کچھسال پہلے میں نے یہ نظم لکھ کر ایک خواب دیکھا تھا۔ پھر
مجھےہنزہ نام کی ایک ایسی بستی ملی جو
میری اس نظم میں دیکھے خواب کی تعبیر نکلی۔مکمل نہ سہی قریب ترین۔ جنہوں نےہنزہ اور ہنزہ کے لوگوں کو دیکھا ہے اُن کی
کیا رائے ہے۔ ضرور بتائیے۔
چل پڑا ہوں یہ سوچ کر انجانی راہوں پرکہ
کسی موڑ پہ مالک نے اک آگہی نئی چھپا رکھی ہو ۔
دورکسی میدان میں اک ننھی
سی کونپل ملےکہ
جس میں رب نے حیاتِ
جاودانی بسا رکھی ہو۔
جہاں بندےخدا کے انسانوں کی طرح رہتے ہوں،
انسانوں نےکسی
دریاکے پیچھے شاید کوئی بستی بسارکھی
ہو،
پہاڑوں کے سر سے گرتے
ہوئے کسی جھرنے کےپیچھے
ایسے
لوگ ہوں جنہیں بھوک نہ لگتی ہو،
جسم
کی بھوک،
دماغ
کی بھوک ،
روح
کی بھوک۔
آزاد
ہوں جو ہر کرب سے،
روزگار کا کرب،
شادمانی کو پانے کا کرب،
رشتوں
کے نباہ کا کرب،
آبِ
حیات کو پانے کا غم،
شاید
کہ کسی قوسِ قزاح کے رنگوں میں چھپے ایسے چہرے ملیں،
جن
میں سادگی ہو ،
حیا
ہو ،
پاسداری ہو
پاکبازی
ہو،
شک
، انا، نفرت جن کے پاس سے نہ گذری ہو
محبت
جن کی روحوں میں رچی ہو
جو
اقتدا و اختیار کی ہوس سے پاک ہوں
جن
کااندر باہر ایک ہو
جن
کا خدا ایک ہو ،
جن کارسول ایک ہو،
جن
کا جھنڈا ایک ہو،
جن کی منزلیں ایک ہوں
کاش
کسی برف سے ڈھکے جہانِ سفید میں کوئی ایسی بستی ہو،
جن کا حساب کتاب اُسی بستی میں ہو،
جن کی نہ کوئی جنت ہو نہ کوئی دوزخ ہو،
کہ
جس کو پانے یا کھونے کا کسی کو ملال نہ ہو۔
جو انسان ہوں ، جو بندے ہوں اپنے رب کے،
اُس کے کرم سے ، اُس کی خواہش سے بندھے ہوئے
بندے۔
وارث
No comments:
Post a Comment