ کر اندازہ
ہو رہا تھا کہ ہم شایدکاغان کی طرف جا رہے ہیں۔
ایک
چھوٹے سے قصبے ڈاڈر سے ملاقات ہوئی تو چائے پینے کی غرض سے کچھ دیر کے لئے وہاں
رکے۔ مٹی کے چولہے پر خالص دودھ کی کڑھی ہوئی چائے اور ساتھ حلوا پوری نے لاہور
یاد دلا دیا۔
یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز اور اچھے اخلاق کے مالک
ہیں۔ یہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو سعودی عرب میں ایک اسکول میں پڑھاتے ہیں اور
یہاں اپنے بچوں کے پاس چھٹیاں گزارنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس علاقہ کے
بارے میں ہوش ربا معلومات دیں۔ اس علاقہ سے متعلق معلومات کا ماخذ وہی صاحب ہیں۔
ڈاڈر کسی زمانے میں ذہنی
امراض کے ہسپتال کی وجہ سے مشہور تھا۔ پورے علاقہ سے لوگ علاج کی غرض سے یہاں آتے
تھے۔ لیکن آج یہ عظیم ہسپتال کسمپرسی کا شکار ہے۔ یہاں پھر انگریزوں کی ایک خوبی سامنے آگئی۔ انہوں نے
یہ ہسپتال بنایا تھا۔ صرف یہی نہیں اس طرح کے کئی ہسپتال۔۔ انہوں نے بنائے ہم نے
بگاڑ دئیے تو میں کس منہ سے انگریز کی غلامی کو برا کہوں۔
ڈاڈر
سے نکلے ہی تھی کہ دریائے سرن کی ایک اور شاخ سے ملاقات ہوگئی۔ چند ٹیڑھے میڑھے
موڑ کاٹتے ہوئے ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ چھوٹے چھوٹے کئی قصبے راہ میں
آتے رہے اور قرطا س ذہن کی لکیریں بنتے رہے۔ دریا
تھا جو مسلسل ہمارے ساتھ ساتھ چلا جارہا تھا۔ کہیں کہیں اس کی آوازیں کافی
خطرناک ہو جاتی تھیں، کہیں خطرناک حدوں کو
پار کر جاتا اور کہیں یہ ایسا خاموش ہو جاتاکہ اس کی خاموشی پر رحم آنے
لگتا۔
دریا اور زندگی میں بہت مماثلت ہے۔ دریا میں اگر جوش نہ
ہو تو یہ بے جان، مردہ اور بے تاثر ہو جاتا
ہے۔ اگر زندگی میں جوش نہ ہو تو یہ بھی بے جان، مردہ اور بے تاثر ہوجاتی ہے، آسیب ہوجاتی ہے یا کسی ویرانے کاروپ
دھار لیتی ہے۔ دریا ؤں میں جوش ا س کے سامنے آنے والی رکاوٹوں، دوراہوں، موڑوں اور
پتھروں کی وجہ سے آتا ہے۔ زندگی کی رکاوٹیں، انجانے موڑ اور دوراہے زندگی میں بھی
جوش اور ولولہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے
زندگی میں دریاؤں کی دھاڑ، پاکیزگی، روانی، اُٹھان، موسموں کی تبدیلی،شفافیت،
میلاہٹ، رغبت، پس مردگی، خماری اور مستی
سب زندگی کی علامتیں ہیں ۔ یہ سب کچھ کامیاب
زندگی کے معیار ہیں۔
سڑک
ہمیں ایک مرتبہ پھر دریا سے کچھ دور لے گئی۔ مجھے کچھ کچھ یقین ہونے لگا کہ ہم کاغان کی طرف
مڑ گئے ہیں۔ لیکن موسم بتا رہا تھاکہ یہاں سے کاغان بہت دور ہے۔ دریا قریب آ کر
پھر دور ہو گیا۔ کچھ ہی دور ایک اور شاخ سے گذر ہوا۔ راستہ میں ایسے خوبصورت مناظر
اورسبز میدان آئے کہ جی چاہتا تھا وہیں رک جائیں لیکن وقت اجازت نہیں دے رہا
تھا۔
کافی گھومنے کے بعد ہم جبوری پہنچ گئے۔ ایک بڑا سا قصبہ
جس کےدرمیان میں دریائے سرن بہہ رہا تھا۔ دریا کے کنارے بسی ہوئی
کئی بستیاں۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے محرابی
پل اور رسوں والے پل سب کچھ اس شہر میں موجود تھا۔ ایک شہرکی تمام ضروریات
اس شہر میں موجود تھیں۔
ہمارے سامنے
کئی پہاڑی چوٹیاں کسی دلہن کی طرح دُھند کے گھونگھٹ میں چھپی ہوئی تھیں۔ کبھی کبھی
ہوا کا کوئی تیز جھونکا اس گھونگھٹ کو سرکا دیتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ کس دلہن کا لباس
سبز مخملی ہے اور کس کا سفید پکھراج۔ ہرچوٹی کا نظارہ ہی اتنا طلسماتی تھاکہ میں تو
انہیں دیکھتا ہی چلا جاتا تھا۔ ہماری ایک طرف کاغان کے پہاڑ تھے تو دوسری طرف کوہستان
کے اور سامنے کہیں چوٹیوں میں چھپا ہواموسی کا مصلی۔
کہتے
ہیں اس چوٹی تک جانے کے کئی راستے ہیں۔جن میں سے ایک راستہ یہاں جبوڑی سے جاتا
ہے۔سڑک جبوری سے آگے بھی جارہی تھی۔ میرا تو جی چاہتا تھا کہ میں موسی کے مصلی تک
کاایک چکر لگا آؤں، میرے ہم سفر بھی راضی تھے لیکن میرے گٹے گوڈے اجازت نہیں دے
رہے تھے۔ ان سے اجازت لینا بہت ضروری تھا۔ ویسے بھی اس وقت ان کی ساری بیماریاں
جاگ جاتی ہیں جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ پہاڑوں پر پیدل چلنے کی بات ہو رہی ہے۔
میرے سامنے دریائے سرن سلیٹی موٹر وے کی طرح جبوڑی شہر
کے اندر سے گزرتا ہوا دور سبز پہاڑیوں میں غائب ہو رہا تھا۔ آ س پاس دور دور جبوڑی کے مکانات دکھائی رہے
تھے۔ ان سب مکانات میں ایک ہی خصوصیت تھی
کہ سب سرن کی طرف جھکے ہوئے تھے۔ دور کاغان کے پہاڑ دھند کی قبا پہنے ہوئے کوہ قاف
کی چوٹیاں لگتے تھے۔ لگتا تھا جیسے ابھی ان میں سے کوئی پری اڑے گی اور ہمارا ہاتھ
پکڑ کر اڑاتی ہوئی ہمیں اپنے دیس لے چلے گی۔
بھوک تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ پانی دیکھ دیکھ کر شایدزیادہ ہو گئی
تھی۔جبوڑی کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں پھرتے ہوئے ایک بزرگ نے ہمیں ایک گلی کے
اختتام تک جانے کے لئے کہا جہاں سے ہماری مرضی کا کھانا میسر تھا۔ ویسے تو کسی بھی شہر میں اگر کھانا کھانا ہو تو
بس اسٹینڈ سب سے بہترین جگہ ہوتی ہے۔
کھانا کھاتے ہوئے
میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں اس قابل ہوتا کہ موسی کے مصلیٰ تک جا سکتا۔
لیکن بہت سی خواہشیں ہیں جن کا ادھورا رہنا ہی مناسب ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ادھوری
خواہشیں ہی زندہ رہنے کا مقصد بن جاتی ہیں۔
اس
چھوٹی سی دکان پر کام کرنے والے ایک لڑکے نے میری اس خواہش کو جیسے کرنٹ لگا دیا
تھا۔ اس نے ہمیں ایک راستہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ راستہ موسی ٰ کے
مصلیٰ تک جاتا ہے۔ یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ اس کے بیس کیمپ تک پہنچنے کے
لئے کئی گھنٹے پیدل سفر درکار ہوتا ہے۔ موسی کا مصلیٰ ایک خوبصورت پہاڑی کی چوٹی
کا نام ہے۔ کہا جاتاہے کہ ایک چرواہا ا س چوٹی پر مصلیٰ بچھا کر عبادت کیا کرتا
تھا۔ اس کی یاد میں وہاں ایک زیارت بھی بنائی گئی ہے۔ یہ چوٹی اکثر برف سے ڈھکی
رہتی ہے۔۔ اس لڑکے نے بتایا کہ وہ سیاحوں کو لے کر کئی دفعہ موسی کے
مصلیٰ تک گیا ہے۔
ہماری مجبوری تھی کہ ہم 13400 فٹ بلندیہ مقام نہ دیکھ سکے لیکن چلو کچھ
قریب تو گئے۔ ا س تک پہنچنے کے دو ٹریک
ہیں ایک جبوڑی سے اور دوسرا پارس کاغان
سے۔ یہ پورا علاقہ جنگلی ریچھوں کے لئے بھی مشہور ہے۔
2005 کے زلزے نے ا س خوبصورت شہر
میں آفت برپا کر دی تھی۔ جس نے نہ اسکول چھوڑا، نہ گھر، نہ میدان، نہ ہوٹل نہ قبرستان ہر کسی پر ایک اژدہے کی طرح
لپکا اور نگل گیاجو باقی بچا وہ پکی عمارتوں کی نظر ہو گیا۔ میں نے اس بابت جس سے
بھی پوچھا ہر کسی نے ایک نئی کہانی سنائی۔ اس آفت کے دوران زخمی ہونے والوں کے زخم
ابھی تک مندمل نہیں ہوئے۔
جیساکہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ یہاں کے لوگ شفیق،
مہمان نواز اور پڑھے لکھے ہیں۔ شاعری اور علمی اور ادبی سرگرمیوں سے گہری محبت
اورلگاؤ رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ ایک مقامی شاعر کے اس کلام سے ہوتا ہے۔
میں کئی شاہ تے کئی شاہ جہان دیکھے
وسدیاں جھگیاں تے اُجڑے مکان دیکھے
مان کریو نہ سنگیو کدے کسے شے دا
میں روڈاں تے رلدے لاڈلے نواب دیکھے
(شاہ فیض ہزاروی)
سورج جبوڑی کی پہاڑیوں کے چلمن سے نمودار ہواتھا اور
مانسہرہ کی گود میں اتر رہا تھا۔ ہم واپسی کا آدھا سفر طے کر چکے تھے۔ جوں جوں رات
کے پہرے بڑھ رہے تھے خوف کے سائے اتنے ہی گہرے ہوتے جارہے تھے۔ میں سفر کا
سارا لطف بھول کر اندھیری سڑک کے فریبوں
اور مکاریوں میں کھویا ہوا تھا۔ عابد صاحب کا تھکن سے برا حال تھا۔ باقی شریکِ سفر
بھی کافی حد تک سو چکے تھے۔ ہر سائے سے ہر موڑ سے
ڈر لگ رہا تھا۔ وہ سڑک جو دن کے اجالے میں راحتیں لئے ہوئے تھی اب ایک
اندھی لکیر بن چکی تھی۔
جس
پر نہ ہونے کے برابر سفید لکیر ہم پر مسلسل احسان کرتے ہوئے ہمیں راستہ دکھا رہی
تھی۔ سامنے سے آنے والی غالباً مزدا ویگنوں کی تیز روشنیاں ہمیں اندھا کر کے گزر
جاتیں۔ جوں جوں رات ڈھل رہی
تھی دریائے سرن کی مستی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ رات کی خاموشی میں اُ س کی
دھیمی دھیمی آوازیں کسی طلسماتی دنیا کا رنگ پیش کر رہی تھیں۔ جنوں پریوں نے اُسے
گھیرے میں لے رکھا تھا۔ پہاڑوں پر سے و ادیوں میں کودتے ہوئے سائے دیکھے بھی جا
سکتے تھے اور محسوس بھی کئے جا سکتے تھے۔ ان کی طرف دیکھنا بھی عذاب تھا اور ان
سے نظر چرانا بھی عذاب۔
محفل میں بار بار کسی پر نظر گئی
ہم نے بچائی آنکھ مگر پھر ادھر گئی
ان کی نظر میں کوئی تو جادو ضرور ہے
جس پر پڑی اُسی کے جگر تک اُتر گئی
خوف کے پہرے بھی عجیب ہوتے
ہیں۔ جب یہ پہرے چھاتے ہیں تو غصہ، نفرت اور بدگمانی کی پرچھائیاں طاری کر دیتے
ہیں۔ خوف سے بچ نکلنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ ان پرچھائیوں سے بچا جا ئے۔ جس طرح کسی
جن کی جان کسی طوطے میں ہوتی ہے خوف کی جان غصے اور نفرت میں ہے۔ اگر ہم غصہ اور
نفرت پر قابو پائے رکھیں تو خوف کے جن کو
بوتل میں بند کیا جاسکتا ہے۔
نیلسن مینڈلا نے بڑی خوب بات کی،
”بہادر وہ نہیں جو خوف کی حالت میں
خود کو خوفزدہ محسوس نہیں ہونے دیتا بلکہ وہ ہے جو خوف کو مات دے دیتا ہے۔“
میں
نے بھی یہی کیا خوف کے عوامل کو مات دیتے ہوئے سڑک اور پہاڑوں سے توجہ ہٹا کر بچوں
سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔ پتہ نہیں میں نے خوف کو مات دی تھی یا خود کو دھوکہ
دیا تھا۔ خدا خدا کر
کے شاہرائے ریشم کے دیدار ہوئے لیکن اس پر بھی وہی اندھیرے کا راج تھا۔ البتہ اب
ٹریفک کچھ زیادہ تھا جس کی وجہ سے خوف کا عنصر کچھ کم تھا۔ عام طور پر ایسے وقت میں کھانا یاد آتا ہے لیکن
اس وقت اندر کی حالت یہ تھی جیسے کسی شادی سے کھا پی کر بلکہ رج رجا کے نکلے ہوں۔
جی تو چاہتا تھا کہ عابد کو چائے پلا دیں لیکن۔۔۔۔۔ دماغ یہ خطرہ مول نہیں لینا
چاہتا تھا۔ جب ہم مانسہرہ کی شہری حدود میں داخل ہوئے تو میں نے عابد کو چائے کی
پیش کش کی لیکن انہوں نے آنکھیں ملتے ہوئے ہلکا سا نہیں کہہ کر انکار کر دیا۔ سفر کے اختتام کا یہ دورانیہ بڑا
عذاب والا ہوتا ہے۔ سارا مزا کر کرا کر دیتا ہے۔ بالکل زندگی کے سفر کی طرح ساری
زندگی کو بے کیف کر دیتا ہے۔
کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے۔ ”ایک بحری جہاز بندرگاہ پر ہی
محفوظ ہوتا ہے لیکن کیاکریں کہ یہ بندر گاہ پر رکنے کے لئے نہیں بنایا جاتا۔“
ہمارا بحری جہاز قرا قرم ہوٹل پہنچ گیا۔ آرام کے لئے لیکن یہ اس کام کے لئے
نہیں بنا یا گیا۔ کل انشاللہ ہم نکلیں گے بالا کوٹ مانسہرہ روڈ پر جہاں ہو ں گی
نئی کہانیاں اور نئے لوگ۔۔
No comments:
Post a Comment