Saturday, April 22, 2017

سفر نامہ پریوں کی تلاش سے ایک اقتباس

  موٹر وے بننے سے پہلے کلر کہار تاریخ کے صفحات میں چھپاہوا تھا لیکن موٹر وے انٹر چینج  کے قیام کے بعد یہ مقام اس طرح ہمارے سامنے آگیا  جیسے جنگلوں میں چھپا خزانہ ۔    یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ موٹر وے پر موجود تمام انٹر چینجز میں کلر کہار اپنی خوبصورتی اور محلِ وقوع کے لحاظ سے موٹر وے پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا پسندیدہ انٹر چینج ہے۔
  انٹر چینج سے تھوڑا سا نیچے اُتریں تو کلر کہار کی جھیل اس سرزمین پرآنے والوں کا استقبال کرتی ہے۔ یہ پورا پہاڑی سلسلہ پوٹوہار پلییٹو کہلاتا ہے۔اس کے پہاڑوں کی اوسط اونچائی تقریباً 2300 سے 2600 فٹ تک ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی سکیسر ہے جس کی اونچائی  3700 فٹ ہے۔       کہتے ہیں  کہ کسی وقت یہاں سمندر تھا۔ کسی واقعہ میں انڈین پلیٹیں ایشیائی پلیٹوں کے ساتھ ٹکرائیں اور نمک کے پہاڑ وجود میں آ گئے۔ 
 کلر کہار کوہ نمک کا ایک اہم مقام ہے۔ نمک کے ان پہاڑوں کا سلسلہ دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور دریائے سندھ تک چلتا جاتا ہے۔ دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں کوئلہ بھی پایاجاتا ہے۔ ویسے تو اس سلسلۂ   کوہ کاہر گوشہ اور ہر کونہ خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن اس کی جھیلیں دیکھنے کے لائق ہیں۔
 کچھ یہی وہ کھوج ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں رکنے پر مجبور ہوئے۔

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ توزد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا  میں  وہ خزانے تھے
(آشفتہ چنگیزی)

ہم کلر کہار رکنے کا پکا ارادہ کر چکے تھے اس لئے انٹر چینج کو چکر دے کر جھیل کے ساتھ ساتھ گولائی میں چلتے ہوئے۔ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کی طرف رواں دواں تھے۔ ہماری دائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ جھیل میں اُگی ہوئی جھاڑیاں تھیں اور بائیں جانب پہاڑوں کا سلسلہ۔ اس سڑک کی وجہ سے ہم جھیل کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن جھیل پر بھی اندھیرے کی سیاہ چادر تن چکی تھی۔ جھیل سے دور گھروں اور سڑک پر روشن قمقموں کی روشنی کا عکس  اس جھیل کے کناروں پر پڑ رہا تھا۔ اس کے علا وہ سب کچھ سیاہ تھا۔ لگتا تھا یہاں کوئی سیاہ میدان ہے۔
 پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل پہنچ کر بچوں نے کمرا پسند کیا، گاڑی سے سامان کمرے میں منتقل کیا گیااور پھر ہم سب ہوٹل کے ٹیرس پر آ گئے۔  جہاں دو خاندان پہلے ہی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک گائیک اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا مہدی حسن کے گائے ہوئے گیت گا رہا تھا۔ ان کے پیچھے کلر کہار کے بارے میں ایک بڑی سی فلیکس آویزاں تھی  اور اس سے کچھ ہی دور ایک کونے میں باربی کیو اپنے عروج پر تھا، جس کی خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لگتا تھاجیسے اس ہوٹل کے سبھی مہمانوں نے بار بی کیو کا ہی آڈر دے رکھاتھا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کے سامنے چار گاڑیوں اور نیچے پارکنگ میں چھ گاڑیوں کی موجودگی اس امر کی غماز تھی کہ ہوٹل میں کافی لوگ موجود تھے لیکن گرمی کی وجہ سے  اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے تھے۔
                                    بچوں کو اللہ نے یہ قابلیت دی ہوتی ہے کہ وہ فورا ًنئے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے بچوں نے بھی رات کی اس تاریکی میں ہوٹل کی تسخیر کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ لوڈ شیڈنگ بھی ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ جاسوسوں کی طرح ہوٹل کے کونے کھدروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ موسیقار ٹولی کے پیچھے وادی سون سکیسر کی معلوماتی فلیکس کا بھی مکمل مطالعہ کیا جا چکا تھا۔ جس کی جو بات انہیں سمجھ نہیں آتی تھی وہ آ کر مجھ سے پوچھ لیتے۔ یوں وہ کلر کہار کے مشہور مقامات کے ناموں اور موٹی موٹی خصوصیات سے کافی حد تک آگاہ ہو چکے تھے۔ جب بھی کوئی چیز مسخر ہوتی تو میرے یا اپنی ماں کے کان میں پھونک دی جاتی۔ یوں ہم دونوں میاں بیوی ٹیرس پر بیٹھے بیٹھے سارے ہوٹل اور اس کے مکمل محل وقوع سے واقف ہو گئے تھے۔
  اس دوران ان پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ گانے والوں کو پیسے دیں تو وہ ہماری مرضی کا گانا سناتے ہیں۔  چنانچہ مجھ سے پیسے لے کر چلے گئے لیکن مجھے کامل یقین تھاکہ ان کی فرمائش بوجہ تضادِ تمدن پوری نہیں ہوئی ہوگی۔ جب میں نے ان گائیکوں کی طرف کرسی کی اور انہیں سننا شروع کیا تو انہوں نے اپنے ساز ٹھیک کرنا شروع کر دئیے۔ میرا ایک سو رپیہ کا نوٹ پا کر انہوں نے اپنی انتہائی خوبصورت آواز میں مہدی حسن کی گائی ہوئی میر تقی میر کی یہ مشہور غزل سنانا شروع کر دی۔

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
 پی ٹی ڈی سی کے ٹیرس پر بیٹھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ زندگی کی الجھنوں اور مسائل سے آزاد، نہ کسی رشتہ دار کی بک بک،  نہ کسی دوست کا شکوہ شکایت، نہ معیشت، نہ سیاست، نہ نفرت،   نہ منافقت۔۔۔۔۔۔بس ہر طرف سکون ہی سکون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹیرس پر بیٹھا جب نیچے دیکھتا تومجھے یو ں لگتا جیسے ہم رات گذارنے کے لئے کسی مچان میں بیٹھے ہوں۔ سامنے جھیل تھی، جس کے کناروں پر ارد گرد کی روشنیاں پڑ رہی تھیں۔    ہر روشنی ایک ستارہ کی مانند تھی اور ستاروں کا ملاپ ایک کہکشاں بن رہا تھا۔ دھیمی دھیمی  ہوا جب جھیل کے پانیوں کےگالوں پر اپنے ہونٹ رکھتی تو وہ شرما کرجھرجھری لیتی اور یوں سارا کہکشاں تھرکنے لگتا۔  اس تھرکتے ہوئے کہکشاں کو دیکھ کر مجھے یو ں لگاجیسے کوئی حسینہ چاندی کے ستاروں سے اٹا اپنا سیاہ ریشمی دوپٹہ ہلا ہلا کر اپنے محبوب کوجھیل کنارے اپنی آمد کی اطلاع دے رہی ہو۔
     کچھ ہی دور موٹر وے گذر رہی تھی۔ گزرنے والی گاڑیوں کی رنگ برنگی روشنیوں کاعکس اس جھیل کی جب چٹکی لیتا تو یہ جھلمل جھلمل کر اُٹھتی اور اس کے رخساروں پر حیا کے کتنے ہی رنگ پھیل جاتے۔ اس عالم میں مجھے اپنی جوانی کا وہ گیت یاد آگیا جو اس وقت میرا مشن یا ویژن اسٹیٹمنٹ تھا۔
جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا
رم جھم برستا ساون ہو گا
ایسا سندر سپنا اپنا جیون ہوگا
 اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جس پہاڑ پر چڑھنے میں بڑی بڑی بسوں کی بس ہو جاتی ہے وہاں اللہ نے پانی کا اتنا بڑا  ذخیرہ سنبھال کر رکھا ہے جو نہ تو اپنے کناروں سے باہر آتا ہے،    نہ سوکھتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے۔ حیاتِ ارضی فطرت کا یہ شاہکار ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے۔
 یہ مقام جسے کلر کہار کہا جاتا ہے آج کے جغرافیہ کے مطابق چکوال کی ایک یونین کونسل ہے۔ چکوال یہاں سے جنوب کی طرف پچیس کلو میٹر کے فاصلہ پر کوہِ سلیمان کے ایک لمبے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی وادی سون سیکسر ہے جس کی الگ ہی پہچان ہے۔         کلر کہار کی جھیل ایک قدرتی جھیل ہے جس کا منبع تازہ پانی ہے۔ جھیل کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ اور پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل ہے۔ پاکستان کے اکثر لوگ موسمِ سرما اور بہار میں اس جگہ کی سیر کے لئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو بزرگوں سخی آہو باہو کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ جہاں زائرین اور عقیدت مند وں کی بڑی تعدادحاضری دے کر اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔

کھلی آنکھوں میں سپنا جھا نکتا ہے
وہ سویا ہے کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
(پروین شاکر)

 کلر کہار کو موروں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ میں یہاں ایک مرتبہ پہلے بھی آ چکا ہوں جب موٹر وے نئی نئی بنی تھی۔ اُ س وقت میں نے جا بجا انسانوں سے مانوس مور دیکھے تھے،  جو ہر جگہ اس طرح گھومتے پھررہے تھے جس طرح ہماری سڑکوں پر موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔  البتہ آہو باہو کی خانقاہ پر مور کھلے عام پھرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں کسی اور مقام پر لے جایا جائے تو وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تختِ بابری بھی یہاں کا مشہور مقام ہے۔ یوں کلر کہار میں میرے اور بچوں کے لئے دیکھنے کو کافی سامان موجود تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موروں کا ذکر ہو اور بچے مور دیکھنے کی ضد نہ کریں، ان کے شدید اصرار پر ہم نے گاڑی نکالی اور جا خانقاہ کے عقب میں مقام کیا، دربار میں گئے، ادھر دیکھا ادھردیکھا لیکن مور وں کے دیدار نہ ہوئے۔
 مزار سے باہر ایک چھوٹا سابازار ہے چنانچہ بچے اور ان کی اماں وہاں سے شاپنگ کرنے لگے جبکہ میں ایک دکان میں چند بزرگوں کو فارغ بیٹھے اورحقہ پیتے دیکھ کر ان کی طرف چلا گیا۔ان بزرگوں نے میرا  پُر جوش استقبال کیا۔     بات سے بات نکلتی گئی اور یہ ملاقات ایک گھنٹہ تک طول پکڑ گئی۔ پتہ چلا کہ اب مور بہت کم ہو گئے ہیں اور وہ صبح کے وقت اس مزار پر آتے ہیں۔
ان بزرگوں نے مجھے اس علاقہ کے بزرگوں کی کرامات کے بہت سے واقعات سنائے۔                                               کہا جاتا ہے،  ” اس علاقہ میں میٹھے پانی کی بہت کمی تھی۔ا کا دکا جگہ پر میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ جہاں دور دراز سے عورتیں پانی بھرنے کے لئے آتی تھیں۔ یو ں اس علاقہ کی سب سے قیمتی شے پینے کا پانی تھا۔ 
 ایک دفعہ کاذکر ہے کہ کچھ عورتیں ایک چشمہ سے پانی بھر کر لا رہی تھیں کہ اللہ کے ایک ولی حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ان عورتوں سے پینے کیلئے پانی مانگا تو عورتوں نے جواب دیا کہ بابا جی پانی توکڑوا ہے۔ تو اللہ کے اس بندے نے فرمایا،   ” اچھا کڑوا ہے تو کڑوا ہی سہی “
  ان عورتوں نے گھر جا کر گھڑوں میں پانی دیکھا تو وہ کڑوا نکلا۔ لوگ بھاگے اور اس چشمے پرپہنچے جہاں سے پانی بھر کر لایا جاتا تھا۔ مگر قدرت خدا کی کہ اس چشمہ کا پانی بھی کڑوا نکلا۔                     کلر کہار کے تمام لوگ اس بزرگ کی تلاش میں نکلے اور انہیں پا کر ہاتھ جوڑ کر ان کی خدمت میں بیٹھ گئے۔ معافی طلب کی اور عرض کی کہ پانی کی یہ چھوٹی سی جگہ ہی ہمارا سہارا ہے اس لئے ہمیں معاف کردیجئے۔
 لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اس بزرگ نے جواب دیا، 
” کڑوا تو ہوچکا اب ہم اسے میٹھا نہیں کرسکتے لیکن ایک وقت یہاں سے عارفین کا سلطان رحمتہ اللہ علیہ گزرے گا ان سے عرض کرنا کڑوی چیزوں کو میٹھا اور ناکارہ کو کارآمد بنانا اسی کی صفت ہے۔“
 کچھ سالوں بعد وہاں سے سلطان باہو کاگذر ہوا۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ پیش کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک پتھر اُٹھا کر پہاڑی کے دامن میں زور سے مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ چشمہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا جاری کردہ یہی چشمہ کلر کہار کے لوگوں کیلئے زندگی کا سبب ہے اور یہی اکیلا چشمہ پانی کی تمام ضروریات پورا کرتا ہے۔“
 ان بزرگوں نے یہاں پھیلے ہوئے کتنے ہی چشموں اور جھیلوں کا بھی بتایا جن تک پہنچنے کے لئے مزید ایک زندگی درکار ہے۔                                              ایک بزرگ نے بتایا کہ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں سمندر ہوا کرتا تھا۔ میری جوانی کے زمانے میں یہاں اکثر انگریز آیا کرتے تھے اور سمندری مچھلیاں تلاش کرتے تھے۔
 اُن بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے اپنی چادر درست کرتے ہوئے بتایا،         
                                                                                                           ”جب ان صاحبِ مزار بزرگانِ دین کا عرس آتا ہے تو لوگ یہاں رات کو دکانیں کھلی چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ مجال ہے جو کسی دکان کو کوئی نقصان پہنچتا۔ اچھے وقتوں کی باتیں تھیں  جی، نہ کوئی چوری چکاری نہ دہشت گردی۔ میں نے کئی انگریزوں کو گائیڈ کیا تھا وہ یہاں سے فوسلز تلاش کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں  جرمنی کی ایک ٹیم آئی تھی اوراسے سمندری مچھلی ملی تھی۔“
 میں نے  پوچھا،  ” اچھا بابا جی پریاں کہاں آتی ہیں۔“
  ”کبھی آتی تھیں۔۔۔ اب کہاں۔“
  ایک بزرگ نے جواب دیا تو ان کی بات کاٹ کر دوسرے بزرگ نے حیران کن بات کردی۔    
          ”جنوں کی تو حکومتیں ہیں نااور ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔“      
ایک بزرگ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا،   
          ”بیابان ہے جن چڑیلیں تو عام ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے بھی ہیں اور باتیں بھی کرتے ہیں۔“          
            میں نے پوچھا،
” کوئی خطرہ تو نہیں۔“        
        ان میں سے ایک نے فوراًجواب دیا، 
”نہ نہ کوئی خطرہ نہیں، کچھ بھی نظر آئے تو درود شریف پڑھ لینا ۔۔۔جو بھی ہو گا بھاگ جائے گا۔“ 
 ان بزرگوں سے علاقہ اورلوگوں کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں۔ جب میں اُٹھنے لگا تو ان میں سے ایک نے کہا، 
         ”بیٹا دن کے وقت ہی سفر کرنا کوئی پتہ نہیں ہوتا اب ہزاروں کتے بلے نہ جانے کہاں سے آکر یہاں چھپے ہوئے ہیں۔“ 
 ایک نے نصیحت کی،  ”یادہے درود کا ورد بس سب خیر ہے۔“


 میں یہ سوچ لے کر وہاں سے نکلا کہ آج کے انسان کو کسی جن یا چڑیل سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو اپنے ہم جنس انسان سے۔ ان بزرگوں کی باتوں میں بہت مزا تھا، پیار تھا اورشفقت۔ کوئی مزدور تھاکوئی دکان دار، پتہ نہیں ان میں سے کسی نے کبھی اسکول بھی دیکھاتھا کہ نہیں،  لیکن کردار و عمل، مشاہدہ و تجربہ، دانائی اور حکمت میں بڑی بڑی ڈگریوں والے ان کی خاک کو بھی نہیں چھو سکتے۔ ہر ایک اپنے اندر ایک ایسا خزانہ تھا جو لٹنے کے لئے تو تیار بیٹھاتھا۔  لیکن افسوس لوٹنے والے خال خال۔
  ان میں سے کئی تو اس وقت کی باتیں بھی بتا رہے تھے جب یہاں گاڑی نام کی شے بڑی سڑک پر ہی دکھائی دیتی تھی۔ خاص بات یہ کہ وہ اپنے علاقہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے۔   ان کے اندر یادوں، تجربوں اور دکھوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت کا سب سے بڑا دکھ ان کی اپنی اولادیں تھیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کے اپنے تھے۔   کچھ تو اپنی جوانی اور اچھے دور کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئے تھے۔
یاد ماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے
اس سے بہتر ہے کہ ہر بات بھلا دی جائے
جس سے تھوڑی سی بھی امید زیادہ ہو کبھی
ایسی ہر شمع سر شام بجھا دی جائے
میں نے اپنوں کے رویوں سے یہ محسوس کیا
دل کے آنگن میں بھی دیوار اٹھا دی جائے
میں نے یاروں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا محسن
اپنے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے
(محسن نقوی)
آج لکھتے ہوئے بھی وہ بزرگ مجھے یاد آرہے ہیں۔ وہ حقہ، وہ چادریں وہ باتیں۔۔۔ ایسی باتیں کہ جی چاہتا تھا کہ سنتے ہی جائیں۔۔۔۔۔۔ شاید کبھی حاصل سفر ان بزرگوں سے ملاقات بھی ہو۔



No comments:

Post a Comment