ہم
گندھارا تہذیب کے مرکزی علاقہ ہزارہ کے
ایک اہم شہر ہری پورسے گزر رہے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہندو اور گندھارا تہذیب و
تمدن پھولا پھلا۔ کہا جاتا ہے کہ اشوکا کی موت بھی اسی علاقہ میں ہوئی۔ تاہم شہر
ہری پور 1822 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک کمانڈرہری سنگھ نوالہ نے بسایا۔ بتانے
والوں نے بتایا تھا کہ اس شہر کے گرد ایک فصیل بھی ہو اکرتی تھی لیکن ہمیں سوائے
عمارتوں کے کچھ نہ ملا۔ شاید کھوج لگانے والوں کو اس کاکوئی بچا کھچا حصہ مل جائے۔
البتہ سکھوں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی کئی حویلیوں کا سراغ ضرور ملا۔ آب
وہوا کے لحاظ سے اس علاقہ میں اس سے زیادہ موزوں
کوئی دوسرا شہر نہیں ہو سکتا۔ یہی
وجہ تھی
کہ سکھوں اور انگریزوں نے اس شہر کو مرکزی اہمیت دی۔ یہ علاقہ قدرتی طور پر چھوٹی چھوٹی وادیوں سے بھرا ہوا ہے۔ شاید اس لئے اس علاقہ
کو دنیاکے پہلے مٹی کے ڈیم کے لئے چُناگیا۔ یہ ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں
بڑا ڈیم ہے۔ تربیلا کے مقام پر بنائے گئے اس ڈیم کی صرف جھیل ہی دو سو پچاس
کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وسعت کا ندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ
ڈیم ایک طرف ہری پور اور دوسری طر ف اسلام آباد اور صوابی سے ملحق ہے۔
اس
شہر کو اپنی انڈسٹریل اسٹیٹ کے لئے بھی
شہرت حاصل ہے جو حتار اسٹیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
اسی اسٹیٹ میں ایشیا کی سب سے بڑی ٹیلیفون کی صنعت بھی موجود ہے۔تربیلا کے
علاوہ یہاں خان پور اور غازی بروتھا جیسے ڈیم بھی موجود ہیں۔ سر سبز وادیوں اور میدانوں پر مشتمل، سر سبز
پہاڑوں سے گہرا ہوا ہری پور جنت ارضی سے کم نہیں۔ بادِ صبا کی طرح کا پُر سکون شہر
اور اس کا گرد ونواح اتنا خوبصورت ہے کہ انسان کا یہاں بس جانے کو جی چاہتاہے۔
یہاں
کے لوگ یہاں کے پھل سنگتروں اور لوگاٹ کی طرح میٹھے،ملنسار اور خوبصورت ہیں۔ لوگ
اچھے ہوں تو اللہ وہاں اپنی خاص رحمتیں بھی برساتا ہے۔ یہاں مٹی کے برتنوں اور
دیگر فنون کی پختگی کو دیکھ کر گندھارا تہذیب یاد آ جاتی ہے۔ یہ شہر شخصیات کے
حوالہ سے بھی بڑا زرخیز ہے۔ ان شخصیات میں اہم ترین ایوب خان ہیں۔
یہاں چیتا
چھپکلی اور بچھو کاذکر نہ کیا جائے تو ہری پور کی کہانی ادھوری رہتی ہے۔ یہ چھپکلی
اور بچھو کے خریدار امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ ایک چھپکلی کی قیمت لاکھوں نہیں
کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس مخلوق کا کاٹا بس کوئی پانچ
منٹ تک پانی مانگنے کے قابل ہوتا ہے پھر
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ جاتا ہے۔
______________________
وہ
شہر جسے ایبٹ نے آباد کیا۔ وارث اقبال
|
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اٹھ کردیکھو
کیا ترو تازہ ہوا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتاہے
اک تہذیب فنا ہوتی ہے
(ناصر کاظمی)
ٹیکسلا کے گرم کھنڈرات کی ویرانی اور ان گنت داستانوں
میں ہم ایسے الجھے کہ وقت کا کچھ پتہ ہی نہ چلا وقت کی تقسیم کی ساری منصوبہ بندی
دھری کی دھری رہ گئی۔ ریت اور وقت کی تو مجبوری ہے سرکنا، اُ س نے تو دبے پاؤں سرک
ہی جانا ہے، چپکے سے ہاتھوں سے نکل ہی جاناہے۔ مٹھی سے سرکی ہوئی ریت، کمان سے
نکلا تیر اور لمحوں میں بکھرا وقت واپس نہیں
آتے۔جب وقت کی ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے تو باقی رہ جاتا ہے یاس اور مایوسی۔
اس لئے ضروری ہے کہ وقت کی ریت کو مٹھی سے اس طرح نہ سرکنے دیا جائے کہ مٹھی خالی
بیاباں ہو جائے۔تو پھر کیاکیا جائے؟ میرے خیال میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مٹھی
میں وقت کی ریت بھرتے رہیں جونہی ریت کچھ کم ہو مزیدبھر لیں۔ جب ہمیں احساس
ہوا کہ وقت کی ریت کم ہو رہی ہے تو ہم نے بھی مٹھی میں مزید ریت بھر لی اور ایبٹ
آباد رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن جب ایبٹ آباد پہنچے تو دیکھا کہ ابھی مٹھی
میں وقت کی کافی ریت موجود تھی۔ اس لئے ا
س کی مقدار کا جائزہ لیا اور سفر جاری رکھا۔
ایبٹ
آباد دیکھ کر انگریز یاد آ گئے۔ جب انگریز
یاد آتے ہیں تو یاد آتی ہیں اُن کی چالاکیاں، مکاریاں، ظلم اورکچھ خوبیاں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی چالاکیوں اور خوبیوں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ
اس ناہنجار او ر بیوفا دوست کی طرح ہیں جنہیں زندگی سے عاق بھی کر دیا جائے تو بھی
وہ اپنی کسی خوبی یاخامی کی وجہ سے یاد آتے ہی رہتے ہیں۔ آج اُن کی جو خوبی سامنے آئی وہ تھی
تعمیر سے محبت۔ جس بھی خطہ میں چلے
جاؤ یہ سننے کو ضرور ملتا ہے۔ ”یہ شہر انگریز نے بنایا تھا۔۔کیا بات ہے، واہ! کیا کھلا اور منظم شہر ہے۔۔۔۔۔ یہ عمارت
انگریز نےبنائی۔۔۔ کیا بات ہے، کیا خوبصورت عمارت ہے۔۔۔ یہ پُل انگریز نے بنایا۔۔۔
کیا بات ہے، کیامضبوط پُل ہے۔“
اپنی
اسی خوبی کی بنا پر انہوں نے بہت سی بستیاں بنائیں جو خود بخود بس بھی گئیں کیونکہ
بستیوں کو بنانے کی ضرورت ہوتی ہے بس وہ خود جاتی ہیں۔ بلکہ جنگلی بیلوں کی طرح
پھیل بھی جاتی ہیں۔ بس انہیں موافق پانی اور ہوا چاہئے۔ مکینوں کو لانانہیں پڑتا
وہ ہواؤں کی طرح آتے ہیں اور اُس بستی میں یوں رچ بس جاتے ہیں کہ کبھی جدا نہ تھے۔
ہم تم ملے تھے ایسے جیسے جدا نہ تھے
انہوں نے یہ بستیاں ایسی جگہوں پر بسائیں جو
جنگی نقطۂ نظر سے بہت اہم تھیں۔ یعنی جہاں بیٹھ کر انہوں نے اپنے وسعت کے منصوبہ
کو انتہائی آسانی سے عملی جامہ پہنا لیا۔
جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے اپنی غرض کی خاطر نئی نئی بستیاں بناتے چلے
گئے۔ انہیں اپناآرام وسکون اور بچوں کی
تعلیم وتربیت بھی عزیز تھی اس لئے ان بستیوں میں عالیشان عمارات، ہسپتال، کلب،
ڈاکخانے، اسٹیشن لائیبریریاں وغیرہ بھی
قائم کرتے چلے گئے۔ جوں جوں ان کی غرض پوری ہوتی گئی توں توں وہ پرانی بستیاں چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے اور نئی بناتے چلے گئے۔
تاوقتیکہ وہ یہاں سے چلے نہیں گئے۔
انگریزوں کے لئے یہ بستیاں بسانے اور تعمیر کاکام بہت آسان تھا، مزدور مفت
کے، مال مفت کا اور پھر خاص بات یہ کہ ان عمارات کی وجہ سے انگلستان کی کئی
فیکڑیاں آباد ہونے لگیں۔ انگریزوں کے دیکھا دیکھی یہاں کے مہاراجوں اور نوابوں نے
بھی اپنی عمارات کے لئے انگلستان سے ہی سامان منگوانا شروع کردیا۔ کون سا ان کے
ماں باپ کا یا اپنی محنت سے کمایا ہوا مال تھا۔ جس طرح لُوٹا تھااُسی طرح
لُٹادیا۔
شروع میں
انگریزوں نے اس علاقہ کی تسخیر کے لئے ہری پور کو مرکز بنایا لیکن کچھ عرصہ بعد اس
سے بہتر مقام پا کر ایبٹ آباد کے نام سے ایک نئی بستی بنا لی۔ یہ بستی میجر جیمز ایبٹ کے نام پر قائم کی
گئی۔ یہ وہی میجر جیمز ایبٹ ہے جس نے مری
میں مری بروری روڈ پر اپنی قیام گاہ بنائی تھی۔ اس محل کے کھنڈر آج تک توموجود ہیں
لیکن ان کی حالت بتاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کھنڈر کھنڈر بھی نہیں رہیں گے
شاید نشان رہ جائیں یا شاید نشان بھی نہ رہیں اور نام رہ جائے اور پھر کوئی
ٹھیکیدار وہ نام مٹاکر کوئی اور نام لکھ دے۔
ایبٹ
صاحب نے ایبٹ آباد بنایا اور کسی حاشیہ بردار نے اس بستی کا نام بھی ایبٹ آباد رکھ
دیا۔ انگریزوں نے اپنے باقی شہروں کی
طرح یہاں بھی خاص اکرام و انوار کی بارش کی۔ اُن کا تو منصوبہ قیامت تک رہنے کاتھا
لیکن مہلت قیامِ پاکستان تک کی ملی۔
آج ایبٹ آباد اپنے اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کی وجہ
سے پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ ان اداروں میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سرِ
فہرست ہے۔ سر سبز و شاداب
باغات، بلند سر سبز پہاڑ، سحر انگیز وادیاں،جھرنے، آبشاریں، دریااور جھیلیں سیاحوں
کو ایبٹ آباد کی طرف راغب کرتی ہیں۔ یہ وہ واحد ضلع ہے جس میں آنے والوں کو یہاں
ہر موسم کا نظارہ ملتا ہے۔ ایبٹ آباد کا توسوچ کر ہی فرحت کا احساس ہوتا ہے۔
ایبٹ
آباد ایک چھاؤنی بھی ہے۔ ہرچھاؤنی کااپنا رکھ کھاؤ ہوتا ہے اوراپناچال چلن۔ جس طرح
فوجی ہزاروں میں ہو توبھی پہچانا جاتا ہے اسی طرح کینٹ بھی دور سے ہی پہچانا جاتا
ہے۔ پُر شکوہ ، شاندار اور وسیع و عریض۔
ایک موڑ مڑنے
کے بعد ہم ایک دورویہ لمبی سی سڑک پر پہنچے۔ جدیدطرز کے پلازے، ہوٹل اور مارکیٹیں بتا رہی تھیں کہ یہ سڑک اس شہر کا دل
ہے۔ اسی سڑک پر ایک پٹرول پمپ سے ہم نے پڑول ڈلوایا۔ ایک دوست کے ہوٹل پر کچھ دیر
کے لئے رکے، صاحب سلام کی، تازہ دم ہوئے اور مانسہرہ کی طرف گامزن ہوگئے۔ راستے میں کتنے ہی موڑ مڑتے ہوئے، کتنے ہی
انجان پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کے دیدار کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔
______________________
جنت
کا دریچہ۔ مانسہرہ وارث اقبال
|
گاڑی میں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ میری نظریں سڑک پر اردگرد،
آمنے سامنے، آگے پیچھے پریوں کی تلا ش میں تھیں۔ خاموش نگاہیں، کسی کے عشق میں
ڈوبی، کسی کی متلاشی، کسی سحر میں مخمور۔
بڑھتیں نہیں پلک سے تاہم تلک بھی
پہنچیں
پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے
سائے
(میر تقی میر)
اچانک میری نظر کے کینوس پر ایک تصویر بنی اور زبان پر
یہ لفظ آگئے، ”عابد رکئے۔“
گاڑی سڑک کے کنارے لگی تو میں بھاگ کر سڑک کے حتمی کنارے تک چلا گیا۔ نیچے
گہری کھائیاں میرے استقبال کے لئے بانہیں پھیلائے کھڑی تھیں۔ جی چاہا کہ میں ان
بانہوں میں سما جاؤں اور امر ہو جاؤں۔۔ نہیں میں امر کیسے ہو سکتا ہوں۔۔ سکندر بھی
تو نگر نگر کی خاک چھانتا رہا۔۔۔۔ نہ اُسے آبِ حیات ملا نہ وہ امر ہوا۔ میں نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تومیرے
سامنے ایک سر سبز وادی کسی سر مئی پیالے میں پودینے کے ترو تازہ مشروب کی طرح
موجود تھی ہمارا رخ مشرق کی طرف تھا۔۔۔۔۔ ہم خوبصورت وادیوں وادیٔ نیلم، وادیٔ مانسہرہ، وادیٔ کاغان، وادیٔ ناران کے دریچے پر تھے ۔ جس
طرف چاہتے چل پڑتے۔ ان سے آگے بھی وادیوں
کی ایک لمبی قطار ہے۔
وادیٔ
نیلم، وادیٔ مانسہرہ، وادیٔ کاغان، وادیٔ
ناران ایک ہی باپ کی چار حسین شہزادیاں ہیں جن کو پانے کے لئے لوگ کوسوں میل کا
سفر طے کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان حسین شہزادیوں کے
عاشق ان کے حسن کا نقطہ ٔ آغاز بھی نہیں
پا سکے ہوں گے۔ کئی مر کھپ گئے بہت سوں نے یہیں ان کے قدموں میں پڑاؤ ڈال دئیے اور
یہیں کے ہو کر رہ گئے اور بہت سے ہم جیسے اپنے اپنے دیس سدھار گئے۔ میرے سامنے وادیٔ مانسہرہ تھی
اوربائیں ہاتھ کوہِ قراقرم۔۔ بالکل دائیں ہاتھ کی طرح یہاں بھی پہاڑوں کا لمبا
سلسلہ اوراس کے ساتھ ساتھ سڑک لیکن نام مختلف اور جغرافیہ بھی مختلف۔۔۔ کچھ میل دور غضب ناک، خوف اور دہشت کی
علامت دریائے سندھ۔ رضا علی عابدی کا شیر
دریا، مقامی لوگوں کا شاہ دریا اور ہمراہی
میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ایک سڑک شاہرائے ریشم یا شاہرائے قراقرم۔۔۔۔۔ خاموش، پُروجاہت۔ بطن میں سینکڑوں داستا نیں لئے ہوئے اور ساتھ
ہی ہیبت ناک پہاڑی سلسلہ کوہِ قراقرم۔۔۔۔۔
عجب
قدرتِ خداوندی۔۔ میرے رب کے عجیب کام ہیں۔ دائیں طرف نرمی و لطافت، سرسبزی و
شادابی، محبت اور پیار، حسن و رعنائی۔ جبکہ بائیں طرف، وحشت، سنگلاخی، خوف، سیاہی
اور دہشت۔ سامنے دیکھیں تو ایک برف پوش پہاڑ جس کے ساتھ یہ دونوں سلسلے گلے ملتے
چلے جاتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے ایک باپ کے دو بیٹے ایک غصیلا، پُر جلال، پُروجاہت اور
اعلیٰ شان کا حامل دوسرا کومل، لطافتوں، نزاکتوں سے مزین مگر دونوں باکمال۔ یہاں
سے یوں لگتا ہے ایک چھوٹاسا برف پوش پہاڑاپنے دونوں بازو پھیلائے کھڑا ہے۔۔۔۔۔ ایک
بازو پکارتا ہے۔۔ آؤمیرے پاس کیونکہ میرے اندر شادابی ہے۔۔۔ زندگی ہے، بستیاں ہیں،
جھرنے ہیں، جھیلیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دوسرا پکارتا ہے۔۔۔ آؤ میرے پاس کیونکہ میرے اندر خوبصورت پوشاک پہنے موت
کی دیوی رہتی ہے، آؤ کہ میرے اندر سحر کا لباس زیب تن کئے وحشت رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
پھر سفید برف سے ڈھکاپہاڑ بولتاہے۔۔ میں ان کا بطن
ہوں۔۔ میری وحشتوں میں بھی رعنائی ہے، میری موت میں ابدی حیات ہے ، میرے جھرنوں
میں حیات ابدی کا آب رواں دواں ہے۔
آؤ کہ میرے اندر ہی سکندر اعظم کا آب حیات
ہے۔۔،میرے اندر ہی ہے۔۔ افلاطون کی گم شدہ تہذیب۔۔۔۔۔۔۔یو ٹو پیا ہے۔۔۔۔۔ میں ہی
شنگریلا کا پاسبان ہوں۔
آبِ حیات۔۔۔ گم شدہ تہذیب۔۔۔اسکندرِ اعظم۔۔
ہم تو چلے تھے پریوں کی تلا ش میں۔
یہ ہم کس بستی میں پہنچ گئے جہاں آبِ حیات
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں جنت ہے۔۔۔۔ اور جہاں ہم موجود ہیں بلا شبہ اسے جنت کا دریچہ
کہا جا سکتا ہے۔ جہاں سے آگے۔۔۔۔۔ بہت کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔
محشر
بدایونی نے تاج محل کے بارے میں کچھ کہا تھا جو مجھے یاد آگیا۔
ہے تخت تو موجود سلیماں کی کمی ہے
جنت کا دریچہ تو ہے رضوان کی کمی ہے
یہ گل کدہ کہئے جسے فردوس کا خاکہ
ہے دفن یہیں خاک میں سرمایہ
وفاکا
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مشرق میں سورج کافی نیچے
کی طرف ڈھل چکا تھا۔ موسم کی تابناکی بتا رہی تھی کہ اسے ڈوبنے میں ابھی وقت لگے
گا۔۔ اور میں اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔۔ اس لئے میں بھاگن بھاگ گاڑی میں
جا سوار ہوا۔
وقت ایک
ایساگھوڑا ہے جس کا شہسوار یا تو اس کی پیٹھ پر ہوتا ہے یا پھر اسے کے نقشِ پا کی
دھول میں جہاں نہ تو اُس کے قدموں کے نشان ملتے ہیں اور نہ ہی قدموں کی چاپ سنائی
دیتی ہے۔
اے عشق یہ سب دنیا والے بے کار کی
باتیں کرتے ہیں
پائیل کے غموں کا علم نہیں چھنکار کی
باتیں کرتے ہیں
ہر دل میں چھپاہے تیر کوئی
ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی
پوچھے کوئی ان سے جو پیار کی باتیں
کرتے ہیں
ہر دل میں چھپاہے تیر کوئی
ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی
پوچھے کوئی ان سے جو پیار کی باتیں
کرتے ہیں
اس
گیت کے ساتھ ہم پوچھتے پچھاتے، بھاؤ تاؤ کر تے مانسہر ہ کے ایک ہوٹل ’قراقرم ہوٹل‘
میں داخل ہوئے۔
پہاڑوں کے دامن میں واقع شہر اور بیرونِ شہر کی
اہم شاہراہوں کے سنگم میں بسا یہ ہوٹل واقعی کسی انسان کا ہوٹل تھا۔ جس میں کام
کرنے والوں کا اخلاق اعلیٰ، ماحول گھر
جیسا اوردام واجبی۔ میں نے سامان کمرے
میں رکھا، ہاتھ منہ دھویا اور بعد از نماز مغرب عابد کو ساتھ لے کر شہر کی طرف نکل
کھڑا ہوا۔ بچوں اور مسز کا کمرے میں ہی آرام فرمانے کا پروگرام تھا۔
چھوٹا سا شہر، جس کی
گلیاں اور بازار ایسے کہ کسی بچے نے ماچس کی ڈبیوں سے ایک شہر بسایا اور اندر ہاتھ
کی انگلی سے لکیریں کھینچ کر سڑکیں بنا دی ہوں۔ ٹریفک کی چال بتا رہی تھی کہ یہاں ہمیشہ ٹریفک پھنسا رہتاہو گا۔ چھوٹی
چھوٹی گلیاں دیکھنے کے لائق تھیں۔ بتانے والوں نے بتایا کہ یہ گلیاں حفاظتی نقطہ ٔ نظر سے بنائی گئی تھیں۔ جب میں نے ان کے موڑ
دیکھے تو میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ یقینا دشمن کو مصروف رکھنے کا ایک طریقہ ہوگا۔ دشمن ان بھول
بھلیوں میں پھنس کر اپنا آپ بھی بھول جاتا ہوگا۔ یہاں اپنا واقف تو کوئی نہیں تھا لیکن اگر انسان کے پاس علم، خلوص اور اخلاق
ہو توو اقف بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ میری خوش قسمتی تھی کہ ایک بک اسٹال پر ایک
جہاندیدہ، پڑھے لکھے شخص سے ملاقات ہو گئی۔ جس نے اس شہر کے بارے میں ایسی آگہی دی
کہ چودہ طبق روشن ہی نہ ہوئے مجھے اپنے سفر کا از سرِ نو جائزہ بھی لینا پڑا۔
عابد
میرے ساتھ تھا۔ ہم بتائے ہوئے پتے کے مطابق تیز تیز چلتے ہوئے مختلف بازاروں سے
ہوتے ہوئے کشمیر بازار میں پہنچے۔ ہمیں تلاش تھی ایک قدیم عمارت کی۔ کچھ ہی دیر
میں ہم ایک قدیم عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ سکھا شاہی دور کی بنی انتہائی خوبصورت
عمارت ہمارے سامنے تھی۔ میرون رنگ کے بڑے
سے دروازے کے اوپر محراب پر لکھا تھا۔
”گوردوارہ سری گورو سنگھ سبھا“ نام کے ایک طرف لکھاتھا، ”موت سے ڈرو۔“
جبکہ دوسری طرف لکھا تھا، ”گناہ مت
کرو۔“
آہ! ایک انسان دوسرے انسان کو سمجھاتا ہی رہا، مگر
خود نہ سمجھا۔ دوسروں کو موت سے ڈراتا رہا مگرخود موت سے تحریریں لکھتا رہا۔ دوسروں کو گناہ سے بچنے کی تلقین کرتا رہا اور خود گناہوں کی کھیتیاں تیار کرتارہا۔ ایک ہی طرح کے فتح کے نعرے، ایک ہی طرح کے بین۔ ایک
ہی رنگ کا لہو، ایک ہی رنگ کی چیخیں۔۔ پھر
بھی دوسروں کو شک کے ترازو میں تولتا رہا۔۔۔ مگر خود کو کبھی بھی اس ترازو میں نہ
ڈالا۔۔سکھا شاہی طرز کے جھروکوں اور کھڑکیوں سے مزین یہ گوردوارہ آج بھی اپنی شان
بان قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے ہال میں
جائیں تو ہر طرف رنگ ہی رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ سامنے تاج کی طرح کا ایک بڑا جھروکہ
ہے جس کے ستون ا س طرح دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی تاج کی لڑیاں ہوں۔ دیواروں میں
الماریاں بنا کر کتابیں رکھ دی گئی ہیں۔ سکھا دور کی بہت سی تصویریں بھی موجود ہیں
جو سکھا دور کے رزم و بزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ لکڑی کا کام قابل ستائش ہے۔ اس کی
عمارت کے بہت سے گوشے ظاہر کرتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان پر سونے کے پرت لپٹے ہوں
گے۔
سکھوں کے جانے کے بعد یہاں پولیس چوکی بن گئی اور بعد
میں یہاں ایک لائیبریری بنا دی گئی۔
کاش! ہماری حکومتیں مانسہرہ کے اس
عمل کو مثال بناتے ہوئے پورے ملک میں موجود ایسی مذہبی عبادت گاہوں کو جو اب قابل
استعمال نہیں اسی طرح استعما ل میں لے آئے جیسے مانسہرہ میں ایک
خوبصورت تاریخی ورثہ کوخوبصورت انداز میں استعمال کیاجارہا ہے۔ان میں کوئی ہسپتال
بن جائے، کوئی لائبریری، کوئی اسکول یا کوئی ہوٹل۔
مانسہرہ کا جغرافیہ تو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں اب اس کا انتظام
سمجھئے۔
اس کی تین تحصیلیں ہیں۔ بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور اُگی۔ایبٹ آباد میں
نتھیا گلی، اور ٹھنڈیانی جیسی خوبصورت وادیاں ہیں، بالا کوٹ میں کاغان اور ناران اور
اُگی خوبصورت سر سبز و شاداب پہاڑوں اور وادیوں سے گہری ایک خوبصورت تحصیل۔
اپنی
جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مانسہرہ اور اس کے گرد ونواح کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل
رہی ہے۔ سکندرِ اعظم کا یہاں سے گذر ہوا تو یہاں کئی نئی بستیاں بسیں جیسے
کافرستان۔۔ کئی کہانیاں رقم ہوئیں جیسے آبِ حیات اور گم شدہ تہذیب۔۔۔ لیکن مانسہرہ
شہر اور اس کے قرب وجوار کے نین نقش اشوکا کے زمانے میں واضح ہوتے ہوئے دکھائی
دیتے ہیں۔ یہاں سیالکوٹ کے ہندو راجاؤں کی
حکومت بھی رہی۔ ا س دور میں یہاں ہندو مت
اپنے عروج پر تھا۔ اشوکا نے بدھ مت پھیلانے کا قصد کیا تو مانسہرہ سے ابتدا کی
کیونکہ ٹیکسلا کی حکمرانی سے پہلے وہ یہیں کا گورنر تھا۔ اس کی کندہ کی ہوئی
چٹانیں آج بھی یہاں موجود ہیں۔ یہاں ہی تاریخ کی بڑی
سرکار پاکھیل یا پکھلی سرکار قائم ہوئی جو مانسہرہ کے سرسبز میدانوں اور وادیوں سے
بڑھتے بڑھتے گلگت تک جا پہنچی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر نے کئی روپ دھارے، کئی دور
دیکھے، کئی مذاہب اختیار کئے اور آخر ِ کاریہاں اسلام کا بول بالا ہوا۔ تقسیم ہند
سے پہلے تک ہندو بھی اس شہر کے باسیوں میں شامل تھے۔ یہ علاقہ شیو کا پجاری تھا۔
میرے ذہن میں اس کا تعلق کٹاس سے بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ شیو پوجا کا
مرکز تھا۔ مجھے لگتا ہے جیسے
سیالکوٹ، ٹیکسلا سیاسی مراکز تھے لیکن
کٹاس ان کا مذہبی مرکز تھا جس کا اثر یہاں
دکھائی دیتا ہے۔ یہاں مانسہرہ شہر سے قریب ترین 15 میل دورعنایت آباد کے ایک مشہور
گاؤں گاندھیان میں موجود تین ہزار سال پرانا ایک مندر دیکھنے کے لائق ہے۔ شیو لنگ
کی پوجا کا یہ مندر کشمیر کے ایک راجہ نے تعمیر کروایا۔ مانسہرہ کی ہر جگہ سے نظر
آنے والی وہ چٹان بھی اہم ہے جسے براری ماتا کا نام دیا گیا ہے۔ ہندو مذ ہب کے
مطابق یہ دُرگا دیوی کا ا یک روپ ہے۔ ہندوؤں کے ہاں اس چٹان سے بہنے والے پانی کو امرت سمجھ کر
استعمال کیاجاتا تھا۔
گندھارا تہذیب کا یہ مرکزی شہر اورہزارہ
صوبہ کی جان یہ شہر کسی بستی یا کسی بستی کے کسی حصہ کے طور پر تو ایک عرصہ
سے موجود ہے جس کے سوتے اسکندر کے دور سے جاملتے ہیں لیکن موجودہ شہرمانسہرہ کو بحیثیت ایک شہر
رنجیت سنگھ کے جرنیل مان سنگھ نے بسایا۔ اور اسی کے نام پر اسے مانسہرہ کا نام دیا
گیا۔
کسی بھی شہر کی پہچان اور اہمیت میں وہاں موجود مزارات کو بہت اہمیت حاصل
ہے چنانچہ اگلے دن ہم بھی اسی کھوج میں نکلے اور جا پہنچے یہاں کی مشہور زیارت گاہ
دیوان راجہ پر۔
ترکوں کے زمانے میں ایک
سید نصیر الدین شاہ المشہور حضرت دیوان راجہ یہاں تشریف لائے اور یہاں لوگوں نے ان
کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ بزرگ ترک حکمرانوں کو ظلم و ستم سے
روکتے تھے لیکن وہ باز نہ آئے تو انہوں نے انہیں
بد دعا دی۔چنانچہ ترک زوال پذیر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ دیوان صاحب کا مقبرہ
بھی ایک ترک شاہ نے اپنے لئے بنوایا تھا لیکن اُسے یہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا۔ اور
یہ مقبرہ دیوان صاحب کی آخری آرام گاہ ٹہرا۔ اس دربار سے کچھ ہی دور ایک اور
زیارت گاہ ہے۔ جو ایک کشمیری بزرگ امیر کبیر علی ہمدانی کی جائے وفات ہے بتایا
جاتا ہے۔ یہاں ایک قدیم درخت ہے جس کی جڑیں اتنی بڑی ہیں کہ دُور سے کسی غار کا
گمان ہوتا ہے۔ زائرین اُن کے اندر سے گذرتے ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے
انسان جنوں اور بھوت پریتوں کے سائے سے
محفوظ رہتا ہے۔ ہم تو چلے ہی پریوں کے سائے کے پیچھے تھے، ہم نے سایوں سے کیا
ڈرناتھا۔ اس لئے ہم نے ان جڑوں کے نیچے سے گذرنا مناسب نہ سمجھا۔
______________________
No comments:
Post a Comment