یہ جو پُر شِکستہ ہے فاختہ، یہ
جو زخم زخم گلُاب ہیں
یہ ہے داستان میرے عہد کی ،جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے
جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی، جہاں حکمرانی ہوبوٹ کی
جہاں بات کرنا محال ہو، وہاں آگہی بھی عذاب ہے
میری جان ہونٹ تو کھول تُو، کبھی اپنے حق میں بھی بول تُو
یہ عجب ہے تیری خاموشی، نہ سوال ہے نہ جواب ہے
عالی مرتب صدرِ ذی
وقار اور اربابِ حکمت و دانش
السلامُ علیکم!
صدرِ ذی وقار ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم آج اس
تقریب میں بے حسی کی کوکھ سے جنم لینے والی خاموشی پر ماتم کرتے،
اپنی بند زبانوں پر گریہ کرتے لیکن اس کے
برعکس مجھے کہا جارہا ہے ’’ بولنا منع ہے ‘‘
لیکن میں نے بولنے کا ، لب
کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب تک اس بدنِ
خاکی میں جان کی ایک رمق باقی ہے میں
بولوں گا ۔ اور کہوں گا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول کہ زباں اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
مائیں ترے سامنے بیٹوں کی
لاشوں پہ روئیں۔ تم کہتے ہو بولنا منع ہے،
عصمتوں کالباس تارتار ہوتا رہے تم
کہتے ہو بولنا منع ہے، تھر میں بچے بھوک
سے مرتے رہیں تم کہتے ہو بولنا منع ہے،نابیناؤں پر ڈنڈے برسائے جائیں تم کہتے ہو
بولنا منع ہے۔عیش کرے سرمایہ دار اور مرے مزدور، تم کہتے ہو بولنا منع ہے۔
کر کے بچوں کو مسجدوں میں
قتل
قاتل اسکولوں کا رخ کرتے ہیں
تم کہتے ہو بولنا منع ہے
میرے شہروں کی گلیوں میں
دیوانہ وار
بال کھولے ہوئے، ظلم پھرتا ہے
تم کہتے ہو بولنا منع ہے
مرکزِ علم و دانش کے مکینو! اے علم کے
خوشہ چینو!
میرے ارد گرد بے ایمانی ہو، بدکاری ہو، عیاری ہو، سیہ کاری
ہو ، لہو پانی کی طرح بہے، لباس بنانے والا خود تارِ لباس کو ترسے ، قلم
پکڑنے والے ہاتھ اسیکورٹی کے خار دار
تاریں لگانے لگیں۔ کوئی پھر بھی مجھے کیسے کہے بولنا
منع ہے۔
جنابِ صدر! یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ زبانوں پر قفل لگانے کی
سازش ہے ۔
حاکمِ وقت کہتا ہے جو، وہ لکھو چپ رہو
سچ پہ پہرے لگے ہیں مرے دوستو، چپ رہو
شہرتوں کے لیے غاصبوں کے قصیدے کہو
تم بھی ان جوہڑوں کو سمندر لکھو، چپ
رہو
حاضرینِ بزم!
اب کوئی پرندہ ہمارے دشمن پر آسمان سے کنکر نہیں پھینکے گا۔
اگر ایسا ہو تو کیوں ہو؟ ہمارے کرتوت کیا ہیں،
مکروہ، فریبی مکار، دغاباز ، مردہ جانوروں کا گوشت قابلِ
فروخت ، قران پر حلف اٹھاکررشوت کا صور حلال
، الحاج کا لقب لگا کر مزدور وں کا استحصال۔ نہ خوفِ خدا نہ کوئی ملال،
ایسے میں تین سو
تیرہ کا قافلہ ،ہزاروں کا کیونکر لشکر بنے۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں
کے سب ٹھکانوں کے
شریکِ جرم نہ ہوتے تو
مخبری کرتے
جنابِ صدر ،
ماں کی گود جائے
امان نہ رہی ،بولنا منع ہے۔ عبادت گاہ جائے حرم نہ رہی بولنا منع ہے، اسکول علم و
دانش کی بجائے جائے دہشت بن جائیں ، میں
نہ بولوں، سڑکیں مقتل میں نہ بولوں ، انصاف قابلِ فروخت میں نہ بولوں، استاد علم
بیچے میں نہ بولوں، واعظ دین بیچے میں نہ
بولوں۔
ٹھیک ہے جناب میں
نہیں بولتا ، میں اپنی زبان سی لیتا ہوں
لیکن کوئی مجھے یہ تو بتا دے اگر میری سرحد کے محافظوں کے سروں سے فٹ بال کھیلا جائے تو کیا
میں رقص کروں ۔
پانیوں
کے سفر میں پتوار نہیں بدلے جاتے
گرمئ بازار میں زیست کے ادوار نہیں بدلے جاتے
ہوائے شہرِِ خُوباں سے کہو ہوش کرے
موسم بدل جائے تو اشجار نہیں بدلے جاتے
گرمئ بازار میں زیست کے ادوار نہیں بدلے جاتے
ہوائے شہرِِ خُوباں سے کہو ہوش کرے
موسم بدل جائے تو اشجار نہیں بدلے جاتے
جنابِ صدر میں کیا
کروں ، میں کس کا افسانہ بیان کروں؟
مفلسِ شہر کو دھن وان
سے ڈر لگتا ہے ، پر نہ دھن وان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں وہ ایثار و اخوت مدینہ جیسی، اب تو مسلم کو مسلماں سے ڈر لگتا ہے
جناب صدر ! انتہائی
محترم اساتذہ اور ذی قدر حاضرین!
اگر بولنا منع ہے
تو آج اُس ماں کو بلا لیجئے
جو دروازے میں بیٹھی اپنے بچے کا اسکول سے آنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر بولنا منع ہے تو اس باپ کو بلالیجئے جس نے
پشاور کے اسکول میں اپنے جگر کے ٹکڑے، اپنے لختِ جگر اپنے نورِ چشم ، اپنے پیارےکے جسم کے تکڑے چُن چُن کر قبرستان
کے سپرد کئیے ت۔ ۔
اگر میرا بولنا منع
ہے تو اس جھلسی ہوئی پرنسپل کی روح کو بلا لیجئے جو سفاک
قاتلوں کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر چیختی چلاتی
رہی ، خدا کے لئے میرے بچوں کو نہ
مارو، ،خدا کے لئے میرے بچوں کو نہ مارو،
جنابِ صدر ، بابِ دانش و فکر
’’ بولنا منع نہیں۔‘‘
ہے یہی میری نماز، ہے
یہی میرا وضو
میری نواوں میں ہے
میرے جگر کا لہو
اور
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف، لہو لہو
مرا لفظ لفظ ہے آبلہ
No comments:
Post a Comment