ہمارے خشک ہوتے دریا
جب میں اس موضوع پر سوچتا ہوں تو دماغ میں فوراً یہ بات آتی
ہے کہ کیا ہمارے خشک ہوتے دریا یا ہمارے
خشک کردہ دریا۔ یوں میرے پہلے موضوع میں
ایک دوسرا موضوع گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس طرح ایک دریا میں دوسرا دریا۔ جیسے ایک دریادوسرے میں گر کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے اسی طرح ایک موضوع
دوسرے میں گر کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے
لیکن وجود نہیں۔ میری اس تمہید کا حاصل یہ ہے کہ
ہمارے خشک ہوتے دریا اصل میں ہمارے
خشک کردہ دریا ہے ۔ یوں موضوع کچھ زیادہ حساس بھی ہو جاتا ہے اور اس کی وسعت بھی پھیل جاتی ہے۔
یہ ایک عجب اتفاق ہے،
اتفاق ہے یا قدرت کی کارستانی، قدرت کی کارستانی ہے یا میرے ذہن کی شرارت
کہ لفظ دریا اور صحرا اپنے وجود کے
لحاظ سے ایک ہی ہیں۔ یعنی بہیں تو دریا
اور رکیں تو صحرا۔ گویا اس ایک جملے نے
دریاکی اہمیت کو اس طرح واضح کر دیا ہے جیسے چاندنی رات میں چاند۔
اگر ہم ماضی کے دبستانوں میں جھانک کر دیکھیں تو
ہمیں دریا انسانی بستیوں کو اپنے
سروں پر بٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ دریا ایک
شفیق ماں کی طرح اپنی تمام تر توانائیاں ان بستیوں کا دوزخِ شکم بھرنے میں
صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں اس
حقیقت کو جاننا، سمجھنا اور ماننا مشکل نہیں کہ
خشک ہوتے دریا سے مراد خشک ہوتے
دریا ہی نہیں بلکہ ہماری خشک ہوتی توانائیاں ہیں۔دریا خشک کھیت خشک، کھیت خشک
تو انسانی حیات میں سینکڑوں مسائل کا
اضافہ ۔ یعنی بستیوں کی جان کھیت ، کھیتوں
کی جان دریا۔ دریا کی روانی رہے گی تو غذا کی فراوانی رہے گی۔
اب ایک اور جملے کی حساسیت پر غور کیجئے۔ دریا کی ذلت غذا
کی قلت۔ اور دریا کی ذلت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ایک رپورٹ کے مطابق دریائے راوی کو شہرِ لاہور کا ایک ہزار پندرہ کیوسک گندا پانی پلا کر ہر روز ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ اس کے سر پر
ڈیم بنا کر اس کی اپنی روانی کے سامنے بند باندھ دئیے گئے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ اس کا اپنا پانی جو
اوسطا ۴۶۰ کیوسک ہے۔ وہ اصل میں آلودہ پانی ہے۔
WWF کی ایک رپورٹ
کے مطابق اس آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں کی
تقر یباً ۴۲ اقسام صفحہ ٔ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور کتنے پرندے اس جگہ سے کوچ کر چکے
ہیں اس کا اندازہ مشکل ہے۔
یہ تو صرف ایک دریا کی بات تھی دریائے ، جہلم ، دریائے چناب بھی چپکے
چپکے یہی کہہ رہے ہیں ، ہمیں بچا لو ہم
خشک ہو گئے تو تمہاری زندگیوں کے سوتے بھی
خشک ہو جائیں گے۔اگر ہم ختم ہو گئے تو تمہارے ہاں غذائی قلت پیدا ہو جائے گی۔ اور
اگر غذائی قلت کے معانی نہ پتا ہوں تو پھر ایتھوپیا کےکسی بچے کو دیکھ لو۔
No comments:
Post a Comment