قصہ
شاہوں کا وارث اقبال
|
تھکے
ہوئے تو تھے ہی خوب ڈٹ کر آرام کیا اور پھر ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ بچوں نے دوران ناشتہ
اور بعد از ناشتہ خوب سیلفیاں بنائیں۔ اپنے موبائل، چارجر ز، کیمرے اور بیٹریاں
وغیرہ تیار کیں۔ چونکہ ہمارے پاس وقت کی کوئی کمی نہ تھی اس لئے میں نے بھی کسی کو کوئی وخت نہ ڈالا
اورسب کو سکون سے تیار ہونے کی کھلی چھٹی دے دی۔
جب سامان گاڑی پر باندھا
جا رہا تھا تومیں نے ترپال ڈالنے کی استدعا کی لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی۔ یوں
ہم بے ترپالے ہی ناران کی طرف گامزنِ سفر ہوگئے۔ ابھی شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ مجھے محسوس ہوا کہ راستہ اور
ماحول کچھ دیکھا دیکھا اور جانا پہچاناساہے۔ پھر سوچا کہ پہاڑی علاقوں کے راستے اور ڈیفینس
کی سڑکیں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، جس بھی سڑک پہ چلے جاؤ لگتا ہے ابھی یہیں سے ہوکر
گزرے تھے۔ لہذا چپکے بیٹھا رہا۔ ایک موڑ
پر ایک چھوٹی سی دکان پر نظر پڑی جہاں سےہم نے مانسہرہ جاتے ہوئے ایک عدد سیون اپ
لی تھی۔ میں نے وہ دکان دیکھ کر عابد سے کہا۔
”عابد یہ راستہ پہچانا۔“ جواب ملا، ” نئیں جی۔“
”بھیا! کیا یہ راستہ ایبٹ آباد کو نہیں جارہا۔“ ”اچھاجی۔۔۔۔۔“
عابد
نے سرسری سے انداز میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ شاید انہیں یقین تھا کہ
میں مذاق کے موڈ میں ہوں۔
”یاد
ہے کبھی ہم نے یہاں سےگزرتے ہوئے ایک عدد سیون اپ خریدی تھی۔۔۔۔۔“
”اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی جان میں بھی سوچ رہا تھا
کہ یہ راستہ کچھ دیکھا دیکھا لگ رہاہے۔“
”اچھا تو
پہلے کب یہاں آئے؟ کیا سیف الملوک کے لشکر میں تھے؟۔۔۔ مگر کیا پتہ وہ بھی یہاں سے
گزرا تھا یا نہیں۔“
میں نے طنز
کیا تو عابد نے بھی مکمل چبھتا ہوا جملہ کسا،
”بھائی جان وہ
تو جھوٹی کہانی ہے۔۔۔۔ جب کہانی جھوٹی ہے
تو شہزادہ بھی جھوٹ موٹ کا ہوا نا۔۔۔۔۔۔آپ ہیں کہ اُسے سچ مانتے ہیں۔“
”یار! اب اتنے بڑے بندے نے کہانی لکھی ہے کچھ نہ کچھ
تو سچ ہوگا۔۔ نا۔“
اسی نوک جھوک میں گاڑی کا منہ بطرف مانسہرہ ہوا۔ یعنی
ہم آدھ گھنٹہ ایبٹ آباد کی طرف سفر کرنے کے بعد واپس اسی سڑک پر مڑے اور دوبارہ
ناران کی طرف نہیں مانسہرہ کی طرف چل دئیے۔
یہ اثر ہوتا ہے زیادہ ناشتہ کا۔ گاڑی میں خوب مستی کا
ماحول بن گیا۔
اسی
دوران مجھے ایک ہوٹل دکھائی دیاتو چائے نے
طلب کے تازیانے برسانا شروع کر دیئے۔ چنانچہ ہم نے وہاں رک کر انتہائی سکون سے
چارپائی پر بیٹھ کر مزے کی کڑک ٹرک ڈرائیوروں والی چائے پی اورفیصلہ کیا کہ اب ہم نے کم از ایک گھنٹہ کہیں
نہیں رکنا۔
سرمئی
سانپ کی طرح بل کھاتی جلکھڈ مانسہرہ روڈ جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی توں توں قدرت کی
خوبصورتی عیاں ہو رہی تھی۔
مجھے لگاجیسے یہ سڑک مجھ سے کہہ رہی تھی۔
چل میرے ساتھ ہی چل اے میری جانِ غزل
ان سماجوں کے بنائے ہوئے بندھن سے نکل
ہم وہاں جائیں جہاں پیار پہ پہرے نہ
لگیں
دل کی دولت پہ جہاں کوئی لٹیرے نہ
لگیں
کب ہے بدلا یہ زمانہ تو زمانے کو بدل
پیار سچا ہو تو راہیں بھی نکل آتی ہیں
بجلیاں عرش سے خود راستہ دکھلاتی ہیں
تو بھی بجلی کی طرح غم کے اندھیروں سے
نکل
چل میرے ساتھ چل
اے میری جانِ غزل
ہم
مانسہرہ سے ہی سڑک پر ٹریفک کا خاصا دباؤ دیکھ رہے تھے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ چونکہ
یہ پہاڑی علاقہ ہے ا س لئے یہاں ٹریفک زیادہ ہے۔ لیکن ٹریفک کا دباؤ برقرار تھا۔
لگتاتھا سارا جہان ہی ا س سڑک پر نکل آیا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں ٹریفک کا دباؤ سڑک
پر کم اثر انداز ہوتاہے ہم جیسے مسافروں کے ڈرپوک دماغوں پر زیادہ ۔ نتیجتاً چکر
اور الٹیاں سارا سفر بے کار کر دیتی ہیں۔ اس لئے دماغ پر
ایک حد سے زیادہ دباؤ نہیں ڈالناچاہئے۔
یہاں
پھر مزدا والوں سے پالا پڑا یہ قوم جہاں بھی ہوگی اپنی خدادا صلاحیتوں اور پیشہ
وارانہ مہارتوں کا لوہا منوا کر ہی دم لیتی ہے۔ یہ سڑک پر نہیں چلتے بلکہ مسافروں
کے اعصاب پر چلتے ہیں، بلکہ دوڑتے ہیں۔ یہ کسی سامری
جادوگر کی طرح اچانک کہیں سے نکل آتے ہیں اور ایسی ہارن بازی کرتے ہیں کہ ہم جیسے
مجبور و ناتواں مجبور ہو کر کسی پہاڑی کے کونے میں پناہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ مزدا کی شاگرد ہے سوزوکی
پک اپ، جو یہاں کثر ت سے پائی جاتی ہے۔
یہاں کے لوگوں نے سوزوکی پک اپ کو بنانا سنوارنا اور اُس کے ناز نخرے برداشت کرنا
سیکھ لئے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ ان بیچاریوں سے نا صرف اپنی خدمتوں کا عوضانہ ان بل
کھاتی سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر اور لہرا لہرا کرلیتے ہیں بلکہ ان کے کردار کی ساری
پاکیزگی کی جانچ پڑتال بھی انہی بل کھاتی سڑکوں پرکرتے ہیں۔ دوسرا کردار جس سے ان
سڑکوں پر ٹا کرا ہوتا ہے وہ ہے ٹرک۔ یہ کہاں کے ہوتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں اور
کہاں کو جاتے ہیں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ایک ملک ہونے کے باوجود یہ ہر جگہ مختلف اشکال کے پائے جاتے ہیں۔ یہاں جو ملتے ہیں
وہ منگولی ٹھگنے اونٹ نما ہوتے ہیں ۔
دور سے دیکھ کر
لگتا ہے کہ یہ شاید اپنا بوجھ بھی نہیں اُٹھا سکتے لیکن جب پاس آتے ہیں تو
لگتا ہے کہ ساری کائنات کو سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ انہیں جھومتے جھامتے دیکھ کر
بندے کا خودجھومنے کو جی چاہتاہے لیکن جب پا س آتے ہیں تو ان کی جھانجروں کی ایسی
چھن چھن سنائی دیتی ہے کہ بندا سمجھتا ہے شاید پری بدیع ا لجمال اپنی سہیلیوں کے
ہمراہ آ نکلی ہو۔
پری بدیع الجمال سے مجھے میان محمد بخش کی کہانی سیف
الملوک یاد آگئی۔ یہ وہ کہانی ہے جو پنجاب کے طول وعرض میں ا س طرح سنائی جاتی تھی
جس طرح ہمارے ٹی وی چینلز حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں سناتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے
کہ سیف الملوک مصر کے بادشاہ عاصم شاہ کا لخت جگر تھا اور یہ حکمران شہزادے
پاکستان کے کسی وڈیرے، جا گیردار یا کسی سیٹھ کے لخت جگر ہیں۔ شہزادہ سیف الملوک
کا باپ بقول میاں محمد بخش حضرت سلیمان کے خاندان سے تھا۔ بقول مصنف حضرت سلیمان
نے حضرت یوسف ؑکے حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے
اپنے وزرا اور مشیروں سے سوال کیا کہ کیا آج دنیا میں کوئی ہمارے یوسف جیسا
خوبصورت ہے۔ جواب ملا، نہیں۔ حکم دیا تلاش کرو۔
فوجوں کی فوجیں اس خوبصورت کی تلا ش میں نکلیں۔ گھروں سے نکال نکال کر
جوانوں کی خوبصورتی کا امتحان لیا جانے لگا۔ شاہی خزانہ اس طرح استعمال کیاگیا جس
طرح آج حکومتی مشینری اپنے اُمیدوار کو جتوانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔آج تو ووٹر
بک جاتاہے اور سرکاری مشینری کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اس وقت ساری سرکاری مشینری
ناکام ہو گئی۔ نجومیوں کو بلایا گیا وہ کئی دن اپنے قرطاس پھیلا کر بیٹھے رہے۔ بعد
میں انہوں نے رپورٹ دی کہ بادشاہ کے خاندان میں ہی ایک جوان ہو گا سیف الملوک جو
ایک پری بدیع الجمال کے عشق میں مبتلا ہوگا۔ یوں سند رکھنے کے لئے شہزادہ اور پری
کی ایک تصویر بنائی گئی اور کچھ نشانیوں کے ساتھ یہ تصویر ایک صندوق میں بند کر دی
گئی۔
اس واقعہ کے
کئی سو سال بعدشاہِ مصر عاصم کے ہاں بہت ہی منتوں مرادوں کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا
جس کا نام سیف الملوک رکھاگیا۔ نجومیوں کے مشورے سے شہزادے کو عیش وعشرت سے بھرپور
محل میں پالا پوسا گیا اور اسے ہر ہنر کا ماہر بنایا گیا۔ جب شہزادہ امور مملکت کی
انجام دہی کے قابل ہوا تو بادشاہ نے اپنے سارے اثاثہ جات بیٹے کے سپرد کر دئیے۔ ان
اثا ثہ جات میں شاہ سلیمان کا دیا ہوا
صندوق بھی شامل تھا۔
ایک دن شہزادے نے صندوق کھولا تو وہ تصویر اُس کے ہاتھ
لگی۔ تصویر دیکھ کر شہزادہ حیران ہی نہ ہوا دیوانہ ہوگیا اور قصد اس پر ی کو پانے
کا کیا۔۔ میاں محمد بخش نے اس منظر کو جس طرح بیان کیا وہ ترجمہ کی صورت میں پیش
ہے۔
وہ کیسی من موہنی صورت تھی کہ اُس کے حسن کی تاب سے آسمان
کا چاند روشن تھا۔ اُس کے نقش و نگار حوروں سے بھی بڑھ کر تھے اس کے حسن کی ضیا کے
سامنے چراغوں کی لو ماندتھی۔ وہ ایسا حسن بے مثال تھا کہ اگر دانا بینا لوگوں کی نظر
اُس پر پڑ جاتی تو ساری دانائی بھول جاتے۔ اگر لقمان جیسا صاحبِ فہم حکیم یا افلاطون
جیسا باکمال فلسفی اُس کے حُسن کی ایک ہی جھلک دیکھ لیتا تو اپنے فہم و ادراک کی دولت
یک لخت اُس کے قدموں میں ڈھیر کر کے مجنوں اور دیوانہ ہو جاتا۔ سیف الملوک نے جب یہ
تصویر دیکھی تواُس کے اندر طوفان برپا ہو گیا اور وہ شعلہ بن کردہکنے لگا۔
شہزادہ جوں جوں
اس تصویر کو دیکھتا توں توں حیرانی کے صحرا میں دھنستا چلاجاتا۔ پھر وہ خود سے
مخاطب ہوتا کہ یہ مورت انسانی نہیں ہو سکتی یہ تو کوئی حور ہے یا مالک کا کوئی خاص
تحفہ۔ مگر یہ ہے کس زمین کی، کس دیس کی، کس جہان کی اور میری تصویر کے ساتھ کیوں
ہے۔ جوں جوں وہ تصویر کو دیکھتا جاتا اس اجنبی ہستی پر اپنا سب کچھ قربان کرتا
چلاجاتا۔
پنجرے میں بند پنچھی جب قید سے تنگ آجاتا ہے تو اس
پنجرے سے ہی سرٹکرا ٹکرا کا مر جاتا ہے یہی حال شہزادے کا تھا۔ اب یہ محل اسے قید
خانہ لگ رہا تھا یہاں کی رونقیں اور مستیاں سیاہ رات میں بدل چکی تھیں۔ نہ اسے
کھانے کا ہوش رہانہ پینے کا۔ بس سوچ تھی تو اس مورت کی اور فکر تھی تو اس صورت کی
اور مقصد تھا تو اسے پانے کا۔
ایک دن مصر کا یہ لعل عشق کے بے لگام گھوڑے کی طرح محل
کی ساری حدیں توڑ کر، پوشاکِ زریں پھاڑ تے ہوئے، آنکھوں کے راستے خون جگر بہاتے
ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کی راہوں پر نکل کھڑا ہوا۔ شاہِ مصر اور ملکہ نے شہزادے کا یہ حال دیکھا تو خون کے
آنسو بہانے لگے۔ شاہ نے اپنی ساری طاقتیں لگا ئیں اور اپنے ملک کے حسین جواہر شہزادہ کی خدمت میں پیش کر دئیے ۔ مگر شہزادہ تھا کہ کسی حسن اور کسی رعنائی کی
طرف تکتا تک نہ تھا۔ پھر ایک دن شہزادے نے اس مورت کی ہستی کو پانے کے لئے سفر کا
قصد کیا۔ مجبور ماں باپ نے بحری بیڑے اور فوجوں کو ہمراہ کیا۔ یوں شہزادہ شان و
شوکت اور رعب و دبدبے کے ساتھ اپنی محبوبہ پری کی تلاش میں نکلا۔
اپنے قاری کی حدِ دلچپسی کاخاص دھیان رکھتے ہوئے میں یہ
داستان گاہے بگاہے سنانا پسند کروں گا۔ ابھی ہم شہزادے کے عشق کی حد دیکھنے کی
بجائے اپنے سفر کے ماحول کو ہی دیکھتے ہیں۔
محکمہ سڑک ساز کی تعریف ضرور کرنا پڑے گی کہ جنہوں نے
اس سڑک کی روانی کو ممکن بنا یا۔ ورنہ جس طرح زلزلے نے یہ علاقہ مسمار کیا تھا سوچ
کر بھی خوف آتا تھا۔ اس زلزلہ کے قیامت کے
آثار ابھی بھی جابجا موجود تھے۔۔۔۔۔ ٹوٹے پُل،ڈھے گھر، اُلٹے ہوئے کھمبے اور
ادھوری دیواریں۔
دھوپ اتنی شدید تھے کہ آسمان کو کسی کااُس کی طرف
دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ اس لئے آسمان لامتناہی پر ہمیں سامنے کچھ نہیں دکھ
رہاتھا۔ گاڑی میں بھی ا س دھوپ کا اثر تھا اوپر سے ہم اے سی بھی نہیں چلا سکتے تھے۔ مجبورا ً کھڑکیاں
کھولنا پڑیں جن سے ہوائیں اس طرح گزر رہی تھیں
جیسے جھکڑ۔
ہم چٹا بٹہ کے علاقہ سے گذر رہے تھے۔ یہ علاقہ 2005 کے
زلزلے سے پہلے اتنا مشہور نہیں تھا جتنا زلزلے کے بعد مشہور ہوا۔ یہ علاقہ زلزلے
کے مرکز کے قریب ترین ہونے کے باوجود زلزلے سے محفوظ رہا تھا۔ یہی وہ علاقہ تھا
جہاں کے باسی زلزلہ متاثرین کی مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچے۔ چونکہ یہ علاقہ مرکزی
سڑک کے قریب تھا اس لئے دور دراز کے پہاڑی علاقوں کے متاثرین یہیں آتے اور یوں یہ
علاقہ متاثرین کی بحالی کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا۔
سرسبز وادیوں، شفاف پانیوں اور گنگناتے جھرنوں سے آراستہ اس زمین کے باسی بھی بہت خوبصورت،
ہمدرد اور مونس و غمخوار ہیں۔ اس لئے زلزلہ کے دنوں میں یہاں کے لوگوں نے ایثار و
قربانی کی نئی مثالیں قائم کر کے ایک خدمت تو انجام دی ہی تھی مگرتاریخ میں بھی
اپنا نام رقم کروالیا۔ ان کی ایثار و قربانی کی کہانیاں آئندہ نسلوں تک یا د رکھی
جائیں گی۔
یہاں
سفید پتھر پائے جاتے ہیں ا س لئے اسے چٹہ
بٹہ کہا جاتا ہے۔ چٹا بمعنی سفید اور بٹہ بمعنی پتھر۔
یہاں سے کچھ ہی دور ایک ہوٹل دکھائی دیا۔۔۔ درویش ہوٹل۔ ہوٹل کے سامنے ایک
چھوٹا ساجنرل اسٹور بھی موجود تھا۔ ہوٹل کے قرب و جوار کے قدرتی مناظراور محل وقوع
اتنا خوبصورت تھاکہ ہم وہاں رکنے پر مجبور ہو گئے۔ بچوں نے جنرل اسٹور سے اپنی
اپنی پسند اورضرورت کی اشیا لیں اور پھر ہم ایک ہال نماکمرے میں بیٹھ گئے جہاں
پردے لگا کربا پردہ اور بے پردہ خواتین کے لئے پردے کا معقول انتظام کیاگیا تھا۔
پتہ نہیں مکھیوں کو کہاں سے پتہ چل گیا تھا کہ یہاں میٹھے لوگ آئے ہیں۔ چنانچہ وہ
ہمارے استقبال کے لئے قافلہ در قافلہ وہاں
پہنچ گئیں۔ انہوں نے پردہ کا بھی لحاظ نہ کیا بس انتہائی بد ذوقی سے ہمارے اوپر
ٹوٹ پڑیں۔ ایک دو نے تو اپنے سیاہ پنکھ ہماری چائے سے دھونے کی بھی کو شش کی۔ اگر
ہم ہوش میں نہ ہوتے تو قریب تھا کہ چائے کی جھیل میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے کئی مکھیاں
اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتیں۔ اس لئے ہم ان کی جان بچانے کی خاطر محتاط ہو کر
بیٹھ گئے۔
مکھیوں کو اللہ نے عقل سلیم سے نہیں نوازہ۔ یہی وجہ ہے کہ
وہ کچھ پانے کے لالچ میں موت کی چائے میں کود
کرڈوب مرتی ہیں۔ مکھی چائے کی پیالی میں کودتے ہوئے نہ تو اپنی کسی ساتھی کو دھکا دیتی
ہے نہ کسی کا خون کرتی ہے۔ مگر انسان جسے اللہ نے عقل ِ سلیم عطا کی ہے وہ لالچ میں
آ کر غرض کے مشروب سے بھری پیالی میں کود کرا
پنی ہی جان نہیں دیتا بلکہ غرض کی چائے نوش کرنے کے لئے اپنے ہی ہم جنسوں کو موت سے بھری پیالی میں دھکا دے دیتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ
کر وہ اپنی غرض کے لئے دوسروں کا خون کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یوں حضرتِ انسان
مکھیوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔
مکھیوں کے ہاتھوں پامالی سے بچی چائے نوش کرنے
کے بعد میں سگریٹ کی طلب کے ہاتھوں مجبور ہو کر اٹھا اور باہر کسی ایسی جگہ کی
تلاش میں نکلا جہاں میں خاموشی سے اپنے
خیالات کی محفل سجائے سگریٹ پی سکوں۔۔چائے اور سگریٹ میں چولی دامن کا ساتھ
ہے۔چائے پی لیں تو سگریٹ کی طلب ہوتی ہے سگریٹ پی لیں تو چائے کی طلب ہوتی ہے۔
ایسی جگہوں پر ٹرک بہت کام آتے ہیں آپ سکون سے کسی بھی
ٹرک کی اوٹ میں سگریٹ پی سکتے ہیں۔ میں نے ایک فینسی سے ٹرک کی اوٹ میں جا کر
سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ ایک باریش اورسمجھدار سا شخص بھی وہیں آ نکلا۔ میں نے انہیں سلام کیاتو انہوں نے گردن ہلا کر
جواب دینے کی کوشش کی اور ٹرک کا سہارا لے کر دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ ان
کی بے اعتناعی دیکھ کر میں سمجھاشاید انہیں میری سگریٹ نوشی مے نوشی لگی ہے۔ ان کے
اندازِ تغافل پر تو یہ بھی گمان ہوا کہ جیسے رمضان کا مہینہ ہو اور میں بے
روزہ۔ لیکن میں بھی کہاں ہار ماننے
والاتھا۔ میں نے ذرا با آوازِ بلند السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہا تو انہوں نے
وعلیکم السلام پورا ادا کر دیا۔ پھر اچانک وہ اپنی جیبوں میں ادھر ادھر کچھ تلاش
کرنے لگے۔ وہ پریشان بھی تھے۔ آخر معمہ حل ہوا انہوں نے شلوار کی جیب سے ایک نیم
مردہ سگریٹ نکالا، اُسے چاروں اطراف سے زبان پر پھیرا اور اپنے بائیں ہاتھ میں دبا
کر مجھ سے مخاطب ہوئے، ”صاحب ماچس ہوگا۔“
میں
نے جواب دیا، ”کیوں نہیں مگر
ہوگی۔۔۔“
انہوں نے ایک دکھی سی مسکراہٹ میرے حوالے کرتے ہوئے مجھ
سے ماچس لے کر سگریٹ سلگا لیا۔۔ پھر وہی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ موسم پر
اور کچھ سڑک پر بات کر کے ان کی لجا اور
ہچکچاہٹ دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ جب میں نے محسوس کیا کہ وہ رواں ہو گئے ہیں
تو میں نے اُن سے پہلا سوال کیا کہ بالاکوٹ یہاں سے کتنی دور ہے۔ انہوں جواب
دیا، ”یہ بالاکوٹ ہی ہے۔“
شاید میرا سوال درست نہیں تھا۔ مجھے پوچھنا چاہئے تھا کہ یہاں سے بالاکوٹ
شہر کتنی دور ہے۔ خیر میں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سفر جاری رکھا اور اگلا
سوال داغ دیا۔
”یہاں حضرت شاہ اسماعیل کا مزار کہاں ہے؟“
انہوں نے پھر حیران کن جواب دیا۔
”یہیں۔“
میں نے سمجھا وہ مذاق کر رہے ہیں۔
میں نے تصحیح کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہاں کہاں؟“
”یہاں سے کچھ ہی دور سڑک کے پار ریڑھ میں ہے نا۔“
انہوں نے مکمل جملے میں جواب دے کر میرے حوصلہ
کے گھوڑے کو جیسےایک چابک لگا دی ہو۔
میرا حوصلہ بڑھ گیا تومیں نے اگلا سوال پوچھ کر آزمایا،
”یہ
سارا چٹا بٹا کاعلاقہ ہے۔ یہاں کوئی کہانی
یا کوئی خاص بات جو مشہور ہو۔“
”کوئی خاص نہیں۔۔۔ ہاں کچھ بزرگ بتاتے ہیں کہ یہاں ادھر ایک خبیث کا بچہ
جادوگر تھاوہ جس پر غصہ کرتا اُسے چٹان میں بدل دیتا تھا۔ ایک سر پھرے ہاتھی کو اس
نے پتھر کا بنا دیا۔ ادھر وہ چٹان ہے جو ہاتھی کی شکل کا ہے۔ ادھر چٹا پتھر بھی
بہت ہوتا تھا۔۔۔۔۔ مگر اُس بد بخت نے کالا کر دیا۔“
”آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔،یہیں کے رہنے والے ہیں
یا مسافر ہیں۔“
میں نے بہت احتیاط سے راہ ورسم بڑھانے کی کوشش کی۔ وہ
پہلے مسکرائے اور پھر انتہائی سنجیدہ ہو کر بولے۔
”ہم سب ہی مسافر ہیں۔۔۔۔۔ کوئی ادھر ہے کوئی
ادھر ہے۔“
انہوں نے بات کرتے ہوئی انگلی سے اوپر کو اشارہ کیا۔ میں تو ڈر ہی گیا۔ خطرناک پہاڑی راستوں پر یہ
ہمیں اوپر کے سفر کی راہیں دکھا رہا ہے۔ میں نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔
”جی
بالکل ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔“
ا س
سے پہلے کہ میں اپنی آسان سی بات مکمل کرپاتا انہوں نے جواب دیا،
”میں ادھر عطرشیشہ میں رہتا ہوں اور میری بہن
مانسہرہ میں۔۔ اسی سے ملنے جارہا ہوں۔“
ان
کی سگریٹ ختم ہو گئی تھی لیکن میری ماچس کا قرض چکانے کے چکر میں وہ رکے ہوئے تھے۔
بس ان کا ہاتھ میری طرف طلب اجازت کے لئے بڑھتے بڑھتے رک جاتا۔ ان کی بے زاری دیکھ کر میں نے کہا۔
”اچھا جی آپ کو جلدی ہوگی، بڑی خوشی ہوئی
آپ سے مل کر مگر صرف ایک بات بتا دیجئے یہ
آپ سگریٹ کو چاٹتے کیوں ہیں۔“
میرا سوال سن کر وہ ہنسنے لگے۔
”چاٹتا کب ہوں میں توگیلا کرتا ہوں۔۔۔ نہ کروں تو کم بخت جلدی
جل جاتا ہے۔“
میں
ہنسنے لگا،
”اچھاتو آپ سگریٹ کو تڑپاتڑپا کر پیتے ہیں۔“
شاید
میرا جملہ انہیں گہرائی تک سمجھ آگیا۔ جبھی تو انہوں نے اجازت لینے سے پہلے مجھے
اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی اور نہ رکنے کی معذرت بھی کی۔
یوں میں چند نادر معلومات لے کر گاڑی میں بیٹھا اور ہم
اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب گامزن ہوئے۔
میں
گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ بچوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا ہی نہیں اچک ہی لیا۔ کسی
کو بھی یوں اجنبی کے ساتھ سرِ راہ میرا اس طرح ملنا ملانا اچھا نہ لگا تھا۔ لیکن میں کیاکروں کہ میں جس مقصد کے لئے نکلا
تھا اُسے پانے کے لئے مجھے یہ خطرات تو مول لینا تھے۔
یہاں مجھے چینی دانشور کنفیوشس یاد آرہاتھاجو ریاست ریاست، نگر نگرپھر کر
معلومات حاصل کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے اس کے شاگردسے پوچھا،
”کیا تمہارا استاد معلومات کے حصول کے لئے
بہت جستجو کرتا ہے یا کہ معلومات اُسے پہنچا دی جاتی ہیں۔“
کنفیوشس کے شاگرد نے جواب دیا،
”ہمارا استاد خوش اخلاقی، راستی، ایمان داری،
انکساری، میانہ روی اور خوش اطواری کے ذریعے یہ معلومات حاصل کرتا ہے۔“
میں
نے بھی یہی طور اپنایا اور اپنے سفر کے دوران جہاں بھی مجھے کسی سے معلومات کا
حصول درکا ر ہوا میں نے اپنی خوش اخلاقی، ایمان داری اورانکساری کی وجہ سے ضروری
معلومات حاصل کر لیں۔ یہا ں میں دو خصوصیات مزید شامل کروں گا وہ ہیں اخلاص و شائستگی ۔اگر ہم دوسروں کے بار
ے میں اچھا سوچتے ہیں تو یقینا دوسرے بھی ہمارے بارے میں اچھاسوچتے ہیں۔اگر ہم
دوسروں کے ساتھ شائستگی برتتے ہیں تو دوسرے بھی ہمارے ساتھ شائستگی برتتے ہیں۔ اگر
ہمیں ہماری توقع کے نتائج نہیں ملتے تو بھی ہماری کوشش یا طریقہ کار ہی میں کہیں
کوئی کمی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی ضرور سمجھنا ہے کہ یہ کائنات تنوع سے
مزین ہے۔اگر تنوع نہ ہو تو کائنات کا ایک ہی رنگ دیکھ دیکھ کر ہم اکتا جائیں۔ اس
لئے سوچ،رویوں اور اظہار میں اختلاف دراصل
تنوع کی ہی صورتیں ہیں۔
سڑک چلتی جارہی تھی، اٹھتی جارہی تھی ، چڑھتی جا رہی
تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں سبزہ بڑھتا جا رہا تھا۔درختوں کی اوٹ میں سے جھانکتے
میدانوں میں بنے ٹین کی چھت کے گھر اور پولڑی فارم نمایاں ہوتے جارہے تھے۔ ان
شاداب اور کھلتے پولٹری فامز کو دیکھ کر مجھے تو ان میں سستانے والی مرغیوں کی
قسمت پر رشک آرہا تھا۔ ایک پنجاب کی مرغیاں۔۔۔
گرمی، گندگی اور آلودہ ہوا کی ماری
اور ایک یہ ٹھنڈا،معتدل موسم، صاف ہوا، شاداب مناظر۔ یہاں کی مرغیاں تو بہار کے سہانے گیت گاتی ہوں
گی اور پائلیں ڈالتی ادھر ادھر بھاگتی اور ٹھمکتی پھرتی ہوں گی۔ یہاں کے لو گ پولٹری فارمز کی مرغی کم استعمال
کرتے ہیں۔ اسی لئے یہاں مرغ مہنگا اور بکرا سستا ہے۔ ناران کاغان کے مرغ فروش یہاں
سے مرغی خریدتے ہیں اور یہ کہہ کر مہنگے داموں
بیچتے ہیں کہ انہیں مرغی پنڈی سے
لانا پڑتی ہے۔
جہاں
ان میدانوں میں پولٹری فارمز ختم ہونے کا نام نہیں لیتے وہیں سڑک پر ٹیلی نؤر کے بڑے
چھوٹے بورڈ نظر سے اوجھل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ سڑک کنارے اگر کوئی
ستواں اور ہموار پتھر ملا تو وہاں بھی ٹیلی نؤر نے اپنا اشتہار چھاپ دیا۔ یوں لگتا
ہے کہ پاکستان میں ٹیلی نور کے علاوہ کوئی اور موبائل کمپنی نہیں۔
ٹیلی نؤر کے انہی بورڈوں کو دیکھتے دیکھتے ہم ایک چھوٹے
سے قصبے میں پہنچے۔ جس کانام تھا۔۔۔۔ریڑھ گلہ۔
اصل میں یہ ایک موڑ ہے جہاں سے ایک سڑک قصبہ ریڑھ کو جاتی ہے جو یہاں سے
زیادہ دور نہیں۔ 2005 کے زلزے میں سڑک کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ قصبہ بھی امدادی
سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس قصبہ کی
دوسری وجہ شہرت یہاں کا رحمت آئی ہسپتال اور ایک پرائیویٹ اسکول ہے۔ یہ اسکول یہاں کے بچوں کو جدید
تعلیم دینے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف این جی اوز بھی یہاں
کافی سرگرمِ عمل ہیں۔
کچھ
ہی میل آگے بڑھے تو ایک چھوٹے سے گنجان
قصبہ کے نام نے حیران کر دیا۔ بورڈ پر لکھا تھا عطر شیشہ۔۔۔۔ ہمیں ایک ایسی دکان
کی تلاش تھی۔ جہاں سے چپس اور بسکٹ وغیرہ مل سکیں۔ کچھ ہی دور ہمیں ہماری ضرورت کی
دکانیں مل گئیں۔ جہاں سے ہم نے پھل اور
دیگر ضرورت کی چیزیں خریدیں۔ برفانی پہاڑوں کی دہلیز پر واقع یہ ایک سر سبز و
شاداب قصبہ ہے۔ بتانے والوں نے بتایا کہ اس قصبہ کوعطر شیشہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ
ایک مرتبہ یہاں سے گذرتے ہوئے ملکہ نورجہاں نے اپنے عطر کی ایک بوتل یہاں گرا دی
تھی۔ یوں اس کا نام عطر شیشہ پڑ گیا۔
آہ! نظامِ
مالک ِ کائنات۔۔۔۔جس ملکہ کے ایک عطر کی
خالی بوتل کو یہ حیثیت اور اہمیت ملی اس ملکہ کے مزارکو ایک چراغ بھی نصیب نہ ہوا۔
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں
ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
(تلوک چند محروم)
No comments:
Post a Comment