Saturday, October 13, 2018

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ پانچویں قسط



ببے   خوف شہر کی طرف                                                                                                                                    وارث اقبال

کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر
تیغ خون آلودہ دھوتا ہی نہیں
اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں
اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں
(جوش عظیم آبادی)
گاڑی کی خامی دور کردی گئی تھی ہم بھیرہ کی طر ف گامزن تھے۔   گاڑی کے درو بام میں یہ گیت گونج رہا تھا۔
میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے  باجھوں  لگدا جی
میں تینوں سمجھواں کی، نہ تیرے  باجھوں  لگدا جی
ہم انٹر چینج کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی سڑک پر مُڑ گئے تھے جو ہمیں بھیرہ شہر لے جانے والی تھی۔  میں نے بھیرہ کے بارے میں تحقیق سے جتنا علم حاصل کیا تھا وہ سارے کا سارامجھے شدید بے چین کئے ہوئے تھا۔ لگتا تھا جیسے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی گئی ہو۔ایک عجیب سا تاثر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ایک عجیب سا خواب تھا۔                                                                                                                                                                                                      ایک شہر جس کے دروازوں کے باہر چوبدار نیزے لئے کھڑے ہوں گے۔ مرکزی دروازے کے اندر سے خوبصورت کنیزیں زرق برق لباس پہنے برآمد ہوں گی اور ہمارے ہاتھوں کو بوسہ دیں گی۔ عطر میں رچے بسے ان کے جسموں کی خوشبو ہماری تھکن اُتارنے کے لئے کافی ہوگی۔ وہ آنکھوں اور ابروؤں کے اشاروں سے ہماری رہناماں جی کرتے ہوئے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں پیش کریں گی۔ ہم بادشاہ کو اتناپسند آ جائیں گے کہ مرکزی دروازے کے اوپر کھڑے ہو کر  ہمارا تعارف کروایاجائے گا۔ ہمیں خلعتِ شاہی  عطا کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم  بادشاہ کو  پسند نہ آئے  تو پھر اسی دروازے کی چھت ہماری آخری منزل ہو گی۔ اپنے ارد گرد نیزہ بردار، توانا نوجوانوں کا سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکر ہے میں اُ س دور کا مسافر نہیں۔ مسافر بیچارے کو تو سفر کی صعوبت نے ہی بیچارہ بنادیا ہوتا ہے اوپر سے اُ س کی جان کی سلامتی  کو خطرات لاحق ہوجائیں تو کون کرے ایسا سفر۔



ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
(فیض احمد فیض)
میں اگرچہ حقیقت کی دنیا میں واپس آگیاتھا لیکن پھر بھی میرا اندر کاغذی معلومات کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لئے بیتاب تھا۔ تاریخ نے بھیرہ کو کئی نام دئیے۔ کسی زمانے میں اسے جوبناتھ نگر کہا جاتاتھا۔ بعضے نے اسے بے راہ کہا۔  یعنی جہاں لوگ بھٹک جائیں۔ اور پھر حتمی طور پر اس شہر کانام بھیرہ مشہور ہو گیا۔ موجودہ نام بھیرہ سنسکرت زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے،ایک  ’بھے‘  اور دوسرا  ’ہرا‘۔جس کا مطلب ہے  ’’ ایسا مقام جہاں خوف کی کوئی گنجائش نہ ہو۔“                
           اس نام کی وجہ اس شہر کی جغرافیائی حیثیت تھی۔ ایک طرف دریا اور دوسری طرف گھنے جنگلات اس کے قدرتی حصار تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ شہر لُٹتا رہا۔
اسکندر کے زمانے کاشہر دریائے جہلم کی دائیں جانب تھا۔ یہ شہر وقت کی بے قدری کا ساتھ نہ دے سکا، جھگڑوں اور لشکروں کے حملوں کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ چونکہ ہر                                                      حملہ آور جہلم پر آتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتا۔ اس لئے مکینِ شہر شہر خالی کر کے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے۔جو گھروں کے پیار میں وہاں سے نہ جاتے قتل کر دئیے جاتے۔ یوں برس ہا برس گزرتے گئے اور یہ شہر لُٹتا رہا،  بستا رہا اور مٹتا رہا۔ 
 مسلمانوں کی آمد کے وقت یہ شہر سرزمین ِ نمک کا حصہ سمجھا جاتا تھا جو کشمیر کے پاس تھی۔  بابر جب اس علاقہ میں آیا تو یہ شہر مغلائی تسلط میں چلا گیا۔                
       1540 میں شیر شاہ سُوری نے اس مقام کی افادیت اور بھیرہ کی کسمپرسی کا ادراک کرتے ہوئے یہاں ایک  نیا شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا لیکن دریا کی دوسری طرف تاکہ  بیرونی حملہ آوروں کو شہر پہنچنے سے پہلے دریا کی تُند و تیز لہروں کا مقابلہ کرناپڑے۔  یاد رہے کہ اُس وقت کے دریا اس طرح خشک اور بے زار نہیں ہوا کرتے  تھے جس طرح آج کے ہیں ۔  نہ ہی  اُن کاپانی ڈیموں اور بندوں کی قید  میں پڑا بلکتا تھا۔  اس لئے اُن آزد اور پُر جوش دریاؤں  کاسامنا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔  چونکہ شیر شاہ سُوری نے  س شہرکی تعمیر و آرائش  میں بذاتِ خود دلچسپی لی  تھی اس لئے ایک شاہکار شہر وجود میں آگیا۔ اس شاہکار شہر کے اندر  مسجد کی صورت میں ایک اور شاہکار بنایا گیا۔  جسے دیکھنے کی چاہ میں ہم رواں دواں تھے۔
سڑک کی دونوں طرف گرمی سے نڈھال کھیت ماضی کی داستانیں سنانے کے لئے بے چین و بے قرار تھے۔
 ہم اپنی گاڑی میں دبکے بیٹھے سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ سب سے پہلے آپ کوشیر شاہ سُوری کی بنائی مسجد دکھائی دے گی۔
کچھ کھیتوں اور کچھ اینٹوں کے بھٹوں کی یادیں سمیٹتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔
 منزل پر پہنچ کر بھی ہم منزل پر نہیں پہنچے تھے۔ منزل سامنے تھی لیکن راہ گذر دھندلی تھی۔ بلکہ ہماری راہگزر پر کئی اور راستے  چڑھ دوڑے تھے۔ ہم اُ س کے قریب ہوتے ہوئے بھی دور تھے۔
  ایک سڑک دائیں مڑ رہی تھی اور ایک بائیں اور سامنے اسکول تھا۔ بائیں طرف کھیتوں کے پار شیر شاہ سُوری کی مسجد کی دیوار دکھائی دے رہی تھی لیکن راستہ موجود نہ تھا۔ 
ہماری بائیں جانب جو سڑک جارہی تھی وہ اتنی تنگ تھی کہ لگتا تھاکہ وہ کسی محلہ میں جارہی ہو۔  اتنی مشہور اور اہم مسجد کی مرکزی سڑک اتنی تنگ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ بھول تھی جس کی وجہ سے ہم مسجد کے مینار اور پچھلا حصہ واضح طور پر دیکھنے کے باوجود  اس کے مرکزی دروازے تک پہنچ نہیں پا رہے تھے۔
خیر ہم مجبور تھے اس لئے بائیں جانب ہی مڑ گئے۔ اصولی طور پر مسجد کا مرکزی دروازہ ہمارے بائیں جانب ہی آنا چاہئے تھا لیکن جو ں ہی ہم آگے بڑھے تو تنگ سی گلیوں کا نہ ختم
ہو نے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
 بڑے بزرگ کہتے ہیں جب راستے آپس میں ملنے لگیں تو ایسے موقع پر کسی سے مشورہ کر لیناچاہئے۔  چنانچہ میں بھی گاڑی سے اُتر کر کچھ ہی دور پکوڑوں کی ایک ریڑھی پر چلا گیا۔  جہاں گرمی کا مارا ایک شخص اپنی ساری محرومیوں کا غصہ سگریٹ پر اُتار رہا تھا۔ اس کاکش اتنا لمباتھاکہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سگریٹ کا دھواں اُس کے پیروں کی ایڑیوں کو چھو رہا ہوگا۔ وہ شریف اورمہمان نواز مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیااور میری بات  اطمینان سے سننے کے بعد تیل اور بیسن کے نقش و نگار سے مزین  کپڑے کے ایک ٹکڑ ے پر اپنے چہرے کا پسینہ منتقل کرتے ہوئے سرگودھا کی مخصوص پنجابی میں گویاہوا۔ جس کا مطلب تھا،                                                  
                                                                                                                      ”آپ بہت آ  گے آ گئے ہیں مسجدپیچھے رہ گئی ہے، جہاں سے سڑک کی پہلی گلی اندر جاتی ہے وہاں سے اندر جائیں تو مسجد کا دروازہ ملے گا۔“ 
وہ بھی بھانپ گیا تھاکہ میں اجنبی ہوں اور اس کی زبان اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔  اس لئے وہ اپنی طرف سے اپنی زبان کو بہت آسان کر کے بول رہاتھا۔                 مجھے اتنی سی معلومات کی  منتقلی کے دوران وہ جسم کے ہر حصہ کو کھجاچکاتھایاپسینہ صاف کر چکا تھا۔ پتہ نہیں اُس کے پکوڑے دن میں کتنے لٹر پسینہ پی کر وجود میں آتے ہوں گے۔
ان پکوڑوں کے عشاق یہی کہتے ہوں گے، ’’ بھئی پتہ نہیں کیا ڈالتا ہے جو یہ پکوڑے اتنے مزے کے ہوتے ہیں۔‘‘
اور کچھ ہم جیسے بھی ہوں گے  جو ان پکوڑوں  کی ’  خوش مزگی ‘  کے پیچھے تاریخی ہاتھ تلاش کرتے ہوں گے۔
’’ باپ داداؤں کی ریسیپی ہے۔۔ اس لئے تو بتاتا نہیں کہ ان میں کون کون سے مصالحے ڈالتا ہے۔‘‘

   پکوڑوں کی خوشبو اندر اُتر ی تو میں نے اس واضح تضاد کی وجہ سے پکوڑوں کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کوئی نوجوان پہلی دفعہ کسی ایسی دوشیزہ کو دیکھتا ہے جو اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ہو۔ میں نوجوان تو تھانہیں جو اس دوشیزہ کی پیش کش قبول کر  لیتا۔ مسکرا کر شکریہ اداکیا اور اچھوں کی طرح اُ س کے پکوڑوں کی پیش کش ردکرتے ہوئے گاڑی کو واپس مڑنے کا اشارہ کرنے لگا۔                               
میں خود پیدل ہی مذکورہ گلی کی طرف چل پڑا۔ گلی میں پہنچا تو لگا جیسے لاہور کے اندرون شہر کی آج سے کوئی تیس سال پرانی گلی میں آگیا ہوں۔ گلی اتنی ہی چوڑی تھی کہ ایک وقت میں ایک ہی گاڑی اندر جا سکتی تھی۔ ایک طرف سیمنٹ سے بنی دیوار اور لوہے کا گیٹ۔ دوسری طرف پرانی انیٹوں کی دیوار جس کے پیچھے ایک سے زیادہ نیم اور کیکر کے درخت  تھے  جو آسمان کی حشر سامانی اور گلی  کے درمیان چھتری  بن کر کھڑے تھے۔ یہی وجہ  تھی کہ اس گلی میں داخل ہوتے ہی   ہمیں اطمینان کا ایک خوشگوار  سا احساس ہونے لگا۔ سڑک چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور درمیان میں موہنجوداڑو طرز کی ایک لمبی مگر صاف نالی کو دیکھ کر اندازہوا کہ یہاں صفائی کا معقول انتظام موجود ہے۔ہم                 پیدل چلتے ہوئے اپنی منزل کے مرکزی دروزے کی طرف  بڑھنے لگے جو یہیں  کہیں  کسی کونے یا موڑ پہ چھپا ہواتھا۔


______________________
  
شاہکار شہر میں شاہکار                                                                                                                                                    وارث اقبال

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول
رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
(شکیب جلالی)
ہم گلی میں کوئی ایک منٹ کی مسافت تک گئے ہوں گے کہ ہمیں بائیں طرف ایک چھوٹا سا صحن اور دائیں طرف مسجد کا مرکزی دروازہ دکھائی دیا۔ صحن کی بائیں جانب کچی دیوار کے ساتھ نیم اور کیکر کے سایہ تلے دو چارپائیوں پرتین مولانا لیٹے باتوں میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھ کر کچھ سُکڑ گئے۔ اُن کا سکڑنا ہی ہمارا استقبال تھا۔
 انہیں دیکھ کر مجھے فورا ًیہ احساس ہوا کہ پتہ نہیں یہاں عورتوں کو جانے اور فوٹو گرافی کی اجازت ہو گی یا نہیں۔ لیکن میرا وہم محض خدشہ نکلاجب ہم مرکزی دروازے کے اندر داخل ہوئے تو ہمیں دیواروں پر آراستہ کچھ تصاویر نے خوش آ مدید کہا۔ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو سرنگ نما کھلی اور ٹھنڈی ڈیوڑھی ملی جس میں چار دروازے تھے۔ ایک میں دفتر دوسرے میں عجائب گھر اور باقیوں پر تالا پڑا تھا۔  
مقفل کمروں کو نظر انداز کرتے ہوئےہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو ہم نے اپنے ذوق کی تسکین کا کافی سامان موجود پایا۔ ا یک دیوار پرایک بڑا سا فریم آویزاں تھا جس میں بھیرہ کی مختصر تاریخ درج تھی۔  یہاں بھیرہ کے بارے میں انگریز ی میں لکھا ہوا ایک بہت بڑا پوسٹر بھی موجود تھا۔ جو اس شہر کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ ایک الماری تھی جس میں پرانے برتن اور کپڑے رکھے گئے تھے جن پر رہناماں جی کے لئے اشارات بھی رقم تھے۔ لیکن یہ اشیا اپنے دور کے بارے میں بتانے سے گریزاں تھیں۔ایک الماری کے اوپر موجود ایک نقارہ اپنی بے چارگی اور کسمپرسی کا اظہار کر رہا تھا۔
جب میں بچوں کو نقارہ کے استعمال کے مواقع کے بارے میں بتا رہاتھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے نقارہ مجھ سے کہہ رہا ہو کہ بس یہ آخری نسل ہو گی جو مجھے دیکھ رہی ہے باقی تو میری تصاویر ہی دیکھ کر گذارا کیاکریں گے۔ دوسری طرف میں اپنے قرطاس ِ ذہن پر وہ منظر بھی دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص نقارہ بجا رہاہے اور شہر کے لوگ بھاگتے ہوئے مسجد کی طرف آ  رہے ہیں۔ روزہ کھلنے کا وقت ہو گیا ہے۔ آ ج بادشاہ کا اہم فرمان بھی سنایا جانا ہے۔ یوں لگ رہا ہے  جیسے سارا شہرمسجد کی طرف بھاگا  چلاآ رہا ہے۔
میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ نقارہ ختم  ہو گیا تو آنے والی نسلوں کو ابراہیم ذوق کے اس شعر کی کس طرح سمجھ آئے گی۔
عزیزو! اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارہ ٔ   خدا سمجھو

پھر میرے دماغ نے خود ہی جواب دیا کہ آج کی نسل کو کو ن سا اس شعر کا مطلب سمجھ آیا ہے جو آنے والی نسل کو سمجھ آجائے گا۔ آج کی نسل نے اس شعر سے کیا سیکھ لیا ہے جو آنے والی نسل نہ سیکھ سکے گی۔ 
 ایک اور چیز قابلِ توجہ تھی، چھت پر ٹنگا ہوا ہاتھ سے چلانے والا بڑا سا پنکھا۔۔۔۔ پنکھیا نما۔  اس  پنکھے نے چوڑائی میں کمرے کی چھت کو گھیر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ایک رسی بندھی تھی اس رسی کو کھینچ کر اس پنکھے کو ہلاتے تو ہوا پورے کمرے میں پہنچتی تھی۔ یہ پنکھا اپنے دور کا عکاس تو تھا ہی ساتھ ساتھ یہ بھی بتارہا تھا کہ کل بھی اسی طرح گرمی پڑا کرتی تھی۔          
         قفل بند ایک الماری میں کچھ کتابوں کے مخطوطات تھے۔ جو غیر معروف بھی تھے اور جنہیں پڑھنا بھی خاصا مشکل تھا۔کل کے کسی عہدکاایک صندوق بھی ایک کونے میں رکھاگیاتھا جس کی ترکیب اور بناوٹ کمال تھی۔ لکڑی کے ٹکڑوں کو کاٹ کر ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ تھا تو ایک صندوق لیکن  بوقتِ ضرورت میز کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا تھا۔
 مسجد کے اندر داخل ہوئے توسامنے سفید رنگ کی پُر وجاہت مسجد سفید گلاب کی طرح مسکرا رہی تھی۔ جس  میں  پاکیزگی، مسکراہٹ، شگفتگی، جمال، کمال اور شان سب کچھ واضح تھا۔    عمارتیں اپنے بنانے والوں کے مزاج، فطرت، کردار اور طبیعت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ یہ مسجد اُس کے بنانے والے کے شگفتہ مزاج، عوام کے لئے ہمدردو مونس طبیعت اور محنتی  کردار کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ اس کا وسیع صحن اس کے بنانے والے کی وسعت ِ نظر کا غمازہے۔اس کے چاروں اطراف متوازن اونچائی کے حامل، اسلامی فنِ تعمیر کے عین مطابق بنائے گئے چاروں مینار اس کا تصور دیکھنے والے کے کردار کی بلندی اور پاکیزگی کا اظہار کر رہے ہیں۔مسجد کے سامنے صحن کے وسط میں وضو کے لئے ایک تالاب ہے جس کی دونوں جانب ایک ایک بارہ دری بھی بنائی گئی ہے ۔  مسجد کے اندر نمازکے لئے ایک وسیع وعریض اور لمباہال موجود ہے۔ جس میں تین گنبد ہیں جن کی اندرونی چھت پر خوبصورت گُل کاری اور نقاشی کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔      
 ان آثار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور کے مزدور اپنے کام میں کتنے ماہر، مشاق اور محنتی تھے۔ لیکن افسوس کہ اُس شاہ کانام تو اس مسجد میں جگہ جگہ لکھا ہوا تھا۔ جس نے عوام کے پیسے کو استعمال کر کے مسجد بنانے کاحکم دیا لیکن کسی مزدور کے نام کا نام ونشان نہ تھا۔ مزدور چاہے میرے دور کا ہو یا اُس دور کا پیدا ہی اپنا پسینہ بیچنے کے لئے ہوتا ہے۔
اس گنبد کی بے چارگی اور شکستگی کودیکھ کر اربابِ اختیار کی بے حسی سامنے آتی ہے۔ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا پلستر  یہاں آنے والے صاحبانِ ثروت کی روحوں میں رچی بسی
بے حسی کی گواہی دیتا ہے۔         
        بقول امجد اسلام امجد
کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
اور بقول  زیب غوری
بے حسی پہ مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چُپ تھا کہ چلوسینے میں خنجر ہی تو ہے
بات گنبد کی ہو رہی تھی جس کے نیچے کئی دروازوں کا حامل ایک وسیع ہال ہے جس کے کئی دروازے ہیں۔ اس ہال کی دیواروں کو بھی دو نمبر پینٹ سے ڈھکا ہو اتھا۔ دکھ  تویہ تھا کہ یہ پینٹ بھی اُکھڑا ہوا تھا جو نہیں اُکھڑا تھا وہ اُکھڑا اُکھڑا تھا۔ ہوا کے لئے حد سے زیادہ چوڑے دریچے ہیں جن کی صفائی شاید گزشتہ کسی عید پر ہی کی گئی تھی۔             
        شیر شاہ سُوری نے یہ مسجد بنانے کے لئے شاید اسی علاقہ کے لوگوں کا زر اور محنت  استعمال کی ہو گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس نے اس زمین پر بسنے والوں کی خدمت میں ایک شاہکار پیش کیا تھا۔ اس مسجد کا کونہ کونہ اُ س بادشاہ کی لگن اور شوق کا گواہ ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کا شوق اس مسجد کی حالتِ زار کو دیکھ کر روز جیتا اور روز مرتا ہو گا۔
ہم  نے شیر شاہ سُوری کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ تو لگا دیا لیکن اس مسجد  پر وہ توجہ نہ دے سکے جس کی وہ مستحق تھی۔
مسجد کے صحن سے باہر آئیں تو صحن کے کناروں پر سرخ و سفید لبادہ اوڑھے انتہائی خوبصورت محرابوں کے لمبے سلسلوں کے پیچھے لاتعداد کمرے ہیں جو علمائے کرام و طلبا کے ٹہرنے اور ترسیل و حصولِ علم کی جگہ ہے۔
شیر شاہ سُوری کے اس شاہکار کو میلا کرنے میں سب سے زیادہ کردار سکھوں کا ہے۔ جن سے حسِ جمالیات اُسی طرح دور تھی جس طرح چنگیز خان سے حسِ تعمیر۔                                                                                                                                                                خوبصورتی، حُسن کی پذیرائی اور تعمیری و تعمیراتی خوبیاں انہیں  چُھو کر بھی نہیں گزری تھیں۔ اگر سکھوں کا دور ہماری دھرتی کے بطن سے جنم نہ لیتا تو یہ اور اس طرح کے دیگر شاہکار انمول ہیروں کی مانند بیرونی لوگوں کو اپنے دیدار کے لئے آنے پر مجبور کر دیتے۔ سکھوں نے اگر کوئی اچھے کام کئے تھے تو وہ اپنی جگہ لیکن جو سلوک انہوں نے یہاں کی مسجدوں کے ساتھ کیا شاید ہی کسی اور قوم نے کسی عبادت گاہ کے ساتھ کیاہو اور شاید ہی یہ دھرتی ان کا یہ جرم کبھی معاف کرسکے۔            
                 مسجد سے نکل کا ہم گاڑی میں بیٹھے اور دوبارہ اسی گلی کی نکڑ پر آ گئے جہاں سے چند گلیاں آگے پکوڑوں والا موجود تھا۔ وہ ہمیں وہاں سے گذرتے ہوئے دیکھ کر انتہائی والہانہ انداز میں  بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا ۔  اس دفعہ اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہم سے بات کی اور ہم سے پوچھا کہ ہمیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔  یہاں مجھے اردو زبان  پر  رشک آرہا تھا کہ پاکستان میں رابطہ کی واحد زبان اردو ہے۔ اگرچہ حکومتوں اور اشرافیہ نے ہندوؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسے مٹانے کی ہزارہا کوششیں کیں۔ اگرچہ بانی پاکستان قائداعظم  نے مارچ1948 کو ڈھاکہ میں ہونے والے جلسے میں بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا۔                   
       ”اس صوبے کے لوگوں کوحق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی،  صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں۔''



______________________








No comments:

Post a Comment