Sunday, September 30, 2018

علی میر کی مکمل کہانی



علی میر۔۔۔۔۔ایک بلتی کہانی                                                               وارث اقبال

گلگت  بلتستان کے مضافات سے گزرتے ہوئے مجھے ایک بلتی لوک داستان ملی جو یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
 چودھویں کا چاند  مٹھیاں بھر بھر کر اپنی  تابانیاں زمین پر  بکھیر رہا تھا۔  رگیلمو کھر اوررگیلفو کھر نام کے دو جڑواں محلات کے باہر   چربی کے تیل سے روشن مشعلوں نے  ایسی روشنی پھیلارکھی تھی کہ   چہرے کے مسام  تک  دکھتے تھے۔ دوسری طرف محلات کے جھروکوں سے نکلنے والی روشنی پھلجھڑیوں کی ماننددور تک اُجالے بکھیر تی  تھی۔بلتی لباس میں ملبوس ایک ہجوم آپس کی خوش گپیوں میں مشغول تھا۔ یہ ہجوم گلگت بلتستان کے  دوردراز علاقوں سے یہاں سنونپو ہلتانمو کے تہوار میں شرکت کے لئے جمع ہوا تھا۔
 کچھ ہی دیر پہلے  پولو کے مقابلےختم  ہوئے تھے۔  ایک محل کے مخصوص حصےکے جھرکوں اور چھتوں پر  کمخواب واِطلس کے لباس میں ملبوس شہزادیا ں اور رؤسا کی خواتین حشر برپاکرتی تھیں۔مشعلوں کی روشنی میں ان کے گال انگاروں کی ماننددھکتے تھے۔دل والوں کے سر ناچاہتے ہوئے بھی ان جھرکوں کی طرف اُٹھ جاتے۔
  ریاستوں کے رؤسا اور شرفا  کی ایک بڑی تعداد اپنے راجہ کے ساتھ  علی میر کےرقص  کا انتظار کر رہے تھے۔ علی میر کوئی عام راص نہیں تھی ۔۔۔ اُ سکے بدن میں تو گویا بجلیاں بھری تھیں۔۔۔۔جب وہ رقص کرتا تو مرد و زن اپنا دل تھام لیتے تھے۔  علی میر کے رقص کے بغیر یہ تہوار نامکمل تھا اور جسے دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے  یوں چلے آتے تھے جیسے چیونٹیاں شیرینی پر چلی آتی ہیں۔
علی  میر بلتی لباس زیب تن کئے،  سر پر بلتی ٹوپی سجائے، ایک شان اور آن کے ساتھ اس جوش اور ولولے کے ساتھ پنڈال میں داخل ہوا کہ بس کچھ ہی دیر میں اپنے فن سےبرف میں  آ گ لگا دے گا۔۔ سازندے اپنے ساز سیدھے کر کے بیٹھ گئے۔  اُس نے آتے ہی اپنے راجاؤں کی شان میں  قصیدے پیش کئے اور پھر رقص شروع ہوا۔ جوں جوں وقت بیتتا جاتا تھا اُس کے رقص میں بے قراری اور مستی بڑھتی جا تی تھی ۔ اُس کا انگ انگ ماہی بے آب  کی طرح تڑپ رہا تھا ۔ جھروکوں کی طرف سے آنے والی روشنی جب اُس کے گالوں پر پڑتی تو وہ دھکتے انگارے بن جاتے۔ جب وہ محلوں کے جھروکوں  کی طرف دیکھتا تو اُس کی مستی بڑھ جاتی اور پھر وہ  کوئی دیومالائی کردار بن جاتا۔ انسان میں اس طرح کی دیوانگی  اور جنون اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ کسی خاص منزل کاتعین کر بیٹھتا ہے۔ اور اُسے پانے کے لئے  تڑپتا جھرنا بن جاتا ہے۔ کسی گلشئیر کی طرح وہ خاموش بھی ہوتا ہے مگر اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ چلتی رہتی ہے۔۔۔ کسی گلیشئیر کی طرح۔ علی میر کی منزل  ان خوابیدہ جھرکوں میں سےایک  میں موجود تھی۔ اُس کی منگیتر، اُس کا عشق، اُس کی دیوانگی اور اُس کا جنون۔۔۔۔نمبردار کی بیٹی شاہ بخت۔ اُ س  کی تڑپ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج تقریب کے بعد خاندان کے بزرگوں کا اجتماع  بھی تھاجس میں  علی میر کی شادی کے دن طےہونا تھے۔
پھر ایک مرمریں شام میں جب سورج  دریا کنارے اپنی آخری منزلیں طے کرچکا، جب ستارے کہکشاں کے قافلے میں اکٹھے ہوکر زیست کے فسانے سنانے لگے۔۔۔۔۔ جب چاند اپنی رعنائیاں لے کر نیلے گگن کے کسی کونے سے اس طرح اُبھرا کہ اُس کے وجود کا کوئی گوشہ چھپانہ رہا تو  دو اجنبی بدن ایک ہو گئے۔برسوں کی تڑپ اور جدائی قرار میں بدلی اور  وادئ حراموش کا جھرنا بن کر بہنے لگی۔ دیوسائی کے کومل گھاس جیسی لگن۔۔۔۔۔۔ ہیسپر اور بلتورا کی چوٹیوں جیسی مضبوط اور توانا ہوگئی۔
دو دلوں کے ملن کے بعد  چاہئے  تو یہ تھا کہ دونوں کے دن عید اور رات شبِ برات ہوتے۔۔ہر گزرتے پل کے ساتھ یہ محبت پربتوں جیسی مضبوطی اختیار کرتی جاتی۔ مگر رنجیدگی اور فکر شاہ بخت کو  شب و روز  گھن کی طرح کھا نے لگی۔ لوگوں کی باتوں کی باز گشت جب  اُ سکے کانوں کی لووں کو چھوتی تو اس کا دل زخمی ہرنی کی طرح اپنی رفتار چھوڑ کر علی میر کی بانہوں میں پناہ لے لیتا مگر لوگوں کے جملے اُسے اس پناہ گاہ میں بھی چین نہ لینے دیتے۔
’’ اپنے نکھٹو میاں کو سمجھایا کر کب  تک دوسروں کی بھیک میں ملے ٹکڑوں پر جئے گا۔ کوئی کام کاج کرے۔‘‘
’’ تو کب تک اس نکھٹو کے ساتھ گزارا کرے گی۔ تہواروں کے رقص سے کمائے دھان سے کیسے گزارا ہوتا ہے۔‘‘
 اس طرح کے  سینکڑوں جملےبرفانی آندھیوں کی طرح اُس کے ملول دل میں بسی حرارت اور تپش کو گلیشئیر میں بدلتے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ خاموش بت بنتی جاتی تھی۔۔۔۔محبت کی دیوی افروڈائیٹ کا بت۔
 جب سے وہ پیٹ سے ہوئی  تھی تب سے وہ زیادہ فکر مند رہنے لگی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی دن دل کی بھڑاس کی جھیل  میر علی کے سامنے خالی کر دےمگر ہمیشہ اُس کی کم ہمتی کا حجاب سامنے آ جاتا اور  یہ جھیل دلدل بنتی جاتی۔ دوسری طرف علی بھی یہ سمجھ کر اندر ہی اندر کڑھنے لگا ۔ اپنی بیوی کی خاموشی کو وہ اپنی ناکامی سے تعبیر کرنے لگاکہ وہ بیوی کی محبت پانے میں ناکام رہا ہے۔ جسے وہ محبت سمجھتا تھا وہ بس ایک خواب تھا۔۔۔۔۔اک سراب تھا ۔ اُس کی محبت کا جھرنا ایسا جھرنا تھا جس میں محبت کی اک بوند بھی پانی نہ تھا۔ اُس کی محبت کا چاند چودہویں سے پہلے ہی گہنایا گیا تھا۔ اُس کے عشق کا پیڑ ایسا بدنصیب پیڑ تھا جس پر شاہ بخت کی محبت کا ایک پرندہ بھی نہ بیٹھا تھا۔
موسم سرما شروع ہونے والا تھا۔ علی لکڑیاں جمع کر رہا تھا۔مگر اُس کے اندر ایک کشمکش جاری تھی ۔ بس آج فیصلہ کر ہی لینا ہے میں کب تک یونہی کڑھتا رہوں گا۔ سوکھی لکڑیوں کی طرح سلگھتا رہوں گا۔
 شام کو جب وہ گھر لوٹا تو  شاہ بخت چولہے میں گیلی لکڑیاں جلانے کی کوشش میں آنکھیں سُجائے بیٹھی تھی پانی سے بھری لکڑیوں کو جلانے کے لئے پھونکیں مار مار کر اُس کی سانسیں دلدلی ہو چکی تھیں ۔چولہے کی بجھی راکھ نے اُس کے گلابوں جیسے گالوں پر پڑاؤ کر لیا تھا۔ اُس کی زلفیں کسی دیوانے کے خواب کی طرح پریشان تھیں۔۔۔ہاتھوں پر لگا آٹا بھی سرمئی رنگ اختیار کر گیا تھا۔
 علی میر ہاتھ منہ دھو کر ننگی چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھ گیا۔شاہ بخت نے کھانے کا تھال اُس کے سامنے رکھا اور  اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ علی میر نے  اُس کی بے کاجل آنکھوں کو دیکھا۔۔۔پھر اُس کی نگاہیں شاہ بخت کی آٹا لگیں انگلیوں پر ٹہر گئیں۔جو روٹی کے ایک ٹکڑے کو لقمہ بنانے کا جتن کر رہی تھیں۔پھر اچانک اُس نے اپنی لانبی سیاہ پلکیں وا کیں اور اوپر  منہ کر کے علی کی طرف دیکھا اور جھکا لیں۔۔وہ بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں۔۔۔۔لیکن رشتے کے تقدس یا محبت کے بھرم کا کاجل راہ میں حائل تھا۔ جب زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں  تو آنکھیں دل کا حال کہتی ہیں، جب آنکھیں بولنا بند کر دیں تو محبت کرنے والوں کے درمیان شک کی دیواریں بلند ہوجاتی ہیں۔  لیکن ان اٹھی پلکوں نے میر علی کو حوصلہ دیا اور اُس کے لبوں سے ایک جملہ بہت مشکل سے ادا ہوا۔
’’ بختو! مجھے پتہ ہے تم خوش نہیں ہو۔۔ نہ پہلے خوش تھی۔ نہ اب۔‘‘
شاہ بخت نے  ’’ ہوں ‘‘ کہا اور  ٹھنڈی آگ میں پکی اکڑی روٹی کا لقمہ  چبانے میں مصروف رہی۔
شاہ بخت کی ہوں نے اگلی گفتگو کی راہ ہموار کر دی۔اُس نے  ایک لقمے میں لوبیے کی دال کے چند دانے لپیٹتے  ہوئے کہا۔
’’بختو! مجھے معاف کرنا۔۔میں سمجھتا رہا  کہ تم مجھ سے بہت پیار کرتی ہو۔۔۔۔‘‘
شاہ بخت کی پلکیں اٹھیں اور اُس کی آنکھوں نے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔۔۔یہ آج کس طرح بات کر رہا ہے۔۔ اُ سکی پلکیں جھکیں اور جھکی پلکوں کے پیچھے چھپے ڈھیروں پانی نے اُسے بہت کچھ اور سننے کے لئے تیار کیا۔
’’ تمہیں مجھ سے محبت تھی ہی نہیں بختو ۔ تم نے اپنے بزرگوں کے کہنے پر مجھ سے شادی کی۔ مجبوری میں ۔۔۔ اگر تم چاہو تو اب بھی۔۔۔‘‘
’’ خبردار اگر ایک جملہ بھی منہ سے نکالا۔میرے بزرگ اتنے ظالم نہیں  کہ میری مرضی کے بغیر مجھے تم سے بیاہ دیتے۔۔۔۔ تم سے محبت تھی تو  یہاں پہنچی ہوں۔۔میں جیتا جاگتا وجود ہوں کوئی زندہ لاش نہیں  جسے گھر والے جہاں چاہتے رکھ دیتے۔۔۔۔۔میری محبت پر شک نہ کیا کر میر‘‘
آنکھوں میں چھپا پانی اُس کی گالوں پر آ ٹہرا۔۔۔۔۔میری محبت پر شک نہ کیاکر میر۔ اُس کے اس جملے میں اک گداز، معصوم اور کومل سی التجا تھی۔ایسی التجائیں پتھر دلوں کو بھی موم کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔اس کی کوملتا اور گدا زالتجا نے جب علی کے دل کو چھوا تو وہ خاموش ہوگیا۔
 پھر اُس نے علی میر کے بازو کو کوپیار سے دباتے ہوئے کہا ۔
’’ دیکھ ایسی فضول باتیں مت سوچا کر۔۔۔‘‘
علی لقمے منہ میں ڈالتا تھا  مگر وہ باہر کو آتے تھے۔ شاہ بخت کی باتوں نے اُ س کے اندر  کے کہرے کو اور گہرا کر دیا تھا۔ اس کے اندر کا کرب اس کہرے میں گم ہونے کی بجائے اُبلنے لگا تھا۔
’’ پھر تیری رنجیدگی کی وجہ کیا ہے۔۔۔ تُوخزاں کی ندی  کی طرح اُداس  کیوں رہتی ہے۔۔۔۔ تُو نے چپکے  چپکے اندر ہی اندر کون سا دکھ پال لیا ہے۔ چیری  کے باغ سے چیری کون چرا لے گیا ہے۔‘‘ 
میر علی نے  لقمے کی مدد سے ترکاری کا گھی  پیالی کے عین کونے تک لاتے ہوئے کہا۔
’’ کچھ بھی نہیں ہے میر۔۔۔۔ بس تیرا وہم ہے۔۔۔‘‘
شاہ بخت نے اپنے ماتھے  پر گری ایک لٹ کو دوپٹے میں چھپاتے ہوئے کہا۔
’’  نہیں کچھ ہے ۔۔۔ پھول پر اوس پڑی صاف دکھتی ہے۔۔ چاند کا گہن کس کو دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ کچھ تو ہے  جو تُواتنی اُداس رہتی ہو۔۔ کوئی پچھلا پیار۔۔۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ میر علی جملہ مکمل کرتا شاہ بخت نے  اپنا ہاتھ اُس کے منہ پر رکھ دیا۔۔ ہاتھوں پر لگے تازہ آٹے اور بجھی راکھ کی خوشبو میر کے اندر ُاتر کر بیٹھ گئی۔
’’ دیکھ میر!  تُو مجھے آدھی روٹی بھی دے گا تو میں کھا لوں گی۔۔۔ گہنوں اور کپڑوں کی تو  با ت ہی نہیں۔۔۔۔۔۔تیرا پیار ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔  مگر میں کیا کروں ۔۔۔ میں کان بند کرتی بھی ہوں تو کوئی نہ کوئی بات میرے کان میں پڑ جاتی ہے۔۔۔ میرے جُسے کے اندر آگ لگ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
اُس نے اپنا سر علی میر کے کندھے پر رکھ دیا تھا۔ شاہ بخت کی باتوں نے میر کے اندر تک کو اُلجھا دیا تھا جانے کتنے جھرنے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
’’ مجھے مار دو گی۔۔۔۔مجھ سے کیا گناہ ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے کس کو کیا کہہ دیا ہے۔  تم مجھے صاف صاف  کیوں نہیں بتاتی۔‘‘
’’ دیکھ میرے۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ پیار سے میر کو میرے کہہ کر بلاتی تھی۔
’’۔۔۔ مجھ سے لوگوں کی باتیں سنی نہیں جاتیں۔ جب کوئی تمہیں نکھٹو کہتا ہے تو مجھے لگتا ہے جیسے کسی نے میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا ہو۔۔۔ جیسے  کسی نے میرے دماغ پر لوہے کے تالے لگا  دئیے ہوں۔۔۔۔جیسے کسی نے میری روح کوپوٹلی بنا کر چیلوں کے سامنے ڈال دیا ہو۔۔‘‘
علی میر  نے اُس کےہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔۔۔آنکھوں سے دو موٹے موٹے  قطرے بارش کے پہلے قطروں کی طرح شاہ بخت کے ہاتھ کی چھت پر گرے پھر ساری چھت پانی سے بھر گئی۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ اُٹھا اور پانی سے کُلی کرنےکے بعد بولا ۔۔
’’ کل سے تمہیں کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا۔‘‘
پھر کسی نے علی میر کو وہاں نہ دیکھا ۔ اُس نے لداخ جاکر پیغام بھیجا کہ  وہ بہت سا دھن دولت لے کر لوٹے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نگر نگر پھرتا رہا۔۔۔ کبھی خود کام کرتا ،کبھی کسی کے ساتھ کام کرواتا۔۔۔اُس پر بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ اپنے گاؤں میں اپنا کاروبار کرنے کے لئے پیسے جمع کرنے ہیں۔۔۔۔مال و اسباب اکٹھا کرنا ہے۔۔۔۔۔
 شاہ بخت  اُس کی جدائی  کے سنگلاخ پہاڑوں پر ننگے پاؤں تڑپتی،بلکتی پھرتی تھی۔وہ اُس لمحے کو کوستی تھی جب اُس نے اُسے لوگوں کی باتیں بتائی تھیں۔۔۔۔۔۔ وہ تڑپتی رہی ۔۔۔ ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح کُرلاتی رہی۔۔۔۔ وہ ڈھلتے سورج کی کرنوں کی طرح ماند پڑ گئی تھی۔وہ ایسے پیڑ کی طرح دن بدن سوکھتی جاتی تھی جسےدیمک چاٹ رہی ہو۔
کئی سال بیت گئے ۔ ایک شام میر علی بہت سے کپڑے، پیسے اور دھان اکٹھا کرکے اپنے سہانے کل کے سپنوں کی پوٹلی سینے میں بسائے اپنے گاؤں کے راستے پر گامزن تھا۔ واپس جانے کا فیصلہ کر کے وہ دیوسائی کے پھولوں کی طرح کھل رہا تھا۔وہ خپلو کے جھرنوں کی طرح اپنی ہی ترنگ میں بہے جاتا تھا۔اُس کے من میں آسمان کے سارے ستارے اُتر آئے تھے۔
’’ اب میں نے اتنا کچھ اکٹھا کر لیا ہے کہ  گھر جا کر اپنے گاؤں میں کاروبار کروں گا۔۔ پھر لوگ  مجھے نکھٹو نہیں سیٹھ کہا کریں گے۔ اب شاہ بخت کے انار جیسے گالوں پر ملال کی زردی نام تک کو نہ گی۔  خوش رہا کرے گی۔ وہ ہمیشہ گلاب کی طرح کھلتی رہے گی، کنول کی طرح مسکراتی رہے گی ‘‘
 اُس نے اپنے آنے کا سندیسہ بھی  گھر بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف  شاہ بخت اُس دن کا  انتظار کر رہی تھی جب    اُس کا چاند دریا کے پار سے نمودار ہوگا۔ اُس نے اپنے شہزادے کے استقبال کی خوب تیاریاں کی تھیں۔۔۔۔ گھر بار کو صاف کیا تھا۔۔۔  درو دیوار  پرروغن کیا تھا۔۔۔ خوشبودار بوٹیاں جمع کی تھیں۔اور اپنے محبوب کے راستے میں پلیں پچھانے کے لئے تیار بیٹھ گئی۔ قافلوںکی گھنٹیوں کی آوازیں جونہی اُس کے کانوں میں پہنچتیں تو  وہ ننگے پاؤں بھاگتی اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اپنے میر کو قافلوں میں تلاش کرتی۔
شاہ بخت کا میر نکھٹو ہی بھلا تھا۔پاس تو تھاناں۔ وہ روز گیلی لکڑیوں کے دھوئیں میں اپنے محبوب کے چہرے پر پھیلی  لالیاں تو دیکھ سکتی تھی۔   چولہے میں جب  جلتی آگ کے قریب بیٹھ کر جب وہ اپنے سرد ہاتھ تاپتا تھاتوآگ کی روشنی میں  علی میر کے چہرے پر کئی رنگ پھیل جاتے تھے۔ایسے میں وہ علی میر سے کہتی۔۔’’ میر آئینہ دیکھ۔۔تیرے چہرے پر قوس قزاح اتر آئی ہے۔۔‘‘ وہ شرما جاتا اور اُس کاہاتھ تھام کرسونے کا  کنگن  اُس کی کلائی میں گھماتا تو اُس کے بدن میں ایک پُر مسرت سنسنی پھیل جاتی۔ اُس کے ہاتھوں کے کنگن آج بھی  علی میر کے ہاتھوں کے لمس کے منتظر تھے۔ وہ  چولہے پہ  اکیلی بیٹھی  خیالوں میں علی کے تھال میں روٹی کے لقمے رکھتی تھی۔
قدرت کو شاہ بخت کی پوجا شاید پسند نہ آئی  کہ لداخ سے واپسی پر سپنوں کے بوجھ سے لدے علی میر کا پاؤں ایک گلشئیر سے گذرتے ہوئے  ایسا  پھسلا کہ  وہ منوں برف کے نیچے دب گیا۔ شاہ بخت کا چاند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔ غم کے پہاڑنے چند لمحوں میں اُس کے پیار کی بستی کو روند ڈالاتھا۔
غم کے دریا میں ڈوبی شاہ بخت  اپنے ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکی ۔۔۔اپنے پیا کی جدائی برداشت نہ کر پائی  اوردیوانی ہو کر  گلشئیرز کی طرف نکل گئی۔۔
’’ واپس آجاؤ میر میں تمہیں کبھی بھی نکھٹو نہیں کہوں گی۔میں لوگوں کی باتیں اور لوگوں کے طعنوں کو آگ لگا دوں گی۔مجھے کچھ نہیں چاہئے بس تم واپس آ جاؤ۔‘‘
 کہتے ہیں کہ شاہ بخت کی روح آج بھی  برفوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔
’’ علی میر کی موت اور اس کی بیوی کی فریاد اب داستان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج بھی بلتستان اور لداخ میں علی میر کے نام سے یہ رگیانگ خلو بہت مشہور ہے۔اُن کی محبت بھری داستان آج بھی رگیانگ خلو کی شکل میں زبان زدِ عام ہے،پہاڑوں میں آج بھی اُن دونوں کی ہنسی گونجتی ہے،پہاڑ اور آبشاریں آج بھی اُن دونوں کی محبت کے امین ہیں،گلیشئیرز آج بھی انہیں یاد کر کے سسکیاں بھرتے ہیں اور قطرہ قطرہ پگھلتے ہیں،پرندے آج بھی ان کے پیار کے نغمے گاتے ہیں!شاید پرندے بھی یہی کہتے ہونگے کہ۔۔۔  ہاں!! ہم گواہ ہیں اُن کے محبت کے ،خلوص کے اور ان کی عشق کے۔
یہ داستان میں نے درجِ ذیل ویب سائیٹ سے لی جس کے مصنف زاہد بلتی ستروغی یتو ہیں۔ میں  نےاُسے اپنے انداز میں مرتب کیا ہے۔
ماخوز از https://urdu.pamirtimes.net/2017/08/29/alimir/

No comments:

Post a Comment