میں
نے اردگرد دیکھا، پہاڑوں کی لمبی قطاریں، سبزے سے لدی وادیاں، وادیوں میں وادیاں،
وادیوں کو چومتے دریا اور دریاؤں میں اترتے ندی نالے، پھنکارتے جھرنے، آنکھیں
مٹکاتی جھیلیں سب کچھ ان وادیوں میں تھا۔۔۔ انہی پہاڑوں سے منسلک
کتنے ہی سلسلےتھے اور انہی سلسلوں میں
تھیں، دنیا کی حسین وادیاں ۔۔۔۔۔ وادیٔ شگر،وادیٔ ہنزہ، سکردو، نلتر، گوری
کوٹ۔ اشکومن، راما، گلگت، اور جانے کیاکیا ۔۔۔۔
انہی
سلسلوں میں دنیا کے خوبصورت وسیع اور اونچے گلیشیئرز تھے، انہی
میں ملکہ پربت، ناگا پربت، جیسی عظیم چوٹیاں۔
میں ملکہ پربت، ناگا پربت، جیسی عظیم چوٹیاں۔
مجھے
سب دعوتِ دید دے رہے تھے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔مجھے ان کا اظہارِ محبت رد نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔
مجھے
یہاں سب جگہ جانا تھا۔ جس سفر پر میں گامزن تھا یہ میرا پہلا سفر تھا، یہ وہ سفر تھا
جسے محض ایک دریچہ کہا جا سکتا تھا، ایک چھوٹا سا دریچہ جس کے اندر سے گذر کر مجھے
عظیم سڑک ریشم کے کناروں کو پھلانگنا تھا، اسی در سے گذر کر مجھے شیر دریا سندھ کے
کناروں پر کئی گھنٹے لگاتار سفر کرنا تھا اور اسی دریچے سے گذر کر مجھے شاردہ یونیورسٹی اور دنیا کے بلند ترین سر سبز میدان
دیو سائی کے سینے پر قدرت کے راز
کھوجنا تھے۔ ہاں مجھے دیوسائی کی مسجد میں اپنے مالک کے حضور سجدہ شکر کرنا تھا۔
بڑے پانی کی مچھلیوں سے گفت و شنید کرنا تھی ، انواع
و اقسام کے پھول چننا تھے اور ہاں بھورے ریچھوں کو بھی تو دیکھنا تھا۔۔۔۔۔۔ ہائے
پریاں۔۔۔ شاید کہیں ملاقات ہو ہی جائے۔۔۔۔۔ اس لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بڑا رحیم وکریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو دعا میں
میری اثر نہ
(ڈاکٹر بشیر بدر)
شوگران کی یہ نومیل لمبی سڑک میرے لئے کیا معنی،
اس کی چڑھائی مجھے کیونکر ڈرا سکتی ہے۔ یہی سوچ کر میں پکوڑوں کے ساتھ چائے کا ایک
کپ اپنے شکم کی گہرائی میں اتار کر چل پڑا۔ آج جب میں اپنے سفر کی یہ داستان رقم
کر رہا ہوں تو میں اپنے اوپر ہنس رہا ہوں کہ جس نے اٹھارہ گھنٹے سندھ کے کناروں پر
ٹوٹی سڑک پہ سفر کیا، جس نے سکردو کی اجاڑ سڑک پر گاڑی دوڑائی اور جس نے راما وادی
کی خطرناک ترین سڑک پر سفر کیا۔ اس کے سامنے یہ سفر تو کچھ بھی نہ تھا۔
انسان اپنی پہلی سیڑھی پر کتنا پریشان ہوتا
ہے۔۔۔ اور پھر ہر سیڑھی اس کے لئے پہلی ہی رہتی ہے۔
ہے
سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ
راہ
میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو
پہلی
سیڑھی پہ قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں
کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو
اقبال
ساجد
کچھ ولولے،کچھ حوصلہ اور کچھ پانے کی جستجو لئے ہم
شوگران کی سڑک پر چل دئیے۔
ہمارے آگے نہ پیچھے نہ کوئی گاڑی،نہ کوئی بندہ یا ذی
روح۔۔۔ بس ہم ہی ہم تھے۔۔۔۔۔ہماری گاڑی کی آواز تھی یا کبھی کبھی جنگلی کووں کی آوازیں۔
سنسنانی تھی مگر بیابانی نہیں تھی، تنہائی تھی
لیکن ویرانی نہیں تھی۔ ہمارے دائیں جانب پہا ڑ سبزے سے اس طرح لدے ہوئے تھے کہ
لگتا تھا کہ بس گرنے کو تھے۔ کچھ نے تو اپنے جسم کے کچھ حصے سڑک کی نذر بھی کر
دئیے تھے۔ کچھ نے اپنے اوپر قائم اور موجود درختوں کی جڑوں کو بھی برہنہ کر دیا
تھا۔ اور ان کی برہنگی کو ان کے قدموں میں موجود بیلوں اور ناتواں جھاڑیوں نے چھپا
لیاتھا۔
ہمارے بائیں جانب درخت اور نباتات کی انواع و اقسام نے
ایک دوسرے کو اس طرح چھپا رکھا تھا کہ ان کے پیچھے کا منظر کوشش کے باوجود دیکھا
نہیں جا سکتا تھا۔ شاید ان کے نیچے گہری کھائیاں ہوں اور ان کھائیوں میں کوئی ندی
نالہ بہہ رہا ہو۔۔۔ کہیں جنگلی جانور سونے کی تیاریاں کر رہے ہوں۔۔۔۔۔ شاید کہیں
کوئی انسان لکڑیاں چن کراپنے گھر جا رہا ہو۔
سڑک ایک پہاڑ کے گرد گولائی میں اوپر کی طرف چڑھتی جا رہی تھی، بڑھتی جا رہی تھی۔ اس چڑھائی
کو دیکھ کر میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ آگے بہت چڑھائی ہوگی۔
کم
ازکم ایک ہزار فٹ، نہیں۔۔۔۔ دو ہزار فٹ۔۔۔۔تین ہزار فٹ۔ ہاں ہمیں تین ہزار فٹ کی
بلندی پر پہنچنا تھا۔
میں ماحول میں مگن تھا جبکہ میرے بچے کیمرے کا بھرپور
استعمال کر رہے تھے۔ بیگم بھی میری طرح کائنات کی خوبصورتی کے سحر کا شکارتھیں۔
سڑک
کئی موڑ کاٹ چکی تھی اور اسے ابھی کتنے ہی موڑ کاٹنا تھے کیونکہ یہ بنی ہی موڑوں
پر تھی۔۔۔۔یہ بس ایک پہاڑ کے ارد گر یوں لپٹی ہوئی تھی جیسے کسی گیند پر اون۔
ہمیں
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مکڑا کی چوٹی کس طرف ہے اور موسی کا مصلیٰ کس طرف۔
ایک
موڑ پر ایک اہم موڑ آ گیا سڑک پر تارکول غائب ہو گیا اس کی جگہ مٹی نے لے لی اور
کچھ ہی دور مٹی کیچڑ میں تبدیل ہو گئی۔
رات
کی بارش نے سڑک کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ کچی سڑک اور پھر پہاڑسے بہہ کر آنے
والے کیچڑ نے سڑک کو ایک ایسا تالاب بنا دیا تھا جو ناقابلِ عبور تھا۔ چونکہ سڑک
اوپر کو جارہی تھی۔ اس لئے گاڑی کو چڑھائی کے لئے طاقت چاہئے تھی مگر اس کی طاقت
کو یہ کیچڑ توڑ رہاتھا۔ کچھ دیر تو گاڑی کے ٹائر اس سرخ کیچڑ سے کشتی کرتے رہے پھر
جواب دے گئے۔ ٹائر کیچڑمیں دھنسے ہوئے تھے اور بلا وجہ گھوم رہے تھے۔۔۔
جب
عابد اس شیطانی چکروں کے سامنے بے بس ہو گیا تو اس نے ہمیں اترنے کا مشورہ دیا۔
شاہزیب سے کہا گیاکہ پچھلے ٹائر کے نیچے پتھر
رکھے۔ وہ پتھر کیا رکھنے گیا کہ ٹائر نے اس غصہ سے کیچڑ اُچھالا کہ وہ پیچارہ کیچڑ
سے لت پت ہو گیا۔
جب وہ اپنے
چہرے سے کیچڑ کا میک اپ اتار رہا تھا تو
زین اُسے چڑا رہا تھا۔
’’ اب آئے گا سٹوری میں ٹوسٹ۔‘‘
شاہزیب
نےانتہائی متانت ، برداشت کا ثبوت دیتے ہوئے
جواب دیا،
’’ آناکیا ہے آگیاہے بھائی۔‘‘
اس تجربہ سے ہم نےیہ ضرور سیکھ لیا کہ اس ابتلا سے نکلنے کا
بس یہی
ایک طریقہ ہے کہ ٹائر وں کے نیچے پتھر رکھ
کر کیچڑکی دلدل کامنہ بھردیاجائے۔
چنانچہ پتھر جمع کئے گئے، ٹائروں کے آگے پھنسائے
گئے، گاڑی کا زور لگوایاگیا، ٹائر پتھروں پر چڑھائے گئے اور کچھ انچ کا
فاصلہ طے کیا گیا۔ اس عمل سے یہ ہو اکہ ٹائر اُس جگہ سے نکل آئے جہاں انہوں نے سر
دُھنتے ہوئے گڑھا بنا دیا تھا۔پتھر اور ٹائر، پتھر اور ٹائر۔۔
پتھر
اُٹھا اُٹھا کر میری کمر رہ گئی اور گاڑی کا حوصلہ ماند پڑنے لگا۔ لیکن ہم اس کیچڑ
کے عذاب سے نکل آئے اور سب نے شکر ادا کیا۔
سڑک
اب بھی کچی ہی تھی لیکن بے کیچڑ تھی۔ سب گاڑی میں براجمان ہوگئے مگر سڑک کی پھسلن
نے گاڑی کو چلنے کی اجازت نہ دی۔ کچھ سختی برتی، کچھ حوصلہ دکھایا تو گاڑی سرکنے
لگی۔ اب یہ فیصلہ ہوا کہ ہم پیدل چلیں
کیوں کہ گاڑی کی لدی ہوئی چھت،ڈگی اور
ہمارا بوجھ سب گاڑی کے لئے اس حالت میں برداشت کرنا مشکل تھا۔
ہم
پیدل چل پڑے، ہمارے ساتھ ساتھ گاڑی بھی پیدل چل رہی تھی مجھے تو یوں لگ رہا تھا
جیسے ہم گاڑی کو اُٹھا کر چل رہے تھے۔ شام تیزی سے رات میں بدل رہی تھی۔ پرندے
چیختے چلاتے، گیت گاتے، اٹکھیلیاں کرتے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔
ہم
سکیسر میں بھی ایسے ہی تجربہ سے گزر چکے تھے۔ لیکن یہاں ہماری راہ میں افغانیوں کی
کوئی بستی نہیں تھی جہاں رات بتانے کی امید ہو۔ یہ سوچ آئی تو میرے رگ وپے میں ایک
عجیب سے درد کی ایک لہر دوڑ گئی۔اوپر سے آسمانی بجلی کی ایک کڑک تھی جس نے حوصلوں
کا مضبوط پُل پل بھر میں جلا کا راکھ کر دیا۔
جو
میں سوچ رہا تھا باقی سب بھی وہی کچھ سوچ
رہے تھے۔
زین
کے اس جملے نے میرے خوف کی آگ پر گویا پڑول کا ڈبہ ہی انڈھیل دیا۔
”پاپا اگرسڑک ٹھیک نہ ملی۔“
شاہزیب کچھ ہوش میں تھا، اُس نے فورا جواب دیا۔
”فلموں میں نہیں دیکھا ایسی حالت میں گاڑی
میں رات گذاری جاتی ہے۔“
” I am serious, this is not matter of kidding“
زین نے غصے سےشاہزیب کو جواب دیا۔
میں نے زین کے غصہ کو بھانپ کر کہا۔
”ہاں نا۔۔۔کمبل تو ہیں ہمارے پاس۔“
”مگر
عابد انکل“
شاہزیب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
ماں نے ڈانٹا۔
”چپ کرو، تم کیا ا س وقت فضول باتیں لے کر
بیٹھ گئے ہو۔“
مجھے
اب پتہ چلا کہ وہ ہم میں سب سے زیادہ ڈری ہوئی تھیں۔
ہم اِسی ہانپن کانپن میں کچھ دیرچلتے رہے۔ ایک موڑ مڑے
تو کیادیکھا کہ سامنے دو لڑکے ایک سیاہ کرولا کو دھکا لگا رہے تھے۔
اس
کرولا کو مصیبت میں پھنسے دیکھتے ہی ہمارے سارے دکھ، ڈر،خوف، خدشات اور وہم ختم
ہوگئے۔ ہمیں لگا کہ ہم صحرا کی بیبانی سے
نکل کر شہر کی رونق میں آگئے تھے یا ہم اندھیرے سے نکل کر اُجالے میں آگئے ۔
کرولا والوں کو مصیبت میں دیکھ کر ہم کیوں خوش ہو رہے
تھے۔ پہلے تو مجھے حیرانی ہوئی لیکن بعد
میں اطمینان ہو گیا۔ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب ہم خود کسی مصیبت میں ہوتے
ہیں تو کسی اور کو ایسی ہی مصیبت میں دیکھ کر کچھ
مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اور بھی کوئی ہے جو اس مصیبت میں گھرا ہوا ہے۔ اصل
میں ہمیں اطمینان یہ تھا کہ چلو اب ہم اکیلے نہیں ہیں۔۔
کرولا والوں کے پاس پہنچ کر پتہ چلا کہ گاڑی کے
اندر دو خواتین موجود تھیں اور ان کی گاڑی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ خوش قسمتی
سے وہ گڑھی شاہو لاہور کے نکلے۔ صاحب سلام کے بعد ہم نے طے کیا کہ اگر کوئی جیپ
کہیں بھولے سے اس طرف آ نکلے تو اسے دھر لیا جائے۔
یہ طہ پایا اور ہم نے اپنا رکا ہوا سفر دوبارہ شروع
کیا۔ ٹوٹی سڑک پر کیچڑ سے بچتے بچاتے چڑھائی کی طرف چلنا بہت مشکل تھا۔ لیکن جب
جان پہ بنی ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔ ٹانگیں جسم کا بوجھ ُاٹھانے سے انکاری تھیں
اور جسم پر ہوا کا جھونکا بھی پتھربن کر گررہاتھا۔
سب
سر جھکائے چل رہے تھے۔ عابد اور کرولا کچھ
تیز تھے اور ہم سے آگے تھے۔ اچانک میں نے
دیکھا کہ عابد کرولا کا بونٹ کھولے کھڑے تھے۔ جب ہم قریب پہنچے تو پتہ چلا عابد
صاحب نے کرولا ٹھیک کر دی ہے۔
سب
عابد پر واہ واہ کے پھول برسا رہے تھے۔
میں
نے سوچا کہ بیگم اور زین کو تو کرولا میں بٹھا دیں۔ پھر دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔
لاہوری بچے اور ان کی ا ماں بھی مان گئیں۔
کرولا نکو نک ہو گئی۔ جب اسے چلنے کا حکم دیا
گیاتو انکاری ہوگئی۔
پھر کوشش کی گئی تو رینگنے لگی۔۔۔۔۔ جیسے ہماری
گاڑی۔۔۔۔۔۔۔
عابد کہنے لگے۔
”بھائی جان دونوں بہنوں نے ایکاکر لیا ہے۔“
”ہاں لگتا تو ایساہی ہے۔“
اس
مشقت میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب گھور اندھیرا چھا گیاتھا۔
اچانک دور ایک موڑ کے پیچھے سے دو روشنیاں جھانکتی دکھائی دیں۔۔۔
پتہ چلا کہ ایک جیپ تیزی سےپھسلتی ہوئی ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔
دور
ہی سے آنکھیں مارنے لگی۔ ہم نے رکنے کا اشارہ کیا اور رکنے کے بعد ہم نے اس مسیحا
کے حضور مدعا بیان کیا تو اس بھلے مانس نے ہماری مجبوری سے بھر پور فائدہ اُٹھانے
کا قصد کیا اور ہمیں اپنی زندگی کے آخری گاہک سمجھتے ہوئے پورے پندرہ سو روپے کا
تقاضاکر ڈالا۔ اوپر سے ضدی ایسا کہ ا یک پیسہ بھی کم کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔
کس
پر کیا اثر ہوا پتہ نہیں لیکن اماں جی کی تو جان ہی نکل گئی۔
” اوس
انے دے پُتر کو بتاؤ کہ پہاڑ کے پیچھے جانا ہے مریخ پر نہیں جانا۔۔۔۔ قہر خدا
دا۔۔۔۔ پندراں سو روپے منگدا اے چھتر مارو گڈی و چوں لا کے“
مجھے پہلی دفعہ اماں جی ایک روایتی اماں جی لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اماں جی جو بنا بنایا کام بگاڑ دیتی ہےاور
گھروں کے گھر اُجاڑ دیتی ہے۔
اُن
کے ایک بیٹے نے میرے کان میں کہا۔
” ہم شوگران تیسری دفعہ آرہے ہیں اس لئے ماں
جی کو سب پتہ ہے۔“
میں
نے دل میں کہا ہاں کافی کچھ پتہ چل رہاہے۔
اس
سے پہلے کہ جیپ والا انکاری ہوتا میں نے آگے بڑھ کراُس سے کہا۔
”بھیا!
ہم آپ کو پندراں سوہی دے دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ ہماری دونوں گاڑیوں میں
سے جس کو بھی ضرورت پڑی تو تم ٹو دے کر اوپر لے جاؤ گے۔ ‘‘
وہ
ہنس کر بولا،
’’او
جی میں نے انجن ہی اس لئے کروایا ہے کہ آپ کی دونوں گاڑیوں کو ٹو دے سکوں۔ یہ شیر
گاڑی ہے، فور ویل جب کہیں گے جہاں کہیں گے۔ ٹو دے کر لے جاؤں گا۔“
مختصر یہ کہ سارا سامان جیپ میں رکھنے کے بعد ہم جیپ
میں بیٹھ گئے۔
جب ہم بیٹھ گئے تو اماں جی نے بالکل روایتی خواتین کی
طرح کہا۔
، ”روکو روکو۔۔ جہاں اتنا سامان رکھا ہے وہاں
میرے دو بیگ بھی رکھ لو۔ اتنا بوجھ اوس منڈے کھنڈے سے کہاں اُٹھایا جائے گا۔“
’ارے
باجی وہ تو گاڑی میں نہیں ہیں۔“
”ہے
تو مگر بوجھ تو ہے ناگاڑی میں کچھ کم ہو گا تو گاڑی تیز چلے گی۔“
یوں
ہم لاہوری خاندان اپنے بیگ اور اپنا بوجھ
جیپ میں ڈال کر چل پڑے۔
میری سیٹ ڈرائیور کے بالکل پیچھے اور اماں جی کے بالکل
سامنے تھی۔ اماں جی کے ساتھ کھڑکی کی طرف ان کا بیٹا اور ان کے ساتھ زین بیٹھا۔
زین کے ساتھ میری مسز بیٹھی تھیں۔
شاہزیب اور ایک لاہوری بچہ آگے فرنٹ سیٹ پر تھے۔
چیپ
تھی کہ ہوا کا گھوڑا ایسے اُڑ رہی تھی جیسے خالی ہو۔
ایک
لاہوری بچے نے جیپ ڈرائیور سے استدعا کی۔
”انکل آہستہ چلائیں۔۔“
ڈرائیور نے پوچھا،
”کیوں ڈر لگ رہا ہے۔۔“
بچے نے جواب دیا
”ہاں“
ڈرائیور نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
”مجھے بھی ڈرلگ رہا ہے۔۔۔۔۔ ا سی لئے تیز چل
رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر رات کو
ریچھ بھی آ جاتے ہیں۔ اس لئے میں تیز چلا رہا ہوں۔“
”لیکن وہ پیچھے والوں کو بھی تو ساتھ لے کر چلنا
ہے۔“ میں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
”اُن کی فکر نہ کریں جی وہ آ رہے ہیں۔“
جب
ڈرائیور نے یہ کہا تو اماں جی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔
میں
نے انہیں دیکھا تو مجھے لگا جیسے انہوں نے کہا ہو،
”چھتر مارو اینوں گڈی وچوں لا کے۔“
اس
دوران ان کے ساتھ بیٹھے بیٹے نے ماں کو ڈانٹا تو میں نے کہا۔
”یار فکر نہ کرو اُسے کیا پتہ چھتر کیا ہوتے
ہیں۔۔۔۔“
سب خاموش بیٹھے تھے۔ جیپ درختوں کی شاخوں سے لڑتے بھڑتے آگے بڑھ رہی تھی۔ ہمیں نہیں پتہ تھا
کہ جیپ چل رہی تھی یا چلنے کی مشق کر رہی تھی۔ اس وقت تو حد ہی ہو جاتی جب ہم میں
سے کسی کا سر اس کی گردن کے قابو میں نہیں رہتا اور ساتھ والے سے ٹکرا جاتا۔
ایک
دفعہ تو اماں جی چلائیں،
”وے ارام نال۔“
اس
سے پہلے کہ جیپ ڈرائیور کچھ کہتا میں نے پوچھا،
”یار آپ کا نام کیا ہے۔“
”عبد الشکور۔۔“
اُس نے نام بتایا تو ایک بچہ بولا۔
”ایڈا اوکھا ناں۔۔۔۔۔“
عبد
الشکور نے پوچھا،
”کیا جی۔“
میں
نے فوراً بچ بچاؤ کروانے کے لئے اپنی انٹری ڈالی۔
” کچھ نہیں یار عبد الشکور۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال
ہے یہاں روک لو اور انہیں ساتھ لے کر چلو۔“
”آپ فکر نہ کریں انکل وہ آ رہے ہیں وہ دیکھیں
شیشے میں۔“
شاہزیب نے اس کا جملہ فورا ًپکڑ لیا۔
”انکل۔۔ ہاہاانکل۔“
اماں جی کے ہاتھ پھر ایک موقع آگیا۔
”وے اینوں پوچھو اینوں تمیز نہیں کی انکل
انکل کر دا اے پیا۔“
اصل
میں اماں جی کو پندرا ں سو کا اتنا غصہ تھا کہ وہ پنیترے بدل بدل کر عبد الشکور پر
حملے کر رہی تھیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ ان کا چھتر تو تیار بیٹھا تھا۔
ایسی ہی مایاں ہوتی ہیں بندے مروا کر ایسے ایسے بین ڈالتی ہیں کہ۔۔۔فرشتوں کو بھی
رحم آنے لگتا ہے۔
” یار تم اس طرح کرو۔۔۔ آہستہ کر لو۔“
عبد
الشکور نے کچھ کہے بغیر ہی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر لی۔ میں نے پیچھے دیکھا۔ بلی
کی آنکھوں جیسی روشنیاں بھاگی چلی آرہی تھیں۔کچھ ہی دیر بعد روشنیوں کا ایک فوارہ
سا آیا اور ہمارے سامنے سے گزر گیا۔یہ ہماری گاڑیاں تھیں۔
”ارے یہ تو ریسیں لگا رہے ہیں۔“ میں نے کہا تو اماں جی کو بھی ہوش آیا۔
”وے
اینا ں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوں فون کرو۔“
ان
کے بیٹے نے بڑی تمیز سے اماں کو سمجھایا،
”اماں جی۔۔۔۔۔۔ بس کرو۔۔۔۔۔۔۔یہاں سگنل نہیں
آتے۔“
اماں
چیپ کی کھڑکی میں جکڑا ہوا لوہے کا ایک پائپ زور سے پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔ اب
کرنے کے لئے تو کچھ نہیں تھا۔ جسے بولنے کی عادت ہو وہ کیسے خاموش رہ سکتا ہے اگر
کوئی نہ بھی سنے تو وہ خود سے باتیں کرنا شروع کر دیتاہے۔۔۔۔ یا پھر ایسے عجیب و
غریب تقاضے کرتا ہےکہ دوسرے اس پر توجہ دینے کے لئے مجبور ہو جائیں۔ اس وقت اماں
جی بھی کچھ یہی کچھ کر رہی تھیں۔۔۔۔ کچھ
دیر بڑ بڑاتی رہیں پھر بولیں۔
”وے مینوں بیگ چوں کمبل ای کڈ دیو۔۔۔اے سیٹ
نے تے میرا پاسا ای لا دتا اے۔“
بیٹے
نے جواب دیا،
”کمبل کونسا میرے سرہانے پڑا ہے ماں جی۔“
عبد الشکور نے سنا تو بولا،
”سردی لگ رہی ہے بس تھوری ہی دور رہ گیا اماں
جی۔“
’نہیں اصل میں انہیں سیٹ چبھ رہی ہے۔“
میں
نے جواب دیا،
” کمبخت کا بچہ۔۔۔۔ یہ گدا لے لیں۔۔۔۔۔“
اس
نے اپنے پیچھے سے ایک گدی نکال کر دیتے ہوئے کہا۔
جب
وہ گدی اماں کی گود میں پہنچی تو انہوں نے انتہائی حقارت سے اپنے بیٹے کی طرف
اُچھال دی۔
”میں نیئں لیندی کھٹملاں دی ماری ہوئی۔“
جس
مہارت اور چابکدستی سے اماں نے گدی بیٹے کی طرف اچھالی تھی مجھے لگا جیسے ہم نے
کشن گیم شروع کر دی ہو۔ عبد الشکور کے کانوں میں کھٹمل کا لفظ گھسا تو وہ بولا۔
”اماں جی ادھر اتنی سردی میں کھٹمل کہاں۔“
اماں
جی سے رہا نہیں گیا انہوں نے دو دفعہ پائیپ پر ہاتھ رگڑتے ہوئے کہا۔
”رہن دے جواں دی ماری۔۔۔۔۔“
میں پریشان تھاکہ شکور نے کمبخت کا بچہ کسے کہا
تھا۔ میرے دماغ میں کچھ پھنس جائے تو مجھے چین نہیں آتا۔ میں نے عبد الشکور سے
پوچھ ہی لیا۔۔۔۔
”عبد الشکور تم نے کمبخت کا بچہ کسے کہا تھا؟“
”او ۔ انکل جی وہ خبیث کا بچہ پوشش والا۔۔ اس
نے سیٹوں میں دو نمبر فوم لگا دیا۔۔ جی۔“
میں نے ”اوکے
اوکے“ کہہ کر اطمینان کا سانس لیا۔
رات کا آنچل آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ ماحول میں
خاموشی برھتی جارہی تھی۔ جیپ میں سوائے جیپ کے انجن کے دوسری کوئی آواز سنائی نہیں
دے رہی تھی۔ کبھی کبھی جیپ کے گئیر بدلنے کی خطرناک آواز کانوں کے رستے دل کی
گہرائی تک اترتی اور خوف کی ایک لکیر بناتے ہوئے ماحول کاحصہ بن جاتی۔ سر سبز و
شاداب درختوں نے سیاہ لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ اب وہ مہیب سائے بن چکے تھے۔ کبھی کبھی
سامنے سے آنے والی کوئی گاڑی ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیتی۔
میں
چونکہ اس سڑک پر نووارد تھا اس لئے اس طرح بیٹھا ہوا تھا جیسے کسی نے آنکھوں پر
سیاہ پٹی باندھ دی ہو۔ اپنی منزل کے ان دیکھے مناظر کی کچھ تصویریں پردہ ٔ ذہن پر
اترتیں اور غائب ہوجاتیں۔ خنکی کا احساس بھی غالب آنے لگا اور یہ امکان بڑھ گیا کہ
آگے جا کر سردی ہوگی۔ سردی کااحساس ہوتے ہی کچھ اور خیالات بھی دماغ کی نچلی سمت
منتقل ہونے لگے۔
”کیا کمرے میں ہیٹر ہوگا؟، کیا گرم پانی ملے
گا؟، بجلی کا کیا انتظام ہو گا؟“
کھاناکہاں سے کھائیں گے؟ اور کیا کھائیں گے۔“
؎ ا ندر سے جواب ملتا، ’’ میں تو جاکر ایک سٹرانگ سی چائے پیوں گا۔“
ایک
موڑ آیا۔ یہ حتمی موڑ تھا اور ہماری جیپ ایک ہوٹل کے سامنے جاکر رک گئی۔ سامنے
عابد صاحب گاڑی کا دروازہ کھولے دروازے سے ٹیک لگائے ہمارے منتظر تھے۔ جونہی میں
جیپ سے نیچے اترا تو اُس کے یہ جملے میرے کانوں میں رس گھول گئے۔
”بھائی جان گاڑی ٹھیک ہے۔ آپ اپنی گاڑی میں آ
جائیں اور جیپ کو فارغ کر دیں۔“
”مگر یار آفاق ہوٹل کتنی دور ہے۔“
ساتھ
ہی ہے میں نے پتہ کر لیا ہے۔۔ بکنگ کنفرم ہے۔“
’’ شکر یار تنویر کام آیا۔‘‘
یہ میرا کزن
تھا جو اسلام آبادرہتا تھا اور یہاں شوگران میں اس کے کچھ قریبی دوست ہوٹلوں کے
کام سے وابستہ تھے۔ میں نے بالاکوٹ پہنچ کر اُسے فون کر دیاتھا۔ جس کی وجہ سے ہم
بکنگ کی کھجل خواری سے بچ گئے تھے۔ ان ہوٹل والوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا چاہے سارا
ہوٹل خالی ہو یہ ”فل ہے“ کا بورڈ لگا دیتے ہیں اور پھر گاہک کے ساتھ وہی
سلوک کرتے ہیں جو ہمارے ہاں ایک کاروباری کرتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو لوٹ لیں۔ یعنی
جو سلوک ایک قصائی مرغی کے ساتھ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیچاری کی مُنی سی دُم بھی
بیچ دیتا ہے۔
لاہوری فیملی سے الوداعی سلام دعا کے بعد ہم
اپنی گاڑی میں بیٹھ کر آفاق ہوٹل جا پہنچے۔
No comments:
Post a Comment