ضمنی انتخابات ۲۰۱۸میں
تحریکِ انصاف کی پست حالی کے تانے بانے
انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مسیحا کامنتظر رہا ہے۔ وہ
مسیحا کا منتظر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔وہ تبدیلی کا
خواہاں اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے موجودہ
نظام سے بےزار ہوجاتا ہے۔۔۔اُکتا جاتا ہے۔ تبدیلی کا منتظر یہ انسان ہر اُس نعرے
کو سچ مان لیتا ہے جواُس کی اندر کی آوازوں کے قریب ترین ہوتا ہے۔۔۔۔وہ ہر اُس شخص
کو اپنا مسیحا مان لیتا ہے جو اُس کے مسائل کی بات کرتا ہے۔۔۔۔یہ بدنصیب انسان یہ
سمجھ بیٹھتا ہے کہ بس اب اُس کے برے دن گئے اور اُس کی آزمائشوں کا وقت ختم ہوا۔
ہم بدنصیبوں نے بھی کچھ سال پہلے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ
اپنی آواز ملانا شروع کر دی۔ اس نعرے کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے۔۔۔۔اُس دن کا
انتظار کرنے لگے جب تبدیلی کے دعوےدار مسیحا بن کر تخت ِحکومت پر جلوہ افروز ہوں
گے۔ پھر وہ دن آگیاجب تبدیلی کی لہر چلتے چلتے ایوانِ اقتدار تک جا پہنچی۔۔۔۔۔۔۔
مگر کچھ ہی دنوں میں ہمارے جیسے بے شمار اپنے کئے پر پچھتانے لگے۔۔۔اپنےاُن خوابوں پر رونے لگے جو چکنا چور ہوگئے ۔۔۔اور اپنی اُن بچگانہ خواہشوں پر مارتم کرنے لگے جو
ہم نے تبدیلی کے ساتھ وابستہ کر لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے جیسے بہت تھے۔۔۔۔
تو پھر کیا نتیجہ نکلا۔۔۔۔۔۔۔تحریکِ انصاف ضمنی انتخاب میں اپنی ہی جیتی ہوئی کئی سیٹوں پر ہار گئی۔۔۔۔۔میرے اپنے
حلقے این اے اکتیس لاہور سے تحریک انصاف کے کئی ہزار ووٹ کم ہوگئے۔۔۔میں پریشان
ہوا ۔۔۔دکھی ہوا۔۔رنجیدہ ہوا۔۔ میرے انگوٹھے پر لگی سیاہی مجھے تڑپانے لگی۔۔۔ مجھے لگا میرا ووٹ کہیں جوہڑ میں بہہ گیا ہے۔۔۔میرے ووٹ
کے باوجود تحریک انصاف کو ایسی بری شکست کیوں ملی۔ ۔۔۔۔۔۔ میرا یہ دکھ اورمیری یہ رنجیدگی مجھے گھر سے باہر لے
آئی اور میں نے گلی گلی ،قریہ قریہ جوگیوں
، سنتوں کی طرح پھرنا شروع کر دیا ۔ میں لوگوں سے بس ایک ہی سوال کرتا ۔۔۔۔۔۔
’’ تم نے تحریک انصاف کو ووٹ کیوں نہیں دیا؟‘‘
شام تک مجھے جو
جوابات ملے ان کے مطالعہ کے بعد میں نے وہ
عوامل تلاش کر لئے جو تحریک انصاف کی ناکامی کی وجہ بنے۔
۱۔ گیس کی
بڑھتی قمیتوں نے روٹی کو بھی گھیر لیااور روٹی کی قیمت بڑھ گئی۔ جب اناج کی قیمت بڑھتی ہے تو سب کچھ مہنگا ہوجاتا ہے۔ یوں مہنگائی کا عفریت نکل
آیا۔
۲۔ قبضہ
مافیا کو پکڑتے پکڑتے حکمرانوں کی لاٹھی
غریبوں کے سر پر بھی برسنے لگی۔۔۔ قبضہ مافیا کے شاپنگ پلازاؤں کے ساتھ غریبوں کے گھر بھی گرائے جانے لگے۔
۳۔ ہیلمنٹ نہ پہننے کی سزا اتنی زیادہ رکھ دی گئی کہ لوگوں نے اپنی موٹر سائیکلیں گھروں میں بند کر دیں۔
۴۔ ٹریفک
قوانین کے سخت نفاذ کے ذریعے لاہور شہر کو سیف سٹی بنانے والوں نے اتنے بڑے بڑے جرمانے کرنا شروع کر دئیے۔۔۔کہ
غریب بیچارے جھولیاں اٹھا اٹھاکر بدعائیں دینے لگے۔
۵۔ ای ٹکٹنگ
کا بے ہودہ نظام جو کسی طور بھی پاکستان کے لئے بنا ہی نہیں۔ سڑک پر آنے والا ہرکرایہ دار پریشان ہوگیا کہ
میرے شناختی کارڈ پرتو پرانے گھر کا پتہ ہے۔۔۔وہاں اگر ای چلان آتا رہا تو مجھے
کیسے پتہ چلے گا۔۔۔اور اگر پتہ چلا تو اس وقت۔۔۔۔گاڑی ہی بند ہوجائے گی۔
۶۔ ایسی قانون سازی کی خبریں کہ جس میں شہری یہ سمجھنے
لگے ۔۔لیں یہ نئی مصیبت آگئی۔۔۔ مثلاً
ٹیکس کی فائل حاصل کئے بغیر آپ نہ اپنی گاڑی بیچ سکتے ہیں نہ خرید سکتے ہیں۔۔۔۔وہ
فائل کیسےحاصل ہوگی کچھ پتہ نہیں ۔۔
۷۔ اگر
کسی کونسل میں غیر فعال کونسلر ہو تو وہ
برداشت نہیں ہوتا اور اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِ اعلی غیر فعال ہو تو کون برداشت کرے گا۔ جنگ کے
میدان میں دشمن کے ہتھیار کے مطابق ہتھیار
استعمال کیا جاتا ہے اور دشمن کے سپاہی کے مقابلے میں مقابلے کا ہی سپاہی
بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔۔اس حوالے سے وزیراعظم کے تمام دلائل کو پنجاب کی عوام
محض ہٹ دھرمی اور ضد سمجھتے ہیں۔۔۔۔ایک کارکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خان صاحب
نے اس حوالے سے پنجاب کی توہین کی ہے۔۔اس میدان میں ایک مضبوط ، اہل اور قائدانہ
صلاحیتوں کے حامل شخص کو لاناچاہئے تھا۔
۸۔ تحریک
انصاف کے پاس جب حکومت تھی تو اُس وقت بھی یہ جماعت ایک جماعت کم ایک ہجوم زیادہ
تھی۔۔اُس وقت تو ایک میدان میں جمع ہونا
ہی مقصد تھا مگر اب تو حکومت ہے ۔۔۔۔۔۔حکومت کو حکومت کے طریقے سے چلایا
جانا چاہیے نہ کہ ہجوم کے طریقے سے۔۔۔۔اس کے کارندوں کو انفرادی فیصلے بھی کرنا
چاہئیں ۔۔ہر کام میں بنی گالا کی طرف منہ کر کے تو آوازیں نہیں دینی چاہئیں۔۔۔
بلکہ فیصلے کرنے چاہئیں ۔۔۔وزیر اعظم نےبڑے فیصلے
خودکر کر کے اپنے ساتھیوں کا اعتماد
اتنا مفلوج کر دیا ہےکہ اب وہ ہر فیصلے کے لئے بنی گالا کی طرف دیکھتے ہیں۔
۹۔ پچھلی
حکومت کی باقیات جو پارٹی کے اندر
ہیں اور باہر حکومت کے ایوانوں میں
ہیں۔۔۔۔۔۔ان سے بچنا ہے۔۔۔جو بہت مشکل ہے۔
یہ تو
ایک تجزیہ تھا جو لوگوں نے بتایا اور میں نے اخذ کر لیا۔ اب اس تجزئیے کا نتیجہ
بہت ’’ الارمنگ ‘‘ ہے۔
حکومتی
بنچ اپوزیشن کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ دھاندلی کے خلاف کنٹینر پر آنا چاہتی ہے تو
آجائے۔۔۔۔۔تو جناب اپوزیشن دھاندلی کے
خلاف کنٹینر کبھی نہیں سنبھالے گی۔۔۔لیکن
اگر وہ مہنگائی کے خلاف نکل آئی تو حکومت کا بس نہیں چلے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہجوم
تحریکوں کا مقابلہ نہیں کیا کرتے۔ یاد رہے پیٹ پر ہاتھ رکھے لوگوں کو روکنا بہت
مشکل ہوتا ہے اور مہنگائی کے خلاف تحریکیں
بہت کم ناکام ہوتی ہیں۔
میرے
خیالوں میں ایک سنہری طوطا بستا ہے میری
یہ سب کہانی سن کر وہ کیا کہتا ہے۔
ایک
سال میں حکومت کے خلاف مہنگائی کے حوالے
سے تحریک چلے گی۔
’’
سنہری طوطے‘‘ کا مشورہ ہے کہ
حکومت ایسے قوانین بنائے جس کے تحت
عوام کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور ایسے
قوانین ہٹائے جو عوام کو دفتروں
میں الجھائے رکھتے ہیں۔( یاد رہے دفتری کاروائیاں رشوت ستانی کو جنم دیتی ہیں۔)
اس
حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس ملک کی اکثریت غریب ہے ۔ غریب کے اوپر اگر ایک
روپے کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا تو وہ اُس پر لاکھ کے برابر ہوگا۔
آخری اور حتمی بات:
یہ
حکومت کسی چیز سے نہ ڈرے مگر ڈرے غریب سے۔
No comments:
Post a Comment