Saturday, October 7, 2017

سفرنامہ پریوں کی تلاش قسط نمبر ۱


 میں اپنے سفرنامہ کو قسط وار پیش کر  رہاہوں امید ہے پسند آئے گا۔
 بغیر پڑھے لائیک  نہ کیجئے۔ اچھا لگے تو کومنٹ ضرور کریں۔

قسط نمبر ۱
میری باتیں
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
نگلے ہوئے سوال تھے‘ اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی رُت بھی تھی اِنتظار کی
ربط کی بات اور ہے،  ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
(امجد اسلام امجد)
زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط ہے۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایۂحیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں ہوتا بلکہ حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے سفر کرنے والے کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں، تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔
میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جارہاہوں وہ ایک ایسا سفر ہے جس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایۂ حیات بن گئیں۔ کیونکہ اس سفر کا حاصل سفر کوئی تھا ہی نہیں۔۔۔ یہ تو چلتا جاتا تھا۔۔ جہاں رُکے و ہی حاصلِ سفر، جس پر آنکھ رک گئی وہی منزل۔ بس جستجو تھی کچھ پانے کی۔یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب۔ چاہے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں یا لوگوں کے روئیے؛ اجناس اور کھانے کی اشیا   ہوں یا طرزِ رہائش وزیبائش؛ داستانیں ہوں یا کہانیاں؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات؛ صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا۔ یوں میں اسے آگہی کا سفر کہہ سکتا ہوں۔
میرے اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اورنہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران جہاں ضرورت پڑی فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔ 
اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی صعوبتیں اٹھائی ہیں اور انواع واقسام کی معلومات سے جھولی بھری ہے تو پھراِسے دوسروں تک پہنچانا میرا فرض ہے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ یہ وہ سفر ہے جس نے مجھے پنجابی ادب کے مطالعہ کی جستجو کی نعمت عطا کی اور میں نے داستان ’سیف الملوک‘ کا خصوصی مطالعہ کیا۔
میرا یہ سفر نامہ ’سفر نامہ‘کے اسلوبی معیار پر کتناپورا اترتا ہے اس کا فیصلہ تو قاری اور نقاد ہی کرے گا لیکن میں اتنا ضرورکہوں گا کہ میں نے اَن جانی راہوں سے مواد اٹھایا ہے اور اُسے لفظوں کا روپ دے کر اور بنا سنوار کر اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اُس سے معنی اخذ کرنا قاری کا کام ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ میں اپنے قاری کو سوچ کی بھی دعوت دوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگرہمارا معاشرہ سوچنا شروع کر دے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔شاید مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔
میں کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں ہوں لیکن اندر کسی گزری صدی کا کوئی لکھاری موجود ضرور ہے جو وادیوں ا ور جھرنوں کے مناظر اپنے قاری کی خدمت میں پیش کرکے ایک خاص قسم کا سرور اور اطمینان حاصل کرتا ہے۔روایت شکنی میری عادت ہے اور یہ گستاخی میں کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔میرے خیال میں یہی ادب کی خدمت ہے کہ اسے یکسانیت اور ٹہراؤ سے نکالا جائے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے افسانوں کو بھی ادبی قید و بند سے آزاد کروایا ہے۔ اسی طرح سفر نامہ کو بھی ایک آزاد جہت اور زبان دی ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا تڑکا شاید کچھ زیادہ ہوگا۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں فلسفیانہ، دنیاوی اور روحانی نثری باتیں سفر نامہ کا حصہ ہیں وہیں شعر بھی۔ کیوں کہ شعر بھی تو باتیں ہی ہیں فرق فقط یہ ہے کہ یہ باتیں پا بند ہیں۔ 
میری اس سوچ سے اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ اس لئے اختلافِ رائے کا استقبال کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
میری بد قسمتی ہے کہ میں کتب بینی کے عہدِ قحط میں پیدا ہوا ہوں۔ آج ادبی کاوش محض چند سطروں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا  کہ میں ایک ادھورا اورمعذور سفر نامہ لکھ کر کتب بینی کے زوال میں اپنا حصہ ڈال دوں۔ 
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیا کیسے ہو
میں علی گڑھ پبلشرز کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے ناصرف نے مجھے ان سنگلاخ وادیوں کا راستہ دکھایا بلکہ یہ کہہ کر مجھے اپنے الفاظ کی قدر بھی سکھائی کہ خوشبو کو بکھرنے کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھرتی ہے وہ پھیلنے کے لئے ہوتی ہے اور پھیل جاتی ہے۔
فیس بک پر اپنے پڑھنے والوں کا شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامہ کے حصوں کا حوالہ دے کر حوصلہ افزائی کی اور ان کا بھی کہ جنہوں نے بغیر پڑھے ’لائک‘ کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔’اردو نامہ‘  ویب سائٹ کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے میرے سفرنامے کو اس کہ باوجوداپنی ویب سائیٹ کی زینت بنایاکہ میں نے اس ویب سائیٹ پر بے وزن شاعری کے علاوہ کبھی کچھ بھی عطیہ نہیں کیا۔ 
اس ویب سائیٹ کے منتظم اشفاق صاحب کا ذکر تو ضرور کروں گاجو ہمیشہ یہ شعر لکھ کراپنی رائے سے نوازتے رہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
ایک اور احسان وہ یہ کیا کرتے کہ جب میں کچھ نہ لکھتا تو ’پیارے وارث‘  کہہ کر میری تو جہ اس کام کی طرف مبذول کروا دیا کرتے۔
میں اپنی زوجہ اور دو عدد صاحبزادوں کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میرے ساتھ اردو اور انگریزی دونوں کا سفر کیا، جہاں میں لے جاتا چلے جاتے ، مجھے مشورے بھی دیتے اور کم خرچ بالا نشیں کے فلسفہ پر عمل بھر پور کرتے ، میرے کام کو سراہتےبھی رہتے اور  کبھی مجھے  تھما دیکھ کر لکھنے کے لئے اُکساتے بھی رہتے۔ یہاں میں اپنی گاڑی کے کھیون ہار عابد کا شکریہ ضرور ادا کروں گا جو مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں۔ انہیں میری ہر کاوش کا رضاکارانہ طور پر اولین تختہ مشق بننےکا اعزاز بھی حاصل ہے۔
لگن، فکر اور جستجو ان کا خاصا ہے۔ بیشتر سفروں میں ہمارے ساتھ رہے۔ ان کی پنجابی شاعری اور ان کے علم کا میں ہمیشہ معتقد رہا ہوں۔ 
اگرچہ کتب بینی کے قحط کاعہد ہے لیکن پھر بھی ہم اردو ادب کے ماتھے سے گرد صاف کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے۔
اس سفر نامہ کے بعد انشا اللہ جلد ہی اگلا سفر نامہ بھی کتابی شکل میں سامنے آنے والا ہے۔ 
مجھے یقینِ کامل ہے کہ آپ اس سفرنامہ کو پڑھتے ہوئے مایوس نہیں ہوں گے۔ انشاللہ آنے والے دور کا نقاد اسے ضرور سراہے گا اور تاریخ کا طالب علم داد دئیے بغیر نہیں رہے گا۔

No comments:

Post a Comment