Saturday, November 16, 2019

سفرنامہ پریوں کی تلاش کی سترہویں قسط



بالاکوٹ کی بالائیاں                                                                                                                      وارث اقبال

ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچے جس نے ہمیں گاڑی سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ یہ تھا قصبہ باسیان جس کی بغل میں دریائے کنہار بہہ رہا تھا۔ پرسکون سویاہوا،  فطری حسن کے سحر میں کھویا ہوا۔ ہم مجبور تھے کہ اس حسن کو اپنی تصویروں میں قید کر لیں۔ جس کا جس طرح جی چاہا اُس نے تصویریں بنائیں۔ چیڑ کے درختوں میں گھرا ہوا یہ چھوٹا سا قصبہ اور اس کے کھیت کھلیان کو ہ قاف کامنظر پیش کر رہے تھے۔ دور دریا کی دم دھند میں ڈوبی ہوئی تھی جسے دیکھ کر ہی گرمی کا احساس ذائل ہو رہا تھا۔ آسمان پر بادل اور دھند ملن کر رہے تھے وہ ایسے ایک ہوگئے تھے کہ دونوں کی پہچان ہی مٹ گئی تھی۔ وہاں سے ہٹنے کو جی تونہیں چاہ رہا تھالیکن یہ سوچ کر آگے بڑھ گئے کہ دیکھنے کے لئے اور بھی مناظر ہیں۔ ہمارے دائیں طرف ایک سڑک گڑھی حبیب اللہ کو مڑ رہی تھی۔ اس سڑک پر بھی فطری خوبصورتی اپنے پر پھیلائے موجود تھی۔
 گڑھی گاؤں یا بستی کو کہتے ہیں۔ سید احمد شہید کے ساتھ ایک مجاہد حبیب اللہ شہید ہوئے تھے۔ جن کے خاندان نے ا س علاقہ کی حکومت سنبھالی اور بعد میں قائد اعظم کا ساتھ دیا۔ یہی وہ سڑک ہے جو مسافر کو مانسہرہ سے کشمیر لے جاتی ہے۔گڑھی حبیب اللہ کو جنت کا ایک ٹکڑ اکہا جائے تو کم نہ ہوگا۔ دریا، سرسبز وادیاں، جھرنے اور سب سے اچھی بات کہ
 تعلیم یافتہ اچھے لوگ سب یہاں موجود ہیں۔
ہم کانشیان موڑ پر پہنچے تھے۔ کانشیان ایک قصبہ ہے جو اس طرف بالاکوٹ اور دوسری طرف وادی نیلم سے جا ملتاہے۔ کہا جاتاہے کہ ا س جگہ ایک دکاندار نے ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ جہاں بعد میں ایک قصبہ بن گیا۔ اس دکاندار کانام کنشا رام تھا اسی کے نام پر اس قصبہ کا نام کانشیان پڑ گیا۔ یہ ایک بہت خوبصورت مقام ہے جہاں تک رسائی جیپ سے ممکن ہے یہ قصبہ بھی اپنے اندر بے شمار کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔
  اس قصبہ کے جنوب میں لال پتھروں کی ایک پہاڑی پر ایک جگہ ہے جسے ’ ذرے آلی ڈھیری ‘  کہا جاتا ہے۔  ذرے آلی ڈھیری کا مطلب ہے’خزانہ کا ڈھیر‘
 کہا جاتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعدجب ہندو خاندان یہاں سے ہندوستان  جانے لگے تو انہوں نے اس جگہ اپنا سارا زرمال دبا دیا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو یہ زرو مال واپس نکال لیں گے۔ لیکن وہ تو نہ آئے البتہ یہاں ایک سانپ نے قبضہ کر لیا۔ جس کے دو سر ہیں اور وہ یہاں کے ا س خزانہ کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ سانپ اتنا لمبا ہے کہ یہ جب  ندی سے پانی پیتا ہے تو ندی کا ایک سرا خشک ہو جاتا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
 اسی طرح گاؤں کے پیچ ایک پتھر ہے جس کے نیچے بھی اسی طرح کا خزانہ دفن ہے۔  ا س جگہ کو  ’ بزرگا ں آلی ڈھیہری ‘ کہا جاتا ہے بمعنی  ’بزرگوں والی ڈھیری۔‘
کانشیان بالا کوٹ سے پانچ کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ پہنچنے کے لئے بالاکوٹ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔  اس وقت ایک پکی سڑک بھی بنائی جارہی ہے جس کے بننے سے یہ قصبہ ایک اچھے صحت افزا مقام کے طور پر دنیا کے سامنے آئے گا۔ اور شاید یہاں سے کوئی راستہ کشمیر کو بھی چل پڑے۔
 دریائے کنہار کہیں دور ہماری دائیں طرف بہہ رہاتھا۔ بالاکوٹ سے پہلے دریائے کنہار ہمیں ہماری دائیں طرف یا سامنے دکھائی دیتاہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر سیاح رکنے کی کوشش کرتا ہے۔ سڑک سے نیچے اتر کر دریا کے پاس جانا پڑتا ہے۔ بڑے دیوہیکل پتھروں سے سر ٹکراتا دریائے کنہار بڑھتا جارہا تھا۔
مجھے دور دریائے کنہار پر بنایا گیا رسوں کا پُل دکھائی دے رہا تھا۔ جس کے نیچے دریائے کنہار چھلانگیں مار رہا تھا۔ پیچھے دور تک پھیلا ہوا سبز پہاڑی سلسلہ ایسے خاموش کھڑا تھا  جیسے  کوئی ہاتھ میں خیرات لئے کسی ضرورت مند کی راہ تک رہاہو۔ یہ پہاڑ بھی حسن کی دولت لئے کسی ناظر، کسی شناسا کی راہ تک رہا تھا۔  یہیں سے کچھ میل کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ خوبصورت دریا دریائے نیلم سے بغل گیر ہوجاتا ہے جوبعد میں دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر سینکڑوں میل کی مسافت طے کرنے کے بعد دریائے سندھ کا ہوجاتا ہے۔
 کتنی مشقت کرتے ہیں یہ دریا اگر انہیں جذبات کے اظہار کی زبان مل جائے تو یہ کیا کہیں اور کیسے کہیں۔ مشقت سے مجھے سیف الملوک یاد آ گیا۔  جسے اُس کے مجبور باپ اور بلکتی ماں نے آہوں کے پانی میں دعاؤں کا عرق پلاتے ہوئے رخصت کیا۔
آٹھ ماہ کے بحری سفر کے بعد اس لشکر عظیم نے ایک کنارے پر پڑاؤ کیا۔ آرام و طعام کے بعد اس دیس کی سیر کے لئے نکلے۔ مصنف کچھ ا س طرح اس جگہ کا بیان کرتا ہے کہ
  زمین نے سبز پوشاک پہنی ہوئی تھی۔ نہروں نے درختوں کو رنگ لگائے ہوئے تھے۔ درختوں کے پھل پک کر زمین کی جانب جھکے ہوئے تھے۔ رنگ برنگے پھولوں نے زمین کا حسن دوبالا کر دیاتھا۔ کوئل مور، چکور اور انواع و اقسام کے پرندوں کی آوازیں فضا میں رس گھول رہی تھیں۔
 ایک دن شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں چار اجنبی جوان آئے۔ ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس قطعہ زمین پر وہ رکے ہوئے ہیں وہ ملک چین کا حصہ ہے۔  ان جوانوں نے بتایا کہ ان کا بادشاہ بہت رحمدل اور مہمان نواز ہے۔ چین کے بادشاہ کی بابت جاننے کے بعد شہزادے نے ان نواجوانوں کے ہاتھ ایک خط چین کے بادشاہ کو بھیجا۔                               یو ں شہزدہ سیف الملوک کی چین کے بادشاہ کے محل تک رسائی ہوئی۔ بادشاہ نے اس کی بہت آؤ بھگت کی اور اس مہم جوئی کا مقصد پوچھا۔ جب شہزادے نے اپنی ببتا سنائی تو حاکم چین نا صرف متاثر ہوا بلکہ اس نے اپنے ملک کے تمام سوداگروں، سیانوں اور سیاحوں کو دربار میں بلا کر شہزادے کے مقصد کی بجاآوری کے لئے رائے لی۔ لیکن کسی سے بدیع الجمال کو کوئی اتا پتا نہ ملا۔  تاہم ایک عمررسیدہ شخص نے اتنا بتایا کہ  یہاں سے کوسوں دور شہر استنبول سیاحوں کا مرکز ہے وہاں سے کچھ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔       
 استنبول شہر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد شہزادہ روانہ ہوا۔۔ کئی روز سفر کے بعد ایک جزیرے پر جا پڑاؤ کیا۔  اس جزیرے پر ہر طرح کی آفت موجود تھی۔ سب سے بڑی آفت یہاں کے مگرمچھ تھے جو انسانوں کو اس طرح اٹھا کر لے جاتے جس طرح انسان سمندری مچھلیوں کو لے جاتے ہیں۔ جانوروں اور انسانوں کی بیماریاں بھی ہزار موجود تھیں۔ ا س لئے شہزادے نے سوچا کہ اگر وہ یہاں مزید رکے رہے تو اس کے جانور اور افراد سب ختم ہوجائیں گے۔ چنانچہ وہاں سے کوچ کا فیصلہ کیا۔

 سیف الملوک استنبول شہر کے قریب پہنچا اور ہم بالاکوٹ پہنچ چکے تھے۔ ایک انتہائی گندے پُل نے ہمارا استقبال کیا۔ اس پُل کے نیچے دریائے کنہار بہہ رہا تھا لیکن اس پُل اور اس کے قرب و جوار نے اس خوبصورت دریا کے حسن کی مت مار کر رکھ دی تھی۔ حضرت انسان نے ا نسانیت کے سارے دعوے پامال کرتے ہوئے اسے گندا نالہ بنانے میں کوئی کسر روا نہ رکھی تھی۔ جس کاجتنا بس چلا اُس نے اتنا ہی گند گھولا۔ 
 2005 کے زلزے سے پہلے دریائے کنہار کو ہوٹلوں نے جکڑا ہوا تھا۔ زمین کی ایک ہی کروٹ نے اس دریا کو آزاد کروا لیا۔ لیکن ہم تب بھی نہیں جانے اور اب بھی نہیں مانے۔
زلزلے نے اس شہر کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ زلزے نے یہاں کی بڑی بڑی عمارات کو الٹا کر پٹخ دیا، سڑکیں اٹھا کر اس طرح پھینک دیں جس طرح ہم ٹشو پیپر پھنکتے ہیں،  بڑے بڑے طاقتور ستونوں والے پل اُسی طاقت سے گرے جتنے وہ طاقت ور تھے اور دریا ؤں کو ایسے اُلٹ پلٹ دیا جیسے کوئی گلاس میں رکھا پانی الٹ دیتا ہے۔
 چھوٹا درخت اگر گرے تو بچ سکتا ہے مگر بڑا درخت گرتا ہے تو اس کی شاخ شاخ اور پتہ پتہ بکھر جاتا ہے۔  جھونپڑی گرے تو سنبھل جاتی ہے مگر بڑی اور پختہ عمارتیں گرتی ہیں تو یوں کرچی کرچی ہو جاتی ہے جیسے شیشہ۔  دیواریں اپنے ہی بنانے والوں کو کچل دیتی ہیں، شان و شوکت کی حامل چھتیں اور چوبارے انہیں ہی روند ڈالتی ہیں جو انہیں دیکھ کر فخر سے  سربلند کرتے ہیں۔ زمین نے ایسی انگڑائی لی کہ سب کچھ ہل گیا اور پھرایسا منہ کھولا کہ سب کچھ ہڑپ کر لیا۔ کئی منزلہ عمارتیں اس طرح زمین کے جبڑوں میں چلی گئیں کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ عمارت کا نچلا حصہ کہاں چلا گیا۔ جنازے تھے کہ کئی ہفتوں تک رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہر طرف آہ و بکا تھی۔
میں سمجھتا تھا کہ اب تو یہ شہر مثالی شہر ہو گا۔ یہاں مسافروں کے لئے خصوصی پکوان پک رہے ہوں گے، ہسپتالوں میں جدید طریقہ علاج جاری ہوگا۔ انسان انسان ہو گا، ہمدردو مونس و غمخوار۔۔۔ لیکن سب اپنوں کو دفن کر کے پھر اپنی ڈگر پر آگئے۔ وہی تعصبات، وہی جھگڑے وہی۔ روش۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی۔ دیکھنے والوں نے بھی دیکھا اور دماغ کی کھڑکیاں بند کر لیں  نہ کچھ سیکھا نہ جانا۔ وہی عیاشیاں، وہی مکاریاں، وہی ظلم اور بربریت۔  اور یہ زلزلہ تاریخ کا ایک ورق بن کر رہ گیا۔ ہم نے اسے کتاب کا ایک صفحہ سمجھ کر پڑھا اور بند کر دیا۔
  ٹائم اخبار میں بالاکوٹ کے ایک شخص غلام حسین کی کہانی چھپی۔۔ جس سے ہمیں اس آفت کی محض ایک شبیہہ ملے گی۔
  بیس ہزار کی آبادی میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ نوے فیصد گھر زمیں بوس ہوگئے۔ زلزلہ کی بڑی لہر یہاں سے دس میل دور سے شروع ہوئی اور اس شہر کے مین بازار میں سے گزرتی ہوئی کشمیر تک جا پہنچی۔
  چوبیس گھنٹے تک باہر سے کوئی انسان یہاں نہیں پہنچا۔ راستے ہی پہاڑوں کے اندر چلے گئے تھے۔ دوسرے دن بالاکوٹ کے دوردراز علاقوں سے سینکڑوں نوجوان ہاتھوں میں اوزارلئے پہنچ گئے اور  امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔ پھر فوج بھی آگئی۔
 راستے بند تھے، رسائی صرف ہیلی کوپٹر سے تھی۔ تباہی اتنی بڑی تھی کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھاکہ کہاں سے کام شروع کیا جائے۔ ایک اسکول میں ہی دوسوبچے ملبے تلے دبے تھے۔ تین دن گزر چکے تھے۔ ساری ٹیکنالوجی اور مشینیں ناکام ہو چکی تھیں۔ یہاں پہنچتی تو کام کرتیں۔ کدالوں سے سیمنٹ کے لینٹر تو نہیں توڑے جاتے۔
 اس رپورٹ کامصنف لکھتا ہے کہ میں ایک اسکول کے ایک استاد سے ملا جس کا سکول اور گاؤں یہاں سے کئی میل دور پہاڑوں میں تھا۔ وہ مدد لینے کے لئے بالاکوٹ آیا لیکن اس بیچارے کی کون مدد کرتا۔ وہ اتنا پریشان تھا کہ چار دنوں میں اس نے اپنے لباس سے اپنے علمی استفادہ کرنے والوں کے لہو کے نشان تک صاف نہیں کئے تھے۔ تین دن بعد جب سپاہی اس کے ساتھ اس کے گاؤں والوں کی مدد کے لئے جارہے تھے تو سب جانتے تھے کہ وہ بس تکفین و تدفین کے لئے جارہے ہیں۔
ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ امدادی سرگرمیوں کا آغاز کہاں سے کریں۔ آخر ایک اسکول سے کام شروع کیا۔ جس کے اندر کئی سو بچے دبے ہوئے تھے۔ جب کام شروع کیا تو  ننھے پھولوں کی لاشوں پہ لاشیں امدادی کارکنوں کے ہاتھوں میں جھولے جھولنے لگیں۔ کچھ بچوں کے یونیفارم بتا رہے تھے کہ اسی دن استری ہوئے تھے۔  لڑکیوں کی قمیضوں کا رنگ سبز تھا اور لڑکوں کا سرمئی۔
تیسرے دن رات کو ایک معجزہ ہوا ایک پانچ سالہ بچہ نوافز شاہ  نیم مردہ حالت میں پایا گیا۔ جب اسے نکالاگیا تو کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ بچ جائے گا۔ اور پھر اس کی سانسیں چلنے لگیں اور چند ہی دنوں میں وہ اپنے پیروں پر چلنے لگا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ  اس کاایک بھائی بھی اسی اسکول میں گیا تھالیکن واپس نہیں آیا۔نوافز بول نہیں پا یا۔ اُسے چیخوں سے اور اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ اس نے نا جانے کتنے دن چیخیں سنی ہوں گی۔

ڈاکٹر شیرشاہ سید نے بالا کوٹ کے زلزلے سے متاثرین کی کہانیاں  ”دل میرا بالا کوٹ“ کے نام سے رقم کی ہیں۔ جب میں نے وہ کہانیاں پڑھنا شروع کیں توپہلی دو کہانیاں پڑھنے کے بعد ہی کتاب بند کر کے رکھ دی۔ ان کہانیوں کا ایک ایک لفظ روتا ہے۔ ان کی بابت میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
کیوں لکھی تو نے اشکوں کی روانیاں
چیختی، دھاڑتی،بلکتی کہانیاں
 یہ میرے جذبات تھے لکھنے والے کے ساتھ کیا بیتا ہو گا۔کتنی دفعہ وہ رویا ہوگا، کتنی دفعہ اپنی آنکھوں کو دھویا ہوگا۔
میں یہاں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔کہ اگر ہماری فوج  نہ ہو تو ہمارا کیا بنے۔  اللہ ہمارے سپاہیوں کو خوش رکھے اور طاقت دے۔
پتہ نہیں اللہ کو کون سی ادا پسند آتی ہے اور کون سی ناپسند۔ اسی شہر کے ہمسائے میں کئی بستیاں ایسے محفوظ تھیں کہ جیسے انہیں کسی نے  چھوا ہی نہیں تھا۔
 ہم نے پل پار کیا ایک ہوٹل دیکھا جودریا کے بالکل کنارے پر تھا، مقام اچھا تھا منظر بھی اچھا لیکن کھانے کو دل نہ چاہا۔ مجبور ہوکر اس کی چھت پر جا ڈیرے جمالئے۔ کھانے کے دوران میں اپنے دماغ میں موجود کتابوں میں سے بالاکوٹ کی تاریخ تلاش کرنے لگا۔ مجھے اتنا تو پتہ تھاکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے اسکندر گذرا، اسکندر اتنا بد ذوق تو نہ ہوگا کہ وہ محض وہاں سے گذر گیا۔  وہ وہاں ضرور رکا ہوگا۔  پھر دماغ کی ایک کھڑکی اچانک وا ہوئی اور مجھے حق و باطل کا وہ معرکہ یاد آگیاجس میں مسلمان مجاہدین کی فوج ہند سے چلتے چلتے یہاں آ کر سمٹ گئی تھی۔ انگریزوں اور سکھوں کامقابلہ کرتے ہوئے ہوئے انہی خوبصورت وادیوں میں کھو گئی۔
 سب نے اپنے اپنے ذوق اور شوق کے مطابق کھاناتناول کیا اور پھر ہم نے وہ پڑاؤ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔


آبشاروں کی زمین                                                                                                                         وارث اقبال

تین انتہائی خطرناک موڑ مڑنے اور ایک مشکل چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ ایک کھلی سڑک پر آگے بڑھنے لگے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بالاکوٹ  طلسماتی لباس پہنے کسی چھوٹی سی جادوئی بستی کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ دریائے کنہار شہر کے بیچوں بیچ بھوری چادر اوڑھے ہوئے کسی سانپ کی طرح گذر رہا تھا۔
جب سورج کی کرنیں اس پر پڑتیں تو  یہ بھورا رنگ سنہری ہو جاتا۔
 دھوپ تھی کہ قوت بصارت بھی چھین لیناچاہتی تھی۔ لیکن مناظر اتنے خوبصورت تھے کہ سب انہی میں کھوئے ہوئے تھے۔ کچھ کھانے کی خماری، کچھ دھوپ کی حشر سامانی اور کچھ مناظر کا حسن سب نے میرے ہم سفروں کو خاموش کر رکھا تھا۔
 ایک پہاڑ کو کاٹ کر دو سڑکیں بنائی گئی تھیں ایک آنے کے لئے اور ایک جانے کے لئے۔  اس منظر پر تو رکنا واجب تھا۔ لیکن ہمارا شتر بان ابھی خطرناک موڑوں پر اپنی ڈرائیونگ سے محظوظ ہونا چاہتا تھا۔۔ اسی لئے ہماری  رکنے کی دبی دبی خواہش اُس نے ایک خطرناک موڑ کو خطرناک طریقے سے کاٹتے ہوئے رد کر دی۔ موڑوں پر موڑ آ رہے تھے بڑی سڑک کے دائیں جانب چھوٹی چھوٹی کئی پکڈنڈیاں پہاڑوں میں گم ہو رہی تھیں۔  ان سنپولوں جیسی پکڈنڈیوں سے گزر  تی ہوئی سوزوکی ویگنیں اور جیپیں ہمیں حیرت میں ڈال رہی تھیں۔  سڑک کنارے جا بجا لینڈ سلائیڈنگ بھی دکھائی دے رہی تھی۔
 گاڑی میں یہ مدھر گیت ماحول میں رس گھول رہا تھا۔
 میرے ہم سفر میرے ہم سفر میرے پاس آ میرے پاس آ
 ہمیں ساتھ چلناہے عمر بھر
میری پیش گوئی کے عین مطابق ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ ہم نے سڑک کے کنارے گھنے اور ٹھنڈے درختوں کی اوٹ میں گاڑی روکی بارش کے چند قطروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گاڑی پرترپال  کو مضبوطی سے بندھا۔ میں گھنے درختوں کی اوٹ میں ایک منڈھیر پر چڑھا دور کسی نظارے میں کھویا ہوا تھا ۔ میرے بائیں طرف نیچے سر سبز،  تروتازہ،کھلتا مسکراتا مگر گھنا سیاہ جنگل اپنے اندر ایک انجانی حیات لئے موجود تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں مجھے  کچھ یوں  محسوس ہوا کہ  ابھی کوئی بھیڑیا، ریچھ یا چیتا یہاں سے نکل آئے گا۔ اسے خوف کہئے یا اندیشہ میں فوراً اس چھوٹی سی منڈھیر نمادیوار سے اتر آیا لیکن اترتے ہوئے میں نے اپنے پیچھے کوئی آواز سنی۔ ایک عجیب سی سنسناہٹ۔۔ نا چاہتے ہوئے میں رک نہ سکا اور واپس اُس چھوٹی سی دیوار پر چڑھ کر نیچے جنگل میں دیکھنے لگا۔ ان سرسبز درختوں  کے گھنے سائے تلے گندگی کا ایک ڈھیر تھا۔ جس پر ہوا سے اڑتی ہوئی بوتلیں اور شاپنگ بیگ انسانی عقل اور انسانی رویوں پر ماتم کر رہے تھے۔ ان کی آہ و فغان تھی کہ جسے سن کر میں یہاں جھانکنے پر مجبور ہواتھا۔  ایک تعفن تھا جو اوپر کی سمت بھاگا چلا آ رہاتھا۔ میں فقط اتنا ہی کہہ  سکا۔ 
الہی تیری  اس خلق کو کیا ہو گیا
اک انسان تھا یہاں،کہاں کھو گیا
گاڑی کی چھت کو ترپال میں اچھی طرح لپیٹ کر ہم آگے چل دئیے۔ سامنے سارا نگر دھند سے اٹا ہوا تھا۔لگتا تھا ہر شے سرمئی بادلوں سے بنی ہوئی ہے۔ ہمیں پہاڑوں کی دو تہیں دکھائی دے رہی تھیں ان کے پیچھے سب کچھ دھند کی لپیٹ میں تھا۔ بارش کی آوازیں ماحول میں سر تال بکھیر رہی تھیں۔ وائیپر کی روں روں میں بھی اس وقت وائیلن سنائی دے رہا تھا۔
ایک موڑ پر دائیں طرف سے ایک جھرنا شور مچاتے ہوئے نیچے آرہا تھا۔ سڑک بنانے والوں نے پل بنا کر جھرنے کو سڑک پر آنے سے روک دیا تھاا ور وہ غضب ناک آوازیں نکالتا ہوا دریائے کنہار میں گر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے جھرنے کے پرسکون اور راحت افزاپانیوں میں حضرت انسان نے چارپائیاں اور کرسیاں رکھ کر اُس مقام کو مقام استراحت و قیام بنالیا تھا۔ ٹین کی چھت سے ڈھکا ہوا ایک کمرا بھی موجود تھا جہاں سموسوں اور پکوڑوں کے تلے جانے کی خوشبو نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔ جی تو چاہتا تھا کہ باہر آ کر ہم بھی کچھ دیر  جھرنے کے اس پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھتے لیکن بارش کے ڈر سے گاڑی سے باہر نہ نکلے بس گاڑی کے اندر سے ہی چند خوبصورت مناظر کو قید کرنے کے بعد آگے چل پڑے۔
سڑک مسلسل اوپر چڑھتی جا رہی تھی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے دھند کے پہرے بھی بڑھتے جا رہے تھے۔کچھ ہی دور آگے گئے تو ٹریفک تھما ہوا ملا باہر دیکھا تو سامنے سوائے پانی کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔سڑک کے کناروں پر موجود پتھر بتا رہے تھے کہ شاید یہاں کوئی سڑک ہوا کرتی تھی۔  ہمارے جیسے کتنے ہی مسافر یہاں رکے ہوئے تھے۔ سامنے سے ایک ٹرک ان پانیوں کو مسخر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ دائیں بائیں یوں ڈول رہا تھا جیسے بخار میں مبتلا کمزور شخص ڈولتا ہے۔ لگتا تھا کہ بس کسی لمحے کسی بل بیٹھ جائے گا لیکن مشاق ڈرائیور اسے وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ ہماری طرف سے ایک بے باک مزدا گزرا پھر ایک وین اور پھر دیکھا دیکھی سب اپنے مالک کا نام لے کر کود پڑے۔ عابد صاحب نے بھی گئیر لگا یا اور۔۔۔شڑاپ شڑاپ۔۔۔۔۔
”جذباتی نہیں ہونا۔“
میں عادت سے مجبور ہو کر بولا تو عابد صاحب نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا لی۔ پروین شاکر سے معذرت کے بعد میں بس اتناہی کہہ پایا۔
 یہی اک بات اچھی نہیں میرے ہرجائی کی
 اور پھر ہم اچھلتے کودتے اس پانی سے باہر نکل کر خشک جگہ پر آگئے۔ سب نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ یہ ہمارا اس سڑک پر پہلا امتحان تھاجس میں ہم سرخرو ہوئے تھے۔  البتہ کچھ لٹر پانی گاڑی کے اندر آگیا تھا جو ہمارے ساتھ اور ہم اس کے ساتھ کافی دیر تک اٹکھیلیاں کرتے رہے۔
 آگے رواں رواں سبزے میں سے لال پہاڑ جھانک رہے تھے۔سڑک پر جا بجا پتھر گرے ہوئے تھے اور کچھ گر رہے تھے۔ مجھے اپنے کالج کا زمانہ یاد آ گیا جب ہم احتجاج کرتے ہوئے سڑک کو کچھ اسی طرح اینٹوں سے بھر دیتے تھے۔ شاید یہ ان پہاڑوں کے احتجاج کا یہی طریقہ ہو۔ میں نے عابد سے کہا۔
 ” ان علاقوں میں بارش بہت خطرناک ہوتی ہے۔۔‘‘
 عابد نے جواب دیا۔
”جی بھائی جان لگتا ہے جیسے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہے ہوں۔“
 میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”نہ یار ایسانہ کہو،  اللہ سے رحم مانگو۔‘‘
 اللہ کا شکر تھا کہ پکی سڑک نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا اور ہم مسلسل چلتے رہے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے پہاڑوں پر سبزہ اوردرختوں کا رنگ زیادہ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ سڑک بنانے والوں نے اس سڑک کو محفوظ بنانے کے لئے خاصے مؤثر اقدامات کئے تھے۔ جگہ جگہ رہنما بورڈ  لگائے گئے تھے اور سڑک کو سیمنٹ اور پتھروں کی رکاوٹوں کے ذریعے محفوظ بنا نے کی کوشش کی گئی تھی۔
 دریا ناصرف سڑک کے قریب آگیاتھا بلکہ کچھ تنگ بھی ہو گیا تھا۔ لیکن ا س کی دھاڑ ابھی تک موجود تھی۔ ہماری حیرت کے نگار خانے میں لکڑی کے ایک پل نے ایک اور منظر کا اضافہ کر دیا۔جودریا کے آر پار کی جھولنے کی طرح  جھول رہا تھا۔   رسوں اور لکڑی سے بنائے گئے اس پُل کو کسی ستون کی ضرورت نہ تھی ۔اس پر سے لوگ تو گزر ہی رہے تھے مگر ایک سوزوکی وین نے تو گزر کر ہمیں  حیران  کیاپریشان کر دیا۔ حیرانی یہ نہیں تھی کہ وین اس پُل پر سے گذر رہی تھی۔ حیرانی یہ تھی کہ پُل اس مصیبت  کو کس طرح برداشت کر رہا تھا۔
 میں نے جب اس پل کے نیچے دریائے کنہار کا جوبن دیکھا تو میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔
  ٹریفک پھر رکاوٹ کا شکار تھا۔ اب کے بار لینڈ سلائڈنگ نہیں تھی بلکہ خانہ بدوش قبیلہ تھا جو خود تو خراماں خراماں چل رہا تھالیکن ان کی بھیڑوں نے سڑک کو اس طرح گھیر رکھاتھا جیسے لاہور میں پولیس والے ناکہ لگا کر سڑک کو گھیر لیتے ہیں۔ دو عدد کتوں اور گھوڑوں کے ساتھ یہ لوگ سیٹیاں بجاتے دنیا سے بے خبر چلتے جا رہے تھے۔
 کچھ ہی دور گئے تھے کہ سڑک ایک دفعہ پھر غائب ہو گئی۔ مٹی اور کیچڑسے بھرا ایک میدان تھا جس کے ایک طرف سرخ جھنڈیاں لگا کر سڑک کا ہونا ظاہر کیاگیاتھا۔ ایک عدد ٹریکٹر اور ایک نیم مردہ بلڈوزر سڑک بنانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ ایک طرف کسی نے ایک عجیب فوارہ بنایا ہواتھا۔ پانی کے پائپ کے آگے ایک بوتل لگائی گئی تھی جس کے پیندے میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کئے گئے تھے۔  جب پانی ان میں سے گزرتا تو فوارہ بن جاتا۔  وہیں ایک ٹوکری میں بوتلیں اور آئس کریم وغیرہ رکھی گئی تھی۔  گاہکوں کو متوجہ کرنے کا یہ طریقہ شاید اس روئے زمین پر ان علاقوں میں ہی دیکھنے کو نصیب ہوتا ہو گا۔ ترقی یافتہ قوموں کی ٹیکنالوجی سے لیس ساری اشتہار بازی اس کے سامنے ہیچ تھی۔ اپنے محدود وسائل کو  اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی اس سے بہتر مثال کہیں نہیں ملتی ہوگی۔
دریائے کنہار مسلسل آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ کبھی پاس آجاتا کبھی دور چلا جاتا۔ کہیں کہیں سرسبز و شاداب پس منظر میں بھورے رنگ کے توانا گھوڑوں کو چرتے دیکھ کر ان کی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔ وہ  ارد گرد سے بے خبر بس چرنے میں مگن تھے۔ سب کا ایک رنگ، ایک انداز اور ایک ہی قسم کا رکھ کھاؤ۔ کسی کو دوسرے سے زیادہ نہ کھانے کا شوق تھا نہ کھانا نہ ملنے کا ڈر۔ یہ گھوڑے بھی انہی خانہ بدوشوں کے تھے جن کا ایک خاندان ہمیں راستے میں ملا تھا۔
 پہاڑوں پر دھند کم ہو گئی تھی اور اس دھند میں سے جھانکتی ہوئی برفانی چوٹیا ں اپنے مالک کی بڑائی بیان کر رہی تھیں۔
ہر ذرا چمکتا ہے انوارِ الہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
(اکبر الہٰ آبادی)
 ان پہاڑوں کے ارد گرد تیرتے سفید بادل سپاہیوں کی طرح  ان کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔۔  میں نے حوریں تو نہیں دیکھیں لیکن اگر ہوں تو یقینا کچھ انہی چوٹیوں جیسے تقدس کی حامل ہوں گی۔
 اب جو سڑک ملی وہ ایک تو ٹوٹی ہوئی تھی دوسرا یہ کہ اس پر ایک خانہ بدوش قافلے کے مویشیوں نے بھی قبضہ کر رکھا تھا۔  میں اس سست رواں ٹریفک کی

 سستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑی سے اتر کر اس خانہ بدوش قبیلے کے ساتھ ہو لیا۔ جونہی مجھے ایک عمررسیدہ شخص ملا تو فورا ًاس سے چمٹ گیا لیکن اس نے میرے ہونے کو نہ ہونا سمجھا اور مجھے اس طرح نظرانداز کر دیا جس طرح وہ اس ٹوٹی ہوئی سڑک کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ رہا تھا۔ جب میرا ہر حربہ ناکام ہو گیا اور میری دال نہ گلی تو میں کسی نوجوان کی تلا ش میں آگے بڑھا۔خوش قسمتی سے وہ مجھے مل ہی  گیا، تیزی سے بھاگتا ہوا، سیٹیوں پہ سیٹیاں بجاتا ہوا مگر اس کے اور میرے درمیان بھیڑوں کا ایک ریوڑ تھا۔میں نے اس ریوڑ کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے اس من موجی تک پہنچنے کا سوچا ہی تھا کہ میری نظر ایک سفید دھاری دار سیاہ کتے پر جا کر تھم گئی۔، جو عین ریوڑ کے درمیان میں شاہا نہ انداز میں چلتا جا رہاتھا۔ اُس کی کھڑی دم اس کی خبردار طبیعت کی نشاندہی کر رہی تھی۔  ا ُ س کے لٹکے ہوئے کان صاف بتا رہے تھے کہ فکر و دانش تو اُسے وراثت میں ملی ہوگی۔ اس وقت تو وہ مجھے پورے کا پورا درباری دانش ور دکھائی دیا۔  اُس کی صحت بتا رہی تھی کہ وہ کئی بھیڑوں کا دودھ پیتے ہوئے جوان ہوا تھا۔ دودھ کا حق ادا کرنے کے لئے وہ کسی بھی پڑھے لکھے یا ان پڑھ کو چھٹی کا دودھ یاد دلاسکتا تھا۔
زین گاڑی میں ہی چلا رہا تھا۔
”پاپا اس کتے کو بچے کو پتھر ماریں۔“
 میں نے اُ س کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”بیٹا آپ مجھے مرواؤگے۔ مرواؤگے نہیں تو کپڑے ضرور پھڑواؤ گے۔ وہ بھی ایک کتے کے بچے کے ہاتھوں۔“
میرے  ایک دوست ہیں فیض خان کتوں سے بہت ڈرتے ہیں۔
 کتے سے وہ اتنا ڈرتے ہیں کہ  کتوں پر انہوں نے اچھی خاصی ریسرچ کر رکھی ہے۔ ہیں کشمیر کے۔ ایک دفعہ اسی طرح ایک کتا راستے میں آگیا تو چھ فٹ سے زیادہ دراز قد اور اچھی خاصی چوڑی چھاتی کا حامل  یہ خان میرے پیچھے چھپنے لگا تو میں نے کہا۔
”فیض خان اس کتے سے ڈرتے ہیں۔“
کہنے لگے،
”تمہیں نہیں پتہ یہ بہت خطرناک ہے۔“
میں نے پوچھا،
”کیوں جی یہ کیسے خطرناک ہو گیا،“
 جواب ملا۔
”او یار ایک تو یہ پورے کا پورا کتا ہے اوپر سے اس کی نزاکت تو دیکھو۔“
 میں اس وقت کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتاتھا۔ ٹریفک کو دیکھا دور تک گاڑیاں ہی گاڑیا ں تھیں۔ اچانک وہ بزرگوار جو مجھے مایوس کر چکے تھے تیزی سے میرے قریب سے گذرے اور دوسری طرف اس نوجوان سے آگے نکل گئے۔ کتے نے جونہی بزرگ کو خود سے تیز چلتے دیکھا تو وہ بھی وفاداری کا حق ادا کرنے کے لئے بھیڑوں کے اندر سے راستہ بناتے ہوئے ان بزرگ کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور جا اس نوجوان کو اُچک لیا۔ اس بھلے مانس نے مسکرا کر میرا استقبال تو کیا مگر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ شاید اسے میرا اس طرح اس تک پہنچنا اچھا نہیں لگا لیکن مروت میں اس نے ایک مسکراہٹ ہوا میں بکھیردی۔ میں نے ا س کی ا س مسکراہٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلام دعا کے بعد مدعا بیان کیا۔ اس نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ چکوال سے چلے ہیں اور بہت آگے تک جانا ہے۔ میں نے پوچھا،
”آگے کہاں تک۔“
 اس نے بتایا،
”مجھے تو اُس جگہ کا نام نہیں پتہ۔۔۔البتہ ابے کو پتہ ہے۔۔۔“
 میں نے پوچھا،  ”اُس جگہ کی کوئی نشانی۔۔۔۔“
 وہ گویا ہوا۔۔۔۔” جی ابے کو پتہ ہے۔۔۔۔“
 میں نے کہا۔ ”یار! تم وہاں کبھی نہیں گئے۔۔۔۔ جی ایک دفعہ جا چکا ہوں۔۔۔“  اُس نے خلاف توقع جواب دیا ورنہ توقع تو یہی تھی کہ کہتا ابے کو پتہ ہے جی۔
میں نے سوال داغا۔۔۔۔” اچھا یار۔۔۔ تم چکوال سے اتنا آگے آ گئے ہو۔۔۔ آگے کہاں جانا ہے۔۔۔۔۔“
اُس کے جواب نے مجھے پھر مایوس کردیا۔
”ابے کو پتہ ہے۔“
میں اُسے بس یہ کہہ کر چلا آیا۔
”یار پتہ رکھا کر ایک دن تم نے بھی ابا بننا ہے۔“
 جب میں چلنے کے لئے مڑا تو وہ تیزی سے میرے قریب آیا اور میرے کان کے قریب اپنا منہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔
”میں نے ابا بننا نہیں ہے بلکہ ابا بن گیا ہوں دو بچوں کا ابا۔۔ اگر نہ بنا ہوتا تو آپ کو سب کچھ بتا دیتا۔۔۔ ہمیں راستے میں سو چور لفنگے ملتے ہیں اگر ہم اس طرح دوستیاں کرتے پھریں تو پہنچ گئے استور۔۔۔۔۔ تم شریف بندے ہو اس لئے بتا رہاہوں ہم یہاں سے چلتے چلاتے استور پہنچیں گے وہاں سے دیوسائی۔۔ پھر برفوں کے موسم میں واپسی ہوگی۔“
 میں نے ہاتھ ملا یا،لیکن اس نے خود ہی مجھے گلے کی طرف کھینچ لیا۔۔ چلنا ہے تو پیچھے پیچھے آجا۔“
 مجھے گلے مل کر وہ آگے بڑھ گیا اور میں  کھڑا  اُسےدیکھتا رہا۔
 دریائے کنہار ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ پر سکون،اپنی ہی موج میں مست۔ اب وہ پھیلا ہوا، بس ایک میدان تھا جس میں جابجا پانی موجود تھا۔ زمرد رنگ کی  سبز لکیروں کی طرح کا پانی۔
 بارش تھم چکی تھی لیکن بادلوں کا آنا جانا موجود تھا۔ سڑک ایک دفعہ پھر پتھروں کی زد میں تھی۔ پہاڑ کے ایک بڑے حصے نے سڑک کو بہا کر دریا میں پٹخ دیا تھا۔ اس کے ملبہ کے اوپر عارضی سڑک بنائی گئی تھی۔ جو سڑک کم کیچڑ زیادہ تھی۔ خوش قسمتی سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک ٹریکٹر کے ذریعہ مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ ہم بھی بچتے بچاتے اس کیچڑ سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے۔
چار بجنے کو تھے اور ہم کیوائی پہنچ چکے تھے۔ گاڑی کی فضاؤں میں یہ غزل گونج رہی تھی۔
جب پیار نہیں ہے تو بتا کیوں نہیں دیتے
خط کس لئے رکھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ میرا نام
میں حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
 کیوائی ایک چھوٹا ساقصبہ ہے جس کی وجہ ئ  شہرت وہ آبشار ہے جو کہیں دور سے بہتے ہوئے آتی ہے اور اس مقام پر سڑک کو عبور کرتے ہوئے دریائے کنہار کے پانیوں میں جذب ہو جاتی ہے۔ آ بشار کی ہموار جگہ پر پانیوں کے اندر چارپائیاں اور کرسیاں بچھائی گئی تھیں جہاں مسافر  بیٹھے قدرت کے اس عجوبے اور مختلف قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے  تھے۔ ان کھانوں میں یہاں کی مشہور ٹراؤٹ مچھلی بھی شامل تھی۔ جو بوجہ تنگئی جیب ہمارے جیسوں کے ہاتھوں سے تو پھلس جاتی ہے لیکن بہت سے ہیں جو اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔
مانسہرہ سطح سمندر سے تین ہزار پانچ سو ستر فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور  ہم تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندی پر تھے۔ ہمارے سامنے مانسہرہ جلکھڈ روڈ تھی جبکہ بائیں طرف دور وادیٔ سرن اور جبوڑی۔ اس سے اوپر موسی کا مصلیٰ۔ ہماری دائیں جانب شوگران،     سر ی پائے اور پھر آگے وادی نیلم تھی۔
 انہی پہاڑوں میں جاگران دریا بھی تھا جو دریائے نیلم سے جا ملتا ہے۔ اسی جاگران پربجلی کا ایک ڈیم بناہوا ہے۔ یہیں ہے کٹن ایک بہت ہی خوبصورت جنت نظیر مقام۔
میں کیوائی کی آبشار کے قریب کھڑا اوپر اس چھوٹی سی سڑک کو دیکھ رہا تھا جس پر چل کر مجھے شوگران پہنچنا تھا۔ یہ راستہ میرے لئے مکمل طور پر اجنبی راستہ تھا۔ اس راستہ کے لئے میں نے کتنوں سے معلومات لی تھیں۔ اسی راستے سے گذر کر مجھے سری پائے جانا تھا۔ نا جانے کیوں یہ نو میل کا فاصلہ بہت طویل لگ رہاتھا۔
 میں نے اردگرد دیکھا، پہاڑوں کی لمبی قطاریں، سبزے سے لدی وادیاں، وادیوں میں وادیاں، وادیوں کو چومتے دریا اور دریاؤں میں اترتے ندی نالے، پھنکارتے جھرنے، آنکھیں مٹکاتی جھیلیں سب کچھ ان وادیوں میں تھا۔۔۔ انہی پہاڑوں  سے منسلک  کتنے ہی   سلسلےتھے اور انہی  سلسلوں میں  تھیں، دنیا کی حسین وادیاں ۔۔۔۔۔ وادیٔ شگر،وادیٔ ہنزہ، سکردو، نلتر، گوری کوٹ۔ اشکومن، راما، گلگت، اور جانے کیاکیا ۔۔۔۔
 انہی سلسلوں میں دنیا کے خوبصورت وسیع اور اونچے گلیشیئرز تھے، انہی میں ملکہ پربت، ناگا پربت،  جیسی عظیم چوٹیاں۔
 مجھے سب دعوتِ دید دے رہے تھے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔مجھے ان کا اظہارِ محبت رد نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔
  مجھے یہاں سب جگہ جانا تھا۔ جس سفر پر میں گامزن تھا یہ میرا پہلا سفر تھا، یہ وہ سفر تھا جسے محض ایک دریچہ کہا جا سکتا تھا، ایک چھوٹا سا دریچہ جس کے اندر سے گذر کر مجھے عظیم سڑک ریشم کے کناروں کو پھلانگنا تھا، اسی در سے گذر کر مجھے شیر دریا سندھ کے کناروں پر کئی گھنٹے لگاتار سفر کرنا تھا اور اسی دریچے سے گذر کر مجھے شاردہ  یونیورسٹی اور دنیا کے بلند ترین سر سبز میدان                                                                                  دیو سائی کے سینے پر قدرت کے راز کھوجنا تھے۔ ہاں مجھے دیوسائی کی مسجد میں اپنے مالک کے حضور سجدہ شکر کرنا تھا۔ بڑے پانی کی مچھلیوں سے گفت و شنید کرنا تھی  ،  انواع و اقسام کے پھول چننا تھے اور ہاں بھورے ریچھوں کو بھی تو دیکھنا تھا۔۔۔۔۔۔ ہائے پریاں۔۔۔ شاید کہیں ملاقات ہو ہی جائے۔۔۔۔۔ اس لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بڑا رحیم  وکریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو دعا میں میری اثر نہ
(ڈاکٹر بشیر بدر)

No comments:

Post a Comment