Friday, October 5, 2018

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ چوتھی قسط



پنجابی روبن ہڈ                                                                                                               وارث اقبال

ہمارا پہلا عارضی پڑاؤپنڈی بھٹیاں جا کر پڑا۔ جونہی ہم گاڑی سے باہر آئے تو ہمیں موسم ِ گرما کی محبتوں کا اندازہ ہوگیا۔  کیا خوبصورت اور خوب سیرت گرمی تھی ۔ کسی ظالم حکومت کی طرح ہر کسی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہی تھی۔انٹر چینج کی جائے طعام وقیام دھوپ نے  جھلسا کر رکھ دیا تھا۔  ہر چہرہ مرجھایا اور کملایا ہوا  تھا۔ ہم نے باہر بیٹھنے کی بجائے ریسٹوران کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اندر بہت سکون  تھا،اے سی نے موسم بھی خوشگوار بنائے رکھا تھا اور اندر ریسٹوران کی انتظامیہ کو بھی ۔چونکہ صرف ہم ہی ہم تھے اس لئے ویٹرز نے اپنی ساری  قابلیت  اور مہاراتِ کاروبارہم  پرصرف کر نا شروع کردیں۔ ہم نے  انہیں اپنی اپنی مرضی کی ضروریات بتا کراپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔           میرے پیچھے درواز ہ تھا اور سامنے ریستوران کا استقبالیہ ڈیسک۔ جہاں دو  خوش شکل لڑکے چابکدستی سے ہمارے لئے اشیائے خو ر و نوش تیار کر رہے تھے۔ انہیں تکتے رہنا مجھے کچھ مناسب نہ لگا۔ لہذا میں کرسی کو پیچھے موڑ کر دروازے کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جہاں سے انٹرچینج کی پارکنگ پٹرول پمپ اور اس کے پیچھے موٹر وے کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں بیٹھے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے باہر کا ہر منظر سورج کی حشر سامانی سے محفوظ ہے لیکن اندر کی کہانی اور تھی اور باہر کی اور۔               میری نظریں سڑک پر چلنے والے ٹریفک پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ اپنے نہاں خانوں میں سے کچھ تلاش کرنے میں مگن تھا۔ وہ کچھ اوراق کو رد کرتے ہوئے اورکچھ کو قبول کرتے ہوئے اپنے فعال حصے پر منتقل کر رہا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں یہ عمل تیز ہوگیا۔ اب تصویروں سے سجے تاریخ کے اوراق سیلابی پانی میں پتوں کی طرح بہے چلے آرہے تھے۔ داستانیں، کہانیاں، ہیروز، دشمن، شہزادے شہزادیا ں اور لہلہاتے کھیتوں کو روندتے،پاگلوں کی طرح بھاگے پھرتے بیرونی افواج کے لشکر درلشکر۔

 ہائے میری دھرتی!  ہمیشہ بیرونی لشکروں کے لئے کھیل کا میدان بنی رہی۔ اگر اْن کے راستہ میں کوئی بچہ آ گیاتو زندگی ہار گیا، اگر کوئی عورت آ گئی تو حیوانیت کا شکار ہو گئی اور اگر کوئی مرد تو درندگی کی نئی تاریخ رقم ہوگئی۔
 ایک نہیں دو نہیں، لشکروں کے لشکر اپنی اغراض کے لئے اس زمین کو روندتے رہے، لوٹتے ر ہے اور بنبھوڑتے رہے۔یہاں کے لوگ  آئے دن بیرونی حکومتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے اپنے ہونے کا احسا س دلاتے رہتے۔ بیرونی حملہ آور خود تو چلے جاتے لیکن اپنے امیر کے نام پر ایک اور مصیبت یہاں چھوڑ جاتے اور پھر یہاں ایک اور ہی سلسلہ شروع ہو جاتا ،کبھی یہ علاقہ کسی کی امارت کا حصہ بن جاتااور کبھی کسی کی جاگیر۔ ہر فاتح اسے ناصرف لوٹتابلکہ وہاں سازشوں کا جال بھی پھیلا دیتا۔

سلطنتِ دہلی پر اکبرِ اعظم کی قیادت میں مغل اپنی حکومت کو مضبوط سے مضبوط  تربنانے میں جتے ہوئے تھے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان سرسبز اور زرخیز زمینوں کے مالک اور آئے دن کی لوٹ مار سے اْکتائے بھٹی، راجپوت اور جاٹ یہاں کی آزادی کے متوالے ساندل بھٹی کی قیادت میں سلطنتِ دہلی سے آزادی کا اعلان کر چکے تھے۔ موجودہ شیخوپورہ اور حافظ آباد سے لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ تک پھیلاہوا یہ علاقہ ساندل بار کے نام سے مشہور ہو چکا  تھا۔
  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اکبر جیسے حاکم ِ مطلق کا ایک علاقہ اْس کی حاکمیت کا طوق اُتار کر آزادی کااعلان کرتا۔ اْس جیسے حکمرانوں کے ہاں تو آزادی  کی طلب کامطلب تو فقط بغاوت ہوتا ہے۔ اس نے تو اپنی آنکھ کے تارے، کلیجہ کی ٹھنڈک اور لختِ جگر جہانگیر کوکتابِ بغاوت کا پہلا باب تک رقم  کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور بغاوت کی کتاب کا ایک  ایک حرف  اُس کے  ہی جاں نثاروں کے لہو سے  دھو دھو کر مٹا دیا تھا۔ وہ ظلِ سبحانی، جلال الدین  اکبر بھٹیوں کی بغاوت کیسے برداشت کرتا۔ بس اپنی تما م تر قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، رگیدا، کچلا اور پھر ختم۔ 

 قیدیوں کے ہجوم میں ساندل بھٹی کی بہو اور فرید بھٹی کی بیوی گود میں ایک چھوٹے سے بچے کو اْٹھائے اکبر کے دربار میں پیش کی گئی۔ اکبر اس بچہ کے خوبصورت چہرے پر موجود دو معصوم آنکھوں میں جھانکتے ہی  کانپ  اُٹھا۔ اُسے  اُس کی آنکھوں میں   اُس کے دادا اور باپ کی  لاشیں سولی سے لٹکی دکھائی دیں۔  اپنے وقت کاذہین ترین اور مردم شناس حکمران اکبر  اْس بچہ کی معصوم آنکھوں کے لال ڈوروں  میں تیرتی  مستقبل کی ساری کہانی پڑھ چکا تھا۔  وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اگر بچہ کو ماردیا گیا تو اس علاقہ میں بسنے والے اطاعت گزار راجپوت، بھٹی اور جاٹ بھی مغلوں کی اطاعت چھوڑ دیں گے اور اگر اس بچہ کو چھوڑدیاگیا تو یہ بچہ بھٹیوں میں   بغاوت کی بھٹی  کبھی بجھنے نہ دے گا،  نہ خود چین لے گا  اورنہ سلطنتِ مغلیہ کو چین لینے دے گا۔ اس لئے اُس نے بھٹیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لئے کہ اکبر ان کاخیر خواہ ہے اس بچے کوزندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔

یوں اپنے وقت کا چالاک ترین بادشاہ قدرت کے ہاتھوں مات کھاتے ہوئے دْلا بھٹی کو اپنے ساتھ محل میں لے آیا۔ حکم دیا کہ اس بچے کی اس طرح پرورش کی جائے کہ وہ اکبر کو ہی اپنا باپ اور بھٹیوں کو سلطنتِ مغلیہ  کا باغی سمجھتے ہوئے جوان ہو۔ یوں عبداللہ بھٹی عرف دْلا اکبر کے زیرِ سایہ  اکبر کے بیٹے کے ساتھ پرورش پانے لگا۔ جو تعلیم اکبر کے بیٹے کو دی جا رہی تھی وہی دُلا بھٹی کو بھی مل رہی تھی۔ جوجو آسائشیں اْ س کے اپنے بیٹے کو حاصل تھیں وہی دْلا بھٹی کو بھی حاصل تھیں۔     اکبر جانتا تھا کہ راجپوت اور بھٹی کبھی بھی سر اٹھا سکتے ہیں اس لئے اْن کا مستقل بندوبست کرنے کے لئے شیخوپورہ کے قلعہ کی مضبوطی کی طرف دھیان دیاگیا، علاقہ میں لوگوں کو انعام و اکرام ومراتب سے نوازہ گیا۔ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان اور مغلیہ وفاداری کو یقینی بنانے کی شرط پر علاقہ کی زمینیں امرا اور جا گیر داروں میں بانٹ دی گئیں۔
 سالہا سال گذر گئے اور بھٹیوں کے دماغ سے بغاوتوں کے آثار اور خیالات بھی ماند پڑ گئے۔دْلا جب جوان ہوا تو اْ س کی خوبصورتی، جوانی اور جسم کی مضبوتی دیکھ کر لوگ اش اش کر اْٹھتے۔ علم کا میدان ہوتا تو دْلا ایسے دلائل دیتا کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتیں، تلوار چلاتا تو لوگ سکتے میں آجاتے اور نیزہ پھینکتا تو نشانہ دیکھ کر لوگ گنگ ہوجاتے۔

پھر وہ وقت بھی آ گیا جب دلا بھٹی پہلی دفعہ اپنے گاؤں گیا۔ قبیلہ کے لوگ اُسے دیکھ کر خود پر فخر کرنے لگے، بڑے بزرگ اْس میں اْس کے باپ دادا کو تلاش کرنے لگے، چنچل مٹیاریں اْسی کو اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھنے لگیں، بڑی بوڑھیاں دیکھتیں تو بے ساختہ  بین ڈالنے لگتیں،
 ”ہائے! ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹااپنے باپ پر گیا ہے شین جوان۔۔۔ کیسا اندھیر ہے سامنے ہوتے ہوئے بھی باپ کے قاتلوں کو نہیں پہچانتا۔“
کہا جاتا ہے کہ نشانہ بازی کرتے ہوئے ایک لڑکی کاگھڑا ٹوٹ گیا تو اْس نے طنز اًکہا۔  
  ” اگر تمہیں اپنے نشانہ پر اتنا ہی مان ہے تو اپنا نشانہ اپنے باپ دادا کے قاتلوں پر کیوں نہیں آزماتے۔ اتنے بڑ ے سو رما ہو تو جا، جا کر اپنے باپ دادا کے قاتل کا سر کاٹ۔“                                                                                                         یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ دْلے پر کس کا اثر ہوااْس لڑکی کے طنزکا یا کسی بوڑھی اماں کی ہمدردی کا یاپھر دْلے کی ماں کے سینے میں برسہا برس کی دبی انتقام کی آگ کا جو اْس نے اپنے بیٹے کے اندر یہ کہہ کرمنتقل کر دی۔   

تیرا ساندل دادا ماریا،  دتا بھورے وچ پا مغلاں    
       پْٹھیاں کھلاں لاہ کے بھریاں نال ہوامغلاں

ترجمہ:  مغلوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں

 ڈال دی اور ہمارے عزیزوں کی لاشوں کی کھالیں اتار کر ان میں ہوا بھر دی۔ 

              ماں کی یہ ایک ہوک ہی غیرت مند دُلے کے لئے کافی

 تھی۔ 
بہر حال وجہ جو بھی بنی عبداللہ بھٹی عرف دْلا نے اپنے باپ 

دادا کے راستے پر چلتے ہوئے اکبر کے خلاف
 علمِ بغاوت بلند کردیا۔
 دُلا بھٹی کے نام کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ عبدا للہ نام بگڑ کر دلا بن گیا، دوسری یہ کہ بھٹیوں نے اْسے بھٹیوں کا دولہا کہا جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر دْلا بن گیا۔
 بہر حال علاقے کے راجپوت اور جاٹ قبائل تو اس دن کے انتظار میں تھے جب انہیں کوئی بہادر رہنما ملے، فوراً دْلے کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔                  دْلا بھٹی اور اس کے ساتھی مغل امرا سے دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے، بے سہاراجوان بچیوں کی شادیاں کرواتے، جہاں کہیں کسی عورت پر ظلم زیادتی کی اطلاع پاتے وہیں پہنچ جاتے اور ظالم کی گردن مار کر مظلوم کی دادا رسی کرتے۔ یوں ایک باغی ابنِ باغی، ایک جنگجو اور آزادی کا متوالا اپنے عہد کی عوام الناس کا ہیرو بن گیا۔
 کہا جاتا ہے کہ اْ س نے پہلی اور آخری بار پنجاب میں  ’ لوک راج ‘  قائم کیا۔ پنجاب میں اْسے وہی حیثیت حاصل تھی جویورپ میں روبن ہوڈ کو حاصل تھی۔
 سلطنتِ دہلی کاباغی اور پنجاب کے ایک بڑے حصے کا مسیحا دْلا بھٹی مقامی لوگوں کے گیتوں اور ماؤں کی لوریوں میں چپکے سے سرایت کر گیا۔ اس کے نعرے اور جنگی گیت جنہیں
‘وار‘            کہا جاتا تھاپنجاب کی پکڈنڈیوں اور کھیتوں میں سنائی دینے لگے۔ شاعروں نے اس کے کارناموں کو شاعری کی زینت بنانا شروع کر دیا اور یہ گیت پنجاب کی گلی گلی میں گائے جانے لگے۔ علما اور صوفیا نے بھی دْلا بھٹی کی پذیرائی اور حمایت شروع کر دی۔                لاہور کے  مشہور صوفی بزرگ مادھو لعل حسین شاہ  بھی اُ س کے  بہی خواہوں  میں شامل تھے۔
ایک طرف عظیم ہندوستان کا  عظیم مغل شہنشاہ اکبرِ اعظم اور دوسری طرف یہ چھوٹا سا باغی۔لیکن اس باغی نے تقریباً بیس سال تک اس عظیم شہنشاہ کو  ناکوں چنے چبوائے رکھے۔    پنجاب کے اس سپوت نے اکبر جیسے طاقتور بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ دہلی چھوڑ کر لاہور آبسے اور اس بغاوت کا قلع قمع کرے۔                           اکبر نے اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں اس باغی کا سر کچلنے میں لگادیں لیکن ناکام رہا۔
 بادشاہ لوگ جب ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی سازشیں کام آتی ہیں، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک جال بُنا جاتا ہے جس میں باغی پھنس جاتا ہے،  شرائط سے انکار پر اْس باغی کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔  یہی کچھ اس باغی کے ساتھ بھی ہوا۔ لاہور میں دہلی دروازے کے باہر  دُلا بھٹی کوپھانسی  دے دی گئی۔ شاہ حسین نے دُلے کی نماز جنازہ پڑھائی اور دلابھٹی کی موت پر کہا۔

یا دلبر یا مر کر پیارا
دْلے دے لعل لباں دے لارے
سْولی پر چڑھ ،لے ہلارے
آن ملیسی دلبر یارا
یا دلبر یا سر کر پیارا
ترجمہ:  اے دلبر اور پیارے۔ تیرے سامنے دْلے کے لبوں کی سْرخی جلوہ دکھا رہی ہے۔وہ سْولی پر جھول گیا۔ یار خودبخود مل جائے گا۔
 بادشاہ اور اُس کے حواریوں نے دلا بھٹی کو لاہور کے اْس وقت کے ایک نامانوس اور شہر سے دوردراز علاقے کے ایک قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا۔                       شہر سے دور دفن کرنے کی وجہ بھی شاہ اور اس کے حواریوں کا یہی ڈر تھا کہ کہیں دلا بھٹی کی قبر اس سے زیادہ مضبوط نہ بن جائے۔  کہیں مرا ہوا دُلا زندہ دُلےسے بھی مضبوط بن کر کھڑا نہ ہو جائے اور کہیں مستقبل کی باغی تحریکیں دُلے کی قبر سے جذبہ ٔحریت حاصل   کرنا نہ شروع کر دیں ۔

وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ وقت کے بعد میانی صاحب کا قبرستان ایک

 مشہور قبرستان بن گیا۔ افسوس کہ دلا بھٹی کی شکستہ حال قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ 

برینڈ کی وجہ سے۔ امرا اپنی زندگی میں ہی قبرستانوں کے اس ’ ڈیفینس ‘  میں اپنے 

لئے دوگز زمین خریدلیتے۔ یوں یہ ایک وی آئی پی قبرستان بن گیا اور یہ سلسلہ آج 

بھی جاری ہے۔
  میں نے تاریخ میں کئی دفعہ دلا بھٹی کی داستان پڑھی تھی۔  مجھے وہ ہمیشہ ایک باغی ہی دکھائی دیا لیکن جب میں نے پنڈی بھٹیاں کے انٹر چینج کے اس ریستوران میں بیٹھ کر تاریخ کے اوراق سے گرد اْتاری تو مجھے دْلا بھٹی آزادی کاا یک متوالا دکھائی دیا۔ جس نے پہلی اور اب تک آخری دفعہ ایک منظم لوک راج  قائم کیا۔ جس نے ساندل بار کی زرخیز زمینوں اور محنتی لوگوں کو غلامی سے نجات دلوانے کے لئے جدوجہد کی اورپھر اپنے لہو سے اس خطے کی زمینوں کو سیراب کردیا۔
کہاجاتا ہے کہ لہو زمین کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ شاید اس علاقے کی زمینوں کی زرخیزی دُلے بھٹی اور اس کے ساتھیوں کے لہو ہی کی وجہ سے ہے۔
یہیں سے میرے عدو کا خمیر اُٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا تھا
خبر نہیں ہے میرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا ہے
(احمد جاوید)
میرے بیٹے نے میری توجہ  میز پر رکھے برگر کی طرف دلائی تو مجھے میز پر ایک 

پلیٹ میں ایک چھوٹے سے لشکر جیسے فرنچ فرائز، جری سپہ سالار نما برگر اور خلقِ 

خدا جیسی، سیاہ نصیبوں جلی پیپسی کی ایک بوتل دکھائی دی۔ میں نے فرنچ فرائز 

کے تین ٹکڑوں کا ایک نوالہ بنایا اور دانتوں کے سپرد کر دیا۔ جونہی میری زبان 

اور دانتوں نے فرنچ فرائز کا مزا چکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں کسی لشکر میں 

موجود ہوں اور دن بھر کی تھکن کے بعد کھانا کھا رہاہوں۔ لیکن ایک خوف نے 

مجھے جکڑ رکھا تھا۔ خوف اس امر کا نہیں تھاکہ آج کی جنگ میں میری جان جائے 


گی یا میں کسی اور معرکہ میں جان دینے کے لئے بچوں گا یا نہیں۔  خوف اس امر کا 


تھا کہ تاریخ لکھنے والا میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔  مجھے  دلابھٹی کے لشکر 

میں بٹھائے گا یا اکبرِ اعظم کے۔


______________________


شہر کے اندر شہر                                                                                                                                                                                            وارث اقبال

بچے کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا ہی  اُن  کی تفریح  ہوتی ہے۔ کھانے پینے اور فرصت پانے کے بعد ہم ایک بار پھر گاڑی کی طرف لوٹے۔ گاڑی میں بیٹھ کر یوں لگا جیسے ہم اپنے گھر پہنچ گئے ہوں۔
کچھ ہی دیر میں پیٹ نے بھی احساس دلانا شروع کر دیا کہ  ظلِ سبحانی اکبرِ اعظم کے نین نقش والا جابر برگر اپنا کام دکھا کر طبیعت کے بوجھل پنے کا باعث بن رہاتھا۔ کیاکر سکتا تھا،   پیٹ پر ہاتھ رکھا، دھوپ کی عینک کو ناک پر بٹھا کر آنکھیں بند کیں اور کچھ دیر سستانے کی کوشش شروع کر دی۔
 مگر بے وطنی میں آرام کہاں۔ بس کسی کے اس کہے کو یاد کر کے معاملہ تقدیر پر چھوڑ دیا۔
’’     ہمیں اپنے سفر کی تمام تر تکالیف یہ سمجھتے ہوئے برداشت کر لینی چاہئیں کہ یہ  ہمارے سفر کا ایندھن ہے۔  ‘‘
 عابد صاحب پڑول پمپ پہ لے آئے۔  دوسری طرف متاثرِ برگر پیٹ نے سیون اپ کاتقاضاشروع کر دیا جو اس کی عادت ہے۔  اس لئے میں سیون اپ کی تلاش میں ٹک شاپ پر چلا گیا۔  سیون اپ لی  اور پیسے دینے کے لئے کاؤنٹر پر گیاہی تھا کہ اچانک  نظرکاؤنٹر پر رکھے ایک اخبار پر جا ٹہری۔ اخبار تو روز ہی دیکھتے ہیں لیکن یہ اخبار اس لئے اہم تھا کہ اس میں ایک فیکٹری  ’ کریسنٹ باہو مان ‘                       کااشتہار تھا۔ اس فیکٹری کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست نے بہت کچھ بتایاتھا۔ اس اشتہار نے وہ سب کچھ یاد دلا دیا۔ یہاں اگر اس فیکٹری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ فیکٹری بنانے والوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔       
        ’ کریسنٹ باہو مان ‘  پنڈی بھٹیاں میں کریسنٹ  والوں کااسٹیچنگ پلانٹ ہے۔ یہ ایک فیکٹری ہی نہیں بلکہ آٹھ سے دس ہزار آبادی پر مشتمل ایک مکمل، آزاداور جدید شہر ہے۔  یہ وہ شہر ہے جہاں بجلی کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کا اپنا  بجلی کاپلانٹ موجود ہے، یہاں تعلیم کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندر ہی ایک جدید اسکول قائم ہے۔ یہاں رہائش کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندرہی رہائش کا بھی انتظام ہے۔ یہاں کھیلنے کی جگہ کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکڑی کے اندر ہی تمام کھیلوں کے وسیع میدان موجودہیں، جن میں گولف تک شامل ہے۔         مختصر یہ کہ اس شہر میں نہ سکیورٹی کا مسئلہ، نہ طبی سہولیات کا فقدان۔ بس لوگ فیکڑی میں کام کرتے ہیں اور سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ 
 اس فیکڑی میں ڈینم جینز بنتی ہیں۔ دھاگہ سے لے کر حتمی استری تک یہاں مکمل جین تیار ہوتی ہے جو ناصرف ملکی ضرورت پورا کرتی ہے بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی بھیجی جاتی ہے۔  یوں پنڈی بھٹیاں کا نام باہر کی دنیا میں اس فیکٹری کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گویا پنڈی بھٹیاں پوری دنیا میں پاکستان کی شہرت کا باعث ہے۔    
      کا ش!   مادرِ وطن کا ہر شہر اس طرح کا بن جائے کہ لوگ صرف کام کریں باقی تمام تر ذمہ داریاں حکومتی نظام ادا کرے۔ کاش!  ہر فیکڑی، ہر کارخانہ، ہر مل،  ہر دکان اپنے مزدور کے ساتھ یہ معائدہ کرے، ’’ تم صرف کام کرو تمہاری ذمہ داریاں ہم اُٹھائیں گے۔ تمہاری اورتمہارےبچوں کو صحت اور صاف خوراک کی فراہمی کو ہم ممکن بنائیں گے ۔ہم تمہارے بچوں کو اُن تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائیں گے جہاں سے ہمارے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘
کاش ایسا ہو۔۔

کبھی، اے    کاش،  میں  یہ  معجزہ ِ  ہُنر  دیکھوں
تیرے   مزاج   پہ    اپنے    لہجے  کا  اثر   دیکھوں
ترک ِ خواہش  ہی  ہوئی  تکمیل ِ حسرت نہیں دیکھی
خواہش  ہے کہ عُمر تیرے ساتھ کرکے بسر دیکھوں
ہم سب اپنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد دوبارہ گامزنِ سفر ہوئے کیونکہ اگلا پڑاؤ ہمارا منتظر تھا۔ 
 سڑک پر آتے ہی عابد نے رفتار کے پائیدان پر اپنے پیر کی گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط کر لی اور خاصے جارحانہ انداز میں گاڑی سے سڑک پر حملے شروع کر دیئے۔ جب
 پیمانۂ رفتار میری بتائی ہوئی حد پار کرنے لگاتو میں نے عابد سے کہا۔
  ” عابد آپ نے چائے پی ہے، “ 
عابد نے شیشے میں دیکھتے ہوئے انتہائی مختصر جواب سے نوازا،                                                                                                   ” جی بھائی جان۔ “                                  
      ” کیسی تھی چائے؟  سناہے مرچیں کچھ زیادہ تھیں۔‘‘
 ” نہیں بھائی جان ایسی تو کوئی بات نہیں تھی،اچھی تھی چائے۔ “          
 ” تو پھر خیریت ہے، کیا پریوں کی بجائے فرشتوں سے ملاقات کا ارادہ ہے۔ “
عابد نے            نئی  بھائی جان ‘                            کہہ کررفتار کو سنبھالا دے دیا۔    
     سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مسز اپنی نیند پوری کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا تھیں اور میں حیات کے بدلتے رنگوں میں گم تھا کہ اچانک  مجھے گاڑی سے کچھ ناگوار سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ عابد کچھ فراماں جیں اور شاید عابد کو یہ انتظار تھا کہ بھائی جان حسبِ عادت آوازوں کو سمجھیں اور مشورہ دیں۔ جب میرے صبر کا
پیمانہ ا پنا نقطہ ٔعروج چھونے لگا تو میں نے عابد سے پوچھا،
 ” عابد یہ آوازیں کیسی ہیں۔ “    
” اگلے ویل سے آ رہی ہیں جی۔ “ 
جو میرے لئے مسئلہ تھا وہ عابد کے لئے روزمرہ کاکھیل۔
 ” یار!  کوئی خطرہ تو نہیں، ‘‘                   
          ” نہیں جی خیر ہے۔ بھیرا جا کر چیک کرواتے ہیں۔ ‘‘                
وقفہ وقفہ سے آنے والے نازک خراٹوں، پارٹی سونگز،  میرے پیٹ کی غٹر غوں اور گاڑی کے پہئیے کی انجانی اور بے کیف سی آواز وں کے ساتھ ہم اپنی منزل کی طرف   
 رواں دواں رہے۔

______________________


فطرت کا دبستان                                                                                                                                                                                      وارث اقبال

میں اپنی عادت کے مطابق سڑک کے دائیں بائیں سنگتروں کے باغات، دیہاتی 

گھروں اور درختوں کے بدلتے رنگوں کی خوبصورتی اور اصلیت کو اپنے اندر اْتارنے 

کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ سنگترے تو موجودنہیں تھے لیکن پودے اپنے حسن 

کا بھرپوراظہار کر رہے تھے۔ اور میں اپنے تخیل  کے پردے پر سنگتروں سے 

بھرے ہوئے پیڑ دیکھ رہاتھا۔سنگتروں کے اتنے باغات دیکھ کر میرے تو دماغ میں 

فوراً یہ بات آئی کہ یہاں سنگترہ تو بہت ارزاں ہو گا۔ لیکن یہ محض وہم تھا کیونکہ 

لاہور ان باغات سے اتنا دور نہیں کہ ان کی قیمت دس گنا بڑھ جائے۔ ایک سو 


روپے کے ایک درجن سنگتروں کاسوچ کر مجھے ان پودوں پر ترس آنے لگا جو چند 

مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار 

تھے۔                                                                                                                              فطرت معصوم ہوتی ہے وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتی، نہ استحصال کرتی 


ہے اور نہ ہی افراطِ زر پیدا کرتی ہے۔ اْس کے لئے سب ایک جیسے ہیں لیکن وہ 

سب کے لئے ایک جیسی نہیں۔  کچھ اْس کی خوبصورتی میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ 

اْسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور کچھ بد بخت ایسے ہوتے ہیں جو اْسے لوٹتے ہیں اور 


اس کا چہرہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔  فطرت محض خوبصورت ہی نہیں ہوتی 

پْرسکون بھی ہوتی ہے، یہ ایسا حْسن ہوتا ہے جسے چْھونے کی نہیں دیکھنے کی اور 

محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔


فطرت کی پاکی اور لطافت انسان کے اندرہی نہیں اْترتی بلکہ اندر کو اپنے اندر سموکر 

اپنی طرح پاک صاف اور لطیف بنا دیتی ہے۔ اس کی ان گنت تہیں ہیں، ان گنت 

جہتیں اور ان گنت روپ ہیں۔       


مشہور فلسفی جارج سانٹایا نا(George Santayana)نے بہت خوبصورت بات کی ہے۔       
                                                                  ”زمین میں موسیقی ہے مگر اْن کے لئے جو اسے سننا چاہتے ہیں۔“                            
اگر کسی کو فطرت بھا جائے تو وہ سمجھ لے کہ وہ خدا کے قریب ہے اور گناہوں سے دور ہے۔کیونکہ فطرت کے چاہنے والے فطرت کی لطافت وپاکیزگی،  فطرت کے جلال و کمال اور  فطرت کے جمال میں اپنے رب کو بہت آسانی سے محسوس کر لیتے  ہیں َ۔
 موٹرو ے بنانے والوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ اْن کا مسافر کہیں بھی اکتاہٹ، تناؤ یا بے زاری کا شکار نہ ہو۔ چاہے میدانوں سے گذر رہا ہو، یاجنگلوں سے،   بیابانوں سے یا بستیوں سے، سبزے سے لدی وادیوں سے یاسنگلاخ چٹانوں سے۔ جہاں بھی اْکتاہٹ کا جھونکا آتا ہے وہاں کوئی نہ کوئی منظردھیمے سے چٹکی کاٹ  کر اُسے بیدار کر دیتا ہے۔ جو ں ہی تھکن کی گرم ہوا چلتی ہے تو کسی انٹر چینج پر بنے قیام و طعام کے مقامات اْسے فوراًسیدھا ہو کر بیٹھنے اور تھکن مٹانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔          

  ایک انٹر چینج ہمارے سامنے بھی  تھا۔  ’ بھیرہ انٹر چینج ‘                                 

 بھیرہ انٹر چینج پہنچ کر ہم اپنی گاڑی کے مکمل چیک اپ کے لئے مکینک کے پاس پہنچے تو جناب مکینک نے اگلے دونوں ویل کھول دئیے۔ موٹر وے کے مکینک بھی موٹر وے کی طرح کچھ مختلف ہیں۔ کم بول کر اور مسکراہٹ کو زبردستی دبا کر اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ویسے بھی جب مقابلہ میں کوئی نہ ہو تو مزاج میں سختی آہی جاتی ہے۔           
 خیر گاڑی کو اس مکینک کے پاس چھوڑ کر ہم خود بھیرہ انٹر چینج کے طعام کے لوازمات اور یہاں بنے قیام کے مقامات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہو گئے۔ اس انٹر چینج کی عمارت نا صرف بہت خوبصورت ہے بلکہ کھلی اور ہوا دار بھی ہے۔ اس کا جدید طرز تعمیر اور کھلا پن ہر کسی کو متوجہ کرتا ہے۔
 ہم نے یہاں  ایک گھنٹہ قیام کیا۔ اس دوران بے شمار گاڑیاں مسافروں کو لے کر آتی اور جاتی رہیں لیکن مجھے کسی بھی لمحے ہجوم یا بدنظمی کا احساس تک نہ ہوا۔ یہاں ہر عمر کے افراد کے لئے لطف اندوز ی کے شرعی لوازمات موجود ہیں۔
 بھیرہ انٹر چینج پر پہنچے ہیں تو بھیرہ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ اس انٹر چینج سے کچھ ہی فاصلے پر بھیرہ شہر موجود ہے۔  جو ہمارا اگلا پڑاؤ تھا۔

______________________

تاریخ کا ابدی مکالمہ                                                                                                                            وارث اقبال

مجھے دشمن سے بھی خوداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا
دریائے جہلم کے کنارے بسابھیرہ شہرسرگودھا کی ایک مشہورتحصیل اور اس علاقے کا انتہائی مشہور تاریخی شہر ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ شہر تاریخ کے صفحات میں غبارِ راہ کی طرح دبا ہوا تھا لیکن موٹر وے بننے کے بعد یہ شہر ہر خاص و عام کی نظروں میں اس طرح آگیاکہ موٹر وے ا ور بھیرہ لازم وملزوم ہو گئے۔ قدیم ادوار میں جب دریائے جہلم اپنے کناروں سے باہر آنے کو ہوتا تو مسافر اس شہر کو جائے پناہ بناتے اور اْ س وقت تک رکتے جب تک جہلم انہیں پار جانے کی اجازت نہ دیتا۔                                                                                                                           
اسکندرِاعظم یونان سے چلا اور کامیابیوں پہ کامیا بیاں حاصل کرتا ہوا دریائے جہلم 

پہنچا تو یہ دریا اپنی تمام تر طاقتیں لے کر اس عظیم جنگجو کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔ 

اسکندر کو اپناخواب پورا کرنے کے لئے ہر صورت آگے بڑھنا تھا۔ لیکن ا س کے 

سامنے دو دشمن کھڑے تھے۔۔ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا اور دوسرا اْس دریا کے پار 

ہاتھیوں اور گھوڑوں کی ہمراہی میں، اپنے پورے شباب اور وجاہت کے ساتھ ہند کا 

مضبوط اور جری بادشاہ پورس۔
دریائے جہلم کے کنارے پڑاؤ کئے ہوئے اسکندر کئی دن صبح سویرے اُٹھ کر دریاکو دیکھتا رہا اور دریاکو مات دینے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ جولائی کا مہینہ تھا، بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ دریا کی طغیانی بڑھتی جا رہی تھی۔ سکندر کے ہمراہی سوچ رہے تھے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے آگے اسکندر کا بڑھنا ناممکن ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مہمات کا شوقین یہ فوجی محض اس علاقہ کے حکمران پورس پر قابو پانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ پورس پر قابو پانے کے بعد آگے کہاں تک جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔
’’ مقصد کی راہ میں حائل رکاو    ٹیں انہیں دکھائی دیتی ہیں جن کی نظر سے مقصد سے ہٹ جاتی ہے۔‘‘
Henry Ford
         ایک رات جب بادلوں نے روشنی کے تمام در بند کر دئیے اور آسمان نے اپنے سارے دریاؤں کے منہ کھول دئیے۔ جب زمیں کے دریاؤں کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ بھی اپناپانی باہر اْگلنے لگے۔ ندی نالے اور جہلم کے رفیق دریاؤں نے اپنا سارا بوجھ جہلم پر ڈال دیا۔ پھر جہلم بھی جلال میں آگیا۔ جلال ایسا کہ میلوں تک کارقبہ ہڑپ کر لیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی تیراک بھی دریا کایہ روپ دیکھ کر پسینے میں نہا جاتے لیکن سکندر دریا کے جلال کو شکست دے کر اُس کے جلال سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ 
 اُس نے لشکر کو بڑھنے کا سندیسہ دیا لیکن لشکر نے لیت ولعل سے کام لیا۔ مگر وہ کہاں رکنے والا تھا اپنے جیسے دیوانوں کا ایک دستہ لیا اور دریاکے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ کوئی بیس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ا س مقام پر پہنچا جسے اُس کے دل اور دماغ نے قبول کر لیا۔ یا شاید یہاں دریا کو غفلت میں پایا۔۔۔۔۔۔۔گھوڑا دریا میں ڈالاہی تھا کہ دیکھا دیکھی شہر  نما لشکر بھی پیچھے چل پڑا۔ 
 راوی لکھتا ہے کہ پانی اْن کے سینوں سے اونچا تھا۔۔ بارش قہر بنی ہوئی تھی۔۔ لیکن وہ چلتے جا رہے تھے۔ عزم اور حوصلہ کے سامنے دریا کہاں ٹہرتے ہیں۔ دریا  ئے جہلم نے بھی سرِ تسلیم خم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ طاقت کا سرچشمہ طاقت نہیں جوش، ولولہ اور مستقل مزاجی ہے۔
 صبح کا سورج طلوع ہونے کے لئے بیتاب تھا کہ اسکندر اپنے دشمن پر آسمانی  بجلی بن کر ٹوٹ پڑا۔ ایسی تیرندازی کی کہ دشمن کے ہاتھی اور گھوڑے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی ساتھیوں کو روندنے لگے، سپاہی اپنی ہی بنائی ہوئی خندقوں اور دلدلوں میں دھنسنے لگے۔ دونوں ا طراف کی افواج کے دستے بکھر بکھر کر جمع ہوتے رہے اور سمٹ سمٹ کرپھیلتے رہے۔
بڑے بڑے سورما تھکن سے چْور ہوگئے، ان کے دماغ اور جسم میں ہم آہنگی نہ رہی۔ گھوڑے اور ہاتھیوں کے پیروں نے دھرتی کا سینہ زخمی زخمی کر دیا، انسان اور جانور مولی گاجر کی طرح کٹنے لگے۔ ایک طاقت کا امیر جنگوں کے ماہر گھوڑے پر سوار تھا اور دوسری طاقت کا امیر تجربہ کار وفادار اور بہادر ہاتھی پر۔               مگر کبھی کبھی انسان کی طاقت اور اعتماد ہی اُ س کادشمن بن جاتا ہے۔۔۔۔ پورس جسے اپنے ہاتھیوں کی طاقت پر ناز تھا وہ طاقت یعنی ہاتھی  ہی اْس کی کمزوری بن گئے۔ ماہر تیر انداز اْنہیں دور سے ہی دیکھ سکتے تھے اس لئے وہ کچھ ہی دیر میں یونانی تیر اندازوں کے تیروں سے چھلنی ہوتے چلے گئے۔
آسمانِ لازوال نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ پورس کا سدھایا ہوا ہاتھی اپنے مالک کا برچھیوں اور تیروں سے لدا جسم دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اس کہانی کے مصنف لکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کے جسم میں پیوستہ برچھیاں بھی اپنی سونڈ سے پکڑ پکڑ کر نکالتا رہا۔ لیکن اس کی وفاداری بھی کام نہ آئی۔
 طاقت ور حکمران پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں جب گرتے ہیں تو ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ یہ عظیم حکمران خود تو چکنا چور نہ ہوا لیکن اُسے گرا دیکھ کر اُ س کی فوج کے حوصلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ لہو پانی کی طرح بہنے لگا اور لاشوں کے انبار لگ گئے۔ پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب ایک طاقت زیر ہوئی اور دوسری کو فتح نصیب ہوئی۔
    یہی وہ موقع ہے جب تاریخ کا ابدی مکالمہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔
 ہند کا چھ فٹ سے زیادہ قد و قامت کا حامل سپوت لوہے سے جکڑا، برچھیوں اور تیروں سے کٹا پھٹا، سینہ تانے،  چہرے پر سورماؤں کی مخصوص مسکراہٹ کی لڑیاں سجائے اپنے وطن پر حملہ آور دشمن اسکندر کے دربار میں لایاگیا۔
       فتوحات، دولت اور زمین کا شوقین،  متکبر اور اور فتح کے نشہ میں چْور اسکندر اپنے عارضی تخت پر  بیٹھاپہلو بدل رہاتھا۔ آج اُسے سب سے اہم اور مشکل ترین فتح حاصل ہوئی تھی۔
 اْس نے سینہ تان کر لبوں پر فتح کی مسکراہٹ سجاکر اپنے قیدی سے پوچھا،       
  
        ”بول تیرے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔“

                زنجیروں میں جکڑا، زخموں سے چْور، کئی دن کا بھوکاپیاسا پورس کوئی عام 

شخص تو تھا نہیں جو کہہ دیتا، سائیں معاف کر دیں۔ وہ تو ایک ایسا جنگجو تھاجو اپنا 

سب کچھ جنگ کی آگ میں جھونک آیا تھا۔ اُس نے اپنے زخمی سینہ کو پھلانے کی 

ناکام کوشش کرتے ہوئے اور لبوں پر نقلی سی مسکراہٹ سجا تے ہوئے جواب 

دیا،       
”وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتاہے۔“

یہ سنتے ہی اس عظیم جنگجو کی پلکیں جھک گئیں۔ شاید وہ شرم سے زمین میں گڑ گیا 

ہوگا۔                
میں نے بہت کوشش کی تھی کہ میں یہ واقعہ نہ لکھوں لیکن جب میں بھیرہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجبور ہو جاتا ہوں۔ اسکندر کا اس جگہ   قیام  اس شہر کے قیام کی وجہ بنا یا اسکندر کا باقاعدہ حکم وجہ بنا۔بھیرہ شہر وجود میں آگیا۔ اگر پہلے سے موجود تھاتو تاریخ کے کم ازکم ایک صفحہ کا تو حقدار ہو گیا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسکندر سے بہت پہلے یہاں کوئی چھوٹا سا شہر موجود ہو۔  کیونکہ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ 447 قبل مسیح میں کیدر نام کے ایک راجہ نے  حملہ کر کے یہاں قبضہ کیا تھا۔ اسی طرح اس شہر کا ذکر آریاؤں کی ویدوں اور یونانی تاریخ میں بھی موجودہے۔
یونانی تاریخ دانوں نے بھی بھیرہ کو ہی وہ مقام قرار دیا ہے جہاں سے  اسکند نے326 قبل از مسیح  میں دریائے جہلم کو پار کیا تھا۔ 
  چینی  سیاح فیکسین(Faxian)کے بھی یہاں رکنے کے آثار ملتے ہیں۔           بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ مقام نہیں جہاں سے اسکندر نے دریا عبور کیا تھا۔
 اس حوالے سے   میں تو اپنی عقل کے مطابق اتناہی کہوں گا کہ اسکندر سے مراد ایک فرد نہیں اسکندر سے مراد ایک لشکر ہے اور یہ لشکر فلموں میں دکھایا جانے والا چند ہزار افرادکا لشکر نہیں تھا بلکہ  ایک ایسا لشکرتھا جس میں کئی شہر شامل تھے، جس میں آٹا پیسنے والی چکی سے لے کر سوئی تک موجود تھی۔  جب یہ لشکر چلتاہو گا تو کہاں اس کا منہ ہوتا ہوگا اور کہاں دُم۔ کس بستی میں یہ طبل جنگ بجاتا ہوگا اور کس بستی میں صفِ ماتم بچھتی ہوگی۔ اس لئے چند میل کا فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 
 اسی جگہ سے کچھ میل دور اسکندر کا ہر دلعزیز گھوڑا بیو سیپھالس موت کی آغوش میں چلا گیا تو اْس نے اس کی یاد میں یہاں ایک شہربسانے کا حکم دیا۔ کہا جاتا ہے کہ  آج کا پھا لیہ ہی مذکورہ شہر ہے ۔ اسکندر کے یونانی سوانح نگار اسکندر کے ایک وفادار کتے کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کی موت اسی کسی علاقہ میں ہوئی وہاں بھی اسکندر نے شہر بسانے کا حکم دیا۔  

 بادشاہ لوگ بھی بڑے بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو ان کی اطاعت میں چلا گیا بس امر ہو گیا۔ چاہے جہانگیر کا ہرن ہو یا سکندر کا گھوڑا، کسی کی ملکہ ہو یا وزیر۔۔  اور جس نے اطاعت نامہ ماننے سے انکار کر دیا وہ باغی بناکر تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔۔۔ کہیں بستے شہر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور کہیں راکھ کے ڈھیر پر نئے شہر بسا دئیے جاتے ہیں۔ کون سا باپ کا مال ہے جس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اُسی طرح دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔ یہ کسی ایک دور کی بات نہیں یہ قصہ توہر دور میں دہرایا جاتا ہے۔

______________________


No comments:

Post a Comment