Saturday, December 1, 2018

میرے سفرنامے ’’ پریوں کی تلاش‘‘ کی آٹھویں قسط




بدبو دار جن اور لکشمی کا ناشتہ                                                                                وارث اقبال

شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
(محسن نقوی)

ہم نے رات کاکھانا کھایا اور یہ طے کر کے کہ صبح جلدی اُٹھنا ہے اور جھیل پر پرندوں، مزار اور تختِ بابری کی پیدل سیر کرنی ہے اپنے اپنے بستروں میں چلے گئے۔ ابھی ہم  بستروں  میں گھسے ہی تھے کہ بارش کی آوازیں سنائی دیں، ہم سب حیران تھے کہ اچانک بارش کس طرح۔ لاہورئیے ہوں اور بارش کااستقبال نہ کریں، بستر چھوڑ باہر بھاگے اور بارش کا لطف اٹھانے لگے۔ بارش بھی تھی کہ گھر سے ہی  ہمیں محظوظ کرنے کافیصلہ کر کے آئی تھے۔ ایک اور شرمیلی سی فیملی بھی اپنے چار ہم رکابوں کے ساتھ میدان میں کود چکی تھی۔بارش کا پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ہم پانچ منٹ سے زیادہ اس کاساتھ نہ دے سکے۔ بارش کے ساتھ ٹھنڈی ہوا نے موسم یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سرمئی کہرے نے  جھیل اور  موٹر وے پر قبضہ جما لیا، جس میں سے  جلتی بجھتی روشنیاں جھانکتی تھیں۔   ہوا  نے اپنا غصہ دروازوں ، کھڑکیوں، چھجوں اور بل بورڈز پر نکالنا شروع کر دیا ۔ یو ں  اب چھن چھن کے ساتھ سیٹیوں  اور پٹاخوں کی آوازیں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ ہم گرم علاقوں کے رہنے والوں کے لئے تو یہ رات موسمِ سرما کی رات بن گئی۔ ہم  برآمدے سے ٹیرس میں منتقل ہوئے  مگر شدید ٹھنڈی ہوا نے  ہمیں وہاں بھی رکنے نہ دیااور ہم دیدِ  بارش چھوڑ اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ کمرے میں پہنچتے ہی ہم نے ہوٹل انتظامیہ سے کمبل کا تقاضا کر دیا۔ ہوٹل والے بھی ہم جیسوں سے  بخوبی واقف تھے انہوں نے بھی بارش کے آتے ہی کمبل نما ساری چیزیں نکال کر جھاڑ پونچھ لی تھیں۔ جونہی ہم نے تقاضا کیا فوراً گرمی کے مارے میلے کچیلے کمبل جھاڑ جھوڑ کر ہمیں تھما دئیے۔ ہم نے بھی ناک بوں چڑھا کر اور سانسوں پر قفل لگا کر ناصرف وہ کمبل لے لئے بلکہ اوڑھ بھی لئے۔
 مجھے نہیں پتہ کہ بچے کب سوئے۔ میں تو اس بدبودار کمبل کو کسی بدبودار جن کی بستی سمجھ کر اس سے آزادی پانے کی کوشش کرتا رہا، کبھی بازوؤں میں منہ گھسیڑتا، کبھی ٹانگوں کو سکیڑتا، کبھی کوئی سورۃ پڑھتا اور کبھی کوئی بھولا شعر یاد کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن جونہی نیند کی پری میرے قریب آنے لگتی کہیں سے بدبو کا ایک خوف ناک بھبھوکا آجاتا اور اُس بے چاری کوبھگا دیتا۔ اس سب کے باوجود  مجھے نیند کی وادی میں مکمل طور پر گم ہونے میں کوئی زیادہ وقت نہ لگا۔ 
 رات کے درمیانے پہر کے آخری حصہ میں آنکھ کھلی توکمرے کو اونچے نیچے، سخت نرم اور ہر سوز وساز کے حامل خراٹوں کی لپیٹ میں پایا۔     لگ رہا تھا ہر کوئی  اپنی اپنی  پسند کانیا راگ الاپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں میں بھی راگ درباری کی زد میں آگیااور پھر نہیں پتہ رات کا آخری پہر کیسے بیتا۔

صبح میں کیا اٹھا پورا کنبہ اُٹھاہو اپایا،واش روم کی درگت کی باری آگئی۔بچوں کی ماں نے تو صبح صبح باہر نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔لیکن ہم تین باپ بیٹا،جھیل، تختِ بابری اور بزرگوں کا مزار دیکھنے کے وعدہ پر قائم تھے۔
 میں نے اٹھتے ہی عابد کو فون کر دیاتھا چنانچہ وہ بھی تیاری کے مراحل میں تھے۔ جائے غسل، عرفِ عام میں واش روم ہم سے نا واقف تھا اورہم اس سے۔ اس لئے کہیں                                                                                                 ٹوتھ پیسٹ گری، کہیں مٹی بھرے پاؤں جمے، کہیں بنیانوں کا تبادلہ ہوااورکہیں موزوں نے اپنی نئی جوڑیاں بنا لیں۔ مختصر یہ کہ ہم تیار ہو کر کمرے سے باہر ٹیرس پر آئے اور ٹیرس سے براستہ سیڑھیاں نیچے بھاگے۔ باہر مرکزی ٹیرس پر پہنچے تو عابد نے مسکر اکر ہمارا استقبال کیا۔ ان کے ہمراہ تھی انتہائی خوشگوار اور ٹھنڈی ہوا۔ جسے یقیناً نسیمِ بادِ بہاری تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن ہمشیر ہ ٔ  نسیم بادِ بہاری تو ضرور کہا جاسکتا تھا۔                 آسمان پر بادل ابھی تک قابض تھے۔ رات کی نیند نے ہماری رگوں میں نیا لہودوڑا دیا تھا اور ہم یو ں بھاگے پھرتے تھے جیسے مہاجر پرندے کسی محفوظ دیس میں آ گئے ہوں۔
 ہم  ٹیرس پر کھڑے تھے کہ ہوا میں شدید خنکی اور بارش کی آمد کا احساس ہوتے ہی  ذہن  جیکٹس کی طرف چلا گیا۔  لیکن کون حوصلہ کرے کہ اوپر جائے اور بیگوں میں سے جیکٹس نکالے اور واپس آئے۔ میں کبھی  اپنے چھوٹے بیٹے کو کہتا، یا ر تم جاؤ، کبھی بڑے کو۔ لیکن دونوں نے نافرمانی کا عزم ِ صمیم کر رکھا تھا۔            عابد کو ہم باپ بیٹا کی چوں چوں کی بھنک پڑی تو بولا، ”بھائی جان! کچھ شاپر گاڑی کی ڈگی میں ابھی تک رکھے ہیں، باجی نے کہا تھاکمرے میں ان کی ضرورت نہیں چیک کر لیں کہیں اُن میں جیکٹس نہ ہوں۔“                                                                                                                               ”واہ جی واہ۔“سب گاڑی کی طرف دوڑے۔گاڑی پر پہنچ کر جب شاپر کھلے تو ٹوپیاں، سکارف اور جیکٹس سب موجود تھے۔میرے بچوں نے ہر وہ شے نکال لی جو شدید برفانی موسم میں استعمال ہوتی ہے۔ زین نے تو یہ کہہ کر حد کر دی،
 ”پاپا میں نے گلوز بھی لے  لئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اوپر برف باری ہو رہی ہو۔“
      میں نے جواب دیا،
 ”ہاں ہم نانگا پربت سر کرنے جا رہے نا۔۔۔۔ لے لو جو دل کرتا ہے۔۔۔ ظاہر ہے جوجو گھر سے اٹھالائے ہو اُسے استعمال تو کرنا ہے۔“         
          جیکٹس پہن کرہم سیڑھیوں پر جانے کی بجائے ایک پکڈنڈی کا سہارا لیتے ہوئے نیچے سڑک کی طرف اس طرح  بھاگے جیسے جنگ میں فوجی اسلحہ سے لیس ہو کر دشمن پر چڑھائی کرتے ہیں۔ بس کوئی دوچار چھلانگوں کے بعد ہم سڑک پر تھے۔ جھیل کے اندر کناروں پر ہر طرف سرکنڈوں کا راج تھا، جو اس جھیل کی خوبصورتی کو شدت سے متاثر کر رہا تھا۔  لیکن چونکہ یہ پرندوں کا مسکن ہے اس لئے جھیل کے کناروں کو ان بدنما سرکنڈوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔خاص طور پر موسمِ سرما میں آنے والے مہاجر پرندے یہاں رکتے ہیں۔  اور شاید کچھ بچے  بھی دیتے ہوں گے اورواپس چلے جاتے ہوں گے اور کچھ بیچارے ایسے بھی ہوں گےجو خود تو نہ جا سکتے ہوں گے تاہم  ان کے بچے اپنے وطن کی طرف ہجرت کرتے ہوں گے۔
ہم نے جھیل کے اندر جانے والے راستے پر اندر جانے کے لئے لکڑی کی پُل نما راہداری پر قدم رکھا ہی تھا کہ آسمان پرندوں سے بھر گیاجن کی آوازیں آپس میں اس طرح                                         گڈ مڈ تھیں جیسے بیسیوں راگ۔ تھوڑی ہی دیر میں بات سمجھ آئی کہ ان پرندوں میں زیادہ تر کوے تھے جنہوں نے سرِ شام ہی ان سرکنڈوں اور ان کے ارد گرد مقامات پر قبضہ کر لیا تھا۔  جونہی  جھیل کے مقامی آبی پرندے اپنی پناہ گاہوں سے باہر آئے تو یہ ان کے بچوں اور انڈوں کا ناشتہ فرمانے کے لئے فوج در فوج نکل آئے۔ یہ پرندے چونکہ کئی انواع واقسام کے تھے اس لئے ناشتہ کے لئے یہ کووں کا محبوب مقام بن گیا ۔ گویا لاہور کا لکشمی بازار۔
 یہاں سرکنڈوں سے پرندوں کے باہر آنے کا منظر بھی دیدنی تھا۔  یہ آبی پرندے اپنے حصار سے باہر اُڑکر نہیں آرہے تھے بلکہ ایک خاص ترکیب بنا کر تیرتے ہوئے سرکنڈوں کے اندر سے برآمد ہو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے انگریزی فلمیں یاد آ گئیں جن میں قلعہ بند فوج قلعہ کا دروازہ کھول کر اسی طرح باہر آتی ہیں۔ سب سے آگے ایک یا دو پرندے تھے ان کے پیچھے پہلے والوں سے ذرا سی بڑی قظار اور اس قطار کے پیچھے اس سے بڑی قطار۔ اس طرح کئی قطاروں میں یہ ایک تکون کی شکل بناتے ہوئے کسی بحری بیڑے کی طرح باہر نکل  رہے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کے تیرنے کی رفتاراورطریقہ ایک جیسا تھا۔               ان پرندوں کے تیرنے سے جو لہریں بن رہی تھیں اُن کی ہیت، ترکیب، ترتیب اور خوبصورتی پرگھنٹوں بات کی جاسکتی ہے۔ کالے پانی میں کالے پرندوں اور پانی کی سلیٹی رنگ کی لہریں۔   خاص بات یہ تھی کہ جو ترکیب ایک گروپ میں دکھائی دے رہی تھی باقیوں کی بھی وہی تھی۔ 
 ویسے تو اس جھیل پر کئی اقسام کے پرندے آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اس وقت اپنے مسکنوں سے باہر آنے والے پرندوں میں سے اکثریت کا تعلق مرغابی کی مختلف اقسام سے تھا۔
ہم نے جھیل کے اندر جانے والی راہداری کے بالکل آخری کونے پر کئی سفید بگلے بھی دیکھے جن میں سے ایک بالکل مختلف تھا۔ اُسے دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیاکہ شاید یہ جھیل اُن مہاجر پرندوں کا جائے مسکن بھی بنتی ہوگی جو اپنے قافلوں سے پیچھے رہ جاتے ہوں گے۔ اُسی طرح جس طرح اس جگہ آنے والے لشکروں کے کئی قافلے واپس نہیں گئے اور انہوں نے اس ملک کو ہی اپنا وطن بنا لیا۔ اسی طرح بہت سے مہاجر پرندے بھی شاید اسی دیس کو اپنا وطن بنا لیتے ہوں گے۔ میری یہ سوچ درست تھی کہ غلط اس کا فیصلہ تو پرندوں پر تحقیق کرنے والا ہی کر سکتا ہے۔
جھیل کی راہداری سرکنڈوں کے اندر سے گذرتی ہے۔ ان سر کنڈوں میں سے کئی قسم کے پرندوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اچانک میری نظر ایک سلیٹی رنگ کی ایک شے پر پڑی جو حرکت بھی کر رہی تھی۔ میں دبے پاؤں اُس کی طرف بڑھااور بچوں کو بھی منع کر دیاکہ وہ میرے پیچھے نہ آئیں۔ جب میں قریب پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیاکہ وہ پلاسٹک کی ایک بوتل تھی۔
  میرے تو رگ وپے میں ایک آگ سی لگ گئی، فقط پلاسٹک کی ایک بوتل، پینے والے نے یہ بوتل جھیل کے پانی میں گھما کر پھینکی ہوگی اور پھر اس کے ارد گرد بنتی بگڑتی لہروں اور دائروں سے لطف بھی اٹھایا ہوگا۔ لیکن اس وقت پتہ نہیں کتنے پرندے ڈر کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں چھپ گئے ہو ں گے۔ فقط ایک بوتل پلاسٹک کی۔ پتہ نہیں کتنے معصوم پرندوں نے اس میں اپنی چونچیں ماری ہوں گی اورزخم کھائے ہوں گے۔

    کہنے کو  فقط ایک بوتل۔                 ہم کیا ہیں، کس سیارے کی مخلوق ہیں۔ ہم ایک بوتل کو فقط ایک بوتل کیوں سمجھتے ہیں۔ ہماری سوچ اُس سے آگے کیوں نہیں بڑھتی۔ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ جھیل دیکھی تھی تو سبزے سے لدی نیلے پانی سے بھری ایک خوبصورت جھیل تھی۔ جس کی خوبصورتی ایسی کہ انسان دیکھتا ہی چلا جائے۔ لیکن آج  کہنے کو یہ ایک جھیل ہے لیکن درحقیقت کوڑے سے بھرا ایک جوہڑ جس کی طرف دیکھتے ہی اُبکائی آتی ہے۔ نا جانے ہم اپنے ماحول کو اُس کی اصل حالت میں موجود رکھنے کی استطاعت کیوں نہیں رکھتے۔ نا جانے ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ اللہ کی طرف سے عطاکردہ انعامات ہیں جن کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔                    نا جانے  بوتلوں، سگریٹ کے ٹکڑوں، اور شاپنگ بیگز پر ہمار ا اختیار کیوں نہیں۔ ہماری اپنی روحوں کو تو زنگ لگ چکا ہے فطرت کو کیوں گندھلا رہے ہیں۔             جب بابر کا لشکر یہاں رکا ہو گا تو اُس نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس جھیل کا کل کتنا بھیانک ہے۔ اور اس جھیل کو بنانے والا فنکار کیاسوچتا ہو گا کہ یہ انسان کتنا ظالم ہے جو اپنے مالک کی بنائی ہوئی خوبصورت تصویروں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتا۔ میں خود کسی زمانے میں تصویریں بنایاکرتا تھا۔ اگر میری کوئی تصویر کسی وجہ سے خراب ہو جاتی تو میں کئی کئی دن سو نہیں سکتا تھا کہ نئی تصویر میں پتہ نہیں مجھ سے وہ اسٹروک لگے گا یا نہیں۔  وہ رنگ بنے گا یانہیں۔ میرا پاک رحیم یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتا ہو گا۔  ہم اس رب سے اپنے تعلق اور محبت کا   رونا تو بہت روتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ محبت میں وفا بھی ہوتی ہے۔ محبت میں بندگی بھی ہوتی ہے اور محبت میں محبوب کے سامنے تسلیم و رضابھی ہوتی ہے۔ رسول سے محبت کا تقاضا ہے کہ جب وہ کہے رحم تو رحم کیاجائے، جب وہ پودوں کی حفاظت کا حکم دے تو حفاظت کی جائے۔           پتہ نہیں ہم کسے اطاعتِ رسول و خدا کہتے ہیں۔      
ایک پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،
جس دل اندر عشق نہ رچیاکتے اُس تھیں چنگے
خاوند دے در راکھی کردے صابربھکے ننگے
  ہم اپنا اندر تو نفرتوں، کدورتوں، بغض اور عناد سے میلا کر بیٹھے ہیں۔ خدا کی اس زمین اور اس پر بسنے والی اُ س کی مخلوق کو کیوں چین سے نہیں رہنے دیتے۔ ہم نے اپنا آپ تو پلیدی کی آگ سے  جھلسا دیا ہے زمین کے ماتھے کاحسن کیوں چھین رہے ہیں۔
جھلسی ہوئی اک درد کی ماری ہوئی دنیا
اک ظلم کے آسیب سے ہاری ہوئی دنیا
قدرت نے سجایاہے اسے لالہ و گل سے
کیاہم نے دیا جب سے ہماری ہوئی دنیا
(صبیحہ صبا)

_________________________________


سر جھکائے مور                                                                                          وارث اقبال

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
(پروین شاکر)
  کلر کہار کی جھیل سے ہم آہو باہو کے مزار پر پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مزار کی زیارت کے لئے مور بھی آتے ہیں۔ اگر کوئی مور یہاں نہ آئے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔ مزار کے راستہ میں ہمیں ابھی تک کوئی مور دکھائی نہیں دیا تھا۔ میں مزار میں فاتحہ پڑھنے کے بعد باہر مزار کے احاطہ میں آگیا لیکن مجھے کوئی مور دکھائی نہ دیا۔اگر ہم مزار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں اور اپنی دائیں جانب دیکھیں تو ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ اس خانقاہ تک جانے کے پیدل راستے موجود ہیں لیکن چونکہ یہ جگہ بہت اونچی ہے اس لئے یہاں لوگوں کی سہولت کے لئے ایک لفٹ لگائی گئی ہے۔ میں اِس مزار اور اُس مزار کے درمیان تعلق بنانے کی کوشش کر رہاتھاکہ میرے بیٹے نے میری توجہ سڑک پر آتے ہوئے موروں کی طرف دلائی۔میں نے اپنے بچوں سے یہ کہا تھاکہ آپ نے موروں کو تنگ نہیں کرنا صرف ان کارویہ دیکھنا ہے۔ یہ موروں کا جوڑا تھا جو سڑک پر اس طرح چلا آرہاتھا جس طرح دو انسان چلتے ہیں۔ اس سڑک کے ارد گرد دکانیں بند تھیں وہ مور تھے،          سڑک تھی یا دور ہم۔         
اُن موروں کے پیچھے ایک اور جوڑا  آیااور پھر موروں کی  قطاریں بندھ گئیں   اُن موروں نے مجھے پریشان بھی کیا اور حیران بھی۔ کوئی مور کسی سے آگے جانے کی کوشش نہیں کررہا تھا، کوئی مور اُڑ کر نہیں آرہاتھا۔ ہر مور کا سرجھکا ہو اتھا۔       جگہ تلاش کر کے ہم بھی موروں کی اس قطار میں شامل ہو گئے۔ ہم مزار کے اندر جا کر ایک برآمدے میں بیٹھ گئے۔ مور آتے مزار کے اندر جاتے، اندر تین چارچکر لگاتے، باہر آتے،دانہ دنکا چگتے، ٹہلتے،ادھر ادھر پھرتے، ایک درخت پر جا کر کچھ دیر بیٹھتے اورپھر وہاں سے جنگل کی طرف اُڑ جاتے۔ میں نے جتنے مور دیکھے اُن کا یہی رویہ تھا۔ میں نے مزار کے احاطہ میں کسی مور کو اُڑتے نہیں دیکھا۔
  ہم مزار کے اس حصہ کے پیچھے گئے جہاں وہ درخت تھا جس پر مور بیٹھتے تھے۔ وہاں بہت سے مور دیکھنے کو ملے۔ جب ہم آگے جنگل میں گئے تو پتہ چلا کہ مور درختوں پر نہیں رہتے بلکہ گنجان آباد جنگل کی گنجان جھاڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان موروں اور اس مزار کے بارے میں کئی سوال بھی اُٹھے۔      
موڑ اُڑ کر بھی اس مزار کے احاطے میں آ سکتے تھے لیکن وہ سڑک پر چلتے ہوئے ایک لمبا چکر کاٹ کر سرجھکائے مزار کے احاطہ میں کیوں داخل ہورہے تھے؟
وہ پیدل چل کر کیوں آتے ہیں اُڑ کر کیوں نہیں؟               
                    شاید آپ یقین نہیں کریں گے یا اسے محض مبالغہ آرائی سمجھیں گے۔ میں نے جو دیکھا لکھ دیا۔  
  اس مزار کے اندر ایک کتبہ موجود ہے جو اس مزار کے بارے میں رہناماں جی کرتا ہے اس کتبہ کے مطابق اس علاقہ کے لوگوں کو ہندوؤں کے ظلم سے بچانے کے لئے حضرت غوثِ اعظم  نے اپنے دوصاحبزادے بھیجے، جن کا نام آہو اور باہو تھا۔ یہ دونوں صاحبزادے ہندوؤں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لائے اور یہیں شہید ہو گئے۔ یہ انہی کے مزار ہیں۔ آہو اور باہو۔                               میں جب اس علاقہ کے بارے میں تحقیق کرنے نکلا تو مجھے اس مزار کے حوالے سے بہت ہی حیران کن اورمتضاد معلومات ملیں۔
 ہندوستان میں سلاطین کا دور شروع ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے شہروں پر مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں۔ مسلمان بزرگانِ دین اور علمائے کرام دین کی تبلیغ کے لئے ہندوستان آرہے تھے۔ ان بزرگانِ دین نے خانقاہیں بنا کردرس و تدریس اور تبلیغ ِ اسلام کا سلسلہ شروع کیاہوا تھا۔ ان مراکز میں دارالحکومت دہلی، لاہور اور ملتان اہم تھے۔                                                                                                                                                                              ملتان اور دہلی سے بہت سے بزرگانِ دین کلر کہار آتے جاتے رہتے۔ خاص طور پر ملتان کے علاقہ سے دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کشمیر جانے والے بزرگ یہاں پہنچتے  اور پڑاؤ کرتے۔ یہاں انہیں فطرت کے مختلف روپ بھی دیکھنے کو ملتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ مشہور بزرگ سلطان باہو  اپنے ایک دوست کے پاس تشریف لائے۔   رمضان کا مہینہ تھا اور آپ ایک غار میں جا بیٹھے اور اپنے دوست کو بتا کر اسی غار کو اپنا مسکن بنا لیا۔               راوی لکھتا ہے کہ حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ عبادت وریاضت کے لئے جنگل میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے دوست اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس جگہ پہنچے جہاں  آپ موجود تھے۔ سب پریشان تھے کہ یہاں آپ کے خورو نوش کا انتظام کیسے ہوتا ہو گا۔ یہ لوگ اُس وقت حیران و پریشان ہو گئے جب ایک غیبی ہرن خورو نوش کا سامان لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غیبی ہرن کا راز کھل چکا تھا اس لئے اس نے اپنے مالکِ حقیقی کے پاس جانے کی استدعا کی،
 ”اس کی التجا پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے نگاہ فراماں جی جس کو وہ برداشت نہ کرسکا اورواصل بحق ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت وہاں ایک اور درویش بھی موجود تھا اس نے عرض کی کہ میں ایک عرصہ سے خدمت میں موجود ہوں مگر مجھ پر ایسی توجہ نہ کی گئی حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر توجہ فراماں جی تو وہ بھی۔۔۔ واصل بحق ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں کے مزارات ساتھ ساتھ بنادیئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت کی وجہ سے وہ جگہ ''آہو باھُوؒ ''کے نام سے مشہور ہوگئی۔“
http://www.sultan-bahoo.com/urdu/karamat-sultan-ul-faqr-hazrat-sakhi-sultan-bahoo.html
خیر! ہم موروں کے دیدار کے بعد تختِ بابری کی طرف چل دئیے۔ یہ وہ جگہ ہے جس کے ماحول اور اس کی خوبصورتی کی ستائش بابر نے تزکِ بابری میں کچھ یوں کی ہے۔                                                                                                                                                        ”بھیرہ سے سات کوس  کے فاصلہ پر ایک پہاڑ واقع ہے۔ اس کو۔۔۔۔کتابوں میں ’کوہِ جودھا ‘    کہا گیاہے۔ بھیرہ سے چلے اور ظہر کے وقت کلر کہار میں اُترے یہاں چارں ا طراف گیہوں کے کھیت ہیں۔ یہ قابلِ دید مقام ہے۔ اسی میدان میں ایک تالاب بھی ہے۔ چونکہ جگہ عمدہ تھی اس لئے میں نے ایک باغ تیار کروایا اس کا نام
 باغِ صفارکھا۔“
 جھیل کے بالکل سامنے پی ٹی ڈی سی ہوٹل کے تقریباً ساتھ ہی کچھ اونچائی پر ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔ کہا جاتا ہے اس پہاڑی پر بابر کاتخت بنایا گیاتھا۔ جس پر بیٹھ کر اس نے اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔ جب میں نے اس تخت پر کھڑے ہو کر یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ بابر کہاں کھڑا ہوا ہوگا اور کہاں اُس کی فوج ہو گی. میں نے سامنے دیکھا ارد گرد  دیکھا۔ سر سبز پہاڑوں پر حد نگاہ تک بابر کا لشکر پھیلا ہواتھا۔ جانے یہاں ایسے کتنے لشکر آئے ہوں گے، کتنوں نے یہاں پڑاؤ کیاہو گا، کتنے ان سرسبز پہاڑوں سے سبزہ اُڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہوں گے۔ لیکن ان پہاڑوں نے سب کے نشان مٹا دئیے۔اللہ تعالی نے ان پہاڑوں کو کتنی وسعتِ قلب عطا کی ہے کہ یہ بنانے والوں کو بھی اور بگاڑنے والوں کو بھی، سب کو پناہ دیتے ہیں۔ یہ ان پہاڑوں کی وسعت قلبی نہیں ہے یہ مالکِ برحق کی وسعتِ قلبی ہے کہ جو اُسے بھی پالتا ہے جو اُس کے وجود سے انکاری ہوتا ہے اور اُسے بھی جو اُس کے در پر اپنی جبینِ نیاز جھکا دیتا ہے۔                          اُس پہاڑی پر کھڑے ہو کر فطرت کی وجاہت اور خوبصورتی میرے اندر ایک ہلچل مچا رہی تھی۔ ایک ہی سوچ سب سوچوں پر حاوی تھی اگر یہ منظر اتناخوبصورت ہے تو اس کو بنانے والا کتنا خوبصورت  ہو گا۔ اگر یہ منظر اتنا  وسیع  وعریض  ہے تو اس کا مالک کتناعظیم اور وسعتوں کا مالک  ہوگا۔
پرندوں کی آوازیں ارد گرد کے ماحول میں سحر  پیدا کر ر ہی تھیں۔       اس عالم میں دل لمحہ لمحہ خدائے لم یزل کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے  لگا، آنکھوں کی پتلیاں خود بخود قدرتِ الہی کے شاہکار کی حرمت کے سا منے جھکنے لگیں۔ پتہ نہیں کب رکوع ہوئے کب سجود اور کب بندگی کا شدیداحساس تن بدن میں سرایت کر گیا۔
میں کون ہو ں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جوشعلہ فشاں ہوں


_________________________________

  
وادی کے بیچوں بیچ                                                                                       وارث اقبال

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی رازِ نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں
(میر تقی میر)
جھیل پر ابھی بھی کووں کا ناشتہ جاری تھا۔ موٹر وے اور کلر کہار پر خاموشیوں کا راج تھا۔
 کسی زمانہ میں اس جگہ کو کلیر کہار کہاجاتا تھا اور یہ علاقہ کشمیر کے حکمرانوں کے زیرِ اطاعت تھا۔ابو ظفر ندوی تاریخ سندھ کے مطابق محمد بن قاسم کے حملہ کے بعد راجہ داہر کےایک بیٹے نے کشمیر سے فرار ہو   کرکشمیر میں پناہ لی تو کشمیر  کے ہندوحکمران نے اُسے کلر کہار کا علاقہ دان کر  دیااور یوں  یہ علاقہ کشمیر کی اطاعت سے نکل کر آزاد حیثیت میں جانا جانے لگا۔ ایک طویل عرصے تک  یہ پہاڑ ی سلسلہ کشمیر اور ملتان کی حکومتوں کے درمیان سرحد ی فصیل کا کام بھی کرتا تھا۔
 جھیل ،تختِ بابری ور مزار سے   واپس ہوٹل پہنچ کر ہم نے  اپنی اپنی پسند کا  ناشتہ کیا، سامان سمیٹا، گاڑی میں رکھااور چل نکلے نئے را ستوں کی  تلاش میں ۔ ہماری منزل تھی جھیل کھبیکی۔              یو ں تو کلر کہار جھیلوں کی سرزمین ہے اور یہاں اوچھالی، جھالراور کھبیکی مشہور جھیلیں ہیں۔، لیکن ہم صرف کھبیکی اور اوچھالی تک ہی جانا چاہتے تھے۔
ہم خانقاہ سے گزرتے ہوئے ایک پہاڑی کی چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ جس کی ایک طرف سرسبز جنگل تھاا ور دوسری طرف نیم سرسبز پہاڑیاں ۔ ان پہاڑیوں پر کیڈٹ کالج کی عمارت بھی دکھائی دے رہی تھی۔ چند خطرناک موڑوں کے بعد سڑک ایک میدان میں داخل ہوئی۔ جس کے دونوں  کناروں پر پتھروں سے چھوٹی سے فصیل بنائی گئی تھی۔ جبکہ دونوں جانب چھوٹی چھوٹی سرسبز پہاڑیاں تھیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے ہم زمین سے کسی بڑے سے تالاب میں اُتر گئے ہوں۔یہ ایک چھوٹی سی وادی تھی۔ جسے اپنے جیسی کئی وادیوں کا قرب بھی حاصل تھا۔ سڑک کی کسی نہ کسی جانب مہاجر پٹھانوں کے گھر ضرور دیکھنے کو ملتے جو جنگل سے کاٹی گئی  لکڑی  سے  کوئلہ بنانے میں مصروف تھے۔ ان کے گھر خوبصورتی، محنت اور فطرت سے محبت کے آئینہ دار تھے۔ کوئی انہیں افغانی کہتا ہے،کوئی پٹھان اور کوئی کھوچہ، لیکن یہ ارد گرد کی ترقی، سیاست، سماج اور مذہب سب سے الگ ہیں۔
زمانے میں رہ کے رہے ہم اکیلے
ہمیں راس آئے نہ دنیا کے میلے
یہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ ان کا اپنا سماج ہے ان کے اپنے مسائل اور ترقی کے بارے میں ان کا اپنامفہوم۔ وہ جیسے کل تھے ویسے ہی آج ہیں۔
 ایک چھوٹی سی چڑھائی کے بعد جب ہم نیچے اترے تو ہمارے سامنے پھر ایک کھلا میدان تھا، سڑک دور پہاڑ وں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی جبکہ اطراف میں گندم کے چھوٹے چھوٹے کھیت ہمارے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ جنہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے پتھروں کی فصیلیں بنائی گئی تھیں۔ ان سب پتھروں کا رنگ سفید تھا۔ ماحول بھی خوش گوار تھا، مناظر بھی خوبصورت،    چنانچہ ہم تصاویر بنانے کے لئے رک گئے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں پوز بنا رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار ہمارے قریب آکر رکا اور اس گیت کاپہلا شعر ہماری نظر کر کے چلا گیا۔
سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا
 اس ادھیڑ عمر آدمی کا رویہ انتہائی عجیب اور منفرد تھا۔ اس بیابان میں ہمیں وہ اپنے ہی دیس کا بھی لگا اورپیارا بھی۔
 کچھ لوگ غیر ہوتے ہوئے بھی اپنے سے لگتے ہیں۔ وہ اپنے عمل، اپنی محبت اور اپنے اخلاص سے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
      ایسے لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں، ہمیں مسکرا کر ملتے ہیں، ہمارے لباس کی تعریف کرتے ہیں، ا چھے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جی آیاں نوں، ست بسم اللہ،  خیر ہو، enjoy   weekend وغیرہ۔ یہ لوگ سلاد کے پتوں  کی طرح ہوتے ہیں۔بے وقعت، بے حیثیت۔ سلاد کا ہونا نہ ہونا  ایک جیسا ہے۔  کھاناسلاد کے بغیر بھی کھانا ہی ہوتا ہے۔ یعنی سلاد کے بغیر بھی مکمل ہی ہوتا ہے۔ لیکن سلاد کھانے کے مزے کو بڑھا دیتی ہے۔ اُ  س کے پتوں کی کڑواہٹ کھانے کے ساتھ مل کر مٹھاس میں  تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کو اندر ہی رکھتے ہیں اور باہر لوگوں کی زندگیوں میں چند لمحوں کی مٹھاس گھول دیتے ہیں۔   ان کو مل کر لگتا ہے جیسے سب کچھ ٹھیک ہے ہر سُو خوشیا ں  ہی خوشیاں ہیں ۔ خوش گفتار لوگ اُس میٹھے کی طرح ہوتے ہیں جس کے بعد  ڈھیروں میٹھی چائے بھی پھیکی لگتی ہے۔ جتنی مرضی مزے کی چائے ہو زبان برفی کاوہی ٹکڑا طلب کرتی ہے جس نے چند لمحے پہلے  پورے دہن کوشیریں کر دیا تھا۔
صاف ستھری سڑک سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے اٹکھیلیاں کرتی پہا ڑوں میں جا کر گم ہو رہی تھی۔ پہاڑ کیا تھے کسی قلعہ کی فصیل تھے۔ جوں جوں ہم پہاڑوں کے قریب جارہے تھے ہمیں ان پر موجود بستیاں بھی دکھائی دینے لگی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ پہاڑ ہمارے دائیں جانب آ گئے اورہم ان پہاڑوں کے ساتھ کسی ایسے مسافر کی طرح دوڑ رہے تھے جس کی ریل چھوٹ رہی ہو۔
اس عالم میں مسعود رانا کے گائے ہوئے ایک گیت کے کچھ بول میرے لبوں پہ آگئے۔
ہم بھی مسافر تم بھی مسافر کون کسی کا ہوئے
کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے
کلر کہار سے منارہ اور منارہ سے پیل۔ ان دو قصبوں سے گذرتے ہوئے ہم پیل سے دائیں طرف تلہ کنگ روڈ پر ہو لئے۔ یہ کافی خوبصورت سڑک تھی لیکن اتنی ویران کہ ہم نے کہیں بھی رکنا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی تیز چلاتے ہو ئے کھبیکی جا کر سانس لیا۔
 پاکستان کی مشہور جھیلوں میں سے ایک جھیل کھبیکی ہمارے سامنے تھی۔ یہ جھیل ڈھائی سے تین میل لمبی  ہے۔ اسے چاروں اطراف سے سرسبز پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ دور پہاڑوں کو دھند نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جس طرف سے ہم اس جھیل میں داخل ہوئے اس کاکچھ حصہ خشک ہو چکا تھا۔ اس لئے ہم گاڑی جھیل کے اندر لے گئے۔ اس کی سفید رنگ کی  زمین  سوکھ کر مچھلی کی کھال بن چکی تھی۔
 جب ہم گاڑی سے باہر نکلے تو ہمیں احساس ہو ا کہ ہم کسی دلدل پر چل رہے تھے۔ جو کسی وقت بھی خطرناک ہو سکتی تھی۔ زمین اس طرح تھی جیسے کوئی فومی گدا۔ میرے بچے اس فومی جگہ پر چھلانگیں لگارہے تھے۔ میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ اس انمول تجربہ کے حصول میں شامل ہو جاؤں لیکن بسب دردِ کمر اپنی خواہش کو اندر ہی چھپا لیا۔میں جھیل کی  لمبائی کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔ لیکن اس نے مجھے پلو نہ پکڑایا۔ بس سامنے جھیل کی باریک سی لکیر پہاڑوں کی بانہوں کی پناہ میں چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک خوابیدہ پری شرم سے سمٹی ہوئی۔۔پہاڑوں کی پُرجلال کھلی ہوئی بانہیں۔۔۔ ایک پاک رابطہ۔۔ ایک پاک ملن۔۔۔۔۔
  ہماری خوش قسمتی تھی کہ موسم ہمارا ساتھ دے رہا تھا۔ ورنہ شاید گرمی میں ہم پگھل جاتے۔ جھیل کا پانی صاف ستھرا تھالیکن شفاف نہیں۔ شاید بارش کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے اسے گدھلا دیاتھا۔ کچھ مقامی پرندے دور جھیل کے بیچوں بیچ موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ اتنی دور تھے کہ ہمارے لئے ان کی پہچان ناممکن تھی، بس اُن کی حرکتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ پرندے ہیں۔ ان کی مسلسل اور والہانہ ڈبکیاں بتارہی تھیں کہ اس جھیل میں ان کی خوراک کا خاصا سامان موجود تھا۔ مجھے وہ بچے یاد آ گئے جو  برسات کی پہلی بارش میں سڑک یا گلی کے پانی میں والہانہ ڈبکیاں لگاتے ہیں۔      یہ قانونِ فطرت ہے کہ فطرت فطرت کے لئےاپنی بانہیں کھول دیتی ہے۔  جھیل کے دوسرے کنارے مویشی چرنے میں مگن تھے۔ بڑے شریف، بڑے قانع۔ ان کے اندازِ خوراک خوری سے لگتاتھا کہ انہیں کل کی کوئی فکر نہیں۔ ان کے لئے آج ہی سب کچھ تھا۔ ان کا کوئی ساتھی رہزن نہیں تھا، ان میں کوئی فاتح یامفتوح نہیں تھا، اُن میں کوئی درد اور درد کا درماں نہیں تھا۔۔ نہ  اُن میں کوئی ظالم تھانہ مظلوم ۔۔۔۔ کسی کی کٹیا برسات میں نہیں جلتی تھی۔۔۔۔ نہ کسی کی بیٹی کی عصمت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔۔ آہ! ہم انسان۔۔۔۔ جن کا سب کچھ خطرے میں ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں یوں کہوں گا کہ جن کا سب کچھ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔۔ کبھی ان کا کلچر، کبھی ان کی خاندانی غیرت وہ حمیت، کبھی عزت نفس، کبھی انا، کبھی اسٹاک ایکسچینج،  کبھی بستیاں، کبھی  سرحدیں اور کبھی ان کا  محبوب  ، اکلوتا اور انمول مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔
 مجھے اس خطرے کی موجودگی پر کوئی خطرہ یا خوف یا اندیشہ یا سوچ  یا فکر نہیں تھی بس یہ سوال اٹھتا تھا کہ کیمیائی، ایٹمی اور طرح طرح کے ہتھیاروں کے ہونے کے باوجود انسان خطرے میں  کیوں ہے۔۔۔ کیا یہ ہتھیار، اور ٹیکنالوجی ہی اس کے لئے کوئی بڑا خطرہ  تونہیں۔
بات جانوروں کی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔اُنہیں دیکھ کر مجھے یہ احساس ہو رہا تھاکہ اللہ نے ہمیں سکھانے کے لئے کتنی مثالیں پیدا کی ہیں لیکن ہمارے پاس ان سے سیکھنے کا وقت ہی نہیں۔ ہمارے پاس ذوق ہی نہیں ہے، ہمارے پاس شوق ہی نہیں ہے۔۔۔۔ شاید ہمارے دماغ اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ اس علم کو سمانے کے لئے ان میں جگہ ہی نہیں۔
 اُن مویشیوں کے پیچھے دور تک پھیلے ہوئے سحر انگیز پہاڑ تھے، جن کے اوپر ہم نے جانا تھا۔ دیکھنے کو وہ آسان سا پہاڑی سلسلہ تھا لیکن اصل میں انتہائی دشوار گذار تھا۔ ان پہاڑوں میں کھیوڑہ سے شروع ہونے والا نمک کا سلسلہ چھپا ہو اتھا۔






__________ _______________________



انڈیانا جونز کا دیس                                                                                وارث اقبال

جھیل کھبیکی پر تقریبا دو گھنٹے گزارنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ یہ تھی  ’کنٹھئی گارڈن۔‘ 
 یہ باغ انگریزوں نے بنا یاتھا۔ جس میں ہمارے جیسوں کے لئے بہت کچھ باعث کشش تھا۔ جھیل کے پیچھے ایک چھوٹاسا قصبہ ہے کھبیکی جس کے اندر سے گلی نما ایک چھوٹی سی سڑک گذرتی ہے جو آگے جا کر پہاڑوں کے ایک وسیع و عریض سلسلہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی سڑک پر  چلتے ہوئے ہمیں اس باغ تک پہنچنا تھا۔    ہمارے ارد گرد خشک اور سبز ملی جلی جھاڑیا ں، کہیں کہیں سبز درخت اور پہاڑوں کا ایک نہ سمجھ آنے والاسلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اس سڑک پر قدم رکھتے ہی تنہائی کاشدیداحساس ہونے لگا. جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے اس احساس میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔تاہم آگے جا کرجھیل کھبیکی کے ایک خوبصورت منظر نے ہمارے اس احساس کو کچھ دیر کے لئے کم کردیا۔ ہمارے بائیں جانب جھیل کھبیکی ایک پیالہ کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ سرسبز پہاڑوں کے درمیان میں اس جھیل کا منظر دیکھنے کے لائق تھا۔ نیلے پانی میں سر سبز پہاڑوں کا عکس سحر طاری کر رہا تھا۔ مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ارد گرد کے سارے پہاڑ اس حسینہ کے درِ نیاز پر جھکے ہوئے تھے۔     نیچے پیالہ نما جھیل کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم پہاڑوں کے اندر چلتے ہوئے کتنا اوپر آ چکے تھے۔ ہم گاڑی سے باہر نکلے اور حسبِ ضرورت تصاویر بنانا شروع کر دیں۔ میرا بیٹا شاہزیب جسے ہیرو بننے کا بہت شوق ہے وہ اپنے سیل فون سے سیلفیاں بنانے میں مصروف ہو گیا۔
 جب ہم یہاں پہنچے تھے تو آسمان پر بادل تھے لیکن کچھ ہی دیر میں مطلع یوں صاف ہوا کہ جیسے کبھی بادل تھے ہی نہیں۔ سورج نے اپنا مکھڑا دکھاتے ہی آگ کے کرتب شروع کر دئیے۔ یعنی اپنے انداز میں ہمیں یہاں سے جانے کا حکم صادرکر دیا گیا۔ ہماری کیا مجال تھی جو حکم عدولی کرتے فورا ً گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے۔                         گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا اور ہم سب کی زبان سے کچھ وقفوں کے بعد ایک ہی جملہ نکل رہا تھا  کہ یا اللہ بارش برسا دے لیکن ہمارے سارے جملے اس طلسمی جگہ پرہی کہیں ماحول میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ گرمی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ بقول آتش
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
ہمارے قہقہے، شوخیاں، مستیاں، فطرت کی خوبصورتی کی پذیرائی اور خیالات کی گہرائی بس یہاں تک ہی تھی کیونکہ یہاں سے آگے وحشت، خوف  اور ڈر کا سفر شروع ہو رہا تھا۔                                                                                                                                                  ایک تو سڑک  چھوٹی، اوپر سے  ٹوٹی پھوٹی۔ ہر پانچ چھ منٹ بعد ایک بھیانک کھڈا ہماری گاڑی کی پسلیاں ہلانے کے لئے تیار کھڑا ہوتا۔
 یہ عابد کی مہارت اور چستی تھی کہ ہم سڑک کے ہر وار سے بچے ہوئے تھے ورنہ گاڑی تو کیا ہماری اپنی پسلیوں کے سب تار کھُل جاتے۔ اوپر سے بیابان اور دشت کی ویرانی۔ مجھے تو  وہ سبھی کہانیاں یاد آرہی تھیں جن میں ایک شہزادہ یالکڑ ہارے کا بیٹا اپنے بادشاہ کی بیٹی کو کسی جن یادیوکی قید سے چھڑوانے کے لئے نکلتا ہے اور جب وہ دیو کی سلطنت میں پہنچتاتو اْسے ایسا ہی ماحول پاتا ہے
 اس سڑک کے کنارے کہیں کہیں کسی بڑے درخت سے ملا قات ہو جاتی ورنہ ہر طرف گھنی جھاڑیوں کا ہی راج تھا، جنہیں نہ درخت کہا جا سکتا تھانہ جھاڑیاں۔ یہ جھاڑیاں سبز تو تھیں  لیکن شاداب نہیں۔ ان کی کیفیت اْ س دوشیزہ کی سی تھی جو پیا کے دیس آکر اپنی ساری شادابیاں اور رعنائیاں  بابل کے دیس ہی چھوڑ آئی ہو۔
وقت کی کرختگی اور نحوست نے اُس کے گالوں کا رنگ تک چوس لیا ہو۔ یہاں کے درختوں کا حال بھی کچھ اس دلہا جیسا ہی تھا۔ جس نے محبوب کو پانے کے لئے ہزار جتن کئے ہوں لیکن پانے کے بعد اپنے عشق کے دور کے ایک ایک لمحے کو کوستا ہو۔ چہرے پر حسرتوں کا غازہ اور آنکھوں میں تاریک مسقبل کا سرمہ سجائے ہر کسی سے یوں ملتا ہو جیسے ہارا ہوا سپہ سالار اپنے فوجیوں سے ملتا ہو۔
 ان جھاڑیوں کی شاخیں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں کہ بس ابھی کسی کو نگل لیں گی۔  ان کا حوصلہ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ منہ کھولے آہستہ آہستہ  سڑک کو اس طرح نگل رہی تھیں  کہ جیسے  کسی سانپ نے کسی چوہے کو۔ اور سانپ کے منہ میں چوہے کی صرف دْم دکھائی دے رہی ہو۔
کچھ ہی دور ایک موڑ سے تھوڑا ساآگے کچھ خوبصورت سر سبز و شاداب  جھاڑیوں نے سڑک کو اپنے آنچل میں چھپا رکھا تھا اور اس آنچل کے اندر اپنی ساری محبتیں سڑک پر نچھاور کر دی تھیں۔  میں پہاڑوں کو دیکھ دیکھ کر ہی راستے کا تعین کر رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہاں نہ تو کوئی رہتا تھااور نہ ہی یہاں کبھی کوئی آیا تھا۔یہ سڑک ہمیں دنیا کے اْس کنارے پر لے جارہی تھی جہاں سے آگے دنیا نام کا کچھ وجود ہی نہیں تھا۔
 یہاں پہنچ کرمجھے میر تقی میر اور غالب سب کی وحشت یاد آگئی اور میں حیران بھی ہو رہا تھاکہ غالب نے یہ کیوں کہاحالانکہ وہ کبھی یہاں آیاہی نہیں۔
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے
بیکسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت، ہے ہے!
سایہ خْورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے، اسد!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گْلستاں مجھ سے
(اسداللہ غالب)
 خدا خدا کرکے دور دو اونٹ سواروں نے تنہائی کی وحشت کایہ سلسلہ ختم کیاجو اپنے صحت مند اونٹوں کے ساتھ پیدل چلے آ رہے تھے۔ ایک اونٹ پر سوکھی لکڑیاں لدی ہوئی تھیں اوردوسرے پر پانی کے گھڑے۔
 ایک موڑ مڑتے ہی سڑک نے مزید چڑھائی شروع کی تو سرسبز جھاڑیوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہمیں بھی ان کا اس طرح نکل آنا اچھا لگا،منظر بھی اچھا تھا اور ماحول بھی۔ لیکن     نا جانے کیوں اندر خوف کا شہر بسا ہوا تھا۔ یہ خوبصورت منظر بھی ہمارے اس خوف کو کم نہ کر سکا۔
اب کوئی بات نئی بات نہیں میرے لیے
اب کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
خواہش ِ وصل کہاں، عشق کہاں، باتیں کہاں
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
اب سلگتا نہیں یادوں میں وہ مٹی کا دیا
تم سے ملنے کی بھی حسرت نہیں ہوتی مجھ کو...
(سعدیہ خان)
خوبصورت جھاڑیوں کاجھنڈ پیچھے رہ گیا تھا، اب پھر ایک چھوٹا سا دشت نما میدان تھاجس میں سے ہم گذر رہے تھے۔ اچانک میرے بیٹے نے میری توجہ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑی دو موٹر سائیکلوں کی طرف دلائی۔ اس بیابان میں موٹر سائیکلوں کا بغیر اپنے سواروں کے ہونا، ہمارے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کر رہاتھا۔ یوں ہمارے دلوں میں خوف کی ایک اور تہہ بیٹھ گئی۔ 
    منزل کافی دور تھی اس لئے میں نے عابد سے کہا۔  ” ذرا جلدی، اب کہیں نہیں رکنا۔“  لیکن ایک عمارت کے کھنڈرات نما آثار نے ہمیں رکنے پر مجبور کر دیا۔
تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت زرخیز ہے اس پورے علاقہ میں آثارِ قدیمہ کا کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ عمارت اتنی اہم نہ تھی۔ پھر بھی ہم تصاویر اتارتے رہے۔ لیکن اندر اتناخوف تھا کہ وہاں کسی کو بھی اپنی مرضی کی فوٹو گرافی کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ہر طرف ہو کا عالم۔ سورج عروج پر اورجائے امان صرف گاڑی تھی۔ مجھ سمیت ہر کوئی خوف کاشکارتھا لیکن کوئی اظہار نہیں کر رہا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ گاڑی کی ٹیپ چل رہی تھی اور اس پر حبیب ولی محمد کا فن اپنے جوہر دکھارہاتھا۔بچے اگر اپنے ہوش و حواس میں ہوتے تو کبھی بھی یہ موسیقی برداشت نہ کرتے۔ ویسے میں خود بھی اس خوف کی فضا میں  اس مو سیقی سے کوئی خاص لطف اندوزنہیں ہو رہاتھا۔
 خوف کہنے کو تین حروف پر مشتمل ایک لفظ ہے لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے بڑی مکروہ چیز ہے۔ اگر ہم اس کی تعریف کو دیکھیں تو بہت سادہ سی ہے،
”کسی بیرونی خطرے کے نتیجے میں اندر اٹھنے والاایک جذبہ۔“                                   
خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے جسم اوردل کی بجائے اپنے دماغ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے ہم اپنے دماغ میں رہ رہے ہوتے ہیں جس نے ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہوتا ہے وہ  واہموں اور خدشات کا ایک ایسا جن ہمارے سامنے کھڑا کر دیتا ہے جس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایسی چیز سے ڈرتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں تو اسے ہماری حماقت ہی کہا جائے گا۔ اور واقعی ہم احمق بن جاتے ہیں اور مختلف فوبیاز کا شکار ہو جاتے ہیں۔جس طرح حکومت صوبے بناتی ہے اور ان میں اپنے ناظم یا ذمہ دار بنادیتی ہے اسی طرح خوف بھی فوبیاکی حکومت کو جنم دیتا۔
ہاتھوں میں لگنے والے جراثیم سے شروع ہونے والا خوف اتنابڑھتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد ایک حصار قائم کر لیتے ہیں۔ جتناخوف گہرا ہوتا جاتاہے اتناہی یہ حصار بھی مضبوط ہوتا جاتاہے۔ دیوارجتنی مضبوط ہو تی جاتی ہے ہماری شخصیت اُتنی ہی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پھر ہم رنگوں تک  سے ڈرنے لگتے ہیں ۔
کسی نے خوف سے چھٹکارہ پانے  کا بڑاخوبصورت طریقہ سمجھایاہے۔ کہ جب خوف میرے نزدیک آتا ہے تو میں کہتا ہو ں میرے اوپر سے گذر جا اور وہ گذر جاتا ہے۔  جب وہ گذر جاتا ہے تو میں اس کے راستہ پر اس کی تلاش میں نکلتا ہوں مگرخوف مجھے کہیں نہیں ملتا بلکہ میں ہر جگہ خود ہی کو پاتا ہوں۔                     کسی نے کیاخوب حقیقت بیان کی ہے،
 ”جہاں خوف ہوتاہے وہاں خوشیاں نہیں ہوتیں۔“
              خوف کی ایک صورت یہ بھی  ہے کہ ہم ساری عمر یہی سوچنے میں گزار دیتے ہیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش ہی  نہیں کرتے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
       جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے، ماحول میں ویرانی اور وحشت بھی بڑھتی جارہی تھی۔ سڑک کی بدحالی اور شکستگی  اس وحشت میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ عابد سڑک کامقابلہ تو کر رہا تھالیکن ناخوشگواریت اور بے زاری اْس کی اداؤں سے عیاں تھی۔ ظاہر ہے اس شکستہ سڑک پراچھلتی ہوئی گاڑی کے کرب کو وہی محسوس کر سکتا تھا۔                
                                                                                                                                               ” بھائی بڑا اُجاڑ ہے۔ جی۔یہاں حکومت کیوں نہیں ہے۔“                             
                                                                                            ”ہے یار سب کچھ ہے حکومت بھی ایم پی اے بھی۔۔ مگر ویسے ہی جیسے باقی جگہوں پر ہیں۔“                       
                                                     ” پاپا پیچھے ایک جگہ ایم پی اے کا بورڈ بھی لگا ہو اتھا کو ئی لیڈی ایم پی اے ہیں۔“
شاہزیب نے اپنی معلومات فراہم کیں۔ شاہزیب علم کا اظہار کرے اور زین جواب نہ دے۔
                       ” پاپا اس بورڈ پر یہ بھی لکھا تھا کہ اْس ایم پی ا ے نے اپنے فنڈز سے یہ روڈ بنوائی تھی۔“                  
                                                             ” یہ روڈ اگر اْس نے بنوائی ہے تو اْس سے ضرور ملناچاہئیے۔“
 اس وقت عابد کی زبان نے اْ س کا سرگودھا کے ساتھ تعلق بڑے واضح انداز میں ادا کیاتھا۔                                  کچھ ہی دور گئے تھے کہ ہمیں ایک کچی سی بستی دکھائی دی۔ یہ بھی بڑے جابرلوگ ہیں، جہاں کوئی نہیں ہو گا وہا ں افغانی ضرور ہوں گے۔ ہم افغانیوں کی ایک چھوٹی سی بستی کے قریب سے گذر رہے تھے۔ پیلی مٹی سے بنے ہوئے گھر، اونٹ، بڑی بڑی فراکیں پہنے ہوئے مرد و خواتین کو دیکھ کر وحشت کے سائے کچھ کم ہوئے اور ہم کچھ نارمل ہو گئے۔ اس بیابان میں ان لوگوں کا ہونا بھی کسی رحمت سے کم نہیں، یہ لوگ بڑے جفاکش ہیں۔ اس چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنے کاموں میں مگن تھے۔
         ” یہ گھر جی بڑے زبردست ہیں ان کے اندر گرمی کااحساس تک نہیں ہوتا۔۔۔“
 عابد نے ایک گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے کہا۔
 ”آپ کو کیسے پتہ؟“ 
زین نے پوچھا تو عابد نے جواب دیا۔   
” اس طرح کے کچھ پٹھان سرگودھا میں ہمارے گاؤں کے قریب رہتے ہیں۔“ 
صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)
  اب ہم پہاڑوں کے درمیان میں تھے۔ یہ علاقہ بہت ہی عجیب ہے، انڈیانا جونز کی فلموں کی کوئی سائیٹ یا کو بوائز کادیس۔
 مٹی کے ان اونچے اونچے پہاڑوں پر لا تعداد شبیہات اور اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک  شبیہہ بدھا کے مجسمے کی طرح کی تھی ۔ یہ شبیہات کئی لحاظ سے  حیران کن تھیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے اکثر سمجھ نہیں آتیں، دوسرا یہ کہ یہ بہت اونچائی پر تھیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان شبیہوں کو تراشنے والا کوئی انسان تھایا قدرت خود۔ تاریخ اس کا جواب تو دیتی ہے۔ لیکن یہ جواب بھی حتمی نہیں۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ ہندو  اور بدھ دھرم کا مرکز  رہاتھا۔  ان پہاڑوں کے اندر مندروں اور ہندو خانقاہوں کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ ہو سکتاہے کہ ان مندروں اور خانقاہوں کے لوگ یا طالب علم یہ شبیہات بناتے رہے ہوں۔ یا پھر یہ کہ  چونکہ یہ مٹی کے پہاڑ ہیں اس لئے بارش یا موسم نے اْن پر جو نشان چھوڑے وہ ہمیں شبیہیں لگتی ہیں۔ جو دراصل ہیں نہیں لیکن یہ ہماری سوچ ہے جو انہیں شبیہہ کی صورت دے رہی ہے۔
 تاہم حقیقت یہ تھی کہ یہاں پہنچ کر میرے ہم سفروں میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔
              عابد کہنے لگے،
  ” بھائی جان اگر آپ کے پاس گن ہوتی تو ہم ان پہاڑوں کے اندر جاتے۔“
” ہم اب بھی جاسکتے ہیں تم جانے والے بنو۔“   
”نہیں ذرا اسلحہ پاس ہو تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔“
”امریکہ کے پاس ایٹم بم ہے، مزائل ہیں، توپیں ہیں لیکن امریکن پھر بھی خوف میں ڈر میں کیوں رہتے ہیں۔ اسلحہ اگر حفاطت کرتا ہوتا تو ۹ نومبر کا واقعہ نہ ہوتا۔“
 عابد  ”جی۔۔۔۔“                        کہہ کر سڑک پر متوجہ ہو گیا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو آپ سے بات کرنا ہی سو کا گھاٹا ہے۔
سڑک نہ ہونے کے برابر تھی۔  ا یک سڑک سے کئی سڑکیں یا پکڈنڈیاں نکل رہی تھیں جو کہیں جنگل نما جھاڑیوں میں جاکر گم ہو جاتیں یا پھر بل کھا کر کسی موڑ کی گود میں چھپ جاتیں۔  یہاں ہمیں ایک بار پھر ویرانی اور وحشت نے گھیر رکھا تھا۔تاہم اچانک کسی موڑ پر یا جھاڑیوں کے پیچھے سے کوئی اونٹ سوار برآمد ہوتا تو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا۔ جھاڑیوں اور چھوٹے درختوں کا سلسلہ اتنا گھنا اور دور تک پھیلاہوا تھا کہ اْس نے لکیر نما سڑک کو اس طرح چھپا رکھا تھا کہ جس طرح کوئی ماں آندھی میں اپنے بچے کو اپنی چادر میں چھپا لیتی ہے۔
یہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ لیکن میں کسی سے اظہار نہیں کررہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی انسان دکھائی دے تو اس سے راستہ پوچھوں۔                                                                                                                                                       راستہ تو بھول چکے تھے لیکن میرا اندازہ اور تجربہ بتا رہاتھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچنے ہی والے تھے۔ گاڑی میں عابدہ پروین جو سنا رہی تھیں وہ اس وقت حسبِ حال تھا۔ لگتا تھا کہ شاعر  واصف علی واصف نے یہ شاعری کی ہی ہمارے لئے تھی۔
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیٔ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں پْھول ہوں،  شبنم ہوں، میں جلوۂ جاناناں
میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹْوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصفؔ کی یہ غزل سن کر میں خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 میں کیاہوں، کیاچاہتا ہوں۔ لوگ تو اپنے بچوں کو رونق میلے دکھانے کے لئے نکلتے ہیں لیکن میں انہیں اس ویرانہ میں کیوں لایا ہوں۔  لوگ تو اپنے بچوں کو فلمیں دکھانے لے کرجاتے ہیں اور میں انہیں یہ پتھر دکھانے کیوں نکلا ہوں۔ لوگ اپنے بچوں کوآرام و آسائش کی جگہوں پر لے کر جاتے ہیں میں انہیں اس دشت میں کیوں لایا ہوں۔
پھر کسی پہاڑ کے پیچھے سے، کسی جھاڑ کے اندر سے، کسی پتھر کے نیچے سے بیک زبان یہ جواب ملتا ہے، تو دشت ہے دشت سے ملنے آیاہے، تو تنہائی ہے تنہائی سے رفاقت نبھانے آیا ہے، تو گداز ہے، پھولوں سے ملنے آیاہے۔تو یہاں کیوں نہ آئے یہ تیرا ہی تو ہے،تیرے مالک نے تیرے لئے ہی تو پیدا کیا ہے، تو کسی ویرانے یا دشت میں نہیں آیا۔بلکہ تُو تو اپنے مالک کے بنائے ہوئے شاہکار کے اندراترنے کے لئے آیا ہے۔
  پہاڑ وں نے مجھے کہا۔
 ”اپنا غصہ، اپنی نفرتیں، اپنے حسد، اپنی کدورتیں اور اپنے اندر کی گھٹن ہمیں دے دو اور یہاں سے پھولوں کی نرمی و گداز لے جاؤ، یہاں سے پھلوں کی شیرینی لے جاؤ۔ یہ سودا کوئی مہنگا تو نہیں۔“
  میں نے سوچا، یہاں وہ علم ملتا ہے جو کسی یونیورسٹی میں نہیں ملتا۔ یہاں پاپی من چلا چلا کر کہتا ہے، میں ناہیں سب تو، اے خالقِ قدرت میں ناہئیں سب تو۔ میں تیرا عاجز، ناکارہ معمولی سا بندہ۔ 
یہاں میں حبیب جالب کو بھی نہیں بھول سکتا۔
پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالب ؔ! اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں
    جب ہم جھاڑیوں کے چھپر نما جھُنڈ سے نکلے تو سامنے ایک چھوٹے سے پُل کے پیچھے ایک باغ کو پایا تو سکون ملا کیونکہ یہی ہماری منزل تھی۔  جونہی ہم اُس پل پر پہنچے تو اس کے نیچے بہتے ہوئے نالی نما نالے نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن ہم نے اُس کی بات نہ مانی کیوں کہ مجھے پتہ تھا جہاں سے یہ پانی آرہا ہے ہم وہاں  کچھ ہی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ اور  ایسا ہی ہوا ہم کچھ ہی دیر میں باغ کے اندر تھے۔ 
 ہمارے سامنے دائیں جانب ایک سرکاری عمارت تھی۔ جو بنانے والوں نے تو شاندار بنائی ہو گی لیکن سنبھالنے والوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ دوملازم اپنی سائیکلوں  سمیت دکھائی دئیے لیکن کچھ دیر بعد غائب ہوگئے۔ لگتا تھا یہاں کچھ ملازم ہیں ضرور اور وہ کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔باغ میں داخل ہوں تو ایک چھوٹے سے صاف پانی کے نالے پر بنے چھوٹے سے لکڑی کے پل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے پہلے ایک بورڈ آپ کو ا س باغ کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ باغ 1933 میں بنایا گیا، یہاں تقریبا ہر قسم کا پھل دار درخت موجود ہے۔ اس کے علاوہ چھ قسم کی مچھلی اور آٹھ قسم کے جانور موجود ہیں۔         باغ کے اندر جا کر پتہ چلتا ہے کہ محکمہ زراعت خوشاب کے زیرِ سایہ چلنے والا یہ باغ ایک خوبصورت باغ ہے۔ جس کی محکمہ نے اچھی حفاظت بھی کر رکھی ہے۔  اس باغ کی شہرت کی وجہ اور اس باغ کی جان ایک چشمہ ہے جو چٹانوں کے اندر سے رستے ہوئے نکلتا ہے۔               صاف پانی کا ایسا چشمہ جو اپنے ماخذ کے ساتھ موجود ہو کم ہی دیکھنے کو ملتاہے۔ اس کے پانی کو چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے اس باغ کے ہر حصہ میں پہنچایا گیاہے۔ اس طرح یہ چشمہ باغ کی سیرابی کے بعد باغ سے باہر چلا جاتا ہے۔
 اس باغ میں ایک ٹریک بھی بنایا گیا ہے جو باغ کے چاروں اطراف گولائی میں گھومتا ہے۔یہاں آکر ایک لمحہ کے لئے بھی احساس نہیں ہوا کہ ہم اتنا وحشت ناک سفر کر کے آئے تھے۔ ہم  چونکہ اتنامشکل سفر کر کے یہاں پہنچے تھے ا س لئے یہاں رکنے کو جی چاہ رہا تھا، ہم سب اس باغ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، چشمہ کے صاف پانی کو دیکھ کر میرے بچوں کی رگِ تیراکی پھڑک رہی تھی، میں اس باغ کے ارد گرد ایک چکر لگانا چاہتا تھا اور میری مسز یہاں کے پھل چکھناچاہتی تھیں۔ لیکن راستے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں اور عابد یہاں سے جلدی نکلنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں صرف ایک گھنٹہ  گزارنے کے بعدہم گاڑی میں بیٹھ کر اپنی نئی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔









No comments:

Post a Comment