شمالی علاقوں کی سیر
شہر
اسکردو
گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک خوب صورت اور تاریخی شہر ہے، جو اپنی قدرتی خوب صورتی، ثقافت اور منفرد جغرافیائی محل وقوع کے لیےجانا جاتا ہے۔
اسکردو
کا کل رقبہ تقریباً 18,000 مربع کلومیٹر ہے، جو اس علاقے کو شمالی پاکستان کا ایک
وسیع اور پہاڑی علاقہ بناتا ہے۔
اسکردو
دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے، اور یہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 7,500 فٹ (2,286
میٹر) کی بلندی پر واقع ہے۔ اسکردو کا علاقہ قراقرم اور ہمالیہ کے درمیان واقع ہے،
جس کی وجہ سے یہ پہاڑوں کے درمیان خوب صورت وادیوں میں شمار ہوتا ہے۔
ا سکردو
کا موسم سردیوں میں شدید سرد اور گرمیوں میں معتدل ہوتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت
منفی 10 ڈگری تک گر جاتا ہے جب کہ گرمیوں
میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 27 ڈگری ہوتا ہے۔ گرمیوں میں شہر سیاحوں کی پسندیدہ
منزل بنتا ۔
اسکردو
کی تاریخ قدیم زمانے سے جڑی ہوئی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ ہی بُدھ مت اور پھر اسلامی ثقافت کا مرکز رہا
ہے۔ اسکردو کا ذکر پرانی تحریروں اور سفرناموں میں بھی ملتا ہے، جس سے پتاچلتا ہے
کہ یہ شہر ہمیشہ سے ہی ایک اہم تجارتی اور سیاحتی مرکز رہا ہے۔
اسکردوشہر تک پہنچنے کے کئی ذرائع ہیں۔
اسلام
آباد سے اسکردو کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پروازیں دستیاب ہیں۔
آپ
قراقرم ہائی وے کے ذریعے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک بھی اسکردو پہنچ سکتے ہیں، لیکن
یہ راستہ طویل اور پہاڑی ہے۔
اسکردو
میں دستکاری کا کام بہت مشہور ہے، خاص طور پر قالین، لکڑی کا کام، اور روایتی لباس
کی تیاری یہاں کی صنعت کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ، علاقے میں زراعت بھی اہم ذریعہ
معاش ہے۔
اسکردوکو
دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے ایک گیٹ وے مانا جاتا ہے، جو یہاں سے
K2 اور
دیگر بلند چوٹیوں کی جانب جاتے ہیں۔ اسکردو کا مقام بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے
لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔
یہاں
کے لوگ زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہیں، اور یہاں کی اہم پیداوار میں آلو، گندم، جو،
اور مختلف قسم کے پھل شامل ہیں، جن میں سیب، خوبانی، اور اخروٹ مشہور ہیں۔
قابل
دید مقامات:
سدپارہ
جھیل: ایک خوب صورت جھیل جو اسکردو سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔
شنگریلا
ریزورٹ: جسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے، یہ ایک مشہور سیاحتی مقام
ہے۔
اسکردو
قلعہ: ایک تاریخی قلعہ جو پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے اور پورے
شہر کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے۔
دیوسائی
نیشنل پارک: دنیا کے سب سے بلند میدانی علاقوں میں سے ایک، جہاں
جنگلی حیات اور قدرتی خوب صورتی کا بے مثال نظارہ ملتا ہے۔
اسکردو
کے لوگ اپنی روایتی ثقافت اور رسم و رواج پر بہت شوق سے عمل کرتےہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پر مخصوص روایتی
لباس، رقص اور موسیقی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز اور محبت
بھرے ہوتے ہیں۔
اسکردو
اپنی منفرد ثقافت، خوب صورت مناظر، اور تاریخی اہمیت کی بنا پر پاکستان کا ایک
مشہور سیاحتی مقام ہے۔
شہر
گلگت
گلگت بلتستان کا دارالحکومت ہے، شمالی پاکستان میں واقع ایک اہم اور تاریخی شہر ہے۔ یہ شہر اپنے جغرافیائی محل وقوع، خوب صورت مناظر اور سیاحتی مقامات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
گلگت
شہر کا کل رقبہ تقریباً 1,000 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ شہر گلگت بلتستان کے وسیع اور
پہاڑی علاقے کا ایک حصہ ہے۔
گلگت
دریائے گلگت کے کنارے واقع ہے اور یہ شہر ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی
سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ شہر پاکستان کے شمالی علاقوں کی مرکزی گزرگاہ سمجھا
جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر کوہ پیماؤں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔
گلگت کا موسم
عمومی طور پر خشک ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 35 ڈگری تک جا سکتا ہے، جب کہ سردیوں
میں درجہ حرارت منفی 10 ڈگری تک گر جاتا
ہے۔ موسم گرما میں خوش گوار اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے۔
گلگت
کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور یہ قدیم تجارتی شاہراہ ریشم کا حصہ تھا۔ بُدھ مت کے
دور میں یہ علاقہ مذہبی اہمیت کا حامل تھا، اور یہاں قدیم بدھ مت کی باقیات بھی
پائی جاتی ہیں۔ بعد میں یہاں اسلام پھیلا اور یہ شہر مختلف سلطنتوں کا حصہ بنا۔
گلگت شہر تک پہنچنے کے کئی
ذرائع ہیں۔
اسلام
آباد سے گلگت کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پروازیں دستیاب ہیں۔
آپ
قراقرم ہائی وے کے ذریعے بھی اسلام آباد سے بذریعہ سڑک گلگت پہنچ سکتے ہیں۔ یہ
راستہ خوب صورت مناظر اور پہاڑی چٹانوں سے گزرتا ہے۔
گلگت
میں زراعت اور چھوٹے پیمانے پر دستکاری کی صنعتیں اہم ہیں۔ قالین بُنائی، لکڑی کا
کام، اور پتھروں کی تراش خراش یہاں کی خاص صنعتیں ہیں۔ یہاں کے لوگ عام طور پر
زراعت اور مال مویشی پالنے سے روزگار حاصل کرتے ہیں۔
گلگت
میں دستکاریوں کا کام بھی بہت مشہور ہے، خاص طور پر روایتی چادریں، شالیں، اور
جُڑاؤ کے کام والے زیورات یہاں کے مقامی لوگ تیار کرتے ہیں۔ مقامی ہنر مند قیمتی
پتھروں اور زیورات کی تیاری میں ماہر ہیں۔
گلگت
کو دنیا کے بلند ترین پہاڑوں تک پہنچنے کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ یہاں سے کوہ پیماؤں
کو K2، نانگا پربت اور دیگر بلند چوٹیوں تک پہنچنے
کا موقع ملتا ہے۔ یہ علاقہ اپنی قدرتی خوب صورتی، معدنیات، اور تاریخی اہمیت کے
باعث مشہور ہے۔
گلگت میں زراعت کا
اہم حصہ مختلف پھلوں کی پیداوار ہے، جن میں خوبانی، سیب، چیری، اور اخروٹ خاص طور
پر مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کی اہم فصلوں میں گندم، جو، اور مکئی شامل ہیں۔
10. قابل دید مقامات:
نلتر
وادی: ایک خوب صورت وادی
جو اپنے سرسبز جنگلات، جھیلوں اور اسکینگ کے لیے مشہور ہے۔
رائے
کوٹ پل: یہ پل دریائے سندھ
پر واقع ہے اور سیاحتی اہمیت کا حامل ہے۔
گلگت
قلعہ: یہ ایک تاریخی
قلعہ ہے جو گلگت کی پرانی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔
فیری
میڈوز: نانگا پربت کے
دامن میں واقع یہ سبزہ زار دنیا کے خوب صورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
کارگاہ
بُدھا: یہ قدیم بُدھا کا
مجسمہ چٹان پر تراشا گیا ہے اور بُدھ مت کے دور کی یادگار ہے۔
رسم
و رواج: گلگت کے لوگ اپنی
ثقافت اور روایات کو فخر سے مناتے ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پر مخصوص لباس، موسیقی
اور روایتی رقص پیش کیے جاتے ہیں۔ مقامی کھیلوں میں پولو بہت مقبول ہے اور گلگت
میں پولو کے مقابلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔
شہر
چترال
خیبر پختونخوا، پاکستان کا ایک خوب صورت اور تاریخی شہر ہے، جو اپنی منفرد ثقافت، قدرتی حسن، اور پہاڑی ماحول کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں واقع ہے اور پاکستان کے سب سے دور دراز اور قدرتی علاقوں میں سے ایک ہے۔
چترال
کا کل رقبہ تقریباً 14,850 مربع کلومیٹر ہے، جس میں زیادہ تر پہاڑی علاقے اور
وادیاں شامل ہیں۔ یہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے اضلاع میں سے ایک ہے۔
چترال
ہندوکش پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے، اور اس کا شمالی سرحد افغانستان سے ملتی
ہے۔ چترال دریائے چترال کے کنارے آباد ہے۔ یہ شہر اپنی خوب صورت وادیوں، جھیلوں،
اور پہاڑوں کے لیے مشہور ہے۔
چترال کا موسم عام
طور پر سردیوں میں شدید سرد اور گرمیوں میں معتدل ہوتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت
منفی 15 ڈگری تک گر سکتا ہے، جب کہ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25-30
ڈگری تک پہنچتا ہے۔ برفباری کے موسم میں یہ شہر خوب صورت سفید چادر اوڑھ لیتا ہے۔
چترال
کی تاریخ قدیم زمانے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر کافرستان کہلاتا تھا،
اور یہاں کی وادیاں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کی آماجگاہ رہی ہیں۔ بعد میں یہاں
اسلام پھیلا، اور یہ علاقہ مقامی حکمرانوں کی ریاست بن گیا، جسے ریاست چترال کہا
جاتا تھا۔ 1895 میں چترال ریاست برطانوی راج کے زیر سایہ آگئی اور 1947 میں
پاکستان کا حصہ بنی۔
چترال شہر تک پہنچنے کے ذرائع یہ ہیں۔
فضائی
سفر: چترال کا اپنا ایک
چھوٹا ہوائی اڈہ ہے جہاں سے اسلام آباد اور پشاور کے لیے پروازیں دستیاب ہوتی ہیں۔
زمینی
سفر: چترال تک پہنچنے
کے لیے زمینی راستے بھی ہیں، جن میں لواری ٹنل کے ذریعے پشاور اور دیر سے سڑک کا
راستہ اہم ہے۔ یہ راستے موسم سرما میں برفباری کی وجہ سے بند ہو سکتے ہیں۔
چترال
میں زیادہ تر صنعت زراعت اور دستکاری پر مبنی ہے۔ قالین بُنائی، روایتی کپڑوں کی
تیاری اور قیمتی پتھروں کی صنعت یہاں کے اہم شعبے ہیں۔ مقامی آبادی کا بڑا حصہ
زراعت سے وابستہ ہے۔
چترال
کے لوگ دستکاری میں مہارت رکھتے ہیں، خصوصاً ہاتھ سے بنائی جانے والی شالیں،
چادریں، اور قالین بہت مشہور ہیں۔ چترال کے زیورات، جوتے، اور روایتی ٹوپیاں بھی
مقبول ہیں۔
: چترال کی خاص بات
یہاں کے لوگ اور ان کی ثقافت ہے، خصوصاً کیلاش قبیلہ،
جو چترال کی وادیوں میں آباد ہے اور اپنی منفرد زبان، رسم و رواج، اور مذہبی
روایات کے لیے جانا جاتا ہے۔ چترال کا علاقہ کوہ پیماؤں اور سیاحوں کے لیے بھی اہم
ہے، جو یہاں کی بلند ترین چوٹیاں اور قدرتی مناظر دیکھنے آتے ہیں۔
چترال
کی اہم پیداوار میں خشک میوہ جات (اخروٹ، بادام)، پھل (سیب، خوبانی، انگور)، اور
زراعتی پیداوار شامل ہیں۔ یہاں کے لوگ آلو، گندم، اور مکئی کی کاشت بھی کرتے ہیں۔
قابل
دید مقامات:
کیلاش
وادیاں: کیلاش قبیلے کی
ثقافت اور رنگین تہواروں کے لیے مشہور ہیں۔
چترال
قلعہ: ایک تاریخی قلعہ
جو چترال کی قدیم تاریخ کا آئینہ دار ہے۔
تیرچ
میر چوٹی: ہندوکش کی بلند
ترین چوٹی (7,708 میٹر)، جو کوہ پیماؤں کے لیے ایک چیلنج ہے۔
گرم
چشمہ: یہ قدرتی گرم پانی
کے چشمے ہیں جو اپنی منفرد خصوصیات کے لیے مشہور ہیں۔
بمبوریت
وادی: قدرتی حسن، تاریخی
اہمیت، اور کیلاش قبیلے کی روایات کے لیے مشہور وادی۔
چترال کے لوگ اپنی
ثقافت اور روایات سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ یہاں کیلاش قبیلے کے کئی تہوار مشہور
ہیں ۔یہاں کے لوگ پولو کھیل کو بہت پسند کرتے ہیں اور چترال میں پولو کے مقابلے
مشہور ہیں۔
شہر
کالام
پاکستان
کے خیبر پختونخوا صوبے کے سوات ضلع میں واقع ایک خوب صورت اور مشہور سیاحتی مقام
ہے۔ یہ شہر اپنی قدرتی خوب صورتی، سرسبز وادیاں، اور ٹھنڈے موسم کی وجہ سے جانا
جاتا ہے اور ہر سال ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔
کالام کا رقبہ تقریباً 400 مربع کلومیٹر ہے، جو ایک چھوٹے علاقے پر مشتمل ہے لیکن یہاں قدرتی حسن کے شاندار مناظر شامل ہیں۔
کالام وادی سوات
کے شمالی حصے میں واقع ہے، جو دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ یہ سطح سمندر سے 6,600 فٹ (2,000 میٹر) کی بلندی پر
واقع ہے، جو اسے ایک ٹھنڈی اور پر فضا جگہ بناتا ہے۔
کالام
کا موسم سردیوں میں بہت سرد اور برفباری والا ہوتا ہے، جب کہ گرمیوں میں موسم خوش گوار
ہوتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 10 ڈگری تک گر سکتا ہے، جب کہ گرمیوں میں
زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 20-25 ڈگری تک ہوتا ہے۔ گرمیوں کا موسم سیاحت کے لیے
موزوں ہوتا ہے۔
کالام کی تاریخ
زیادہ پرانی نہیں ہے، لیکن یہ علاقہ قدیم دور سے آباد ہے اور مختلف مقامی قبائل کی
گزرگاہ رہا ہے۔ سوات کے مختلف حکمرانوں اور پشتون قبائل کا یہاں پر اثر رہا ہے۔
موجودہ دور میں، یہ سوات وادی کا ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے اور اپنے قدرتی
حسن کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی پہچانا جاتا ہے۔
کالام شہر تک
پہنچنے کے ذرائع یہ ہیں۔
کالام
تک پہنچنے کا بنیادی ذریعہ سڑک ہے۔ آپ سیدو شریف، مینگورہ، اور سوات کے دیگر
علاقوں سے بذریعہ سڑک کالام جا سکتے ہیں۔ پشاور اور اسلام آباد سے سوات کے لیے
براہ راست بس سروسز دستیاب ہیں۔
قریب
ترین ہوائی اڈہ سیدو شریف میں واقع ہے، جہاں سے کالام تک سڑک کے ذریعے پہنچا جا
سکتا ہے۔
کالام
کی معیشت کا بڑا حصہ سیاحت پر منحصر ہے۔ یہاں زراعت بھی اہم ہے، جہاں مکئی، آلو،
اور سبزیوں کی کاشت کی جاتی ہے۔ قالین بُنائی اور لکڑی کے دستکاری کے چھوٹے پیمانے
کے کاروبار بھی یہاں کے لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔
کالام
کے لوگ روایتی دستکاریوں میں مہارت رکھتے ہیں، خصوصاً قالین اور لکڑی کے کام میں۔
یہاں کے لوگ چمڑے، اون، اور دیگر مقامی مواد سے تیار کردہ مصنوعات تیار کرتے ہیں،
جو مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنتی ہیں۔
کالام کا خاصہ اس
کا قدرتی حسن ہے۔ سرسبز پہاڑ، بہتے چشمے، اور بلند و بالا جھیلیں کالام کو منفرد
بناتی ہیں۔ یہ علاقہ سیاحوں کے لیے جنت سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر گرمیاں یہاں بہت
خوش گوار ہوتی ہیں۔
کالام کی زراعت
میں مکئی، آلو، اور گندم کی پیداوار اہم ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں کے لوگ پھلوں جیسے
سیب اور خوبانی کی کاشت بھی کرتے ہیں۔ یہ علاقہ اپنی سرد آب و ہوا کی وجہ سے اعلیٰ
معیار کے پھل پیدا کرنے کے لیے موزوں ہے۔
10. قابل دید مقامات:
ماہوڈنڈ
جھیل: ایک خوب صورت جھیل
جو کالام کے قریب واقع ہے اور سیاحوں کے لیے ایک اہم مقام ہے۔
اوشو
جنگلات: یہ جنگلات کالام
کے قریب ہیں اور اپنی قدرتی خوب صورتی اور سکون کے لیے مشہور ہیں۔
کوندول
جھیل: ایک اور خوب صورت
جھیل جو اونچی پہاڑیوں میں واقع ہے اور قدرتی مناظر سے بھرپور ہے۔
بحرین
اور اتروڑ: کالام کے قریب یہ
چھوٹی بستیاں اپنی خوب صورتی اور جھیلوں کے لئے جانی جاتی ہیں۔
کالام
کے لوگ اپنی روایتی پشتون ثقافت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کی روایتی شادیاں،
مقامی رقص اور موسیقی بہت مشہور ہیں۔ پولو کھیل یہاں کا ایک پسندیدہ کھیل ہے اور
لوگ مقامی تہواروں میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
کالام
اپنی قدرتی خوب صورتی اور منفرد ثقافت کی بدولت پاکستان کا ایک اہم سیاحتی مقام
ہے۔
خنجراب
پاکستان
کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ایک مشہور مقام ہے جو بنیادی طور پر خنجراب
پاس کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ درہ پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے اور
دنیا کی سب سے بلند پکی سڑکوں میں سے ایک ہے۔
1. خنجراب کا کل رقبہ
خاص طور پر اس کے آس پاس کے علاقوں اور درے تک محدود ہے، جس کی صحیح حد بندی کا
کوئی مخصوص ذکر نہیں کیا جاتا، کیونکہ یہ ایک درہ ہے، نہ کہ ایک بڑا شہر۔
خنجراب
درہ قراقرم پہاڑی سلسلے میں، قراقرم ہائی وے پر واقع ہے اور سطح سمندر سے
4,693 میٹر (15,397 فٹ) کی بلندی پر ہے۔ یہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم
سرحدی گزرگاہ ہے۔ یہ درہ گلگت بلتستان کے علاقے میں واقع ہے اور سوست گاؤں کے
قریب ہے۔
خنجراب کا موسم سخت اور انتہائی ہوتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 20 ڈگری یا اس سے بھی نیچے جا سکتا ہے، جب کہ گرمیوں میں درجہ حرارت 10 سے 12 ڈگری تک ہوتا ہے۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے یہاں موسم سرد اور ہوا خشک ہوتی ہے۔ برف باری عام ہے اور سردیوں میں درہ بند رہتا ہے۔
خنجراب درہ تاریخ
میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے، کیونکہ یہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم تجارتی
راستہ ہے۔ قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے بعد یہ درہ مزید اہم ہو گیا اور چین
کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ اس درے کو شاہراہ ریشم
کا حصہ بھی کہا جا سکتا ہے، جو قدیم تجارتی راستہ تھا۔
شہر
تک پہنچنے کے ذرائع یہ ہیں۔
زمینی
سفر: خنجراب تک پہنچنے
کا واحد ذریعہ قراقرم ہائی وے ہے۔ اسلام آباد سے گلگت اور ہنزہ کے راستے
بذریعہ سڑک خنجراب پاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ سوست کے علاقے میں ایک اہم امیگریشن
اور کسٹم چیک پوسٹ ہے۔
فضائی
سفر: قریب ترین ہوائی
اڈہ گلگت یا سکردو میں ہے، جہاں سے زمینی راستے کے ذریعے خنجراب تک
پہنچا جا سکتا ہے۔
خنجراب کے علاقے
میں زیادہ تر معیشت تجارت اور سیاحت پر منحصر ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر سرحدی
تجارت اور چین کے ساتھ نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، یہاں کی آبادی
محدود ہے اور زراعت یا دیگر صنعتی سرگرمیاں کم ہیں۔
خنجراب کے مقامی
لوگ چھوٹے پیمانے پر تجارت اور سیاحتی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ زیادہ تر مقامی لوگ
روایتی دستکاریوں سے جڑے ہوئے ہیں، جیسے قالین بنائی، اون کی اشیاء، اور مقامی
روایتی لباس۔
خنجراب
پاس کو دنیا کا بلند ترین پکی سڑک کا درہ کہا جاتا ہے اور یہ پاک چین اقتصادی
راہداری (CPEC) کا ایک اہم حصہ
ہے۔ یہاں ایک مشہور "خنجراب نیشنل پارک" بھی واقع ہے جو برفانی چیتوں
اور مارخور جیسے نایاب جانوروں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے۔
خنجراب
کے علاقے میں زراعت محدود ہے، لیکن آس پاس کے علاقوں میں مقامی پھل جیسے خوبانی،
سیب اور اخروٹ مشہور ہیں۔ یہاں کا زیادہ تر کاروبار تجارت اور سیاحت سے جڑا ہوا
ہے۔
قابل
دید مقامات:
خنجراب
پاس: چین اور پاکستان
کی سرحد پر واقع یہ درہ خود ایک قابل دید مقام ہے اور اس کا بلند ترین پوائنٹ
سیاحوں کے لیے ایک دل چسپ مقام ہے۔
خنجراب
نیشنل پارک: یہ نیشنل پارک
نایاب جنگلی حیات کی وجہ سے مشہور ہے اور یہاں برفانی چیتے، مارخور، اور دیگر
جانور پائے جاتے ہیں۔
قراقرم
ہائی وے: اس شاہراہ کو دنیا
کی سب سے بلند اور خطرناک سڑکوں میں شمار کیا جاتا ہے، جس پر سفر ایک ناقابل
فراموش تجربہ ہوتا ہے۔
خنجراب
کے آس پاس کے علاقوں میں روایتی بلتی اور وخی ثقافت کا اثر زیادہ ہے۔ مقامی لوگ
اپنی ثقافت سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، جن میں روایتی موسیقی، رقص، اور لباس شامل
ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں اور سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
خنجراب
اپنی قدرتی خوب صورتی، تجارتی اہمیت، اور تاریخی پس منظر کی بنا پر پاکستان کے اہم
مقامات میں شمار ہوتا ہے