صدائے سیف الملوک وارث
اقبال
|
نانی کی کتابوں
میں میاں محمد بخش
کی لکھی ہوئی ایک کہانی ’ سفر العشق‘
بھی تھی ۔ عرف عام میں جسے’سیف
الملوک ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نانی اماں کو اس کتاب
کا کافی حصہ زبانی یاد تھا۔ مجھے ان کا سنا ہوا
کافی عرصے تک یاد رہا مگر آہستہ آہستہ
ذہن کی دہلیز سے نکل کر کہیں گم ہو
گیاالبتہ کچھ آثار چھوڑ گیا ۔ جن میں یہ
شعر بھی شامل تھے۔
دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے
ویلے
اس بے فیضی سنگی نالوں بہتر یار اکیلے
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس
کاری
یار ملن دکھ جان ہزارہں شکر کراں لکھ
واری
ترجمہ: دنیا
میں جو دکھ سکھ میں کام نہ آئے، اس بے
فیضی دوست سے بہتر ہے کہ ہم اکیلے ہی رہیں۔
دوستوں کے بغیر باغ بہار اور گلزار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یار مل جائے تو دکھ درد دور ہوجاتے ہیں اور میں
ہزارہا شکر اداکرتا ہوں۔
میرے لئے اس کہانی میں دو باتیں باعث کشش تھیں کہ سیف
الملوک نے ملکہ خاتون کو اپنی جان پر کھیل کر ایک زور آور جن کی قید سے نجات دلائی
تھی۔
دوسری وجہ کشش تھی جھیل سیف الملوک۔ جس پر پریاں اترتی ہیں۔
زندگی خود سکھاتی ہے اور خود ہی رہناماں جی کرتی ہے۔
جوں جوں زندگی کا پودا پھلتا پھولتا گیا۔ جھیل سیف الملوک کے بارے میں معلومات اور
کہانیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں ہمارے
اندرجھیل سیف الملوک ہی نہیں اُس پر اُترنے والی پریوں کو دیکھنے کا مقصد بھی
تقویت پکڑتا چلاگیا۔ جب بھی کوئی دوست یا آشنا جھیل سیف الملوک کی سیر کر کے آتا
تو میں اُس سے اس جھیل سے متعلق کہانیاں اور باتیں
ضرور سنتا تھا۔ یوں میرے دماغ کی تجوری میں جھیل سیف الملوک کی شبیہوں کا ایک خزانہ جمع ہو گیا۔ خزانہ موجود ہو تو صاحبِ خزانہ کیسے
پرسکون رہ سکتا ہے، اُسے کیسےقرارنصیب ہو
سکتا ہے۔ یہ خزانہ خود تازیانہ بن گیا
اور میرے شوق کا گھوڑا آگے بڑھتا چلا گیا لیکن افسوس منزل نصیب نہ ہوئی۔ جھیل سیف الملوک کی پریوں سے ملاقات تو دور
کی بات تھی وہاں جانےکا خواب تک حقیقت نہ بن سکا۔ کبھی تعلیمی مصروفیات، کبھی
روزگارِ حیات، کبھی صحت اور کبھی کوئی اور مسئلہ میرے اس خواب کی تعبیر کے راستے
میں رکاوٹ بنتا رہا۔ بہر حال یہ بھی
حقیقت ہے کہ شوق، جذبہ اورولولہ موجودہو تو اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ جب چاہت
حیات کے پیمانہ پر ایک خاص نقطہ عبور کرتی ہے تو خواہش، چاہت یا خیال وجود کی شکل
اختیار کر لیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی شائید یہی کچھ ہوا۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کے
ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ ا س سال ہم موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جھیل سیف الملوک
ضرور جائیں گے۔ بس پھر کیا تھا حالات بنتے چلےگئے اور وہ دن آ ہی گیاجس دن ہم اپنی
گاڑی پر اسبابِ ضروری لاد کر گھر سے نکل پڑے۔ منزل تھی جھیل سیف الملوک اور اس کے
اردگرد پریوں کی تلاش۔ پھر قدم جھیل سیف الملوک تک نہ رکے آگے بڑھتے گئے۔ کبھی
دریائے سندھ کے دشوار راستوں پر، کبھی کشمیر کی وادیوں میں کبھی ہنزہ اور گلگت کے
دریاؤں پر اور کبھی دیوسائی کے میدانوں میں۔ ہر پری نئی منزلوں کا پتہ دیتی رہی
اور ہمارا سفر ختم نہ ہوا ، اب تک جاری ہے۔
______________________
سڑکوں
کی شہزادی وارث اقبال
|
جماعت ہشتم میں
میرا ایک دوست اشتیاق ہوا کرتا تھا۔ ایسا
پیارا کہ اُسے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ
بھی ملنے کا اشتیاق ہوتا۔ سر تا پا پورے
کا پورا سرخ و سفید اور گلابی کشمیری۔
اللہ اُسے زندگی دے، اُس کے ابا کا موٹر سائیکلوں کا شو
روم تھا۔ جب بھی ان کے شوروم میں کوئی نئی
گاڑی آتی تو وہ ہمیں گاڑی کے اوصافِ حمیدہ
اس طرح بتاتا تھا کہ ہم اُس گاڑی کو آسمانی گاڑی سمجھ لیتے۔
”کل
میں نے اسپورٹس چلائی،کیا شہزادی گاڑی ہے۔ کل میں نے نسان چلائی کیا شہزادی گاڑی
ہے۔“
اشتیاق گاڑی
چلاتا تھا یا نہیں و اللہ عالم لیکن وہ
ہمیں اُس سانپ دکھانے والے کی طرح الجھا ضرور دیا
کرتاتھا۔ جو سانپ کا تماشا دکھاتے ہوئے ہر پانچ منٹ بعد لو گوں کویہ نوید
سناتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمیں سنہری سانپ کی دید کا موقع ملے گا۔ اس دوران وہ
اپنی ادویات کے فائدے گنواتا رہتا۔
اُس وقت ہمیں ان ادویات کی اہمیت و افادیت کا کچھ خاص اندازہ نہ ہوتا تاہم
بہت سے سوالات ہمارے دماغ میں کھلبلی مچاتے رہتے جن کے ہمیں جواب نہیں ملتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اب جا کر جب اُن سوالات کے جوابات ملے تووہ سانپ والا نہیں ملتا۔ پتہ نہیں بڑی بڑی
سڑکیں اُسے کھا گئیں یا پھر وہ ٹیکنالوجی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اشتیا ق سچ کہتا تھا یا جھوٹ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اُس نے ہمیں خیالوں ہی خیالوں میں
گاڑی چلانا سکھا دیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں پریوں اورشہزادیوں کو
دیکھنے کے شوق کاٹیکا بھی لگا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے پہلے سال ہی ہمیں
اپنے انگریزی کے سر سے یہ لیکچر سننے کو ملا۔
” ان شہزادیوں کے پیچھے مت بھاگاکرواپنے آپ
کو اس قابل بنا لو کہ یہ خود تمہارے پیچھے آئیں۔“
سر
نے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا لیکن نہ ہم کسی قابل ہوئے نہ شہزادیاں ہمارے پیچھے
آئیں۔
میں جب بھی موٹر وے پر پہنچتا ہوں تو مجھے اشتیاق ضرور
یاد آجاتا ہے۔ اس سڑک پر آ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے،
”واہ!کیا شہزادی سڑک ہے۔“
اس شہزادی سڑک پر آ کر اشتیاق کے علاوہ
مجھے دو اور شخص یاد آتے ہیں، ایک
ہمارے مہربان نواز شریف صاحب اور دوسرا
شیرشاہ سُوری۔ کہاجاتا ہے کہ
شیرشاہ سُوری نے جب جی ٹی روڈ بنائی تو سب سے پہلے اُسے محفوظ بنانے کے انتظامات کئے، پھراُس نے
مسافروں کے لئے جائے قیام و طعام وغیرہ کو ممکن بنایا۔ یہی خصوصیات ہمیں موٹر وے میں ملتی ہیں۔ مجھے
وہ بڑھیا بھی یاد آتی جو زیورات کی گٹھڑی
لے کر ہند کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک
سفر کرتی اور کوئی اُ س کی طرف آنکھ تک
اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ نہ اب وہ بڑھیا
رہی نہ زیورات کی گٹھڑی۔ہاں ہیں تو
تجوریاں ۔۔وہ بھی یہاں نہیں دیارِ غیر کے
بنکوں میں ۔
جب گاڑی کے ٹائر اپنی اس میزبان سڑک کے لبوں کو چومتے ہیں تومسافر کو تحفظ، امن،
قانون کی حکمرانی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سے اطمینان کابھی احساس ہونے
لگتاہے۔ مجھ جیسوں کو یہ احساس کچھ
زیادہ ہی ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ استعمال کی سڑکوں سے اُکتائے اور بیزار ہوتے ہیں۔
چلیں پورے ملک تک نہ سہی موٹر وے کی حد تک
سہی۔ کہیں تو سکون ، امن اور تحفظ ہے۔
بقول
محترم نواز شریف موٹر وے اُ س جی ٹی روڑ پر بنائی گئی ہے جو شیر شاہ سور ی نے
بنوائی تھی۔
(’ غدار کون ‘ از سہیل وڑائچ)
گویا کہ ایک بے حال موٹر وے کو بحال کیا گیا ہے۔ میری
تحقیق بھی یہی کہتی ہے کہ اصل ’ گرینڈ
ٹرنک روڈ ‘ یہیں کہیں تھی۔ جہاں اب موجودہ موٹر وے ہے۔ اندرون ملک
سڑکوں اور گلیوں کاڈسا جب اس سڑک پر آتا ہے تو اُسے کچھ دیر کے لئے یقین ہی نہیں
ہوتا کہ وہ اپنے وطنِ عزیز کی سرزمین ِ پاک پر موجود ہے۔ دراصل اُسے پاکستان میں رہتے ہوئے کسی بین
الاقوامی معیار کے حامل اور کرپشن فری ادارے کا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ جب تجربہ ہوتا ہے تو یقین بھی آجاتا ہے اور جب یقین آتا ہے تو پھر
واہ واہ کر اُٹھتا ہے،
” واہ کیا پاکستانی ہیں۔۔۔۔ چاہیں تو کیمیائی
مود ملا کر دودھ بڑھا لیں اور چاہیں تو سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کرموٹر وے
بنادیں۔“
جہاں تک اس سڑک پر آنے والے مسافروں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر تو شانِ
قدرت یاد آجاتی ہے۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی قانون کی پاسدار ی نہ کی ہو وہ
بھی یہاں آ کر ایساپاسدارِ قانون بن جاتا ہے جیسے ابھی دودھ سے دُھل کر آیا
ہو۔
میں تو خواب دیکھنے والا شخص ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے کہ
مالک ِ کائنات اس پاک دھرتی پر کسی ایسے ماں کے لعل کو اختیار کُل کا مالک
بنادے کہ جو یا تو اس دھرتی پر بسنے والے ہر فرد کو گاڑی دے دے یا پھرگاڑیوں پر پابندی لگا دے۔ اور موٹر وے پر تو بس سائیکل کو ہی آنے کی
اجازت ہو۔ کیسے کیسے سائیکل وجود میں آئیں ۔
بتیاں اشارے، ہارن سب صحت مند اور اعلیٰ تہذیب یافتہ۔ سائیکل سوار ہیلمنٹ
پہنے پیٹی کسے سائیکل پر بیٹھا ہو۔ شہروں
میں وہ لوگ جو سائیکل کی استطاعت نہ رکھتے ہوں لیکن سائیکل کی سواری کےخواہش مند ہوں ایک خصوصی ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے
سائیکل ٹیکسی منگوائیں اور مزے اُڑائیں۔ نہ دھواں نہ دھول، نہ غلاظت نہ شور۔ ہاں
قانون کے رکھوالے پھر بھی چالان کرتے نظر آئیں گے۔ کسی کی سائیکل کا سب کچھ ٹھیک
ہے تو چین ڈھیلی کیوں ہے؟ اور نہیں تو پیچھے بیٹھی بیگم کو ہیلمنٹ کیوں نہیں
پہنایا۔ اورشاید سائیکل پرورحکمران سائیکل ہوتا ہے یا ہوتی کا لسانی مسئلہ بھی حل کر دے۔
میں
سڑک پر نظریں جمائے اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ لگتا تھا جیسے ہماری گاڑی
سلیٹی رنگ کے ایک دریا میں تیرتی جارہی تھی۔ اس دریا کے کناروں پر اُگے ہوئے درخت ہر
ساعت ایک نیا رنگ اور نیا روپ اختیار کر
رہے تھے ۔ کھیت ہر موڑ پر نیا لباس زیبِ تن کررہے تھے۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سٹرک کی لمبائی چھ
سو انہتر کلو میٹر ہے اور یہ ایشیا کی پہلی موٹر وے ہے۔ اس سڑک کو ایک اعزاز یہ
بھی حاصل ہے کہ اس میں کچھ ایسے خطرناک نقص ہیں جنہیں پوری دنیا کے انجینئرز ٹھیک
نہیں کرپائے لیکن داد طلب ہیں پاکستانی
انجینئرز جنہوں نے اس سڑک کو بے خطر بنارکھاہے۔ اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی
ہے کہ ہنگامی حالات میں اسے جنگجو طیاروں کے رن وے کے طور پر بھی استعمال کیا جا
سکتا ہے۔
______________________
چپس
کی چر چر وارث
اقبال
|
میرے دو عدد برخورداروں، شاہ زیب اور زین نے حسبِ عادت
ٹول پلازہ عبور کرتے ہی اپنی پسند کا میوزک
’ آن ‘ کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے شک ہونے لگا کہ انہوں نے
اس دفعہ بھی ہم میاں بیوی
کےساتھ ہاتھ کر
دیا ہے۔ میوزک کی تیاری کا کام اپنے ذمہ لے کر
’ یو ایس پی ڈرائیو ‘ میں اپنی
پسند کا سارا میوزک بھر رکھا ہے۔
اس ناانصافی کے باوجود نا جانے کیوں
مجھے یقین تھا کہ انہوں نے ہمارا حصہ ضرور رکھا ہوگا چاہے آٹے میں نمک کے برابر ہی
کیوں نہ ہو۔ جس ملک میں انصاف نا م کی
شے دیکھنے کو نہ ملے وہاں اگر بچوں کے
ہاتھوں آٹے میں نمک کے برابر ہی انصاف مل جائے تو شکر الحمداللہ۔ اس لئیے
میں اُس لمحے کا انتظار کرنے لگا جب آٹے
میں سے نمک برآمد ہو گا۔ لیکن ہمیشہ کی
طرح مجھے اُس لمحے کا بس انتظار ہی رہا۔ بھلا کبھی آٹے کے نشیمن میں جا کر نمک واپس لوٹاہے کیا جو اس دفعہ لوٹ آتا۔ چنانچہ میں بے میوزک ہی
سڑک کے کنارے درختوں کے بدلتے رنگوں کی ہیت اور ترتیب پر غور کرتا رہا۔
موٹر وے کے ارد گرد بسے دیہات، اُن
کے گھر، گھروں میں بندھے جانور، جانوروں کی گردنوں میں لٹکے لوہے کے زیورات، گھروں
کے باہر پھیلے سر سبز کھیت اور ان کی شادابی سب کسی جادوگر کی طرح مسافر کو اپنے سحر میں قید
کر لیتے ہیں۔ یوں موٹر وے ایک ایسی میزبان
سڑک کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے جو
اپنے رنگ بدل بدل کر اپنے مہمان کو
اُکتاہٹ اور بیزاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہ چلتے چلتے کہیں سے اونچی ہو جاتی ہے تو کہیں
سے نیچی، کہیں سے چھوٹی سڑکوں پر چڑھائی کرتی ہے تو کہیں نہروں دریاؤں کو مسخر کرتی ہے، کہیں ٹہرے پانی
کی طرح ہو جاتی ہے تو کہیں بپھرے دریا کی طرح چھلانگیں لگا محسوس ہوتی ہے۔ اگر اس کا مہمان ذرا سی بھی جمالیاتی حسں
رکھتا ہو تو وہ اپنے دماغ کو اس سڑک کے ارد گرد بدلتے رنگوں اور مناظر سے ترو تازہ
کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میری
مسز فیس بک پر مصروف تھیں۔ آج انہوں نے فیس بک کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑنے کا
تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنے اُن اُن دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی پوسٹس بھیج رہی
تھیں جنہیں انہوں نے ہمیشہ اپنی پوسٹس سے
محروم رکھا تھا۔
ہماری گاڑی میں پانچویں سوار تھے عابد جنہیں
گاڑی چلانے کا اعزاز حاصل تھا۔ یعنی وہ
ہاٹ سیٹ پر براجمان تھے۔ سورج انتہائی
ڈھٹائی کے ساتھ ہم پر اپنی
نامہربانیاں نچھاور کر رہا تھا۔ ۔ عابد اے سی سے مسلسل اٹکھیلیاں
کررہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اس اے سی کے بچے سے
بھرپور اور یکساں فائد اُٹھا سکے۔ ٹشو
پیپر زسے اپنے گالوں کو بار بار صاف کرنا اور دھوپ کی
عینک کو ناک کی نوک سے اٹھا کر ناک کے ستواں
حصے پر ٹکانے کی کوشش کرنا ان کے
محبوب مشاغل تھے۔ اس دوران ٹشو پیپر کی مکار رگڑ
کی وجہ سے ان کےگالوں پر سورج کی
چٹکیوں کے گلابی نشان مزید نمایاں ہو
جاتے۔ کبھی کبھی اپنی نشست کی ایڈجسمنٹ بھی کرتے تاکہ بھائی جان سے سنیں،
”عابد میرا خیال ہے کہیں رک جائیں۔“
میرا جواب نہ پاکر وہ سر پر ہاتھ پھیرتے اور اپنے بے بال سر کی ملائمت سے لطف اٹھاتے۔
شاہ زیب
اور زین اپنی خوراک چٹ کرنے کے بعد اس
خوراک پر بھی ہاتھ صاف کر نے میں مصروف تھے جو انہوں نے ہمارے نام سے خریدی تھی ۔ پیپسی کے کھلنے کی
آوازوں اور چپس کے چرنے کی آوازیں بے مزا اور بے کیف موسیقی میں اپنا ہی رنگ گھول
رہی تھیں۔
میں نے کچھ دیر کے لئے آنکھیں
بند کیں تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں
افریقہ کے کسی خاندان کے رئیس کی بیٹی کی تقریبِ حنا میں موجود ہوں جہاں نہ بولیاں
سمجھ آتی ہیں نہ موسیقی، اور سچ پوچھیں تو حرکات بھی۔ پر فیومز اورکار فریشنرز کی
خوشبو میں چپس اور پیپسی کی خوشبوئیں تقریبِ رسمِ حنا میں افریقنوں کے بدنوں سے
اُٹھنے والی بُو یا پھر مقامی پرفیومز کی بُو میں بدل گئی تھیں۔ میں آنکھیں بند کئے اس
رسمِ حنا کے مزے لُوٹ رہا تھا کہ اچانک دھوپ کاایک گولہ میری آنکھوں کے بیرونی
پردوں کو چیرتے ہوئے میری آنکھوں کی گہرائیوں میں اُتر گیا۔ میں نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو میری مسز
اپنی طرف والی کھڑکی کی بلائینڈ درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ یوں وہ
نادانستہ طور پر مجھے اس تقریبِ حنا سے باہر لے آئیں۔ ویسے بھی وہ دل میں بستی ہیں
ہو سکتا ہے کہ دل کا حال جان لیاہو اور بلائینڈ ہٹا نے کے بہانے مجھے اُس تقریب سے
باہر نکالنامقصود ہو۔
میں نے اپنی دو کی دو آنکھیں وا کیں اور ایک معصوم سی
نگڑائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ اُ ف کیا خوبصورت خواب تھا۔۔۔۔بیڑا غرق کر
دیا۔‘‘
’’
تو کس نے روکا ہے دوبارہ دیکھ لیں ۔وہ نہیں تو اُس جیسا کوئی
اور سہی۔‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھامے
ہوئےبچے کچھے ادھورے سے چپس کے ٹکڑے کو اپنے دانتوں کی نذر کرتے ہوئے کہا۔ مجھے لگا جیسے اس حملہ کا اصل
ہدف میں تھا لیکن راستے میں وہ نالائق چپس کا ٹکڑا آگیا اور مارا گیا۔
ایک نایاب تصویر ہو تم
میرے خوابوں کی تعبیر ہو تم
میری روح میں شامل ہو تم
اس سفر کی منزل ہو تم
میرے دامن میں پیار ہو تم
پاک دل معصوم سا اعتبار ہو تم
میرے نظر میں میری دیوانی ہو تم
______________________