Sunday, April 9, 2017

ہم کیسے پاکستانی ہیں؟ Urdu Speech

دھوپ اتنی ہے کہ جلتے ہیں گلابوں کے بدن
قہر اتنا ہے کہ ہونٹوں پہ اُگیں کانٹے
جانے کب رات ڈھلے، صبح کا آنچل پھیلے
کوئی تو لمحہ سویرے کی بشارت دے

صدرِ ذی وقار، میرے محترم اساتذہ، حاضرینِ بزم  اور میرے پیارے ساتھیو!
 آج ہم بات کر رہے ہیں  پاکستانیوں کی۔  اُن پاکستانیوں کی  جب اُنہیں ملت کی تعمیر  کی ذمہ داری  ملی  تو حالتِ زار یہ تھی  کہ اگر لکھنے بیٹھتے تو قلم نہ ہوتا اگر قلم مل جاتا توکاغذ نہ ہوتا، اگر کاغذ اور قلم ہوتا تو بیٹھنے کے لئے  جگہ نہ ہوتی ۔کسی نے درختوں کی چھاؤں کا سہارا لیا تو کسی نے خیموں کا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ عالیشان  دفاتر بن گئے ،  ملیں اور فیکڑیاں دھن اُگلنے لگیں اور پاکستان ایک ایٹمی قوت   بن گیا۔ یہ نتیجہ تھا  پاکستانیوں کی محنت کا ، یہ نتیجہ تھا  پاکستانیوں کی ایمانداری کا  یہ نتیجہ تھا  پاکستانیوں کی وطن سے محبت کا۔
صدرِ ذی وقار! پھر پاکستان آج کے باسیوں کے ہاتھ میں آگیا۔   قدرت کا عظیم شاہکار پاکستان پاکستانیوں کے ہی ظلم کا شکار بن گیا، اسے اسی کے باسی نوچنے لگے، اس کی کوکھ سے جنم لینے والا حکمران عیار ہوگیا ، اس کا ناظم مکار ہو گیااور اس کاپرچم شرمسار ہو گیا۔ ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ جنابِ صدر ہم کیسے پاکستانی ہیں۔
جنابِ صدر ہم کیسے پاکستانی ہیں۔   کھیتوں کو اپنے لہو سے سیراب کرنے والا کسان روٹی کو ترسے، لوگوں کے گھر بنانے والا مزدوربے سائباں ،  کپڑا بننے والا مزدور بے لباس۔ ہم کیسے پاکستانی ہیں۔
شبِ فراق میں یوں دل کا داغ جلتا ہے
مکان خالی ہے جیسے چراغ جلتا ہے
چشم  پُرنم  ہے،  مگر  جلتا ہے
کیا قیامت ہے کہ برسات میں گھر جلتا ہے
 نازک ہاتھ کوڑے کے ڈھیرمیں اپنا رزق تلاش کر نے پر مجبور۔    فیکڑیاں سنسان  ،   کھیتیاں بنجر ،دریا خشک، باپ اپنے بچوں کو سرِ بازار لے آیا ، معصوم بچوں کے سینوں پر بم باندھ دئیے گئے۔  اور ہم  خاموش ۔ جنابِ صدرہم کیسے پاکستانی ہیں،
ہم کیسے پاکستانی ہیں۔


درسگاہیں بموں سے اُڑا دی گئیں ، مسجدوں میں نعرہ تکبیر کی جگہ گولیاں چلنے اور بم پھٹنے کی آوازوں نے لے لی، سڑکیں مقتل بن گئیں،  مجلسیں بے کیف ہو گئیں ، منصف  مجرموں کی گود میں بیٹھ گئے، عیاریوں اور مکاریوں کی سیاہ رات چھا گئی ، ہم نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی،  ایسی بے حسی کہ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اندھے ہوگئے،  سب کچھ سنتے ہوئے بھی بہرے ہو گئے،  طوفان ہمارے دروازوں پر دستک دیتے ہیں، لیکن ہم ان کی چاپ تک نہیں  سنتے،    حادثے ہماری بستیاں اجاڑکر رکھ دیتے ہیں لیکن  ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں  رینگتی۔نہ ہم آہ  بھرتے ہیں نہ اُف  کرتے ہیں۔  صدرِ ذی وقار ہم کیسے پاکستانی ہیں۔
جناب صدر!آخر میں بس اتنا کہوں گا
   یہ تِیرہ شبی اپنا مقدر تو نہیں ہے                                             آؤ کہ سبھی مل کے کوئی ضیا تلاش کریں
 عصائے موسیٰ کو ڈھونڈیں، خدا تلاش کریں                   اس عہدِ حبس میں ہوا تلاش کریں
کسی طرح تو تقدس بچائیں ہاتھوں کا                             لہو نہیں ہے تو رنگِ حنا تلاش کریں


No comments:

Post a Comment